ممتاز مصنف، مزاح نگار اور مترجم شاہ محی الحق فاروقی کا 31 دسمبر کو یوم وفات ہے ۔
شاہ محی الحق فاروقی 15 جون 1932ء کو ہندوستان کے صوبہ یوپی کے قصبہ بحری آباد ضلع غازی پور میں پیدا ہوئے۔ شبلی کالج اعظم گڑھ سے 1947ء میں میٹرک کیا۔ اسی سال اکتوبر میں پاکستان منتقل ہو گئے۔
سندھ مسلم لا کالج کراچی سے قانون میں گریجویشن کیا ۔ پاکستان آمد کے ساتھ ہی کلرک کی حیثیت سے سرکاری ملازمت اختیار کی۔ اپنی قابلیت، محنت اور لگن سے ترقی کرتے کرتے بالآخر وہ وفاقی حکومت میں جوائینٹ سیکریٹری کی حیثیت تک پہنچے۔
انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز ماہنامہ شاہد احمد دہلوی کے ماہنامہ “ساقی”، شمس زبیری کے ماہنامہ “نقش” اور مجید لاہوری کے پندرہ “نمک دان” اور معروف ادبی شخصیت ڈاکٹر اسلم فرخی کی معیت میں کیا تھا۔ 1962ء مولانا کوثر نیازی کے ہفت روزہ “شہاب” میں “ابنِ منیر” کے قلمی نام سے تازہ خبروں پر طنزیہ تبصرے بھی تحریر کرتے رہے۔
“ادارہ تحقیقاتِ اسلامی” کے تحقیقی جریدے “فکرونظر” میں طبع زاد مضامین بھی تحریر کیے۔ اس سلسلے میں ان کے مضامین “وقف علی الاولاد” اور “اہانتِ انبیا” کو خاص شہرت حاصل ہوئی۔
دارالصمنفین اعظم گڑھ کے سابق ناظم مولانا صباح الدین عبد الرحمٰن ان کے معترفوں میں سے تھے۔ انہوں نے مزاح میں متعدد تراجم بھی کیے جن میں امریکی مزاح نگار “مارک ٹوئین” کے مزاح پاروں کے علاوہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ایم آر کیانی کی پُر مزاح انگریزی تقاریر پر مبنی کتاب کا اردو
ترجمہ “ایک جج بھی ہنس سکتا ہے” شامل ہیں ۔
وہ کراچی کے اردو روزنامہ “امت” میں طویل مدت تک “کھٹے میٹھے انار” کے مستقل عنوان سے پُر لطف اور پُر مزاح کالم نگاری کرتے رہے۔ “کھٹے میٹھے انار” کے نام سے ہی ان کے مزاحیہ شہ پاروں کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ علمی و ادبی دنیا کی اہم شخصیات پر ان کے لکھے ہوئے خاکوں کی کتاب بھی “بیدار دل لوگ” کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔
وہ 31َ دسمبر 2011ء کو مختصر علالت کے بعد کراچی کے ایک امراض قلب کے اسپتال میں خالقِ حقیقی سے جاملے اور وہیں نارتھ کراچی کے محمد شاہ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
شاہ محی الحق فاروقی کی تصانیف میں بلبلیں نواب کی ، بیدار دل لوگ (خاکوں کا مجموعہ)، کھٹے میٹھے انار (کالمز کا مجوعہ) اور ان دیکھی گہرائیاں (ہارون ابن علی کی انگریزی خودنوشت کا ترجمہ ) ، ’ایک جج ہنس بھی سکتا ہے’ (جسٹس ایم آر کیانی کی کتاب کا ترجمہ)، رہنمائے تربیت، تفہیم کراچی، سانحہ مشرقہ پاکستان، تصویر کا دوسرا رخ، شمالی امریکہ کے مسلمان شامل ہیں۔ فاروقی صاحب نے اپنی خودنوشت سپرد تحریر کے بعد گزشتہ کئی برس سے اپنے پاس محفوظ رکھی ہوئی تھی، وہ اس کی اشاعت کے متمنی تھے ۔۔ جو ان کی وفات کے بعد ،Sir گزشت کے نام سے شائع ہوئی ۔
شاہ محی الحق فاروقی مرحوم کی یاد میں ایک اکیڈمی بھی قائم ہے جس کی لائبریری میں کتابون کا بڑا ذخیرہ ہے اور یہ اکیڈمی کتب بینی کے فروغ کے لیئے سوشل میڈیا پر متحرک ہے اور کتابوں کے بارے میں یو ٹیوب پر ZikreKitab چینل بھی چلا رہی ہے