اگرچہ میں بہت تھک چکی تھی اور واپس ہوٹل جانا چاہتی تھی لیکن حلیل طوقار صاحب نے بتایا کہ وہ اُن کی نصف بہتر یعنی ہماری پیاری بھابھی اور اُن کے صاحبزادے کچھ دیر میں فکیلٹی میں پہنچنے والے ہیں۔ ثمینہ بھابھی سے میری فیس بک پہ بھی دوستی ہے, وہ جامعہ پنجاب کے ایک معروف پروفیسر اردو کے ممتاز عالم ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کی صاحبزادی ہیں۔ اُن کی آمد سے قبل ہی غزل انصاری نے جہاں ثمینہ بھابھی اور حلیل طوقار بھائی کے بارے میں بتانا شروع کیا وہیں صدف مرزا نے بتایا کہ حلیل طوقار صاحب نے اپنی دختر کی نہایت کم عمری میں گذشتہ برس شادی کردی اور اب وہ نئے نئے نانا بھی بن گئے ۔ بہر حال یہ اُن کی ذاتی اور گھریلو باتیں تھیں جو وہاں شعبے میں جاری تھیں۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ حلیل طوقار صاحب اپنے شعبے کو بھی اپنے خاندان سے کم نہیں سمجھتے ۔
ثمینہ بھابھی اور بیٹے کی آمد پر سب ہی بے انتہا خوش ہوئے۔ دبلی پتلی نازک سی ثمینہ بھابھی جو خود کم سن لڑکی لگ رہی تھیں اب ماشاءاللہ نانی کی حیثیت سے شعبے میں موجود تمام اردو کے مندوبین سے مبارکباد وصول کر رہی تھیں۔ انتہائی پر خلوص اور مہمان نواز حلیل طوقار بھائی اور بے حد ملنسار ثمینہ بھابھی کی جوڑی بلا شبہ ایک خوبصورت جوڑی لگ رہی تھی۔ دل سے اس خوبصورت ازدواجی جوڑے کے لیے دعا نکل رہی تھی کہ اللہ ان دونوں کو صحت و عافیت کے ساتھ ایک دوسرے کی خوشگوار و خوشحال زندگی کا ساتھی بنائے رکھے اور یہ دونوں اپنے خاندان کی بے شمار خوشیاں و کامیابیاں دیکھیں۔
کچھ دیر بعد میں نے اپنی کتب کا تحفہ شعبے کی لائبریری کے لیے حلیل طوقار صاحب کے حوالے کیا اور ساتھ ہی اُن کو میں نے اپنی بیٹی کا ملا نصر الدین کی کہانیوں کا مسودہ پیش کیا اور استدعا کی کہ اس کے اردو ترجمے پر ان کی اُن کی رائے میرے اور میری بیٹی کے لیے بیش قدر رہے گی۔ حلیل طوقار صاحب نے اپنی لکھی ہوئی ملا نصر الدین کی کہانیوں کی رنگین کتاب مجھے پیش کی اور اس کے علاوہ بھی کئی اہم کتب کے تحائف پیش کئے۔ تحائف کے تبادلے کے بعد میں نے استنبول یونیورسٹی کی اس عمارت کو دیکھنے اور تصاویر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو ڈاکٹر آرزو اور زینب صاحبہ نے اس معاملے میں میری معاونت کی ۔
سب لوگ ہی بہت تھک چکے تھے۔ دن بھر کی تھکن اور گہما گہمی نے مجھے اس خوبصورت جامعہ اور اس کے پیارے لوگوں سے رخصت کی اجازت طلب کرنے پر مجبور کیا تو سب ہی نے نہایت خندہ پیشانی سے اگلی بار دوبارہ جامعہ آنے کی پر خلوص دعوت دی۔ صدف مرزا نے بتایا کہ راجہ شفیق کیانی صاحب کافی دیر پہلے ہی واپس ہوٹل جاچکے ہیں۔ دیگر احباب کو خدا حافظ کہہ کر میں اور صدف واپس ہوٹل کی طرف پیدل ہی چل پڑے۔ راستے میں ہم نے کچھ تصاویر بنائیں اور ایک ڈھابے میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ کھانا کھاتے ہوئے ہم نے دن بھر کے معمولات پر بھی گفتگو کی اور بعد ازاں صبح ناشتے کی میز پر ملنے کا کہتے ہوئے ہوٹل میں اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ میں نے ہوٹل میں پہلے ہی بات کر لی تھی کہ وہ مجھے صبح ایئر پورٹ تک پہنچانے کا بندوبست کروائیں گے۔
ہوٹل آکر سارا سامان پیک کیا اور نماز پڑھ کر بچوں اور انور سے باتیں کئیں۔ میری فلائیٹ دن کے بارہ بجے تھی لیکن صبیحہ گوکن ائر پورٹ چونکہ وہاں سے کافی دور تھا لہٰذا مجھے صبح ہی ہوٹل چھوڑ دینا تھا۔
ڈاکٹر راشد حق صاحب نے علی الصبح فون کرکے خدا حافظ کہا اور بتایا کہ وہ دس بجے ہوٹل پہنچیں گے تمام مندوبین کو خدا حافظ کہنے کے لیے ، لیکن مجھ سے ملاقات کے امکان نہیں ہیں۔ لہذا وہ فون پہ ہی سفر بخیر اور کانفرنس میں شرکت پر شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ ایک خوبصورت اور یادگار کانفرنس اٹینڈ کرنے کے بعد میں خود کو بہت خوش اور ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی ۔ ناشتے کی میز پر جب صدف مرزا اور شفیق کیانی صاحب سے گفتگو ہوئی تو کچھ چھوٹی موٹی باتوں اور گلے شکووں نے اس الوداعی ملاقات کو مزید رنجیدہ کر دیا۔ کچھ دیر بعد ہوٹل کے ریسپشن سے فون آیا کہ میری گاڑی آگئی ہے۔ میں اپنا سامان لے کر جب باہر نکلی تو یاد آیا کہ میرے کمرے میں صدف مرزا کے سن گلاسز رہ گئے ہیں۔ میں نے وہ گلاسز شفیق کیانی صاحب کے حوالے کیے جو مجھے ہوٹل کے باہر چھوڑنے کے لیے آئے تھے لیکن صدف نہیں آسکی تھیں ۔ کیانی صاحب نے نہایت گرم جوشی سے اسپین میں ملاقات کرنے کا کہا ۔ اچھے دوستوں کے ساتھ اچھے وقت کی یادیں لیے میں ایئرپورٹ کی جانب جب جارہی تھی تو استنبول شہر کی رونق و خوبصورتی میری آنکھوں میں ستارے بن کر چمک رہی تھی یا پیارے دوستوں کی جدائی میں آنسو زاد راہ بن رہے تھے۔ جو شائد اس بات کی ضمانت تھے کہ اردو کی محبت میں اس یادگار سفر جیسے کئی اور سفر منتظر ہیں۔