Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

ٹھٹہ کے نزدیک ایک چھوٹے سے قصبے میرپورساكرو کے چھوٹے سے چائے کے ڈھابے پر لوگ اِس کُورونائی وبائی صُورتِ حال میں بھی بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہاتھ بھی ملا رہے تھے۔ گلے بھی لگ رہے تھے۔ سماجی دُوری کا بھی کسی کو کوئی خیال نہ تھا۔
علی محمّد آج ہی کراچی سے اپنے قصبے پہنچاتھا۔ شام ہونے کو آئی تو دل مراد جو اس کا جگری دوست تھا اسے لے کر اُسی ڈھابے پر لے آیا جہاں وہ اکثر بیٹھا کرتے تھے۔
سنگت
یہاں تو بہت بُرا حال ہے سائیں۔۔۔
اِدھر تو کوئی بھی سوشل ڈسٹنسنگ نہیں کر رہا۔۔۔
علی محمّد نے تشویش سے کہا
اچھا . . . .
سنگت کراچی میں تو سب ہی پوری طرح سے سوشل ڈسٹنسنگ اختیار کئے ہوئے ہیں نا
دل مراد نے اس کا مذاق اُڑایا . . . .
اڑے چریا نہ تھی۔۔۔
کراچی میں بھی نہیں کرتے، ادا
مگر اتنا بُرا حال بھی نہیں ہے۔
علی محمّد نے جهنجهلاتے ہوئے کہا۔
وہاں سات بجے کے بعد سب بند ہو جاتا ہے۔
چائے کا ہوٹل تو کوئی ملتا نہیں کہ کھلا ہو
تجھے تو پتہ ہے گلستان جوھَر میں جن فلیٹوں میں رہتا ہوں۔ اُدھر بھی سب بند ہو جاتا ہے۔
علی محمّد نے مزید وضاحت کی۔
اچھا سب چھوڑ تُو سنا بٙھرجائی اور بچے تہ ٹھیک ہیں۔ علی محمّد نے دل مراد سے دریافت کیا۔
بٙھرجائی بھی ٹھیک ہیں، بچے بھی ٹھیک ہیں۔ ابھی دونوں دوست چائے سے لطف اندوز ہو ہو رہے تھے کہ پولیس موبائل کے سائرن سنائی دیئے۔
چل سائیں جلدی کر بابا
پولیس ادھر بھی آگئی ہے ۔
ہنستے ہوئے دل مراد نے علی محمّد سے کہا۔
اور دونوں اپنے اپنے گھروں کی جانب ہو لئے۔
علی محمّد ایک صوبائی محکمے میں کلرک تھا۔
جب کہ دل مراد میر پور ساكرو میں رہ کر اپنی آبائی زمین پر کھیتی باڑی کرتا تھا۔ علی محمّد کی بھی زمین تھی مگر بہت تھوڑی جو اس نے ٹھیکے پر دے دی تھی۔ اور اپنا مسكن گلستان جوہر کراچی میں بنا لیا تھا۔ دونوں نے گریجویٹ ساتھ ہی کیا تھا سندھ یونیورسٹی جام شورو سے
دُوسرے دِن دُونوں دوست پِھر ملے۔ اور شام کو کھیتوں میں نکل گئے۔ گفتگو کا محور آج بھی کُرونا تھا۔
سائیں سندھ حکومت اچھے کام کر رہی ہے لاک ڈاؤن کر کے مگر فیڈرل حکومت کو غریب عوام کا کوئی خیال نہیں۔ علی محمد نے دل مراد سے کہا۔
سنگت سب کا اپنا اپنا راگ ہے گانے دو تجھے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا دل مراد نے جواب دیا۔
نہیں یار ایسا نہیں ہے۔ حکومت کے کرنے سے فرق پڑتا ہے۔ علی محمّد نے اصرار کیا
اچھا یہ بتا کُورونا سے سب سے بُراکیا ہوتا ہے۔
دل مراد نے سوال کیا
آدمی مر جاتا ہے۔ تڑپ تڑپ کر، اذیت ناک موت ہے ادا
علی محمّد نے جواب دیا۔
وه تو کتے کے کاٹنے اور سانپ کے کاٹنے سے بھی مر جاتا ہے، ادا دل مراد نے جواب دیا
پر ان سب کی تو ویکسین ہے، علاج ہے۔ علی محمّد نے کہا۔
بالکل سائیں، بالکل . . .
مگر کہاں کراچی میں ؟
کیا تجھے
کاشف سہراب،
میر حسن
اور
مکی بلوچ کا نہیں پتا
دل مراد نے سوالیہ انداز سے پوچھا
اور پھر گویا ہوا
یہ کتے اور سانپ کے کاٹنے سے ہی تڑپ تڑپ کر مرے ہیں ارے بابا اِنکا احوال تو ٹی وی پر بھی آتا رہا کہ کیسے یہ بچے پانی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے۔
اور مکی بلوچ تو مکلی کے اسپتال میں مری ہے۔ کیونکہ ویکسین کم تھی اس لئے سفارشی کو لگا دی اور غریب کو مرنے دیا ان لوگوں نے۔
دل مراد نے تھوڑا اوقفه لیا اور پھر گویا ہوا
ہم پاکستانی جس طرح باقی دنیا سے ڈیڑھ دو سو سال پیچھے ہیں اِسی طرح ٹھٹہ بھی کراچی سے سو کلومیٹر ہی نہیں سو سال دور ہے۔
یہاں کُتے اور سانپ کے کاٹنے سے لوگ مرتے ہیں۔ اذیت ناک موت مرتے ہیں۔ اور آوارہ کتے بھی نہیں مارتی حکومت
اب علی محمّد کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
دل مراد نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا
کُتا اور سانپ تو نظر آتے ہیں۔ اور دُنیا میں اِنکے کاٹے کی دوائی بھی موجود ہے پٙر یہاں تو کتے نظر آتے ہیں کاٹتے ہیں سانپ نظر آتے ییں ڈستے ہیں
مگر لوگوں کو علاج نہیں ملتا۔
یہ تڑپ تڑپ کر سسک سسک دٙم توڑ دیتے ہیں۔
تو یہ غریب اٙن پڑھ اٙن دیکھی بیماری سے کیسے ڈریں گے اور احتیاط کریں گے۔ جبکہ کتے کی شکل میں موت کو روز چلتے پھرتے دیکھتے ہوں۔
صرف موت نہیں
اذیت ناک موت۔۔۔۔
اب تو بتا اِن کے نزدیک کون زیادہ خطرناک ہوگا
کُتا یا کورونا؟

ٹھٹہ کے نزدیک ایک چھوٹے سے قصبے میرپورساكرو کے چھوٹے سے چائے کے ڈھابے پر لوگ اِس کُورونائی وبائی صُورتِ حال میں بھی بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہاتھ بھی ملا رہے تھے۔ گلے بھی لگ رہے تھے۔ سماجی دُوری کا بھی کسی کو کوئی خیال نہ تھا۔
علی محمّد آج ہی کراچی سے اپنے قصبے پہنچاتھا۔ شام ہونے کو آئی تو دل مراد جو اس کا جگری دوست تھا اسے لے کر اُسی ڈھابے پر لے آیا جہاں وہ اکثر بیٹھا کرتے تھے۔
سنگت
یہاں تو بہت بُرا حال ہے سائیں۔۔۔
اِدھر تو کوئی بھی سوشل ڈسٹنسنگ نہیں کر رہا۔۔۔
علی محمّد نے تشویش سے کہا
اچھا . . . .
سنگت کراچی میں تو سب ہی پوری طرح سے سوشل ڈسٹنسنگ اختیار کئے ہوئے ہیں نا
دل مراد نے اس کا مذاق اُڑایا . . . .
اڑے چریا نہ تھی۔۔۔
کراچی میں بھی نہیں کرتے، ادا
مگر اتنا بُرا حال بھی نہیں ہے۔
علی محمّد نے جهنجهلاتے ہوئے کہا۔
وہاں سات بجے کے بعد سب بند ہو جاتا ہے۔
چائے کا ہوٹل تو کوئی ملتا نہیں کہ کھلا ہو
تجھے تو پتہ ہے گلستان جوھَر میں جن فلیٹوں میں رہتا ہوں۔ اُدھر بھی سب بند ہو جاتا ہے۔
علی محمّد نے مزید وضاحت کی۔
اچھا سب چھوڑ تُو سنا بٙھرجائی اور بچے تہ ٹھیک ہیں۔ علی محمّد نے دل مراد سے دریافت کیا۔
بٙھرجائی بھی ٹھیک ہیں، بچے بھی ٹھیک ہیں۔ ابھی دونوں دوست چائے سے لطف اندوز ہو ہو رہے تھے کہ پولیس موبائل کے سائرن سنائی دیئے۔
چل سائیں جلدی کر بابا
پولیس ادھر بھی آگئی ہے ۔
ہنستے ہوئے دل مراد نے علی محمّد سے کہا۔
اور دونوں اپنے اپنے گھروں کی جانب ہو لئے۔
علی محمّد ایک صوبائی محکمے میں کلرک تھا۔
جب کہ دل مراد میر پور ساكرو میں رہ کر اپنی آبائی زمین پر کھیتی باڑی کرتا تھا۔ علی محمّد کی بھی زمین تھی مگر بہت تھوڑی جو اس نے ٹھیکے پر دے دی تھی۔ اور اپنا مسكن گلستان جوہر کراچی میں بنا لیا تھا۔ دونوں نے گریجویٹ ساتھ ہی کیا تھا سندھ یونیورسٹی جام شورو سے
دُوسرے دِن دُونوں دوست پِھر ملے۔ اور شام کو کھیتوں میں نکل گئے۔ گفتگو کا محور آج بھی کُرونا تھا۔
سائیں سندھ حکومت اچھے کام کر رہی ہے لاک ڈاؤن کر کے مگر فیڈرل حکومت کو غریب عوام کا کوئی خیال نہیں۔ علی محمد نے دل مراد سے کہا۔
سنگت سب کا اپنا اپنا راگ ہے گانے دو تجھے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا دل مراد نے جواب دیا۔
نہیں یار ایسا نہیں ہے۔ حکومت کے کرنے سے فرق پڑتا ہے۔ علی محمّد نے اصرار کیا
اچھا یہ بتا کُورونا سے سب سے بُراکیا ہوتا ہے۔
دل مراد نے سوال کیا
آدمی مر جاتا ہے۔ تڑپ تڑپ کر، اذیت ناک موت ہے ادا
علی محمّد نے جواب دیا۔
وه تو کتے کے کاٹنے اور سانپ کے کاٹنے سے بھی مر جاتا ہے، ادا دل مراد نے جواب دیا
پر ان سب کی تو ویکسین ہے، علاج ہے۔ علی محمّد نے کہا۔
بالکل سائیں، بالکل . . .
مگر کہاں کراچی میں ؟
کیا تجھے
کاشف سہراب،
میر حسن
اور
مکی بلوچ کا نہیں پتا
دل مراد نے سوالیہ انداز سے پوچھا
اور پھر گویا ہوا
یہ کتے اور سانپ کے کاٹنے سے ہی تڑپ تڑپ کر مرے ہیں ارے بابا اِنکا احوال تو ٹی وی پر بھی آتا رہا کہ کیسے یہ بچے پانی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے۔
اور مکی بلوچ تو مکلی کے اسپتال میں مری ہے۔ کیونکہ ویکسین کم تھی اس لئے سفارشی کو لگا دی اور غریب کو مرنے دیا ان لوگوں نے۔
دل مراد نے تھوڑا اوقفه لیا اور پھر گویا ہوا
ہم پاکستانی جس طرح باقی دنیا سے ڈیڑھ دو سو سال پیچھے ہیں اِسی طرح ٹھٹہ بھی کراچی سے سو کلومیٹر ہی نہیں سو سال دور ہے۔
یہاں کُتے اور سانپ کے کاٹنے سے لوگ مرتے ہیں۔ اذیت ناک موت مرتے ہیں۔ اور آوارہ کتے بھی نہیں مارتی حکومت
اب علی محمّد کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
دل مراد نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا
کُتا اور سانپ تو نظر آتے ہیں۔ اور دُنیا میں اِنکے کاٹے کی دوائی بھی موجود ہے پٙر یہاں تو کتے نظر آتے ہیں کاٹتے ہیں سانپ نظر آتے ییں ڈستے ہیں
مگر لوگوں کو علاج نہیں ملتا۔
یہ تڑپ تڑپ کر سسک سسک دٙم توڑ دیتے ہیں۔
تو یہ غریب اٙن پڑھ اٙن دیکھی بیماری سے کیسے ڈریں گے اور احتیاط کریں گے۔ جبکہ کتے کی شکل میں موت کو روز چلتے پھرتے دیکھتے ہوں۔
صرف موت نہیں
اذیت ناک موت۔۔۔۔
اب تو بتا اِن کے نزدیک کون زیادہ خطرناک ہوگا
کُتا یا کورونا؟

ٹھٹہ کے نزدیک ایک چھوٹے سے قصبے میرپورساكرو کے چھوٹے سے چائے کے ڈھابے پر لوگ اِس کُورونائی وبائی صُورتِ حال میں بھی بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہاتھ بھی ملا رہے تھے۔ گلے بھی لگ رہے تھے۔ سماجی دُوری کا بھی کسی کو کوئی خیال نہ تھا۔
علی محمّد آج ہی کراچی سے اپنے قصبے پہنچاتھا۔ شام ہونے کو آئی تو دل مراد جو اس کا جگری دوست تھا اسے لے کر اُسی ڈھابے پر لے آیا جہاں وہ اکثر بیٹھا کرتے تھے۔
سنگت
یہاں تو بہت بُرا حال ہے سائیں۔۔۔
اِدھر تو کوئی بھی سوشل ڈسٹنسنگ نہیں کر رہا۔۔۔
علی محمّد نے تشویش سے کہا
اچھا . . . .
سنگت کراچی میں تو سب ہی پوری طرح سے سوشل ڈسٹنسنگ اختیار کئے ہوئے ہیں نا
دل مراد نے اس کا مذاق اُڑایا . . . .
اڑے چریا نہ تھی۔۔۔
کراچی میں بھی نہیں کرتے، ادا
مگر اتنا بُرا حال بھی نہیں ہے۔
علی محمّد نے جهنجهلاتے ہوئے کہا۔
وہاں سات بجے کے بعد سب بند ہو جاتا ہے۔
چائے کا ہوٹل تو کوئی ملتا نہیں کہ کھلا ہو
تجھے تو پتہ ہے گلستان جوھَر میں جن فلیٹوں میں رہتا ہوں۔ اُدھر بھی سب بند ہو جاتا ہے۔
علی محمّد نے مزید وضاحت کی۔
اچھا سب چھوڑ تُو سنا بٙھرجائی اور بچے تہ ٹھیک ہیں۔ علی محمّد نے دل مراد سے دریافت کیا۔
بٙھرجائی بھی ٹھیک ہیں، بچے بھی ٹھیک ہیں۔ ابھی دونوں دوست چائے سے لطف اندوز ہو ہو رہے تھے کہ پولیس موبائل کے سائرن سنائی دیئے۔
چل سائیں جلدی کر بابا
پولیس ادھر بھی آگئی ہے ۔
ہنستے ہوئے دل مراد نے علی محمّد سے کہا۔
اور دونوں اپنے اپنے گھروں کی جانب ہو لئے۔
علی محمّد ایک صوبائی محکمے میں کلرک تھا۔
جب کہ دل مراد میر پور ساكرو میں رہ کر اپنی آبائی زمین پر کھیتی باڑی کرتا تھا۔ علی محمّد کی بھی زمین تھی مگر بہت تھوڑی جو اس نے ٹھیکے پر دے دی تھی۔ اور اپنا مسكن گلستان جوہر کراچی میں بنا لیا تھا۔ دونوں نے گریجویٹ ساتھ ہی کیا تھا سندھ یونیورسٹی جام شورو سے
دُوسرے دِن دُونوں دوست پِھر ملے۔ اور شام کو کھیتوں میں نکل گئے۔ گفتگو کا محور آج بھی کُرونا تھا۔
سائیں سندھ حکومت اچھے کام کر رہی ہے لاک ڈاؤن کر کے مگر فیڈرل حکومت کو غریب عوام کا کوئی خیال نہیں۔ علی محمد نے دل مراد سے کہا۔
سنگت سب کا اپنا اپنا راگ ہے گانے دو تجھے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا دل مراد نے جواب دیا۔
نہیں یار ایسا نہیں ہے۔ حکومت کے کرنے سے فرق پڑتا ہے۔ علی محمّد نے اصرار کیا
اچھا یہ بتا کُورونا سے سب سے بُراکیا ہوتا ہے۔
دل مراد نے سوال کیا
آدمی مر جاتا ہے۔ تڑپ تڑپ کر، اذیت ناک موت ہے ادا
علی محمّد نے جواب دیا۔
وه تو کتے کے کاٹنے اور سانپ کے کاٹنے سے بھی مر جاتا ہے، ادا دل مراد نے جواب دیا
پر ان سب کی تو ویکسین ہے، علاج ہے۔ علی محمّد نے کہا۔
بالکل سائیں، بالکل . . .
مگر کہاں کراچی میں ؟
کیا تجھے
کاشف سہراب،
میر حسن
اور
مکی بلوچ کا نہیں پتا
دل مراد نے سوالیہ انداز سے پوچھا
اور پھر گویا ہوا
یہ کتے اور سانپ کے کاٹنے سے ہی تڑپ تڑپ کر مرے ہیں ارے بابا اِنکا احوال تو ٹی وی پر بھی آتا رہا کہ کیسے یہ بچے پانی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے۔
اور مکی بلوچ تو مکلی کے اسپتال میں مری ہے۔ کیونکہ ویکسین کم تھی اس لئے سفارشی کو لگا دی اور غریب کو مرنے دیا ان لوگوں نے۔
دل مراد نے تھوڑا اوقفه لیا اور پھر گویا ہوا
ہم پاکستانی جس طرح باقی دنیا سے ڈیڑھ دو سو سال پیچھے ہیں اِسی طرح ٹھٹہ بھی کراچی سے سو کلومیٹر ہی نہیں سو سال دور ہے۔
یہاں کُتے اور سانپ کے کاٹنے سے لوگ مرتے ہیں۔ اذیت ناک موت مرتے ہیں۔ اور آوارہ کتے بھی نہیں مارتی حکومت
اب علی محمّد کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
دل مراد نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا
کُتا اور سانپ تو نظر آتے ہیں۔ اور دُنیا میں اِنکے کاٹے کی دوائی بھی موجود ہے پٙر یہاں تو کتے نظر آتے ہیں کاٹتے ہیں سانپ نظر آتے ییں ڈستے ہیں
مگر لوگوں کو علاج نہیں ملتا۔
یہ تڑپ تڑپ کر سسک سسک دٙم توڑ دیتے ہیں۔
تو یہ غریب اٙن پڑھ اٙن دیکھی بیماری سے کیسے ڈریں گے اور احتیاط کریں گے۔ جبکہ کتے کی شکل میں موت کو روز چلتے پھرتے دیکھتے ہوں۔
صرف موت نہیں
اذیت ناک موت۔۔۔۔
اب تو بتا اِن کے نزدیک کون زیادہ خطرناک ہوگا
کُتا یا کورونا؟

ٹھٹہ کے نزدیک ایک چھوٹے سے قصبے میرپورساكرو کے چھوٹے سے چائے کے ڈھابے پر لوگ اِس کُورونائی وبائی صُورتِ حال میں بھی بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہاتھ بھی ملا رہے تھے۔ گلے بھی لگ رہے تھے۔ سماجی دُوری کا بھی کسی کو کوئی خیال نہ تھا۔
علی محمّد آج ہی کراچی سے اپنے قصبے پہنچاتھا۔ شام ہونے کو آئی تو دل مراد جو اس کا جگری دوست تھا اسے لے کر اُسی ڈھابے پر لے آیا جہاں وہ اکثر بیٹھا کرتے تھے۔
سنگت
یہاں تو بہت بُرا حال ہے سائیں۔۔۔
اِدھر تو کوئی بھی سوشل ڈسٹنسنگ نہیں کر رہا۔۔۔
علی محمّد نے تشویش سے کہا
اچھا . . . .
سنگت کراچی میں تو سب ہی پوری طرح سے سوشل ڈسٹنسنگ اختیار کئے ہوئے ہیں نا
دل مراد نے اس کا مذاق اُڑایا . . . .
اڑے چریا نہ تھی۔۔۔
کراچی میں بھی نہیں کرتے، ادا
مگر اتنا بُرا حال بھی نہیں ہے۔
علی محمّد نے جهنجهلاتے ہوئے کہا۔
وہاں سات بجے کے بعد سب بند ہو جاتا ہے۔
چائے کا ہوٹل تو کوئی ملتا نہیں کہ کھلا ہو
تجھے تو پتہ ہے گلستان جوھَر میں جن فلیٹوں میں رہتا ہوں۔ اُدھر بھی سب بند ہو جاتا ہے۔
علی محمّد نے مزید وضاحت کی۔
اچھا سب چھوڑ تُو سنا بٙھرجائی اور بچے تہ ٹھیک ہیں۔ علی محمّد نے دل مراد سے دریافت کیا۔
بٙھرجائی بھی ٹھیک ہیں، بچے بھی ٹھیک ہیں۔ ابھی دونوں دوست چائے سے لطف اندوز ہو ہو رہے تھے کہ پولیس موبائل کے سائرن سنائی دیئے۔
چل سائیں جلدی کر بابا
پولیس ادھر بھی آگئی ہے ۔
ہنستے ہوئے دل مراد نے علی محمّد سے کہا۔
اور دونوں اپنے اپنے گھروں کی جانب ہو لئے۔
علی محمّد ایک صوبائی محکمے میں کلرک تھا۔
جب کہ دل مراد میر پور ساكرو میں رہ کر اپنی آبائی زمین پر کھیتی باڑی کرتا تھا۔ علی محمّد کی بھی زمین تھی مگر بہت تھوڑی جو اس نے ٹھیکے پر دے دی تھی۔ اور اپنا مسكن گلستان جوہر کراچی میں بنا لیا تھا۔ دونوں نے گریجویٹ ساتھ ہی کیا تھا سندھ یونیورسٹی جام شورو سے
دُوسرے دِن دُونوں دوست پِھر ملے۔ اور شام کو کھیتوں میں نکل گئے۔ گفتگو کا محور آج بھی کُرونا تھا۔
سائیں سندھ حکومت اچھے کام کر رہی ہے لاک ڈاؤن کر کے مگر فیڈرل حکومت کو غریب عوام کا کوئی خیال نہیں۔ علی محمد نے دل مراد سے کہا۔
سنگت سب کا اپنا اپنا راگ ہے گانے دو تجھے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا دل مراد نے جواب دیا۔
نہیں یار ایسا نہیں ہے۔ حکومت کے کرنے سے فرق پڑتا ہے۔ علی محمّد نے اصرار کیا
اچھا یہ بتا کُورونا سے سب سے بُراکیا ہوتا ہے۔
دل مراد نے سوال کیا
آدمی مر جاتا ہے۔ تڑپ تڑپ کر، اذیت ناک موت ہے ادا
علی محمّد نے جواب دیا۔
وه تو کتے کے کاٹنے اور سانپ کے کاٹنے سے بھی مر جاتا ہے، ادا دل مراد نے جواب دیا
پر ان سب کی تو ویکسین ہے، علاج ہے۔ علی محمّد نے کہا۔
بالکل سائیں، بالکل . . .
مگر کہاں کراچی میں ؟
کیا تجھے
کاشف سہراب،
میر حسن
اور
مکی بلوچ کا نہیں پتا
دل مراد نے سوالیہ انداز سے پوچھا
اور پھر گویا ہوا
یہ کتے اور سانپ کے کاٹنے سے ہی تڑپ تڑپ کر مرے ہیں ارے بابا اِنکا احوال تو ٹی وی پر بھی آتا رہا کہ کیسے یہ بچے پانی کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے۔
اور مکی بلوچ تو مکلی کے اسپتال میں مری ہے۔ کیونکہ ویکسین کم تھی اس لئے سفارشی کو لگا دی اور غریب کو مرنے دیا ان لوگوں نے۔
دل مراد نے تھوڑا اوقفه لیا اور پھر گویا ہوا
ہم پاکستانی جس طرح باقی دنیا سے ڈیڑھ دو سو سال پیچھے ہیں اِسی طرح ٹھٹہ بھی کراچی سے سو کلومیٹر ہی نہیں سو سال دور ہے۔
یہاں کُتے اور سانپ کے کاٹنے سے لوگ مرتے ہیں۔ اذیت ناک موت مرتے ہیں۔ اور آوارہ کتے بھی نہیں مارتی حکومت
اب علی محمّد کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
دل مراد نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا
کُتا اور سانپ تو نظر آتے ہیں۔ اور دُنیا میں اِنکے کاٹے کی دوائی بھی موجود ہے پٙر یہاں تو کتے نظر آتے ہیں کاٹتے ہیں سانپ نظر آتے ییں ڈستے ہیں
مگر لوگوں کو علاج نہیں ملتا۔
یہ تڑپ تڑپ کر سسک سسک دٙم توڑ دیتے ہیں۔
تو یہ غریب اٙن پڑھ اٙن دیکھی بیماری سے کیسے ڈریں گے اور احتیاط کریں گے۔ جبکہ کتے کی شکل میں موت کو روز چلتے پھرتے دیکھتے ہوں۔
صرف موت نہیں
اذیت ناک موت۔۔۔۔
اب تو بتا اِن کے نزدیک کون زیادہ خطرناک ہوگا
کُتا یا کورونا؟