Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
خطاب پر خطاب، خطاب پر خطاب، بے معنی خطاب، لایعنی خطاب، بےمغر ، بے روح، بےزار کرنے والے خطاب، نہ کوئی ویژن ہے، نہ لائحہ عمل ہے ، نہ قوم کو راہ دکھانے والے ہیں، نہ عوام کے حوصلے کو بڑھانے والے ہیں، نہ لوگوں کو جوڑنے والے ہیں، نہ دلوں کو موڑنے والے ہیں، نہ دماغ کو جھنجھوڑنے والے ہیں، بس خطاب کئے جارہے ہیں، منہ کی فائرنگ ہےکہ جاری ہے، نحوست اور منحوسیت پر کبھی یقین نہیں تھا مگر اب ان الفاظ اور ان کی تاثیر پر یقین بڑھتا جا رہا ہے، 5 ماہ سے زیادہ ہوگئے لیکن آج تک سلیکٹذ کوئی ایک کام نہیں کرسکے صرف خطاب کرنا ہی ذمہ داری ہے، نہیں معلوم لیکن ممکن کہ سرپرست بھی شرمندہ ہی ہوں۔
ایک طرف کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے دوسری طرف راسخ العقیدہ مسلمانوں اور انتہا درجہ کے لبرل دونوں نے کرونا وائرس کو دھندا بنا لیا ہے، وہ متشرع ،مقفع و مسجح مذہبی لوگ بھی کہ جو ہر 4 ماہ بعد بمعہ اہل وعیال عمرہ کرنے جاتے ہیں اور وہ ممی ڈیڈی برگر کلاس بھی کہ جو یورپ و امریکہ کے ساحل پر کم کم کپڑوں میں چھٹیاں گزارتے ہیں پیسے کمانے، نوٹ بنانے اور اس ریوڑ نما ہجوم کہ جسے ایک بہادر قوم کا نام دیا جاتا ہے, کو لوٹنے کے لئے چاروں ہاتھ پیر سے، دونوں طرح کے ڈاکو تیار ہیں اور لوٹ کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔1800 روپے اور 2000 روپے کا
Puls oxymeter اور flow meter
اب 8000/ روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے،اور نعرہ ہے کہ “ہم زندہ قوم ہیں” سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ہوں یا شب جمعہ لگانے والے ہوں لوٹ کھسوٹ کے اس بازار میں دونوں سرتاپا ننگے ہیں۔
دل خون کے آنسو رو رہا ہے کئی روز سے ایسی بے چارگی کا عالم ہے کہ اوائل جوانی میں کئے گئے کئی جاہلانہ فیصلوں پر ندامت ہوتی ہے جن میں سے ایک فیصلہ پاکستان میں رہنے کا، یہاں کی سیاسی جدوجہد میں شامل ہونے ، جمہوری قدروں کے پروان چھڑانے کی جدوجہد میں ساتھ دینے کا تھا لیکن یہ فیصلہ مکمل طور پر غلط فیصلہ تھا۔ ہم بھی کسی مغربی ملک یا امریکہ کا ویزہ پکڑتے کہ جو اس وقت بہت آسان تھا اور سکون سے اپنی زندگی کسی انصاف پسند گورے کے ملک میں گزارتے، کسی ایسے ملک میں زندگی گزارتے کہ جہاں ایک کالے کی موت پر پوری قوم کھڑی ہوجاتی ہے، ان 22 کروڑ لاشوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا کیا حاصل کہ جو ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے انکے والدین کو قتل ہوتے دیکھنے ہیں اور خاموش رہتے ہیں،
ہم بھی کسی انصاف پسند کافر کے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے حالات پر تنقید کرتے اور اگر امپائر کی مہربانی سے موقع ملتا تو معین قریشی، شوکت عزیز کی طرح وزیراعظم بن جاتے یہ بھی نہ ہوتا تو زلفی بخاری، ڈاکٹر ظفر مرزا اور دیگر کی طرح امپائر کے منتخب کردہ وزیراعظم کے مشیر لگ جاتے،
کورونا وائرس کے جس کا نام covid 19 آیا یہ تو وطن عزیز میں 2020 میں ہے لیکن اس ملک کو جو کورونا وائرس 2018 میں دیا گیا ،اس سے نہ جانے کب تک بھگتنا پڑتا ہے لیکن بھائیو! جاگتے رہنا ۔۔۔۔۔
خطاب پر خطاب، خطاب پر خطاب، بے معنی خطاب، لایعنی خطاب، بےمغر ، بے روح، بےزار کرنے والے خطاب، نہ کوئی ویژن ہے، نہ لائحہ عمل ہے ، نہ قوم کو راہ دکھانے والے ہیں، نہ عوام کے حوصلے کو بڑھانے والے ہیں، نہ لوگوں کو جوڑنے والے ہیں، نہ دلوں کو موڑنے والے ہیں، نہ دماغ کو جھنجھوڑنے والے ہیں، بس خطاب کئے جارہے ہیں، منہ کی فائرنگ ہےکہ جاری ہے، نحوست اور منحوسیت پر کبھی یقین نہیں تھا مگر اب ان الفاظ اور ان کی تاثیر پر یقین بڑھتا جا رہا ہے، 5 ماہ سے زیادہ ہوگئے لیکن آج تک سلیکٹذ کوئی ایک کام نہیں کرسکے صرف خطاب کرنا ہی ذمہ داری ہے، نہیں معلوم لیکن ممکن کہ سرپرست بھی شرمندہ ہی ہوں۔
ایک طرف کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے دوسری طرف راسخ العقیدہ مسلمانوں اور انتہا درجہ کے لبرل دونوں نے کرونا وائرس کو دھندا بنا لیا ہے، وہ متشرع ،مقفع و مسجح مذہبی لوگ بھی کہ جو ہر 4 ماہ بعد بمعہ اہل وعیال عمرہ کرنے جاتے ہیں اور وہ ممی ڈیڈی برگر کلاس بھی کہ جو یورپ و امریکہ کے ساحل پر کم کم کپڑوں میں چھٹیاں گزارتے ہیں پیسے کمانے، نوٹ بنانے اور اس ریوڑ نما ہجوم کہ جسے ایک بہادر قوم کا نام دیا جاتا ہے, کو لوٹنے کے لئے چاروں ہاتھ پیر سے، دونوں طرح کے ڈاکو تیار ہیں اور لوٹ کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔1800 روپے اور 2000 روپے کا
Puls oxymeter اور flow meter
اب 8000/ روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے،اور نعرہ ہے کہ “ہم زندہ قوم ہیں” سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ہوں یا شب جمعہ لگانے والے ہوں لوٹ کھسوٹ کے اس بازار میں دونوں سرتاپا ننگے ہیں۔
دل خون کے آنسو رو رہا ہے کئی روز سے ایسی بے چارگی کا عالم ہے کہ اوائل جوانی میں کئے گئے کئی جاہلانہ فیصلوں پر ندامت ہوتی ہے جن میں سے ایک فیصلہ پاکستان میں رہنے کا، یہاں کی سیاسی جدوجہد میں شامل ہونے ، جمہوری قدروں کے پروان چھڑانے کی جدوجہد میں ساتھ دینے کا تھا لیکن یہ فیصلہ مکمل طور پر غلط فیصلہ تھا۔ ہم بھی کسی مغربی ملک یا امریکہ کا ویزہ پکڑتے کہ جو اس وقت بہت آسان تھا اور سکون سے اپنی زندگی کسی انصاف پسند گورے کے ملک میں گزارتے، کسی ایسے ملک میں زندگی گزارتے کہ جہاں ایک کالے کی موت پر پوری قوم کھڑی ہوجاتی ہے، ان 22 کروڑ لاشوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا کیا حاصل کہ جو ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے انکے والدین کو قتل ہوتے دیکھنے ہیں اور خاموش رہتے ہیں،
ہم بھی کسی انصاف پسند کافر کے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے حالات پر تنقید کرتے اور اگر امپائر کی مہربانی سے موقع ملتا تو معین قریشی، شوکت عزیز کی طرح وزیراعظم بن جاتے یہ بھی نہ ہوتا تو زلفی بخاری، ڈاکٹر ظفر مرزا اور دیگر کی طرح امپائر کے منتخب کردہ وزیراعظم کے مشیر لگ جاتے،
کورونا وائرس کے جس کا نام covid 19 آیا یہ تو وطن عزیز میں 2020 میں ہے لیکن اس ملک کو جو کورونا وائرس 2018 میں دیا گیا ،اس سے نہ جانے کب تک بھگتنا پڑتا ہے لیکن بھائیو! جاگتے رہنا ۔۔۔۔۔
خطاب پر خطاب، خطاب پر خطاب، بے معنی خطاب، لایعنی خطاب، بےمغر ، بے روح، بےزار کرنے والے خطاب، نہ کوئی ویژن ہے، نہ لائحہ عمل ہے ، نہ قوم کو راہ دکھانے والے ہیں، نہ عوام کے حوصلے کو بڑھانے والے ہیں، نہ لوگوں کو جوڑنے والے ہیں، نہ دلوں کو موڑنے والے ہیں، نہ دماغ کو جھنجھوڑنے والے ہیں، بس خطاب کئے جارہے ہیں، منہ کی فائرنگ ہےکہ جاری ہے، نحوست اور منحوسیت پر کبھی یقین نہیں تھا مگر اب ان الفاظ اور ان کی تاثیر پر یقین بڑھتا جا رہا ہے، 5 ماہ سے زیادہ ہوگئے لیکن آج تک سلیکٹذ کوئی ایک کام نہیں کرسکے صرف خطاب کرنا ہی ذمہ داری ہے، نہیں معلوم لیکن ممکن کہ سرپرست بھی شرمندہ ہی ہوں۔
ایک طرف کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے دوسری طرف راسخ العقیدہ مسلمانوں اور انتہا درجہ کے لبرل دونوں نے کرونا وائرس کو دھندا بنا لیا ہے، وہ متشرع ،مقفع و مسجح مذہبی لوگ بھی کہ جو ہر 4 ماہ بعد بمعہ اہل وعیال عمرہ کرنے جاتے ہیں اور وہ ممی ڈیڈی برگر کلاس بھی کہ جو یورپ و امریکہ کے ساحل پر کم کم کپڑوں میں چھٹیاں گزارتے ہیں پیسے کمانے، نوٹ بنانے اور اس ریوڑ نما ہجوم کہ جسے ایک بہادر قوم کا نام دیا جاتا ہے, کو لوٹنے کے لئے چاروں ہاتھ پیر سے، دونوں طرح کے ڈاکو تیار ہیں اور لوٹ کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔1800 روپے اور 2000 روپے کا
Puls oxymeter اور flow meter
اب 8000/ روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے،اور نعرہ ہے کہ “ہم زندہ قوم ہیں” سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ہوں یا شب جمعہ لگانے والے ہوں لوٹ کھسوٹ کے اس بازار میں دونوں سرتاپا ننگے ہیں۔
دل خون کے آنسو رو رہا ہے کئی روز سے ایسی بے چارگی کا عالم ہے کہ اوائل جوانی میں کئے گئے کئی جاہلانہ فیصلوں پر ندامت ہوتی ہے جن میں سے ایک فیصلہ پاکستان میں رہنے کا، یہاں کی سیاسی جدوجہد میں شامل ہونے ، جمہوری قدروں کے پروان چھڑانے کی جدوجہد میں ساتھ دینے کا تھا لیکن یہ فیصلہ مکمل طور پر غلط فیصلہ تھا۔ ہم بھی کسی مغربی ملک یا امریکہ کا ویزہ پکڑتے کہ جو اس وقت بہت آسان تھا اور سکون سے اپنی زندگی کسی انصاف پسند گورے کے ملک میں گزارتے، کسی ایسے ملک میں زندگی گزارتے کہ جہاں ایک کالے کی موت پر پوری قوم کھڑی ہوجاتی ہے، ان 22 کروڑ لاشوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا کیا حاصل کہ جو ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے انکے والدین کو قتل ہوتے دیکھنے ہیں اور خاموش رہتے ہیں،
ہم بھی کسی انصاف پسند کافر کے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے حالات پر تنقید کرتے اور اگر امپائر کی مہربانی سے موقع ملتا تو معین قریشی، شوکت عزیز کی طرح وزیراعظم بن جاتے یہ بھی نہ ہوتا تو زلفی بخاری، ڈاکٹر ظفر مرزا اور دیگر کی طرح امپائر کے منتخب کردہ وزیراعظم کے مشیر لگ جاتے،
کورونا وائرس کے جس کا نام covid 19 آیا یہ تو وطن عزیز میں 2020 میں ہے لیکن اس ملک کو جو کورونا وائرس 2018 میں دیا گیا ،اس سے نہ جانے کب تک بھگتنا پڑتا ہے لیکن بھائیو! جاگتے رہنا ۔۔۔۔۔
خطاب پر خطاب، خطاب پر خطاب، بے معنی خطاب، لایعنی خطاب، بےمغر ، بے روح، بےزار کرنے والے خطاب، نہ کوئی ویژن ہے، نہ لائحہ عمل ہے ، نہ قوم کو راہ دکھانے والے ہیں، نہ عوام کے حوصلے کو بڑھانے والے ہیں، نہ لوگوں کو جوڑنے والے ہیں، نہ دلوں کو موڑنے والے ہیں، نہ دماغ کو جھنجھوڑنے والے ہیں، بس خطاب کئے جارہے ہیں، منہ کی فائرنگ ہےکہ جاری ہے، نحوست اور منحوسیت پر کبھی یقین نہیں تھا مگر اب ان الفاظ اور ان کی تاثیر پر یقین بڑھتا جا رہا ہے، 5 ماہ سے زیادہ ہوگئے لیکن آج تک سلیکٹذ کوئی ایک کام نہیں کرسکے صرف خطاب کرنا ہی ذمہ داری ہے، نہیں معلوم لیکن ممکن کہ سرپرست بھی شرمندہ ہی ہوں۔
ایک طرف کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے دوسری طرف راسخ العقیدہ مسلمانوں اور انتہا درجہ کے لبرل دونوں نے کرونا وائرس کو دھندا بنا لیا ہے، وہ متشرع ،مقفع و مسجح مذہبی لوگ بھی کہ جو ہر 4 ماہ بعد بمعہ اہل وعیال عمرہ کرنے جاتے ہیں اور وہ ممی ڈیڈی برگر کلاس بھی کہ جو یورپ و امریکہ کے ساحل پر کم کم کپڑوں میں چھٹیاں گزارتے ہیں پیسے کمانے، نوٹ بنانے اور اس ریوڑ نما ہجوم کہ جسے ایک بہادر قوم کا نام دیا جاتا ہے, کو لوٹنے کے لئے چاروں ہاتھ پیر سے، دونوں طرح کے ڈاکو تیار ہیں اور لوٹ کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔1800 روپے اور 2000 روپے کا
Puls oxymeter اور flow meter
اب 8000/ روپے میں بھی دستیاب نہیں ہے،اور نعرہ ہے کہ “ہم زندہ قوم ہیں” سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ہوں یا شب جمعہ لگانے والے ہوں لوٹ کھسوٹ کے اس بازار میں دونوں سرتاپا ننگے ہیں۔
دل خون کے آنسو رو رہا ہے کئی روز سے ایسی بے چارگی کا عالم ہے کہ اوائل جوانی میں کئے گئے کئی جاہلانہ فیصلوں پر ندامت ہوتی ہے جن میں سے ایک فیصلہ پاکستان میں رہنے کا، یہاں کی سیاسی جدوجہد میں شامل ہونے ، جمہوری قدروں کے پروان چھڑانے کی جدوجہد میں ساتھ دینے کا تھا لیکن یہ فیصلہ مکمل طور پر غلط فیصلہ تھا۔ ہم بھی کسی مغربی ملک یا امریکہ کا ویزہ پکڑتے کہ جو اس وقت بہت آسان تھا اور سکون سے اپنی زندگی کسی انصاف پسند گورے کے ملک میں گزارتے، کسی ایسے ملک میں زندگی گزارتے کہ جہاں ایک کالے کی موت پر پوری قوم کھڑی ہوجاتی ہے، ان 22 کروڑ لاشوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا کیا حاصل کہ جو ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے انکے والدین کو قتل ہوتے دیکھنے ہیں اور خاموش رہتے ہیں،
ہم بھی کسی انصاف پسند کافر کے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے حالات پر تنقید کرتے اور اگر امپائر کی مہربانی سے موقع ملتا تو معین قریشی، شوکت عزیز کی طرح وزیراعظم بن جاتے یہ بھی نہ ہوتا تو زلفی بخاری، ڈاکٹر ظفر مرزا اور دیگر کی طرح امپائر کے منتخب کردہ وزیراعظم کے مشیر لگ جاتے،
کورونا وائرس کے جس کا نام covid 19 آیا یہ تو وطن عزیز میں 2020 میں ہے لیکن اس ملک کو جو کورونا وائرس 2018 میں دیا گیا ،اس سے نہ جانے کب تک بھگتنا پڑتا ہے لیکن بھائیو! جاگتے رہنا ۔۔۔۔۔