Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ایک پردہ پوش شرمیلا پہاڑ۔ پہلا پردہ برف سے ڈھکا ھوا ، اور حسن کو چھپانے کا دوسرا پردہ بادل، شاید ھی چند عاشق ھوں گے جن کو اسکا دیدار نصیب ھوا ھوگا، دنیا میں کم ھی معشوق ھونگے جن کو اتنے عاشق نصیب ھوتے ھوں گے، کئی کئی گھنٹوں اور دنوں کے سفر کرکے عاشق دیدار کو پہنچتے ھیں اور جناب دوھرا نقاب اوڑھےچھپے بیٹھے رھتے ھیں، کچھ تو اس کے حسن کی تاب نہیں لا سکتے جس طرح سندھ میں دولہا دلہن پہلی دفعہ اپنے آپکو اکٹھے شیشے میں دیکھتے ھیں بالکل اسی طرح عاشق اس کو براہ راست دیکھنے کی بجائے ریفلیکشن لیک میں اسکی جھلک دیکھتے ھیں ۔ اور وہ بھی برداشت نہیں کرپاتے اور دل تھام کر بیٹھ جاتے ھیں، اس کو دیکھنے کیلئے ستارے بھی زمین پر امنڈ آتے ھیں اور تو اور ستاروں کی کہکشائیں بھی بادل ھٹائے براہ راست اسکو دیکھنے کی کوشش میں مگن ھوتیں ھیں۔ چاند ستاروں اور کہکشاوں کو دیکھنا تو آسان ھے پر اس کا دیدار نصیب والوں کو ھی نصیب ھوتا ھے، سر سبز وادیاں، نیلے پیلے پنک پھول،لمبی گھاس ان میں گھومتے پھرتے گھوڑے، عاشقوں کی خیمہ بستیاں، ان کے جگ راتے کہ دن میں نظر نہیں آیا شاید رات میں ھی نظر آجائے، اس کے عشق میں جتنے عاشق سفر کرتے ھیں شاید ھی پاکستان میں کوئی عشق ھو جو اتنا کٹھن ھو، اسلام آباد سے موٹروے سے مانسہرہ، گڑھی حبیب اللہ، بالاکوٹ، کاغان، ناران، باٹہ کنڈی، بابوسر ٹاپ چلاس گونر فارم، رائےکورٹ بریج، پھر جیپ کا تنگ دل ھلا دینے والا رستہ، مقامی لوگوں کے سخت رویئے جیسا کہ ھر معشوق کے بھائی ھوتے ھیں۔ پھر چھ سے آٹھ گھنٹے کا تھکا دینے والا پیدل راستہ اور پہلا درشن اور سب تھکاوٹ دور اور اگر حسینہ پردہ کئے ھوئے ھے تو پھر چلتے جائیں چلتے جائیں، فیری میڈوز پہنچ جائیں۔ جس طرح معشوق کے گھر کے راستے میں کچھ اور نظر نہیں آتا یہاں بھی صورتحال یہی ھے۔ اب چلتے جائیں ساتھ رب کے آگے دعا کرتے جائیں۔
ربا میرے یار دا دیدار کرا دے، جے رب من جاوے تے یار وی سامنے آجاوے، اگر اس طرف سے قسمت یاوری نہ ھو تو پھر گلگت روڈ پر بھی کچھ ویو پوائنٹ آتے ھیں جہاں سے دیدار ممکن ھے اور یہ اپنی آئی پر آئے تو اوپر سے جہاز بھی گزرنے نہیں دیتا، فلائٹ کینسل کروادیتا ھے۔ اس کے رخ تو بہت سارے ھیں ھر مہ رخ، مہ جبیں کی طرح۔ اور عاشق ھر طرف سے پہنچ کر دیدار کی کوشش کرتے ھیں۔ اس عشق نے بہت سے عاشقوں کی جان بھی لے لی اور اس کو جان لیوا بھی کہتے ھیں۔ جیسا کہ ھر عشق میں ھوتا ھے۔ کچھ دعویدار بھی ھیں کہ ھم سب سے پہلے موٹر سائیکل پر اس کے دیدار کو پہنچے ، کچھ دوست سپورٹس بائیک پر جاتے ھیں اور میرے ایک دوست ساڑھے تین سو کلو وزنی بائیک لیکر اس کی خدمت میں روپال فیس سے حاضر ھوئے، پتہ نہیں معشوق امپریس بھی ھوا کہ نہیں۔ جس طرح نوجوان لڑکیوں کو امپریس کرنے کیلئے لڑکے حرکتیں کرتے ھیں پر کامیاب کوئی کوئی ھوسکا، ضروری تو نہیں ھر کوئی کسی کا ھو۔ اور یہ تو اتنا قد آور ھے کہ اس کے قد کو پہنچنا ناممکن تو نہیں پر ممکن اور ناممکن میں فرق تھوڑا سا ھے۔
یہ اتنا سخت مزاج معشوق ھے کہ ایک حد سے زیادہ نزدیک جانے کیلئے آکسیجن سلنڈر لگانا پڑتا ھے اس کی شان وشوکت اور حسن کو دیکھ کر سبھی عاشقان سانس لینا بھول جاتے ھیں اور سانس اکھڑنا شروع ھوجاتا ھے. اس کے دیویوں کی طرح تین چہرے ھیں اس کو دیکھا جاسکتا ھے دیامیرفیس، رائے کورٹ فیس اور روپال فیس سے۔ انتخاب اور عشق آپکا ھے آپ کس طرف سے دیدار یار کرنا چاھتے ھیں ۔ یہ ھے جانثار عاشقوں کا عشق نانگا پربت۔ ھمت ھے تو اس سے عشق کیجئے ورنہ گھر پر رھیئے ۔ اگر آپ کی جان بہت قیمتی ھے۔ تو پھر جان لیجئے عشق دیوانوں کا کام ھے کم از کم آپ کا نہیں۔
ایک پردہ پوش شرمیلا پہاڑ۔ پہلا پردہ برف سے ڈھکا ھوا ، اور حسن کو چھپانے کا دوسرا پردہ بادل، شاید ھی چند عاشق ھوں گے جن کو اسکا دیدار نصیب ھوا ھوگا، دنیا میں کم ھی معشوق ھونگے جن کو اتنے عاشق نصیب ھوتے ھوں گے، کئی کئی گھنٹوں اور دنوں کے سفر کرکے عاشق دیدار کو پہنچتے ھیں اور جناب دوھرا نقاب اوڑھےچھپے بیٹھے رھتے ھیں، کچھ تو اس کے حسن کی تاب نہیں لا سکتے جس طرح سندھ میں دولہا دلہن پہلی دفعہ اپنے آپکو اکٹھے شیشے میں دیکھتے ھیں بالکل اسی طرح عاشق اس کو براہ راست دیکھنے کی بجائے ریفلیکشن لیک میں اسکی جھلک دیکھتے ھیں ۔ اور وہ بھی برداشت نہیں کرپاتے اور دل تھام کر بیٹھ جاتے ھیں، اس کو دیکھنے کیلئے ستارے بھی زمین پر امنڈ آتے ھیں اور تو اور ستاروں کی کہکشائیں بھی بادل ھٹائے براہ راست اسکو دیکھنے کی کوشش میں مگن ھوتیں ھیں۔ چاند ستاروں اور کہکشاوں کو دیکھنا تو آسان ھے پر اس کا دیدار نصیب والوں کو ھی نصیب ھوتا ھے، سر سبز وادیاں، نیلے پیلے پنک پھول،لمبی گھاس ان میں گھومتے پھرتے گھوڑے، عاشقوں کی خیمہ بستیاں، ان کے جگ راتے کہ دن میں نظر نہیں آیا شاید رات میں ھی نظر آجائے، اس کے عشق میں جتنے عاشق سفر کرتے ھیں شاید ھی پاکستان میں کوئی عشق ھو جو اتنا کٹھن ھو، اسلام آباد سے موٹروے سے مانسہرہ، گڑھی حبیب اللہ، بالاکوٹ، کاغان، ناران، باٹہ کنڈی، بابوسر ٹاپ چلاس گونر فارم، رائےکورٹ بریج، پھر جیپ کا تنگ دل ھلا دینے والا رستہ، مقامی لوگوں کے سخت رویئے جیسا کہ ھر معشوق کے بھائی ھوتے ھیں۔ پھر چھ سے آٹھ گھنٹے کا تھکا دینے والا پیدل راستہ اور پہلا درشن اور سب تھکاوٹ دور اور اگر حسینہ پردہ کئے ھوئے ھے تو پھر چلتے جائیں چلتے جائیں، فیری میڈوز پہنچ جائیں۔ جس طرح معشوق کے گھر کے راستے میں کچھ اور نظر نہیں آتا یہاں بھی صورتحال یہی ھے۔ اب چلتے جائیں ساتھ رب کے آگے دعا کرتے جائیں۔
ربا میرے یار دا دیدار کرا دے، جے رب من جاوے تے یار وی سامنے آجاوے، اگر اس طرف سے قسمت یاوری نہ ھو تو پھر گلگت روڈ پر بھی کچھ ویو پوائنٹ آتے ھیں جہاں سے دیدار ممکن ھے اور یہ اپنی آئی پر آئے تو اوپر سے جہاز بھی گزرنے نہیں دیتا، فلائٹ کینسل کروادیتا ھے۔ اس کے رخ تو بہت سارے ھیں ھر مہ رخ، مہ جبیں کی طرح۔ اور عاشق ھر طرف سے پہنچ کر دیدار کی کوشش کرتے ھیں۔ اس عشق نے بہت سے عاشقوں کی جان بھی لے لی اور اس کو جان لیوا بھی کہتے ھیں۔ جیسا کہ ھر عشق میں ھوتا ھے۔ کچھ دعویدار بھی ھیں کہ ھم سب سے پہلے موٹر سائیکل پر اس کے دیدار کو پہنچے ، کچھ دوست سپورٹس بائیک پر جاتے ھیں اور میرے ایک دوست ساڑھے تین سو کلو وزنی بائیک لیکر اس کی خدمت میں روپال فیس سے حاضر ھوئے، پتہ نہیں معشوق امپریس بھی ھوا کہ نہیں۔ جس طرح نوجوان لڑکیوں کو امپریس کرنے کیلئے لڑکے حرکتیں کرتے ھیں پر کامیاب کوئی کوئی ھوسکا، ضروری تو نہیں ھر کوئی کسی کا ھو۔ اور یہ تو اتنا قد آور ھے کہ اس کے قد کو پہنچنا ناممکن تو نہیں پر ممکن اور ناممکن میں فرق تھوڑا سا ھے۔
یہ اتنا سخت مزاج معشوق ھے کہ ایک حد سے زیادہ نزدیک جانے کیلئے آکسیجن سلنڈر لگانا پڑتا ھے اس کی شان وشوکت اور حسن کو دیکھ کر سبھی عاشقان سانس لینا بھول جاتے ھیں اور سانس اکھڑنا شروع ھوجاتا ھے. اس کے دیویوں کی طرح تین چہرے ھیں اس کو دیکھا جاسکتا ھے دیامیرفیس، رائے کورٹ فیس اور روپال فیس سے۔ انتخاب اور عشق آپکا ھے آپ کس طرف سے دیدار یار کرنا چاھتے ھیں ۔ یہ ھے جانثار عاشقوں کا عشق نانگا پربت۔ ھمت ھے تو اس سے عشق کیجئے ورنہ گھر پر رھیئے ۔ اگر آپ کی جان بہت قیمتی ھے۔ تو پھر جان لیجئے عشق دیوانوں کا کام ھے کم از کم آپ کا نہیں۔
ایک پردہ پوش شرمیلا پہاڑ۔ پہلا پردہ برف سے ڈھکا ھوا ، اور حسن کو چھپانے کا دوسرا پردہ بادل، شاید ھی چند عاشق ھوں گے جن کو اسکا دیدار نصیب ھوا ھوگا، دنیا میں کم ھی معشوق ھونگے جن کو اتنے عاشق نصیب ھوتے ھوں گے، کئی کئی گھنٹوں اور دنوں کے سفر کرکے عاشق دیدار کو پہنچتے ھیں اور جناب دوھرا نقاب اوڑھےچھپے بیٹھے رھتے ھیں، کچھ تو اس کے حسن کی تاب نہیں لا سکتے جس طرح سندھ میں دولہا دلہن پہلی دفعہ اپنے آپکو اکٹھے شیشے میں دیکھتے ھیں بالکل اسی طرح عاشق اس کو براہ راست دیکھنے کی بجائے ریفلیکشن لیک میں اسکی جھلک دیکھتے ھیں ۔ اور وہ بھی برداشت نہیں کرپاتے اور دل تھام کر بیٹھ جاتے ھیں، اس کو دیکھنے کیلئے ستارے بھی زمین پر امنڈ آتے ھیں اور تو اور ستاروں کی کہکشائیں بھی بادل ھٹائے براہ راست اسکو دیکھنے کی کوشش میں مگن ھوتیں ھیں۔ چاند ستاروں اور کہکشاوں کو دیکھنا تو آسان ھے پر اس کا دیدار نصیب والوں کو ھی نصیب ھوتا ھے، سر سبز وادیاں، نیلے پیلے پنک پھول،لمبی گھاس ان میں گھومتے پھرتے گھوڑے، عاشقوں کی خیمہ بستیاں، ان کے جگ راتے کہ دن میں نظر نہیں آیا شاید رات میں ھی نظر آجائے، اس کے عشق میں جتنے عاشق سفر کرتے ھیں شاید ھی پاکستان میں کوئی عشق ھو جو اتنا کٹھن ھو، اسلام آباد سے موٹروے سے مانسہرہ، گڑھی حبیب اللہ، بالاکوٹ، کاغان، ناران، باٹہ کنڈی، بابوسر ٹاپ چلاس گونر فارم، رائےکورٹ بریج، پھر جیپ کا تنگ دل ھلا دینے والا رستہ، مقامی لوگوں کے سخت رویئے جیسا کہ ھر معشوق کے بھائی ھوتے ھیں۔ پھر چھ سے آٹھ گھنٹے کا تھکا دینے والا پیدل راستہ اور پہلا درشن اور سب تھکاوٹ دور اور اگر حسینہ پردہ کئے ھوئے ھے تو پھر چلتے جائیں چلتے جائیں، فیری میڈوز پہنچ جائیں۔ جس طرح معشوق کے گھر کے راستے میں کچھ اور نظر نہیں آتا یہاں بھی صورتحال یہی ھے۔ اب چلتے جائیں ساتھ رب کے آگے دعا کرتے جائیں۔
ربا میرے یار دا دیدار کرا دے، جے رب من جاوے تے یار وی سامنے آجاوے، اگر اس طرف سے قسمت یاوری نہ ھو تو پھر گلگت روڈ پر بھی کچھ ویو پوائنٹ آتے ھیں جہاں سے دیدار ممکن ھے اور یہ اپنی آئی پر آئے تو اوپر سے جہاز بھی گزرنے نہیں دیتا، فلائٹ کینسل کروادیتا ھے۔ اس کے رخ تو بہت سارے ھیں ھر مہ رخ، مہ جبیں کی طرح۔ اور عاشق ھر طرف سے پہنچ کر دیدار کی کوشش کرتے ھیں۔ اس عشق نے بہت سے عاشقوں کی جان بھی لے لی اور اس کو جان لیوا بھی کہتے ھیں۔ جیسا کہ ھر عشق میں ھوتا ھے۔ کچھ دعویدار بھی ھیں کہ ھم سب سے پہلے موٹر سائیکل پر اس کے دیدار کو پہنچے ، کچھ دوست سپورٹس بائیک پر جاتے ھیں اور میرے ایک دوست ساڑھے تین سو کلو وزنی بائیک لیکر اس کی خدمت میں روپال فیس سے حاضر ھوئے، پتہ نہیں معشوق امپریس بھی ھوا کہ نہیں۔ جس طرح نوجوان لڑکیوں کو امپریس کرنے کیلئے لڑکے حرکتیں کرتے ھیں پر کامیاب کوئی کوئی ھوسکا، ضروری تو نہیں ھر کوئی کسی کا ھو۔ اور یہ تو اتنا قد آور ھے کہ اس کے قد کو پہنچنا ناممکن تو نہیں پر ممکن اور ناممکن میں فرق تھوڑا سا ھے۔
یہ اتنا سخت مزاج معشوق ھے کہ ایک حد سے زیادہ نزدیک جانے کیلئے آکسیجن سلنڈر لگانا پڑتا ھے اس کی شان وشوکت اور حسن کو دیکھ کر سبھی عاشقان سانس لینا بھول جاتے ھیں اور سانس اکھڑنا شروع ھوجاتا ھے. اس کے دیویوں کی طرح تین چہرے ھیں اس کو دیکھا جاسکتا ھے دیامیرفیس، رائے کورٹ فیس اور روپال فیس سے۔ انتخاب اور عشق آپکا ھے آپ کس طرف سے دیدار یار کرنا چاھتے ھیں ۔ یہ ھے جانثار عاشقوں کا عشق نانگا پربت۔ ھمت ھے تو اس سے عشق کیجئے ورنہ گھر پر رھیئے ۔ اگر آپ کی جان بہت قیمتی ھے۔ تو پھر جان لیجئے عشق دیوانوں کا کام ھے کم از کم آپ کا نہیں۔
ایک پردہ پوش شرمیلا پہاڑ۔ پہلا پردہ برف سے ڈھکا ھوا ، اور حسن کو چھپانے کا دوسرا پردہ بادل، شاید ھی چند عاشق ھوں گے جن کو اسکا دیدار نصیب ھوا ھوگا، دنیا میں کم ھی معشوق ھونگے جن کو اتنے عاشق نصیب ھوتے ھوں گے، کئی کئی گھنٹوں اور دنوں کے سفر کرکے عاشق دیدار کو پہنچتے ھیں اور جناب دوھرا نقاب اوڑھےچھپے بیٹھے رھتے ھیں، کچھ تو اس کے حسن کی تاب نہیں لا سکتے جس طرح سندھ میں دولہا دلہن پہلی دفعہ اپنے آپکو اکٹھے شیشے میں دیکھتے ھیں بالکل اسی طرح عاشق اس کو براہ راست دیکھنے کی بجائے ریفلیکشن لیک میں اسکی جھلک دیکھتے ھیں ۔ اور وہ بھی برداشت نہیں کرپاتے اور دل تھام کر بیٹھ جاتے ھیں، اس کو دیکھنے کیلئے ستارے بھی زمین پر امنڈ آتے ھیں اور تو اور ستاروں کی کہکشائیں بھی بادل ھٹائے براہ راست اسکو دیکھنے کی کوشش میں مگن ھوتیں ھیں۔ چاند ستاروں اور کہکشاوں کو دیکھنا تو آسان ھے پر اس کا دیدار نصیب والوں کو ھی نصیب ھوتا ھے، سر سبز وادیاں، نیلے پیلے پنک پھول،لمبی گھاس ان میں گھومتے پھرتے گھوڑے، عاشقوں کی خیمہ بستیاں، ان کے جگ راتے کہ دن میں نظر نہیں آیا شاید رات میں ھی نظر آجائے، اس کے عشق میں جتنے عاشق سفر کرتے ھیں شاید ھی پاکستان میں کوئی عشق ھو جو اتنا کٹھن ھو، اسلام آباد سے موٹروے سے مانسہرہ، گڑھی حبیب اللہ، بالاکوٹ، کاغان، ناران، باٹہ کنڈی، بابوسر ٹاپ چلاس گونر فارم، رائےکورٹ بریج، پھر جیپ کا تنگ دل ھلا دینے والا رستہ، مقامی لوگوں کے سخت رویئے جیسا کہ ھر معشوق کے بھائی ھوتے ھیں۔ پھر چھ سے آٹھ گھنٹے کا تھکا دینے والا پیدل راستہ اور پہلا درشن اور سب تھکاوٹ دور اور اگر حسینہ پردہ کئے ھوئے ھے تو پھر چلتے جائیں چلتے جائیں، فیری میڈوز پہنچ جائیں۔ جس طرح معشوق کے گھر کے راستے میں کچھ اور نظر نہیں آتا یہاں بھی صورتحال یہی ھے۔ اب چلتے جائیں ساتھ رب کے آگے دعا کرتے جائیں۔
ربا میرے یار دا دیدار کرا دے، جے رب من جاوے تے یار وی سامنے آجاوے، اگر اس طرف سے قسمت یاوری نہ ھو تو پھر گلگت روڈ پر بھی کچھ ویو پوائنٹ آتے ھیں جہاں سے دیدار ممکن ھے اور یہ اپنی آئی پر آئے تو اوپر سے جہاز بھی گزرنے نہیں دیتا، فلائٹ کینسل کروادیتا ھے۔ اس کے رخ تو بہت سارے ھیں ھر مہ رخ، مہ جبیں کی طرح۔ اور عاشق ھر طرف سے پہنچ کر دیدار کی کوشش کرتے ھیں۔ اس عشق نے بہت سے عاشقوں کی جان بھی لے لی اور اس کو جان لیوا بھی کہتے ھیں۔ جیسا کہ ھر عشق میں ھوتا ھے۔ کچھ دعویدار بھی ھیں کہ ھم سب سے پہلے موٹر سائیکل پر اس کے دیدار کو پہنچے ، کچھ دوست سپورٹس بائیک پر جاتے ھیں اور میرے ایک دوست ساڑھے تین سو کلو وزنی بائیک لیکر اس کی خدمت میں روپال فیس سے حاضر ھوئے، پتہ نہیں معشوق امپریس بھی ھوا کہ نہیں۔ جس طرح نوجوان لڑکیوں کو امپریس کرنے کیلئے لڑکے حرکتیں کرتے ھیں پر کامیاب کوئی کوئی ھوسکا، ضروری تو نہیں ھر کوئی کسی کا ھو۔ اور یہ تو اتنا قد آور ھے کہ اس کے قد کو پہنچنا ناممکن تو نہیں پر ممکن اور ناممکن میں فرق تھوڑا سا ھے۔
یہ اتنا سخت مزاج معشوق ھے کہ ایک حد سے زیادہ نزدیک جانے کیلئے آکسیجن سلنڈر لگانا پڑتا ھے اس کی شان وشوکت اور حسن کو دیکھ کر سبھی عاشقان سانس لینا بھول جاتے ھیں اور سانس اکھڑنا شروع ھوجاتا ھے. اس کے دیویوں کی طرح تین چہرے ھیں اس کو دیکھا جاسکتا ھے دیامیرفیس، رائے کورٹ فیس اور روپال فیس سے۔ انتخاب اور عشق آپکا ھے آپ کس طرف سے دیدار یار کرنا چاھتے ھیں ۔ یہ ھے جانثار عاشقوں کا عشق نانگا پربت۔ ھمت ھے تو اس سے عشق کیجئے ورنہ گھر پر رھیئے ۔ اگر آپ کی جان بہت قیمتی ھے۔ تو پھر جان لیجئے عشق دیوانوں کا کام ھے کم از کم آپ کا نہیں۔