Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
سرمایہ دار ایئرپورٹ کے لاؤنج سے نکلا تو باہر
تو اس کا مینجر باہر اس کا انتظار کر رہا تھا۔
آیئے سیٹھ صاحب!
مینیجر نے بیگ اسکے ہاتھ سے لیتے ہیلینڈ کروزر کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
اور مقبول سب ٹھیک چل رہا ہے۔
اُس نے مینیجر سے سوال کیا۔
جی سیٹھ صاحب، اللّه کا شکر ہے،
بس وہ فیکٹری میں ایک یونین لیڈر ٹائپ کا لڑکا آگیا ہے۔
کہتا ہے کہ سال بھر کے بعد پکا کرو کنٹریکٹ پر کام نہیں کروں گا اور دوسرے لڑکوں کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔مینیجر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی روداد سنائی۔
ارے مقبول تمہیں اب یہ بھی میں بتاؤں کہ کیا کرنا ہے اس کا۔ سیٹھ نے ناراضگی سے مینیجر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
مگر سیٹھ صاحب اِس دفعہ تو اُس نے پوری ایک شفٹ اپنے ساتھ ملا لی ہے۔ مینیجر نے جواب دیا۔
کوئی بات نہیں، میں کل فیکٹری آکر خود دیکھتا ہوں۔ کیا کرنا ہے اس کا۔ سیٹھ نے جواب دیا
سیٹھ بہت دولتمند تھا گاڑی، بنگلہ، بینک بیلنس، نوکر چاکر سبھی کچھ تو تھا مگر فیکٹری کے کسی ملازم کو مستقل نہیں رکھتا تھا۔ کنٹریکٹ پر رکھ کے ہی کام چلاتا، ٹیکس کبھی پورا نہیں دیتا، NTN نمبر تو اسے الاٹ ہوا تھا مگر ٹیکس کسی اٹھارویں گریڈ کے افسر سے بھی کم دیتا تھا۔ ایسے ہی تو دس سال میں ایک سے دو فیکٹریاں لگالی تھیں
اُس نے۔ ہاں مگر اپنے مرحومین کی بخشش کے لئے شہر کی کسی مسجد کو دو ڈھائی لاکھ سالانہ چندہ دے دیا کرتا تھا۔
دوسرے دِن فیکٹری پہنچتے ہی سیٹھ نے مینیجر کو بلایا ۔مقبول فیکٹری کے چاروں سپروائزرز کو بلاؤ۔ فیکٹری چھوٹی تھی ہر سپروائزر کے انڈر پچیس، پچیس ہی لوگ تھے۔ سیٹھ نے یونین لیڈر سے نبٹنے کی سب سے ترکیب پوچھی اور لالچ بھی دی کہ جو اس سے چھٹکارا دلوائے گا اُسکی تنخواہ میں بیس ہزار کا اضافہ کرے گا۔ کسی کی کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک سپروائزر بولا میں کر لوں گا۔ بس دس پندره دن کا ٹائم دیں اور فری ہینڈ دے دیں۔
ٹھیک ہے۔
مقبول جیسا یہ کہہ رہا ہے ویسا کر لینا۔ پر یاد رہے۔ دس پندرہ دن سے زیادہ نہ ہو ۔سیٹھ نے مینیجر اور سپروائزر دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
اگلے ہی دن سپروائزر نے یونین لیڈر کو گھیرنے کے لئے اُس سے پینگیں بڑھانا شروع کر دی۔
اور بھئی کیسا کام چل رہا ہے۔
سپروائزر نے یونین لیڈر سے پوچھا
جو کہ نہایت انہماک مشین چلا رها تھا۔
جی اللّه کاشکر ہے سپروائزر صاحب۔یونین لیڈر نے جواب دیا۔
ہاں بھئی تیری بہن کی شادی کب ہے۔ سپروائزر نے پوچھا
بس جی چھ مہینے بعد ہے۔یونین لیڈر نے جواب دیا۔
کوئی پیسے وغیرہ کی ضرورت۔۔؟
سپروائزر نے سوال داغا
ہاں جی پیسے کی ضرورت کسے نہیں ہوتی جب بہن کی شادی بھی سر پر ہو ۔یونین لیڈر نے جواب دیا
سیٹھ صاحب سے کہہ کر دو لاکھ تک دلوادوں گا ۔سپروائزر نے کہا
مگر کن شرائط پر جناب اب یونین لیڈر نے مشین بند کر کے اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ارے کچھ خاص نہیں بس تم خاموش رہو۔ یہ پکا کرنے کا جو تم نے شور مچا رکھا ہے۔ یہ مت کرو . کام کرو . تنخواہ لو . اوور ٹائم لو ۔سب ملے گا مگر پکے کرنے کی بات مت کرو ۔سپروائزر نے کہا۔بھائی یہ غداری ہو گی میرے ساتھیوں کےساتھ اور مجھے یہ منظور نہیں ہر گز منظور نہیں
یونین لیڈر تھوڑا جذباتی ہو گیا یہ کہتے ہوئے۔جیسے تمہاری مرضی۔ فی زمانہ یہ کتابیباتیں نہیں چلتی دنیا بڑی خراب ہے بھیا۔
آخری لفظ پر زور دیکر سپروائزر نے کہا۔
یہ کہہ کر سُپروائزر اپنے راستے ہو لیا اور یونین لیڈر پھر مشین سٹارٹ کر کے اُس پر جُھک گیا۔دوسرے دن صبح میں جیسے ہی یونین لیڈر اور اسکے ساتھی فیکٹری کے دروازے پر پہنچے۔سیکورٹی گارڈ نے فیکٹری میں داخلے سے روک دیا۔ آپ سب کو نوکری سے فارغ کردیا ہے۔ گارڈ نے دروازے پر ہی خبر دی۔ یونین لیڈر سمیت گیارہ لوگ تھے۔سب کے سروں پر یہ خبر بجلی بن کے گری۔
اتنے میں ان کا سپروائزر منہ لٹکائے باہر آیا۔ سیٹھ نے ہمارا والا سیکشن ہی بند کر دیا ہے۔شاید مجھے بھی نکال دیں کچھ دنوں میں سپروائزر نے مزدوروں سے کہا۔ خیر میں بات کرتا ہوں۔ تم لوگ حوصلہ رکھو۔ سپروائزر نے فل ایکٹنگ کی۔ یونین لیڈر بھانپ گیا
کچھ دال میں کالا ہے۔
ساتھیوں اس کی باتوں میں نہ آنا یہ فیکٹری مالک کی چال لگتی ہے۔ یونین لیڈر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔
ابے چل۔۔۔
تیرے چکر میں سب کی نوکری پر تلوار لٹک گئی تجھے ابھی بھی لیڈری کی پڑی ہے۔ دیکھو بھائیوں نوکری تو سب کی ہی تیل ہو رہی ہے اس کے چکر میں تم لوگ بولو تو میں سیٹھ سے بات کر کے ایک دو بندے رکوالوں گا ۔سپروائزر نے پتہ پھینکا۔
کچھ دیر سناٹا رہا۔
ایک بولا ۔بھائی میں بہت مجبور ہوں، میری بات کر لینا۔ ارے یہ سب سیٹھ کی چال ہے۔ اپنا اتحاد مت توڑو، کچھ دیر کی بات ہے، یہی لوگ نوکری پکی کریں گے ۔یونین لیڈر چلایا۔ کچھ دیر پھر سناٹا رہا۔اس کے بعد دوسرا بولا۔ میری ماں بیمار ہے،
میں اِس وقت بیروزگاری برداشت نہیں کر سکتا. میری بات بھی کر لینا۔
تیسرا میری بات بھی کر لینا
ٹھیک ہے تم لوگ پرسوں آنا فیکٹری۔
یہ کہہ کر سپروائزر نے ان سب کو واپس کر دیا۔
اب مزدوروں میں پھوٹ پڑ چکی تھی۔
سب کو اپنی،اپنی پڑی تھی۔
پہلے ہی دن گیارہ میں سے تین بندے توڑ لئے تھے
سپروائزر ایک ایک دو دو کر کے بندہ توڑ تا رہا
اور ایک ہفتے بعد فیکٹری کے اسی سیکشن میں دوبارہ کام سٹارٹ ہو گیا۔ باقی دس لوگ اپنی عارضی نوکری پر واپس آگئے۔
یونین لیڈر ہوگیا پھر سے
عارضی بے روزگار
سرمایہ دار ایئرپورٹ کے لاؤنج سے نکلا تو باہر
تو اس کا مینجر باہر اس کا انتظار کر رہا تھا۔
آیئے سیٹھ صاحب!
مینیجر نے بیگ اسکے ہاتھ سے لیتے ہیلینڈ کروزر کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
اور مقبول سب ٹھیک چل رہا ہے۔
اُس نے مینیجر سے سوال کیا۔
جی سیٹھ صاحب، اللّه کا شکر ہے،
بس وہ فیکٹری میں ایک یونین لیڈر ٹائپ کا لڑکا آگیا ہے۔
کہتا ہے کہ سال بھر کے بعد پکا کرو کنٹریکٹ پر کام نہیں کروں گا اور دوسرے لڑکوں کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔مینیجر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی روداد سنائی۔
ارے مقبول تمہیں اب یہ بھی میں بتاؤں کہ کیا کرنا ہے اس کا۔ سیٹھ نے ناراضگی سے مینیجر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
مگر سیٹھ صاحب اِس دفعہ تو اُس نے پوری ایک شفٹ اپنے ساتھ ملا لی ہے۔ مینیجر نے جواب دیا۔
کوئی بات نہیں، میں کل فیکٹری آکر خود دیکھتا ہوں۔ کیا کرنا ہے اس کا۔ سیٹھ نے جواب دیا
سیٹھ بہت دولتمند تھا گاڑی، بنگلہ، بینک بیلنس، نوکر چاکر سبھی کچھ تو تھا مگر فیکٹری کے کسی ملازم کو مستقل نہیں رکھتا تھا۔ کنٹریکٹ پر رکھ کے ہی کام چلاتا، ٹیکس کبھی پورا نہیں دیتا، NTN نمبر تو اسے الاٹ ہوا تھا مگر ٹیکس کسی اٹھارویں گریڈ کے افسر سے بھی کم دیتا تھا۔ ایسے ہی تو دس سال میں ایک سے دو فیکٹریاں لگالی تھیں
اُس نے۔ ہاں مگر اپنے مرحومین کی بخشش کے لئے شہر کی کسی مسجد کو دو ڈھائی لاکھ سالانہ چندہ دے دیا کرتا تھا۔
دوسرے دِن فیکٹری پہنچتے ہی سیٹھ نے مینیجر کو بلایا ۔مقبول فیکٹری کے چاروں سپروائزرز کو بلاؤ۔ فیکٹری چھوٹی تھی ہر سپروائزر کے انڈر پچیس، پچیس ہی لوگ تھے۔ سیٹھ نے یونین لیڈر سے نبٹنے کی سب سے ترکیب پوچھی اور لالچ بھی دی کہ جو اس سے چھٹکارا دلوائے گا اُسکی تنخواہ میں بیس ہزار کا اضافہ کرے گا۔ کسی کی کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک سپروائزر بولا میں کر لوں گا۔ بس دس پندره دن کا ٹائم دیں اور فری ہینڈ دے دیں۔
ٹھیک ہے۔
مقبول جیسا یہ کہہ رہا ہے ویسا کر لینا۔ پر یاد رہے۔ دس پندرہ دن سے زیادہ نہ ہو ۔سیٹھ نے مینیجر اور سپروائزر دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
اگلے ہی دن سپروائزر نے یونین لیڈر کو گھیرنے کے لئے اُس سے پینگیں بڑھانا شروع کر دی۔
اور بھئی کیسا کام چل رہا ہے۔
سپروائزر نے یونین لیڈر سے پوچھا
جو کہ نہایت انہماک مشین چلا رها تھا۔
جی اللّه کاشکر ہے سپروائزر صاحب۔یونین لیڈر نے جواب دیا۔
ہاں بھئی تیری بہن کی شادی کب ہے۔ سپروائزر نے پوچھا
بس جی چھ مہینے بعد ہے۔یونین لیڈر نے جواب دیا۔
کوئی پیسے وغیرہ کی ضرورت۔۔؟
سپروائزر نے سوال داغا
ہاں جی پیسے کی ضرورت کسے نہیں ہوتی جب بہن کی شادی بھی سر پر ہو ۔یونین لیڈر نے جواب دیا
سیٹھ صاحب سے کہہ کر دو لاکھ تک دلوادوں گا ۔سپروائزر نے کہا
مگر کن شرائط پر جناب اب یونین لیڈر نے مشین بند کر کے اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ارے کچھ خاص نہیں بس تم خاموش رہو۔ یہ پکا کرنے کا جو تم نے شور مچا رکھا ہے۔ یہ مت کرو . کام کرو . تنخواہ لو . اوور ٹائم لو ۔سب ملے گا مگر پکے کرنے کی بات مت کرو ۔سپروائزر نے کہا۔بھائی یہ غداری ہو گی میرے ساتھیوں کےساتھ اور مجھے یہ منظور نہیں ہر گز منظور نہیں
یونین لیڈر تھوڑا جذباتی ہو گیا یہ کہتے ہوئے۔جیسے تمہاری مرضی۔ فی زمانہ یہ کتابیباتیں نہیں چلتی دنیا بڑی خراب ہے بھیا۔
آخری لفظ پر زور دیکر سپروائزر نے کہا۔
یہ کہہ کر سُپروائزر اپنے راستے ہو لیا اور یونین لیڈر پھر مشین سٹارٹ کر کے اُس پر جُھک گیا۔دوسرے دن صبح میں جیسے ہی یونین لیڈر اور اسکے ساتھی فیکٹری کے دروازے پر پہنچے۔سیکورٹی گارڈ نے فیکٹری میں داخلے سے روک دیا۔ آپ سب کو نوکری سے فارغ کردیا ہے۔ گارڈ نے دروازے پر ہی خبر دی۔ یونین لیڈر سمیت گیارہ لوگ تھے۔سب کے سروں پر یہ خبر بجلی بن کے گری۔
اتنے میں ان کا سپروائزر منہ لٹکائے باہر آیا۔ سیٹھ نے ہمارا والا سیکشن ہی بند کر دیا ہے۔شاید مجھے بھی نکال دیں کچھ دنوں میں سپروائزر نے مزدوروں سے کہا۔ خیر میں بات کرتا ہوں۔ تم لوگ حوصلہ رکھو۔ سپروائزر نے فل ایکٹنگ کی۔ یونین لیڈر بھانپ گیا
کچھ دال میں کالا ہے۔
ساتھیوں اس کی باتوں میں نہ آنا یہ فیکٹری مالک کی چال لگتی ہے۔ یونین لیڈر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔
ابے چل۔۔۔
تیرے چکر میں سب کی نوکری پر تلوار لٹک گئی تجھے ابھی بھی لیڈری کی پڑی ہے۔ دیکھو بھائیوں نوکری تو سب کی ہی تیل ہو رہی ہے اس کے چکر میں تم لوگ بولو تو میں سیٹھ سے بات کر کے ایک دو بندے رکوالوں گا ۔سپروائزر نے پتہ پھینکا۔
کچھ دیر سناٹا رہا۔
ایک بولا ۔بھائی میں بہت مجبور ہوں، میری بات کر لینا۔ ارے یہ سب سیٹھ کی چال ہے۔ اپنا اتحاد مت توڑو، کچھ دیر کی بات ہے، یہی لوگ نوکری پکی کریں گے ۔یونین لیڈر چلایا۔ کچھ دیر پھر سناٹا رہا۔اس کے بعد دوسرا بولا۔ میری ماں بیمار ہے،
میں اِس وقت بیروزگاری برداشت نہیں کر سکتا. میری بات بھی کر لینا۔
تیسرا میری بات بھی کر لینا
ٹھیک ہے تم لوگ پرسوں آنا فیکٹری۔
یہ کہہ کر سپروائزر نے ان سب کو واپس کر دیا۔
اب مزدوروں میں پھوٹ پڑ چکی تھی۔
سب کو اپنی،اپنی پڑی تھی۔
پہلے ہی دن گیارہ میں سے تین بندے توڑ لئے تھے
سپروائزر ایک ایک دو دو کر کے بندہ توڑ تا رہا
اور ایک ہفتے بعد فیکٹری کے اسی سیکشن میں دوبارہ کام سٹارٹ ہو گیا۔ باقی دس لوگ اپنی عارضی نوکری پر واپس آگئے۔
یونین لیڈر ہوگیا پھر سے
عارضی بے روزگار
سرمایہ دار ایئرپورٹ کے لاؤنج سے نکلا تو باہر
تو اس کا مینجر باہر اس کا انتظار کر رہا تھا۔
آیئے سیٹھ صاحب!
مینیجر نے بیگ اسکے ہاتھ سے لیتے ہیلینڈ کروزر کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
اور مقبول سب ٹھیک چل رہا ہے۔
اُس نے مینیجر سے سوال کیا۔
جی سیٹھ صاحب، اللّه کا شکر ہے،
بس وہ فیکٹری میں ایک یونین لیڈر ٹائپ کا لڑکا آگیا ہے۔
کہتا ہے کہ سال بھر کے بعد پکا کرو کنٹریکٹ پر کام نہیں کروں گا اور دوسرے لڑکوں کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔مینیجر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی روداد سنائی۔
ارے مقبول تمہیں اب یہ بھی میں بتاؤں کہ کیا کرنا ہے اس کا۔ سیٹھ نے ناراضگی سے مینیجر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
مگر سیٹھ صاحب اِس دفعہ تو اُس نے پوری ایک شفٹ اپنے ساتھ ملا لی ہے۔ مینیجر نے جواب دیا۔
کوئی بات نہیں، میں کل فیکٹری آکر خود دیکھتا ہوں۔ کیا کرنا ہے اس کا۔ سیٹھ نے جواب دیا
سیٹھ بہت دولتمند تھا گاڑی، بنگلہ، بینک بیلنس، نوکر چاکر سبھی کچھ تو تھا مگر فیکٹری کے کسی ملازم کو مستقل نہیں رکھتا تھا۔ کنٹریکٹ پر رکھ کے ہی کام چلاتا، ٹیکس کبھی پورا نہیں دیتا، NTN نمبر تو اسے الاٹ ہوا تھا مگر ٹیکس کسی اٹھارویں گریڈ کے افسر سے بھی کم دیتا تھا۔ ایسے ہی تو دس سال میں ایک سے دو فیکٹریاں لگالی تھیں
اُس نے۔ ہاں مگر اپنے مرحومین کی بخشش کے لئے شہر کی کسی مسجد کو دو ڈھائی لاکھ سالانہ چندہ دے دیا کرتا تھا۔
دوسرے دِن فیکٹری پہنچتے ہی سیٹھ نے مینیجر کو بلایا ۔مقبول فیکٹری کے چاروں سپروائزرز کو بلاؤ۔ فیکٹری چھوٹی تھی ہر سپروائزر کے انڈر پچیس، پچیس ہی لوگ تھے۔ سیٹھ نے یونین لیڈر سے نبٹنے کی سب سے ترکیب پوچھی اور لالچ بھی دی کہ جو اس سے چھٹکارا دلوائے گا اُسکی تنخواہ میں بیس ہزار کا اضافہ کرے گا۔ کسی کی کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک سپروائزر بولا میں کر لوں گا۔ بس دس پندره دن کا ٹائم دیں اور فری ہینڈ دے دیں۔
ٹھیک ہے۔
مقبول جیسا یہ کہہ رہا ہے ویسا کر لینا۔ پر یاد رہے۔ دس پندرہ دن سے زیادہ نہ ہو ۔سیٹھ نے مینیجر اور سپروائزر دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
اگلے ہی دن سپروائزر نے یونین لیڈر کو گھیرنے کے لئے اُس سے پینگیں بڑھانا شروع کر دی۔
اور بھئی کیسا کام چل رہا ہے۔
سپروائزر نے یونین لیڈر سے پوچھا
جو کہ نہایت انہماک مشین چلا رها تھا۔
جی اللّه کاشکر ہے سپروائزر صاحب۔یونین لیڈر نے جواب دیا۔
ہاں بھئی تیری بہن کی شادی کب ہے۔ سپروائزر نے پوچھا
بس جی چھ مہینے بعد ہے۔یونین لیڈر نے جواب دیا۔
کوئی پیسے وغیرہ کی ضرورت۔۔؟
سپروائزر نے سوال داغا
ہاں جی پیسے کی ضرورت کسے نہیں ہوتی جب بہن کی شادی بھی سر پر ہو ۔یونین لیڈر نے جواب دیا
سیٹھ صاحب سے کہہ کر دو لاکھ تک دلوادوں گا ۔سپروائزر نے کہا
مگر کن شرائط پر جناب اب یونین لیڈر نے مشین بند کر کے اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ارے کچھ خاص نہیں بس تم خاموش رہو۔ یہ پکا کرنے کا جو تم نے شور مچا رکھا ہے۔ یہ مت کرو . کام کرو . تنخواہ لو . اوور ٹائم لو ۔سب ملے گا مگر پکے کرنے کی بات مت کرو ۔سپروائزر نے کہا۔بھائی یہ غداری ہو گی میرے ساتھیوں کےساتھ اور مجھے یہ منظور نہیں ہر گز منظور نہیں
یونین لیڈر تھوڑا جذباتی ہو گیا یہ کہتے ہوئے۔جیسے تمہاری مرضی۔ فی زمانہ یہ کتابیباتیں نہیں چلتی دنیا بڑی خراب ہے بھیا۔
آخری لفظ پر زور دیکر سپروائزر نے کہا۔
یہ کہہ کر سُپروائزر اپنے راستے ہو لیا اور یونین لیڈر پھر مشین سٹارٹ کر کے اُس پر جُھک گیا۔دوسرے دن صبح میں جیسے ہی یونین لیڈر اور اسکے ساتھی فیکٹری کے دروازے پر پہنچے۔سیکورٹی گارڈ نے فیکٹری میں داخلے سے روک دیا۔ آپ سب کو نوکری سے فارغ کردیا ہے۔ گارڈ نے دروازے پر ہی خبر دی۔ یونین لیڈر سمیت گیارہ لوگ تھے۔سب کے سروں پر یہ خبر بجلی بن کے گری۔
اتنے میں ان کا سپروائزر منہ لٹکائے باہر آیا۔ سیٹھ نے ہمارا والا سیکشن ہی بند کر دیا ہے۔شاید مجھے بھی نکال دیں کچھ دنوں میں سپروائزر نے مزدوروں سے کہا۔ خیر میں بات کرتا ہوں۔ تم لوگ حوصلہ رکھو۔ سپروائزر نے فل ایکٹنگ کی۔ یونین لیڈر بھانپ گیا
کچھ دال میں کالا ہے۔
ساتھیوں اس کی باتوں میں نہ آنا یہ فیکٹری مالک کی چال لگتی ہے۔ یونین لیڈر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔
ابے چل۔۔۔
تیرے چکر میں سب کی نوکری پر تلوار لٹک گئی تجھے ابھی بھی لیڈری کی پڑی ہے۔ دیکھو بھائیوں نوکری تو سب کی ہی تیل ہو رہی ہے اس کے چکر میں تم لوگ بولو تو میں سیٹھ سے بات کر کے ایک دو بندے رکوالوں گا ۔سپروائزر نے پتہ پھینکا۔
کچھ دیر سناٹا رہا۔
ایک بولا ۔بھائی میں بہت مجبور ہوں، میری بات کر لینا۔ ارے یہ سب سیٹھ کی چال ہے۔ اپنا اتحاد مت توڑو، کچھ دیر کی بات ہے، یہی لوگ نوکری پکی کریں گے ۔یونین لیڈر چلایا۔ کچھ دیر پھر سناٹا رہا۔اس کے بعد دوسرا بولا۔ میری ماں بیمار ہے،
میں اِس وقت بیروزگاری برداشت نہیں کر سکتا. میری بات بھی کر لینا۔
تیسرا میری بات بھی کر لینا
ٹھیک ہے تم لوگ پرسوں آنا فیکٹری۔
یہ کہہ کر سپروائزر نے ان سب کو واپس کر دیا۔
اب مزدوروں میں پھوٹ پڑ چکی تھی۔
سب کو اپنی،اپنی پڑی تھی۔
پہلے ہی دن گیارہ میں سے تین بندے توڑ لئے تھے
سپروائزر ایک ایک دو دو کر کے بندہ توڑ تا رہا
اور ایک ہفتے بعد فیکٹری کے اسی سیکشن میں دوبارہ کام سٹارٹ ہو گیا۔ باقی دس لوگ اپنی عارضی نوکری پر واپس آگئے۔
یونین لیڈر ہوگیا پھر سے
عارضی بے روزگار
سرمایہ دار ایئرپورٹ کے لاؤنج سے نکلا تو باہر
تو اس کا مینجر باہر اس کا انتظار کر رہا تھا۔
آیئے سیٹھ صاحب!
مینیجر نے بیگ اسکے ہاتھ سے لیتے ہیلینڈ کروزر کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
اور مقبول سب ٹھیک چل رہا ہے۔
اُس نے مینیجر سے سوال کیا۔
جی سیٹھ صاحب، اللّه کا شکر ہے،
بس وہ فیکٹری میں ایک یونین لیڈر ٹائپ کا لڑکا آگیا ہے۔
کہتا ہے کہ سال بھر کے بعد پکا کرو کنٹریکٹ پر کام نہیں کروں گا اور دوسرے لڑکوں کو بھی ساتھ ملا لیا ہے۔مینیجر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی روداد سنائی۔
ارے مقبول تمہیں اب یہ بھی میں بتاؤں کہ کیا کرنا ہے اس کا۔ سیٹھ نے ناراضگی سے مینیجر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
مگر سیٹھ صاحب اِس دفعہ تو اُس نے پوری ایک شفٹ اپنے ساتھ ملا لی ہے۔ مینیجر نے جواب دیا۔
کوئی بات نہیں، میں کل فیکٹری آکر خود دیکھتا ہوں۔ کیا کرنا ہے اس کا۔ سیٹھ نے جواب دیا
سیٹھ بہت دولتمند تھا گاڑی، بنگلہ، بینک بیلنس، نوکر چاکر سبھی کچھ تو تھا مگر فیکٹری کے کسی ملازم کو مستقل نہیں رکھتا تھا۔ کنٹریکٹ پر رکھ کے ہی کام چلاتا، ٹیکس کبھی پورا نہیں دیتا، NTN نمبر تو اسے الاٹ ہوا تھا مگر ٹیکس کسی اٹھارویں گریڈ کے افسر سے بھی کم دیتا تھا۔ ایسے ہی تو دس سال میں ایک سے دو فیکٹریاں لگالی تھیں
اُس نے۔ ہاں مگر اپنے مرحومین کی بخشش کے لئے شہر کی کسی مسجد کو دو ڈھائی لاکھ سالانہ چندہ دے دیا کرتا تھا۔
دوسرے دِن فیکٹری پہنچتے ہی سیٹھ نے مینیجر کو بلایا ۔مقبول فیکٹری کے چاروں سپروائزرز کو بلاؤ۔ فیکٹری چھوٹی تھی ہر سپروائزر کے انڈر پچیس، پچیس ہی لوگ تھے۔ سیٹھ نے یونین لیڈر سے نبٹنے کی سب سے ترکیب پوچھی اور لالچ بھی دی کہ جو اس سے چھٹکارا دلوائے گا اُسکی تنخواہ میں بیس ہزار کا اضافہ کرے گا۔ کسی کی کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک سپروائزر بولا میں کر لوں گا۔ بس دس پندره دن کا ٹائم دیں اور فری ہینڈ دے دیں۔
ٹھیک ہے۔
مقبول جیسا یہ کہہ رہا ہے ویسا کر لینا۔ پر یاد رہے۔ دس پندرہ دن سے زیادہ نہ ہو ۔سیٹھ نے مینیجر اور سپروائزر دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
اگلے ہی دن سپروائزر نے یونین لیڈر کو گھیرنے کے لئے اُس سے پینگیں بڑھانا شروع کر دی۔
اور بھئی کیسا کام چل رہا ہے۔
سپروائزر نے یونین لیڈر سے پوچھا
جو کہ نہایت انہماک مشین چلا رها تھا۔
جی اللّه کاشکر ہے سپروائزر صاحب۔یونین لیڈر نے جواب دیا۔
ہاں بھئی تیری بہن کی شادی کب ہے۔ سپروائزر نے پوچھا
بس جی چھ مہینے بعد ہے۔یونین لیڈر نے جواب دیا۔
کوئی پیسے وغیرہ کی ضرورت۔۔؟
سپروائزر نے سوال داغا
ہاں جی پیسے کی ضرورت کسے نہیں ہوتی جب بہن کی شادی بھی سر پر ہو ۔یونین لیڈر نے جواب دیا
سیٹھ صاحب سے کہہ کر دو لاکھ تک دلوادوں گا ۔سپروائزر نے کہا
مگر کن شرائط پر جناب اب یونین لیڈر نے مشین بند کر کے اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ارے کچھ خاص نہیں بس تم خاموش رہو۔ یہ پکا کرنے کا جو تم نے شور مچا رکھا ہے۔ یہ مت کرو . کام کرو . تنخواہ لو . اوور ٹائم لو ۔سب ملے گا مگر پکے کرنے کی بات مت کرو ۔سپروائزر نے کہا۔بھائی یہ غداری ہو گی میرے ساتھیوں کےساتھ اور مجھے یہ منظور نہیں ہر گز منظور نہیں
یونین لیڈر تھوڑا جذباتی ہو گیا یہ کہتے ہوئے۔جیسے تمہاری مرضی۔ فی زمانہ یہ کتابیباتیں نہیں چلتی دنیا بڑی خراب ہے بھیا۔
آخری لفظ پر زور دیکر سپروائزر نے کہا۔
یہ کہہ کر سُپروائزر اپنے راستے ہو لیا اور یونین لیڈر پھر مشین سٹارٹ کر کے اُس پر جُھک گیا۔دوسرے دن صبح میں جیسے ہی یونین لیڈر اور اسکے ساتھی فیکٹری کے دروازے پر پہنچے۔سیکورٹی گارڈ نے فیکٹری میں داخلے سے روک دیا۔ آپ سب کو نوکری سے فارغ کردیا ہے۔ گارڈ نے دروازے پر ہی خبر دی۔ یونین لیڈر سمیت گیارہ لوگ تھے۔سب کے سروں پر یہ خبر بجلی بن کے گری۔
اتنے میں ان کا سپروائزر منہ لٹکائے باہر آیا۔ سیٹھ نے ہمارا والا سیکشن ہی بند کر دیا ہے۔شاید مجھے بھی نکال دیں کچھ دنوں میں سپروائزر نے مزدوروں سے کہا۔ خیر میں بات کرتا ہوں۔ تم لوگ حوصلہ رکھو۔ سپروائزر نے فل ایکٹنگ کی۔ یونین لیڈر بھانپ گیا
کچھ دال میں کالا ہے۔
ساتھیوں اس کی باتوں میں نہ آنا یہ فیکٹری مالک کی چال لگتی ہے۔ یونین لیڈر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا۔
ابے چل۔۔۔
تیرے چکر میں سب کی نوکری پر تلوار لٹک گئی تجھے ابھی بھی لیڈری کی پڑی ہے۔ دیکھو بھائیوں نوکری تو سب کی ہی تیل ہو رہی ہے اس کے چکر میں تم لوگ بولو تو میں سیٹھ سے بات کر کے ایک دو بندے رکوالوں گا ۔سپروائزر نے پتہ پھینکا۔
کچھ دیر سناٹا رہا۔
ایک بولا ۔بھائی میں بہت مجبور ہوں، میری بات کر لینا۔ ارے یہ سب سیٹھ کی چال ہے۔ اپنا اتحاد مت توڑو، کچھ دیر کی بات ہے، یہی لوگ نوکری پکی کریں گے ۔یونین لیڈر چلایا۔ کچھ دیر پھر سناٹا رہا۔اس کے بعد دوسرا بولا۔ میری ماں بیمار ہے،
میں اِس وقت بیروزگاری برداشت نہیں کر سکتا. میری بات بھی کر لینا۔
تیسرا میری بات بھی کر لینا
ٹھیک ہے تم لوگ پرسوں آنا فیکٹری۔
یہ کہہ کر سپروائزر نے ان سب کو واپس کر دیا۔
اب مزدوروں میں پھوٹ پڑ چکی تھی۔
سب کو اپنی،اپنی پڑی تھی۔
پہلے ہی دن گیارہ میں سے تین بندے توڑ لئے تھے
سپروائزر ایک ایک دو دو کر کے بندہ توڑ تا رہا
اور ایک ہفتے بعد فیکٹری کے اسی سیکشن میں دوبارہ کام سٹارٹ ہو گیا۔ باقی دس لوگ اپنی عارضی نوکری پر واپس آگئے۔
یونین لیڈر ہوگیا پھر سے
عارضی بے روزگار