بھی کل ہی کی بات ہے کہ ہماری بیگم صاحبہ نماز کے بعد رونے لگیں۔۔حسب معمول ہم سے ان کی حالت دیکھی نہ گئی۔۔
ہم نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگیں آپ کو یاد ہے گزشتہ سال ہم لوگ حرم شریف میں تھے۔۔ہم نےتقریباً پورا رمضان۔۔اور بالخصوص آخری عشرہ وہیں گزاراتھا۔۔اور عید بھی مکہ مکرمہ میں کی تھی۔۔بعد ازاں مدینہ شریف بھی گئے تھے۔۔ہمارا بیٹا خالد بھی اپنی فیملی کے ساتھ ریاض سے آگیا تھا۔ ہم سب نے ملکر کیسے کیسے انوار و برکات سمیٹے تھے۔۔ہم نے تصدیق کی تو بولیں۔اس وقت کیسی رونقیں تھیں۔۔مگر اب TV پر مکہ مدینہ کے چینل مباشر دیکھتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتاہے۔ کیسی خاموشی۔۔سناٹا۔۔اور ویرانی سی محسوس ہوتی ہے۔۔پتہ نہی ہم گناہگاروں سے کیا بھول ہوئی کہ ہمارا رب ہم سے روٹھ گیا۔
اس نے ہم پر اپنی مسجدوں اور حرمین شریفین کے دروازے بند کردیئے ہیں۔۔نمازیں۔۔تراویح اور زیارتیں سب کچھ بند ہے۔۔عمرہ اور طواف بھی بند ہے۔۔۔
ایسا لگتا ہے کہ گردش ایام ٹھہر گئی ہے۔۔ہر چیز ساکن ہے۔۔ہم سب اس روحانی لذت سے محروم کردیئے گئے ہیں۔۔جو ان مقامات مقدسہ کا حاصل تھی۔۔
مسجدوں کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔۔قرآت قرآن کی مدھر آوازیں کہیں کھو سی گئی ہیں۔لوگ گھرون میں محصور ہیں۔۔پوری امت مسلمہ دیگر اقوام عالم کے ساتھ گھروں میں بند کردی گئی ہے
دیگر اقوام کا معاملہ تو اور ہے لیکن ہم مسلمان تو رمضان سے پہلے ہی اعتکاف میں بٹھادئیے گئے ہیں۔۔کہ پہلے اپنے نفس کا جائزہ لو۔۔اپنے اعمال درست کرو۔۔اپنے دلوں کو تمام باطل خداوں سے پاک کرو۔۔خلق خدا کا خیال کرو۔۔
ظلم اور ناانصافی کے فرسودہ نظام سے دنیا جہنم بن چکی ہے۔۔اب معافی تب ہی ملے گی جب ہر شخص انفرادی اور ہر قوم اجتماعی طور پر ۔ قوم یونس ع کی طرح توبہ و استغفار نہی کرتی۔۔
ابھی بھی وقت اور مہلت عمل ہے کہ روٹھے رب کو منالیں۔۔۔تاکہ یہ عزاب خداوندی جو انتہائ حقیر سی شے کرونہ کی شکل میں ہم پر مسلط ہے۔۔اس سے نجات مل سکے۔۔
اللہ ہر شے پر قادر ہے۔۔علٰی کل شیئی قدیر ہے۔۔کن فیکون ہے۔۔اس نے نمرود کو ایک مچھر سے مروادیا۔۔ابرھہ کے ہاتھیوں کےلشکر کو ننھی منی ابابیلوں اور کنکریوں سے ہلاک کردیا۔۔اور اب یہ کرونہ وائرس ہم پر مسلط ہے۔۔
آپ دیکھیں گے کہ جن ممالک نے ظلم کی انتہا کردی تھی۔۔خصوصاً مسلمانوں کی زندگیاں عذاب بنادی تھیں۔۔ان سب کو اللہ کی پکڑ نے آگھیرا۔۔
برما کے دربدر مسلمان ہوں۔۔یا چین کے مظلوم یغور ہوں۔۔شام میں نبیوں کی اولادیں ہوں یا فلسطین کے محصور اور مجبور مسلمان۔۔یا یمن کے بیکس و بے امان مسلمان ہوں۔۔
افغانستان کے شہیدوں اور کشمیر کی ماوں بہنوں کی آہوں نے اللہ رب العزت کے عرش کو ہلادیا۔۔
یہان تک کہ اٹلی کے وزیر اعظم نے روتے ہوئے کہا کہ انسان کے بس میں جو کچھ تھا ہم نے کرلیا اب معملہ اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کہ ہم پر رحم کردے۔۔
مجبوراً جن ملکوں نے قرآن جلائے تھے وہ خود مسلمانوں کو قرآن بانٹتے نظر آئے۔۔جنھوں نے مسجدوں پر اور نمازوں پر پابندی لگائ تھی وہ خود مسلمانوں سے کندھے سے کندھے ملائے نماز میں کھڑے نظر آئے۔۔جہاں ازانیں بند کی گئی تھیں وہ شہر اور سڑکیں ازانوں سے گونجتی سنائ دیں۔۔۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ برطانیہ میں پہلی مرتبہ لاوڈاسپیکر پر اذان کی اجازت دی گئی اور ہزاروں لوگوں نے حیرت اور خوشی سے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا۔اور جو پردے اور اسکارف پر جرمانے لگارہے تھے وہ اب ماسک اور گاون نہ پہننے پر جرمانے لگارہے ہین۔۔
واہ میرے رب۔۔تیری کیا شان ہے۔۔اور تیری ہی چال سب پر غالب ہے۔۔اب کفار کا یہ حال ہے کہ ہزاروں بے گور وکفن لاشیں اجتماعی قبروں میں دفن کرنے پر مجبور ہیں۔۔لوگ سڑکوں پر ایڑیان رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں مگر کوئ پرسان حال نہی۔۔۔اسپتال اور میت خانے بھر چکے ہیں۔۔ڈھائ لاکھ مرچکے ہیں اور 35 لاکھ سے زائد بیمار ہیں۔۔اور اربوں گھروں میں قید۔۔۔
نفسانفسی کا عالم ہے۔۔ایک دوسرے سے ملنا چھوٹ چکا یے۔۔کاروبار زندگی ٹھپ ہے۔۔عالمی کساد بازاری اور معیشت کی تباہی جاری ہے۔۔کروڑوں بے روزگار ہوچکے ہیں۔۔اور پوری دنیا پر ایک خوفناک جمود طاری ہے۔۔۔
یہ تو تھا حال کفار اور باقی دنیا کا۔۔لیکن ہم مسلمانوں کی پکڑ بھی کچھ کم نہی ہے۔۔کیونکہ یم بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ ان سارے مظالم میں شریک رہے ہیں۔۔
ہم نے بھی مظلومون کے بجائے اس ظالم سماج اور زمینی خداوں کا ہی ساتھ دیا ہے۔۔یہی وجہ ہے کہ ہم بھی گھروں میں قید ہیں۔۔
معاشی تباہی۔۔بھوک افلاس اور بے روزگاری کا مہیب افریت منہ کھولے چلا آرہا ہے۔۔
ہماری مسجدیں۔۔حرمین شریفین بھی ویران ہیں
ایک ہو حق کا عالم ہے۔۔۔۔۔بس رہے نام اللہ کا۔۔۔
بے شک آقا ص۔۔۔۔ہم سے بھول ہوئی ہے۔۔۔
چھوڑ کے تیرا دامن رحمت
آقا ہم سے بھول ہوئی
کھو گئی اپنی قدر وقیمت
آقا ہم سے بھول ہوئی
پوری دنیا کے ٹھکرائے ہوئے ییں۔
آقا تیرے در پر آئے ہوئے ہیں
کھول دو اپنا باب رحمت
آقا ہم سے بھول ہوئی
کوئ علم و عمل کا رشتہ ٹوٹا
آقا جب سے تیرا دامن چھوٹا
فرقہ فرقہ ہوگئی امت
آقا ہم سے بھول ہوئی
کوئ حد سے گزری ہے نادانی
آقا تیری کوئ بات نہ مانی
گھیرے ہوئے ہیں نفرت و ذلت
آقا ہم سے بھول ہوئی
دیکھو ہماری آنکھ مچولی
اپنا سینہ اپنی گولی
بھول گئے ہم درس اخوت
آقا ہم سے بھول ہوئی
بن گئے سیم و زر کے بندے
تن کے اجلے من کے گندے
چھن گئی ہم سے فقر کی دولت
آقا ہم سے بھول ہوئی
درس قرآن بھول گئے ہم
آقا تیرا فرمان بھول گئے ہم
لی ڈوبی ہمین مال کی کثرت
آقا ہم سے بھول ہوئی
آقا کون کرے ان سب کا مداوا
آقا ہمین ہے تیرا سہارا
کھول دو اپنا باب رحمت
آقا ہم سے بھول ہوئی