ایک تو دیہات اوروہ بھی شہر سے بہت دور اور دیہات بھی اتنا چھوٹا کہ صرف پندرہ بیس گھرانے پر مشتمل بستی اور اُوپر سے لاک ڈاؤن۔
لاک ڈاؤن سے پہلے تو خدابخش کی اچھی آمدنی ہو جایا کرتی تھی۔ 150 کبھی 200 روپے کے اُس کے لکڑی کے بنے ہوئے کھلونے بک جایا کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے سبب گاڑیوں کی آمدورفت کم ہوئی تو اُس کی آمدنی پر بھی بہت فرق پڑا۔ خدابخش ہنر مند ہے۔ لکڑی سے بچوں کے کھلونے بناتا ہے۔ جو کہ نبی سر موڑ سے گزرنے والی گاڑیاں اکثر خرید لیا کرتی تھی۔
مگر اب خدابخش کے گھر میں بھوک کے ڈیرے ہیں۔ خدابخش پندرہ سے پانچ سال تک کے پانچ بچوں کا باپ ہے۔ اور اُس کی بیوی روبینہ اُمید سے ہے۔ لاک ڈاؤن سے قبل اس خاندان کااچھا گزارہ ہو جایا کرتا تھا۔ جو بھی خدابخش روز کمایا کرتا اس سےسب لوگ بھر پیٹ کھانا کھا کرہی سوتے تھے۔
خدا بخش بہت پریشان رہنے لگا تھا۔ جیسے جیسے لاک ڈاؤن بڑھتا جارہا تھا اس کی جمع پونجی جو کہ پہلے بھی کچھ خاص نہیں تھی صرف چند سو روپے پر مشتمل تھی وہ بھی ختم ہوتی جارہی تھی۔
ابا مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ اور باقی بہن بھائی بھی صبح سے بھوکے ہیں۔ کچھ کرو ابا . . .
بڑ ے بیٹے نے آکر خدابخش سے کہا
یہ پچاس روپے لے جا اور کچھ آٹا لے آ جا کر
جیب سے تڑا مڑا پچاس کا نوٹ نکال کر خدابخش نے بڑے بیٹے کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔
بیٹا خوشی خوشی پیسے لے کر چلا گیا اور آٹا لے آیا۔ سب کے حصے میں دو دو ڈھائی دھائی روٹی آئی۔
جو ان لوگوں نے پانی سے صبر شکر کرکے کھا لی۔
بچے کھانا کھا کر سو گئے۔ روبینہ اور خدابخش کافی دیر تک جاگتے رہے۔ دونوں آنے والے حالات کی سنگینی کا سوچ سوچ کر پریشان ہوتے رہے۔
خدابخش پریشان ہو رہا تھا کہ اِسی طرح چلتا رہا تو یہ تو تین چار دن میں سارے پیسے ختم ہو جائیں گے۔
روبینہ بھی بچوں کی بھوک سے پریشان تھی۔ کیونکہ بچوں کو دن میں صرف ایک ہی دفعہ کھانا مل پا رہا تھا اور وہ بھی پورا نہیں۔ اِسی اُدھیڑ بُن میں دونوں کی آنکھ لگ گئی اور وہ بھی سو گئے۔
دوسری صبح
پھر اُسی طرح دِن کا آغاز ہوا
بچے باری باری آکر ماں اور باپ سے کھانے کا کہتے
اور وہ انہیں ٹال دیتے۔
سب سے بڑا بیٹا اور اسکے بعد والی بیٹی سمجھ گئی تھی کہ اب ابا کے پاس پیسے ختم ہو رہے ہیں وہ زیادہ تنگ نہیں کرتے تھے ماں باپ کو کھانے کے لئے۔ مگر جو دوسرے چھوٹے بچے تھے انہیں کون سمجائے۔ ماں انہیں کھیل میں مصروف رکھنے کی کوشش تو کرتی مگر خالی پیٹ کوئی کھیل اچھا نہیں لگتا ہے۔
اُدھر بھوک اور پریشانی کے سبب روبینہ کے مزاج میں بھی چڑچڑ ا پن آتا جا رہا تھا. صبح سے شام ہوئی تو بچے مرجھائے ہوئے پھولوں کی طرح ہو کر رہ گئے۔
آج چالیس روپے کا آٹا خدا بخش خود خرید کر لایا پھر وہی سب کے حصے میں تھوڑی بہت جو روٹی آئی صبر شکر کر کے کھانے لگے۔
اماں مجھے اور بھوک لگی ہے۔
دوسرے نمبر کی بیٹی نے روبینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
بیٹی سب کے پاس اتنی ہی روٹی ہے
پانی پی اور صبر کر کے سو جا
روبینہ کے بجاۓ خدا بخش نے جواب دیا۔
مگر روبینہ نے اپنی دو میں سے ایک روٹی اٹھا کے بیٹی کو دے دی۔ خدا بخش کچھ نہ بولا۔
نقاہت کے مارے بچوں کے پیٹ میں جب اناج کا دانہ پورے دن کے بعد گیا تو اُنہیں جلدی نیند آگئی۔
روبینہ بھی انکھ بند کر کے لیٹ گئی۔ سوئی وه بھی نہیں اور نیند خدا بخش کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
وہ سوچوں میں غلطاں تھا کہ اب کیا کرے گا یہ بیماری کب ختم ہوگی لاک ڈاؤن کب ختم ہو گا۔
کب سے اس کی پہلے جیسی بِکری شروع ہو گی۔ اِسی دُوران اسکی آنکھ لگ گئی۔
روبینہ بھی سوچ رہی تھی یہ بیماری جلد از جلد ختم ہو تاکہ مہینے کے بعد ان کا جو نیا مہمان آنے والا ہے اُس کے کھانے اور دودھ کا بندوبست ہو سکے.
نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے اور بھوک کی سولی پر لٹکی روبینہ کو بھی آگئی۔
تیسری صبح
پھر دن کا آغاز ویسے ہی ہوا۔ آج بچے کھیلنے کودنے کے لئےبھی زیادہ نہیں باہر نکلے۔ ماں باپ سے جب کھانے کا تقاضا کرتے تو وہ انہیں شام تک صبر کی تلقین کر دیتے۔
آج بھی خدا بخش خود ہی جا کر صرف تیس روپے کا آٹا لےکر آسکا۔ پیسے جو ختم ہو رہے تھے۔
بچے کھانا کھانے لگے تو آج دس سال کے بیٹے نے کہا۔ ماں مجھے آج بھوک زیادہ ہے۔
اور آج بھی روبینہ نے خاموشی سے اپنی ڈیڑھ روٹی میں سے آدھی روٹی اسے دے دی۔
آج جب کھانا کھا کر بچے سو گئے
تو خدا بخش نے روبینہ سے کہا
تو روز اپنی روٹی بچوں میں بانٹ رہی ہے
یہ ٹھیک نہیں
تو کیا کروں مجھ سے بچوں کی بھوک نہیں دیکھی جاتی . روبینہ نے نقاہت آمیز لہجے میں جواب دیا
مگر تجھے کچھ ہوگیا تو __خدا بخش نے کہا
کچھ نہیں ہوتا مجھے بھوک برداشت کر سکتی ہوں میں تو __روبینہ نے جواب دیا۔ اور سو گئی
خدا بخش آج بھی اپنے خیالوں میں غلطاں تھا۔
وہ سوچ رہا تھا اُسکی بستی میں بھوک کے ڈیرے ہیں مگر یہاں تو راشن نہیں بٹ رہا جیسے اس نے موڑ والے ہوٹل میں لگے ٹی وی پر بٹتا دیکھا تھا۔
اور نہ ہی پیسے تقسیم ہوئے۔ اس نے خود ہی سوچا شاید وہ لوگ زیادہ ضرورت مند ہوں گے اور یہ سوچتے سوچتے اُسے بھی نیند آگئی۔
چوتھی صبح
دن کا آغاز اچھا نہ تھا سب ہی نقاہت کے مارے تھے۔ بولنے میں بھی زور لگانا پڑ رہا تھا۔ آج اسی لئے بچے بالکل بھی لڑ نہیں رہے تھے۔ خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔
آج جب خدا بخش نے اپنی پوٹلی ٹٹولی تو اس میں بمشکل سولہ روپے نکل پاۓ۔ بڑے لڑکے کو بھیجا۔ کہ کچھ کھانے کو لے آ. . .
سولہ روپے میں آٹا تو کیا آتا
وہ بسکٹ لے آیا۔
سب کے حصے میں ایک ایک دو دو بسکٹ آئے…
آج خدا بخش نے بھی ایک ہی بسکٹ کھایا اور روبینہ نے بھی۔
دونوں نے اپنااپناحصہ بچوں میں بانٹ دیا۔
سرِ شام ہی سب سونے لیٹ گئے۔ آج سب ہی زیادہ نڈھال تھے۔ خدا بخش لیٹے لیٹے سوچنے لگا۔
یہ آزمائش کب ختم ہو گی۔
کب بچوں کو بھر پیٹ کھانا ملے گا۔
پھر خود ہی منصوبہ بنانے لگا کہ وہ اپنے کھلونے لیکر اگر جھڈو شہر چلا جائے تو شاید کوئی
انہیں خرید لے.
“جھڈو شہر نبی سر موڑ سے پانچ سات کلومیٹر دورہے”
ابھی یہ سوچتے سوچتے اسکی آنکھ لگی ہی تھی کہ اسے روبینہ کے کراہنے کی آواز محسوس ہوئی۔
اس نے روبینہ سے پوچھنے کی کوشش کی کہ اُسے کیا ہوا ہے
مگر وہ نقاہت، درد اور تکلیف کے باعث بول بھی نہ پا رہی تھی۔
اس نے لڑکے کو اٹھایا ۔ باقی بچے بھی اُٹھ گئے۔
اب اسپتال لے کر جانا ایک مسئلہ تھا۔
اُن کی بستی میں ٹیلے کے پیچھے جو گھر بنے تھے۔ وہاں ایک کے پاس پرانی سوزوکی پک اپ تھی۔ وه بھی اکثر خراب ہی رہتی تھی۔
بڑا لڑکا گیا اُنکے پاس جا کر اُنکی منت سماجت کی۔ گاڑی اسٹارٹ نہ ہوئی تو دھکا بھی لگایا۔ بڑی مشکل سے گاڑی آئی تعلقہ اسپتال جھڈو جو پانچ چھ کلو میٹر ہی دور تھا۔ وہاں لیکر پہنچے۔
ایک ڈاکٹر نما کمپاؤنڈر موجود تھا۔
اُس نے روبینہ کو دیکھا
جو اب تک بالکل بے سدھ ہوچکی تھی۔
کب سے بیمار ہے یہ __خدا بخش کی جانب دیکھ کر اس نے سوال داغا
سائیں آج ہی طبعیت خراب ہوئی ہے ابھی رات میں ہی __ خدا بخش نے جواب دیا۔
اچھا، تم لوگ اِدھر ہی رُکو
اور وہ اسٹر یچر کو لے کر اندر چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد ایک باقاعدہ ڈاکٹر کمرے سے بر آمد ہوا۔
بابا، اِسے کیا بیماری تھی کب سے تھی۔
کوئی علاج کرایا تھا اِس کا۔
ڈاکٹر نے یکے بہ دیگرے تین سوال داغ دیئے۔
سائیں کوئی خاص بیماری نہیں تھی، پیٹ سے تھی۔۔۔بس . . . خدا بخش نے جواب دیا۔
سائیں ابھی تو ٹھیک ہے نا۔
خدا بخش نےڈاکٹر سے پوچھا۔
ڈاکٹر تھوڑی دیر خاموش رہا
اور پھر آہستہ سےبولا
اُسکا تھوڑی دیر پہلے اِنتقال ہو گیا ہے۔
یہ سنتے ہی خدا بخش گر گیا۔
لڑکے نے بمشکل تمام سہارا دے کر باپ کو کھڑا کیا۔
اِسی اثناء میں وہ کمپاؤنڈر بھی اندر سے باہر آگیا۔ اب ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر آپس میں بات کر نے لگے۔
کرونا والی تو نشانیاں کوئی نہیں۔
میں نے پوچھ بھی لیا اور کوئی خاص بیماری بھی نہیں تھی۔ ڈیلیوری میں بھی ٹائم تھا۔
پھر کیا ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر نے سوچتے ہوئے کمپاؤنڈر سے کہا۔
سائیں وڈا۔۔۔
بھوک
اور خدا بخش رونے لگا . . .
ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر دُونوں یہ سن کر سناٹے میں آ گئے۔
ڈاکٹر کمپاؤنڈر اور اسپتال کے عملے نے مل ملا کے انہیں کچھ پیسے دیئے تاکہ تجہیز و تكفین کا کچھ انتظام ہو سکے۔ اور اِس سانحے کی ضلعی انتظامیہ کو بھی اطلاع کر دی۔
صبح میں خدا بخش اور بستی کے دیگر لوگ تجہیز و تكفین سے فراغت پا کر بیٹھے ہی تھے کہ اسسٹنٹ کمیشنر آپہنچا۔
آکر تعزیت کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے پیسے بھی دیئے۔ اور بہت سارا اناج اور دودھ بھی دیا اور دیگر فلاحی تنظیمیں بھی آگئیں جنہوں نے پورے علاقے میں سامان بانٹا۔
مگر خدا بخش زیادہ بولا نہیں۔ دو بوری گندم کی لیکر علاقے کا زمیندار بھی آگیا۔
کمشنر اور زمیندار شکوہ کرنے لگے کہ ہمیں بتایا کیوں نہیں۔
اُس نے بس اتنا ہی کہا
سائیں ہنر مند ہوں، جوگی نہیں کہ در در جا کے مانگوں۔
تینوں چھوٹے بچوں کو بھر پیٹ کھانا مِلا تو وہ پھر سے کھِل اُٹھے۔ کھیلنے کودنے لگے۔ بڑا لڑکا اور بڑی لڑکی کو ہی بس احساس تھا کہ کیا قیامت گزرگئی ہے۔ وہ ویسے ہی مُرجھائے ہو ئے تھے۔
جب رات ہوئی تو آج ان کے گھر کا ایک فرد کم تھا۔ سونے کے لئے لیٹے تو
بچوں نے ماں کو یاد کرنا شروع کیا۔
چوتھے نمبر کی آٹھ سالہ بیٹی نے سوال کیا
اماں کہاں ہے۔ ابا
بیٹی وہ اللّه سائیں کے پاس چلی گئی۔ جنت میں
خدا بخش نے بمشکل جواب دیا۔
وہاں اسکے پاس کھانا ہوگا۔ بیٹی نے پھر سوال کیا
ہاں بیٹی وہاں بہت کھانا ہوگا اُس کے پاس
خدا بخش نے جواب دیا۔
بیٹی پھر بولی
ابا پھر تو اُسے واپس بلا لے
اب اُسے جنت جانے کی ضرورت نہیں
اب ہمارے پاس بھی بہت کھانا ہے۔