
حدیث نبوی ہے کہ: ایک عالم کا رات بھر سونا ایک کم علم شخص کی رات بھر کی عبادت سے افضل ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی بھر میں تمام مکاتب فکر علماءکو عزت و تکریم اور قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور دیکھنا بھی چاہیے کیونکہ یہی وہ افراد امت ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے اچھائی اور بھلائی اور دین کی ترویج و اشاعت کے لیے غوطہ زن رہتے ہیں اور ختم نبوت کے بعد دعوت و تبلیغ کی مسند پر فائز ہیں۔لیکن کیا ہوا کہ چند روز قبل مولانا طارق جمیل کی وزیر اعظم عمران خان کے حق میں کروائی جانے والی دعا کو میڈیا کی طرف سے متنازع قرار دینے کے بعد شور وغوغا برپا کر دیا گیا۔اور مولانا کی شخصیت پر سوال اٹھا دیئے گئے جس کے نتیجہ میں مولانا کو ایک ٹاک شو میں سینئیر صحافیوں کے سامنے آکر معافی مانگنی پڑی اور اس معافی کا مانگنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک عجیب گھمسان کارن پڑ گیا اور ٹویٹر ، انسٹاگرام اور فیس بک ٹرینڈ مولانا کے معافی مانگنے پر میڈیا پر سنز مغلظات اور لعنتیں برسانے لگا۔اس موجودہ ٹرینڈ پر بات کرنے سے قبل ماضی کے دریچے میں جھانکنا چاہوں گا۔جب ایک وقت تھا ،پی ٹی وی کے علاوہ کوئی چینل نہیں ہوا کرتا تھا،ان دنوں مولانا نے ٹی وی کا رخ نہیں کیا تھا۔اور تب آپ سے عقیدت اور محبت کرنے والے مولانا کا بیان ٹیپ ریکارڈر سے آڈیو کیسٹ کے ذریعے محفوظ کر لیتے جو ان دنوں کا ٹرینڈ بھی تھا،اورپھر اس بیان کو ملک کے طول و ارض میں بھی سنا جاتا۔اس طرح آپ کے نیازمندوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔مولانا طارق جمیل ان دنوں تصویر کھچوانے کے بھی سخت خلاف تھے۔پھر مشرف دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا تو تب بھی مولانا نے ٹی وی پر آنا مناسب نہ سمجھا۔لیکن پانچ سال قبل انھوں نے اپنے بیان ٹی وی چینلز کے لیے کھول دیئے۔اور بلا معاوضہ اپنے پروگرامز کی ریکارڈنگز نشر کرنے کی اجازت دے دی،اور مولانا کے اس قدم نے روایتی عالم دین کے مقابلے میں ایک بلند پایہ عالم کی قدر میں اضافہ کر دیا۔جو کہ شہرت اور پیسے کی خاطر چینلز پر سفارشوں کے ذریعے پروگراموں کی زینت بنتے رہے،اور پھر ہر چینل فخر کے ساتھ رمضان میں پرائم ٹائم کے دوران مولانا طارق جمیل کے بیان کے دوران یہ پٹی بھی چلاتا کہ یہ پروگرام مولانا کی طرف سے بلا معاوضہ نشر کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔آیات اوراحادیث کی روشنی میں ابلاغی چاشنی اورشعلہ بیانی کے ساتھ ساتھ پیسے سے بے رغبتی اور دینی خدمت کے جذبہ کے اس منفرد قدم نے مولانا کی فین فالوونگ میں بے انتہا اضافہ ہوتا چلا گیا،اور یہاں تک کے تمام فرقوں کے لوگوں کے لیے مولانا پسندیدہ شخصیت بننے لگے۔اس کی بنیادی وجہ مولانا کا گروہ فرقہ بندی ،منافرت اور اشتیال سے ہٹ کر صرف انسانی معاشرتی معاملات اور ذمہ داریوں کو اپنا موضوع بنانا تھا۔فین فالوونگ کا تو یہ عالم تھا اولڈ جنریشن مولانا سے تو واقف تھی لیکن نیو جنریشن میڈیا کی بدولت مولانا کی تیزی سے ڈائی ہارٹ فین بن گئی،اور یقینا ابھی تک بہت سی نو جوان نسل کو پاکستانی تبلیغی مرکز کے مرکزی رہنما و بزرگ مرحوم مولانا عبدالوہاب و دیگر کا علم ہی نہیں،اور وہ علما ءطارق جمیل کو ہی مرکزی تبلیغی رہنما سمجھتے ہیں۔مولانا طارق جمیل جتنا عام افراد میں مشہور و معروف رہے، اس سے کہیں زیادہ خواص میں بھی ان کی پذیرائی تھی۔ شوبز کی رنگین دنیا کی شخصیات ہوں یا پھر ہاکستانی سیاسی جماعتوں کے سر براہ اور یا کہ بڑے کاروباری افراد سب کی ان سے راہ و رسم اور نیاز بندی رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کھیل اور شوبز کے ستارے جن میں انضمام الحق ، یوسف
خان ، سعید انور ،مشتاق ،اور موحوم جنید جمشید،حمزہ علی عباسی ،فیروزخان ، وینا ملک ، نرگس ، اور بھارتی فلم سٹارعامر خان نے مولانا کی تبلیغ و شاخ سے متاثر ہو کر اپنے شعبے میں رہتے ہوئے طور طریقوں کو بدل لیا یا پھر سے مکمل خیر آباد کہہ دیا۔اسی طرح سیاست دانوں میں میاں برادران اور چوہدری برادران سے ایسے ہی تعلقات تھے جیسے آج عمران خان سے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ ماضی میں حضرت مولانا سرکاری دربار میں بار بار کھینچے نہیں چلے جاتے تھے نہ ہی حکومت اور نہ ہی رہنماﺅں کے حق میں بیان دیتے تھے۔آج اس تمام پس منظر میں مولانا کے مخالفین ان کی دعوت و تبلیغ کی خدمات کو ایک طرف رکھ کر طارق جمیل کو ایک برینڈ کا لقب دینا شروع کر دیا ہے کہ حضرت مولانا اب خواص کے بن چکے ہیں۔عام کو کسی کھاتے میں نہیں لاتے۔اس دوران مولانا کی عزت اور شہرت کی بنا پر کئی مخالفین کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھنے لگے،اور مولانا کی کمیوں ،کوتاہیوں کو سوشل میڈیا پر منظر عام لانے کی کوشش میں لگے رہے۔خیر جب سب Smoothچل رہا تھا تو پھر چائے کی پیالی میں طوفان کیوں برپا ہو گیا؟ مولانا کو لے کر محاذ کیوں کھڑا ہو گیا؟شائد یقینا اس کی وجوہات میں سے یہ ہے کہ ایک عالم دین سب کا عالم دین ہوتا ہے،اور ایک عالم غیر سیاسی ہوتا ہے اور ایک عالم بر ملا بہتان لگا اداروں یا شخصیت کی اصلاح نہیں کرتا ہے۔ یہاں امام ابو حنیفہ ؓ کا قول یاد آگیا: کہ جب کسی عالم کو کسی حکمران کے در پر دیکھو تو اس کے علم پر شک کرو۔لیکن ہمیں مولانا طارق جمیل صاحب کے علم پر شک تو نہیں ،ہاں اعتراض اس پر ہے کہ وہ وزیر اعظم کے در پر 3سے 4بار حاضری دے چکے ہیں۔شائد یہ حاضری اتنی اہمیت کی حامل نہ ہوتی مگر حکمران کی خوش آمداور تعریف توصیف میں اس حد تک چلے جانا کہ پورے ملک کو گناہ گار اور فرد واحد کو فرشتہ قرار دینا مناسب نہیں تھا۔مان لیا جائے کہ میڈیا جھوٹا ہی صحیح ،لیکن یہ وہی میڈیا ہے جس نے مسلسل پانچ سال مولانا کے خطاب سنا سنا کر لوگوں کو دین کی طرف راغب کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا اور جس سے مولانا کی فین فالوونگ میںاضافہ ہوا لیکن ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے لیکن ایک سادہ سا فلسفہ ہے ،اچھائی کے ساتھ برائی اور سچ کے ساتھ جھوٹ بھی ہوتا ہے۔دوسری اہم وجہ مولانا کو دعا کرواتے وقت یہ بھی یاد رکھنا چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کے حکمران کے لیے دعا کروائیں نہ کہ ایک پارٹی کارکن کی حیثینت سے دعا کروائیں۔ کیونکہ عمران خان وزیر اعظم تو پورے ملک کے ہو سکتے ہیں لیکن سیاسی رہنما وہ صرف پی ٹی آئی کے ہی ہیں۔لہٰذا دعا کے کوئی بھی مخالف نہیں لیکن دعا میں الفاظ کا چناﺅ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے،کوئی کیسے برداشت کرے کہ مولانا پورے ملک کے لوگوں کی سیاسی وابستگیاں اور سابقہ حکمرانوں کے اچھے اقدامات کو ہی کھو کھاتے میں ڈال کر اپنا پلڑا صرف ایک شخص اور ایک سیاسی جماعت تک رکھے۔
یہاں ایک بات کرنا ضروری سمجھتا ہوں ،پاکستانی عوام اس لحاظ سے دوعملی کا شکار ہے کہ وہ عالم دین کو دین کے لیے سن تو سکتی ہے مگر سیاسی نظام میں سے Miss Fit سمجھتے ہوئے اپنی سیاسی جماعتوں اور رہنماﺅں کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتی۔لہٰذا طارق جمیل صاحب کو عمرانی محبت میں یک طرفہ جھکاﺅ سے کام لینے کی بجائے پاکستان کی عوام کے سیاسی رویوں اور رجحانات کو مد نظر رکھ کر بلا امتیازو تفریق دعا اور خطاب کرنا چاہیے تھا۔ورنہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ فصاحت اور بلاغت میں مولانا طاہرالقادری کی فین فالوونگ ان سے بھی زیادہ تھی اور ان کا انداز کلام و بیان بھی کسی سے کم نہ تھا۔مگر جونہی وہ سیاسی غلام گردشوں میں محو سفر ہوئے ان کے سننے والے ان سے دور ہوتے گئے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام سیاسی بغض کی بنا کر مولانا طارق جمیل کی دعوت و تبلیغ سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے دوری اختیار کر لیں۔