آج رمضان کی چھ تاریخ ہے، اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں چھٹے رمضان تک پہنچنے کی توفیق عطاء فرمائی ہے۔ رمضان کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں بندہ مؤمن کو اللہ تعالی کے حکم کی تابعدادری اور امرالہی کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے کئی مواقع میسر آتے ہیں، اس سے جہاں بندگی، عاجزی اور فرماں برداری کی صفت انسان میں پیدا ہوتی ہے، وہاں بہت سے ایسے کام جنکو عام طور پر انسان کا بشری تقاضا سمجھا جاتا ہے، وہ بھی عبادت اور عظیم اجر وثواب کا کام بن جاتے ہیں، سحری ہی کی مثال لے لیجئے! بھوک مٹانا اور اس کے لئے کھانا کھانا انسان کی ایک فطری ضرورت اور طبعی خواہش ہے٬ اس فطری تقاضے کو پورا کرنے اور جبلی خواہش کی تسکین کا سامان کرنے کے لئے کھانے پینے کی ضرورت انسان کو درپیش رھتی ہے، رمضان میں چونکہ صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے اجنتاب کا حکم دیا گیا ہے، اس لئے صبح صادق سے پہلے سیر ہو کر کھانا کھانا اور روزے کے لئے اپنے اپکو مستعد وتیار کرنا انسان کی جسمانی اور بشری ضرورت بھی ہے، اصطلا ح میں اس کھانے کو ‘‘سحری’’ کہاجاتا ہے۔ لیکن اس بشری ضرورت کی تکمیل کو عبادت، خیر وبرکت اور اجر وثواب کا کام بنا دیاگیا ہے۔ پھر جوں ہی صبح صادق کا وقت شروع ہوتا ہے تو روزہ کی ابتداء ہوجاتی ہے اور کھانا پینا یا جنسی تعلق حرام قرار پاتا ہے۔ لیکن غروب آفتاب کے فوراً بعد روزہ افطار کا حکم ہماری طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ وہی کھانا جو کچھ دیر پہلے تک مکمل حلال اور باعث ثواب ہوتا ہے۔ صبح صادق کا وقت شروع ہوتے ہی ممنوع، حرام اور سنگین گناہ کا کام ہوجاتا ہے اور وہی کھانا جو تھوڑی دیر پہلے بھی حرام تھا، افطاری کا وقت شروع ہوتے ہی اسے بلاتاخیر کھانا اور افطار کرنا شرعا مطلوب اور اس کی خلاف ورزی گناہ ہوجاتا ہے، اس سے یہ سبق ذہن نشین ہوتا ہے کہ اپنی پسند اور خواہش پوری کرنے کا نام دین نہیں، دین درحقیقت اللہ کے حکم کی تعمیل کا نام ہے۔ جب اس نے منع کردیا حلال کھانا بھی حرام ہوجاتا ہے اور جب کھانے کا حکم دیدیتا ہے تو بلاوجہ تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس طرح تابعداری ، فرماں برداری اور ہر آن حکم کا بندہ بنکر زندگی گذارنے کا سلیقہ روزوں اور دیگر اعمال کے ذریعے اس مہینے میں انسان کو حاصل ہوتا ہے، جو درحقیقت عبدیت وبندگی کا خلاصہ اور انسان کا مقصد تخلیق ہے۔