کراچی میں ٹراموے ٭30 اپریل 1975ء کو کراچی میں نوّے سالہ قدیم ٹراموے کمپنی نے اپنا کاروبار بند کرنے کا اعلان کردیا۔ کراچی میں ٹراموے کمپنی کے کاروبار کا آغاز کا سہرا کراچی کے میونسپل سیکریٹری اور معروف انجینئر اور آرکیٹکٹ مسٹر جیمز اسٹریچن کے سر تھا۔ انہوں نے 1881ء میں لندن کے مشتر ایڈورڈ میتھیوز کو ٹراموے کی لائن بچھانے کا ٹینڈر دیا مگر ان لائنوں کی تنصیب کا کام 1883ء میں شروع ہوسکا۔ اکتوبر 1884ء میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا اور 20 اپریل 1885ء کو کراچی میں پہلی مرتبہ ٹرام چلی۔ اس پہلی ٹرام میں سفر کرنے والوں میں سندھ کے اس وقت کے کمشنر مسٹر ہنری نیپئر بی ارسکن بھی شامل تھے۔ شروع شروع میں یہ ٹرام بھاپ سے چلائی جاتی تھی مگر اس بھاپ سے ایک جانب شور پیدا ہوتا تھا اور دوسری جانب فضا میں آلودگی میں اضافہ ہوتا تھا چنانچہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اس کو بند کردیا گیا.
بعد میں اس کی جگہ چھوٹی اور ہلکی ٹراموں نے لی جنہیں گھوڑے کھینچا کرتے تھے کچھ عرصہ کراچی میں دو منزلہ ٹرامیں بھی چلتی رہیں‘ یہ ٹرامیں بھی گھوڑے ہی کھینچا کرتے تھے۔ بیسویں صدی میں یہ ٹرامیں ڈیزل کی قوت سے چلنے لگیں۔ کراچی میں ٹراموے کے نظام کا مرکز صدر میں ایڈولجی ڈنشا ڈسپنسری تھی۔ اس ڈسپنسری سے ٹراموں کے کئی روٹ شروع ہوتے تھے جو گاندھی گارڈن‘ بولٹن مارکیٹ اور کینٹ ریلوے اسٹیشن تک جایا کرتے تھے۔ یہ ٹرامیں ایسٹ انڈیا ٹراموے کمپنی کی ملکیت تھیں۔ یہ کمپنی 500 روپے سالانہ فی میل کے حساب سے ٹرام لائنوں کی رائلٹی کراچی میونسپلٹی کو ادا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ٹراموے کا یہ نظام محمد علی نامی ایک کاروباری شخص نے خرید لیا اور اس کا نام اپنے نام پر محمد علی ٹراموے کمپنی رکھ لیا۔ کمپنی کے زمانہ عروج میں کمپنی کے پاس 63 ٹرامیں تھیں اور اس کا عملہ آٹھ سو افراد پر مشتمل تھا۔ لیکن ایک وقت وہ بھی آیا جب کمپنی کے پاس فقط پانچ ٹرامیں رہ گئی تھیں۔ 30 اپریل 1975ء کو کراچی کی سڑکوں پر ٹرام آخری مرتبہ چلی اور پھر یہ نظام ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا