Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ دو ہزار سولہ اور سترہ میں اتنے زیادہ سفر اندرون ِ جرمنی اور بیرونِ جرمنی کئے مگر شاید قسمت میں مزید سفر اس سال یعنی دو ہزار اٹھارہ کے وسیلہ ظفرکے لئے بھی مختص تھے۔ سال کا آغاز ہندوستان اور پاکستان کی جانب ادبی محافل کے دعوت نامے کے ساتھ ہوا۔ کراچی لٹریچر فیسٹول اور اردو کانفرنس ہندوستان سے ادھر دعوت نامہ موصول ہوا۔2017 کے اختتام پہ بزم صدف انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تو ساتھ ہی صدف مرزا نے ڈنمارک سے صدا لگائی کہ سال کے آغازپہ کوپن ہیگن میں جرمنی کے حوالے سے عالمی ادب اور ترجمہ نگاری پرایک لیکچر کے لیے تیاری مکمل رکھوں۔ صدف مرزا نے جن تاریخ کو لیکچر کا اہتمام کیا اتفاقاً ان ہی دنوں میں کراچی لٹریچر فیسٹول میں بھی شرکت کرنا چاہ رہی تھی اور ادھر ہندوستان سے بھی لکھنوء اُردو کانفرنس کا بلاوا آیا ہوا تھا۔ کچھ نجی مصروفیات کے باعث دور کا سفر ملتوی کرکے کوپن ہیگن جانے کا ارادہ کیا۔
کوپن ہیگن جو دیو مالائی کہانیوں کے معروف خالق ہنس کرسٹیان اینڈرسن کا شہر ہے وہاں ہم دو ہزار چودہ میں اپنی گرمیوں کی تعطیلات گزارنے کے لیے جاچکے تھے ۔پانی کے جہاز سے ہمارا وہ سفر بہت یادگار تھا ۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ کوپن ہیگن دراصل ڈنمارک کے ایک بڑے جزیرے شی لینڈ کا حصہ ہے یہ حصہ صدیوں سے وہاں بسنے والے لوگوں کے لیے ایک تجارتی بندرگاہ رہا ہے۔ ہماری جرمن دوست اندریا کا شوہر ڈینش ہے اور اس نے ہی بتایا تھا کہ کوپن ہیگن کا مطلب بھی وہاں کی مقامی زبان میں بندرگاہ سے خرید و فروخت کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔
بالٹک کے کنارے آباد تاجروں کا یہ خوبصورت مسکن صدیوں سے سمندر کے مسافروں کی منزل رہا اور یہ علاقے وائی کنگز نامی سمندری قزاقوں کے بھی آماجگاہ و مسکن رہے۔
اسکینڈینیوین کنٹریز کے اس سفر میں اس وقت ہم نے ایک پرائیوٹ مکان کرائے پر تین دن کے لیے لے لیا تھا ۔ یورپ میں اکثر لوگ نجی طور پر اپنے مکان کو سیاحوں کے لیے نہایت مناسب کرائے پر بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے دیتے ہیں اور خود اپنی رہائش گاہ سے پیسے کما کر دوسرے شہر گھومنے پھرنے نکل جاتے ہیں ۔ آر بی اینڈ بی نامی ایک بین الاقوامی گروپ اس سلسلے میں انٹر نیٹ پر متحرک ہے۔ جو یورپ کیا شاید دنیا بھر میں آپ کے لیے نجی رہائش کا مناسب قیمت میں انتظام کرتا ہے۔ ہم نے بھی شہر کے وسط میں ایک قدیم عمارت کے فلیٹ میں اپنی چھٹیوں کے یادگار دن گزارے تھے۔اس بار میں دوسری مرتبہ کوپن ہیگن جانے کا ارادہ باندھ رہی تھی۔
کوپن ہیگن کی وہ جل پری جو یہاں عام سیاحوں کی دلچسپی کے لیے مشہور ہے وہ ایک ننھی جل پری ہے جو ایچ سی اینڈرسن کے بچوں کے لیے لکھی ہوئی کہانی کو 19ویں صدی میں یہاں کی مشہور بئیر بنانے والی کمپنی کارلسبرگ نے مجسم کرواکر جزیرے پر نصب کروائی تھی۔ یہ ننھی جل پری شہر کے شمالی ساحل پر ایک پتھر پر براجمان ہے۔ پتھر پر پتھر ہوئی بیٹھی یہ جل پری کہانی کے مطابق یہ جل پری ایک شہزادے کے عشق میں گرفتار ہوکر سمندری قانون کو توڑتے ہوئے اس شہزادے کو دیکھنے باہر نکل کر پتھر پر بیٹھ گئی تھی اور بعد میں خود ہی پتھر کی ہو گئی۔ ہم بھی اپنے کوپن ہیگن کے پہلے سفر میں اس جل پری کو دیکھنے کے لیے ایک جم غدیریات میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن اس عام سی پتھر کی مورت نے بالکل اسی طرح مایوس کیا جس طرح پیرس کے میوزیم میں دھکے کھا کر رش میں ایک چھوٹی سی مونا لیزا کی تصویر کو دور سے شیشے کے موٹے فریم میں جکڑا دیکھ کر ہوئی تھی ۔ لیکن صدف مرزا کی جادوئی شخصیت اردو ادب و زبان کے حوالے سے اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ ہیگن میں پتھر کی اس جل پری کے بعد جو دوسری صنف نازک اردو کہانیوں میں مشہور ہیں وہ صدف مرزا ہی ہیں ۔
(جاری)
کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ دو ہزار سولہ اور سترہ میں اتنے زیادہ سفر اندرون ِ جرمنی اور بیرونِ جرمنی کئے مگر شاید قسمت میں مزید سفر اس سال یعنی دو ہزار اٹھارہ کے وسیلہ ظفرکے لئے بھی مختص تھے۔ سال کا آغاز ہندوستان اور پاکستان کی جانب ادبی محافل کے دعوت نامے کے ساتھ ہوا۔ کراچی لٹریچر فیسٹول اور اردو کانفرنس ہندوستان سے ادھر دعوت نامہ موصول ہوا۔2017 کے اختتام پہ بزم صدف انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تو ساتھ ہی صدف مرزا نے ڈنمارک سے صدا لگائی کہ سال کے آغازپہ کوپن ہیگن میں جرمنی کے حوالے سے عالمی ادب اور ترجمہ نگاری پرایک لیکچر کے لیے تیاری مکمل رکھوں۔ صدف مرزا نے جن تاریخ کو لیکچر کا اہتمام کیا اتفاقاً ان ہی دنوں میں کراچی لٹریچر فیسٹول میں بھی شرکت کرنا چاہ رہی تھی اور ادھر ہندوستان سے بھی لکھنوء اُردو کانفرنس کا بلاوا آیا ہوا تھا۔ کچھ نجی مصروفیات کے باعث دور کا سفر ملتوی کرکے کوپن ہیگن جانے کا ارادہ کیا۔
کوپن ہیگن جو دیو مالائی کہانیوں کے معروف خالق ہنس کرسٹیان اینڈرسن کا شہر ہے وہاں ہم دو ہزار چودہ میں اپنی گرمیوں کی تعطیلات گزارنے کے لیے جاچکے تھے ۔پانی کے جہاز سے ہمارا وہ سفر بہت یادگار تھا ۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ کوپن ہیگن دراصل ڈنمارک کے ایک بڑے جزیرے شی لینڈ کا حصہ ہے یہ حصہ صدیوں سے وہاں بسنے والے لوگوں کے لیے ایک تجارتی بندرگاہ رہا ہے۔ ہماری جرمن دوست اندریا کا شوہر ڈینش ہے اور اس نے ہی بتایا تھا کہ کوپن ہیگن کا مطلب بھی وہاں کی مقامی زبان میں بندرگاہ سے خرید و فروخت کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔
بالٹک کے کنارے آباد تاجروں کا یہ خوبصورت مسکن صدیوں سے سمندر کے مسافروں کی منزل رہا اور یہ علاقے وائی کنگز نامی سمندری قزاقوں کے بھی آماجگاہ و مسکن رہے۔
اسکینڈینیوین کنٹریز کے اس سفر میں اس وقت ہم نے ایک پرائیوٹ مکان کرائے پر تین دن کے لیے لے لیا تھا ۔ یورپ میں اکثر لوگ نجی طور پر اپنے مکان کو سیاحوں کے لیے نہایت مناسب کرائے پر بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے دیتے ہیں اور خود اپنی رہائش گاہ سے پیسے کما کر دوسرے شہر گھومنے پھرنے نکل جاتے ہیں ۔ آر بی اینڈ بی نامی ایک بین الاقوامی گروپ اس سلسلے میں انٹر نیٹ پر متحرک ہے۔ جو یورپ کیا شاید دنیا بھر میں آپ کے لیے نجی رہائش کا مناسب قیمت میں انتظام کرتا ہے۔ ہم نے بھی شہر کے وسط میں ایک قدیم عمارت کے فلیٹ میں اپنی چھٹیوں کے یادگار دن گزارے تھے۔اس بار میں دوسری مرتبہ کوپن ہیگن جانے کا ارادہ باندھ رہی تھی۔
کوپن ہیگن کی وہ جل پری جو یہاں عام سیاحوں کی دلچسپی کے لیے مشہور ہے وہ ایک ننھی جل پری ہے جو ایچ سی اینڈرسن کے بچوں کے لیے لکھی ہوئی کہانی کو 19ویں صدی میں یہاں کی مشہور بئیر بنانے والی کمپنی کارلسبرگ نے مجسم کرواکر جزیرے پر نصب کروائی تھی۔ یہ ننھی جل پری شہر کے شمالی ساحل پر ایک پتھر پر براجمان ہے۔ پتھر پر پتھر ہوئی بیٹھی یہ جل پری کہانی کے مطابق یہ جل پری ایک شہزادے کے عشق میں گرفتار ہوکر سمندری قانون کو توڑتے ہوئے اس شہزادے کو دیکھنے باہر نکل کر پتھر پر بیٹھ گئی تھی اور بعد میں خود ہی پتھر کی ہو گئی۔ ہم بھی اپنے کوپن ہیگن کے پہلے سفر میں اس جل پری کو دیکھنے کے لیے ایک جم غدیریات میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن اس عام سی پتھر کی مورت نے بالکل اسی طرح مایوس کیا جس طرح پیرس کے میوزیم میں دھکے کھا کر رش میں ایک چھوٹی سی مونا لیزا کی تصویر کو دور سے شیشے کے موٹے فریم میں جکڑا دیکھ کر ہوئی تھی ۔ لیکن صدف مرزا کی جادوئی شخصیت اردو ادب و زبان کے حوالے سے اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ ہیگن میں پتھر کی اس جل پری کے بعد جو دوسری صنف نازک اردو کہانیوں میں مشہور ہیں وہ صدف مرزا ہی ہیں ۔
(جاری)
کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ دو ہزار سولہ اور سترہ میں اتنے زیادہ سفر اندرون ِ جرمنی اور بیرونِ جرمنی کئے مگر شاید قسمت میں مزید سفر اس سال یعنی دو ہزار اٹھارہ کے وسیلہ ظفرکے لئے بھی مختص تھے۔ سال کا آغاز ہندوستان اور پاکستان کی جانب ادبی محافل کے دعوت نامے کے ساتھ ہوا۔ کراچی لٹریچر فیسٹول اور اردو کانفرنس ہندوستان سے ادھر دعوت نامہ موصول ہوا۔2017 کے اختتام پہ بزم صدف انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تو ساتھ ہی صدف مرزا نے ڈنمارک سے صدا لگائی کہ سال کے آغازپہ کوپن ہیگن میں جرمنی کے حوالے سے عالمی ادب اور ترجمہ نگاری پرایک لیکچر کے لیے تیاری مکمل رکھوں۔ صدف مرزا نے جن تاریخ کو لیکچر کا اہتمام کیا اتفاقاً ان ہی دنوں میں کراچی لٹریچر فیسٹول میں بھی شرکت کرنا چاہ رہی تھی اور ادھر ہندوستان سے بھی لکھنوء اُردو کانفرنس کا بلاوا آیا ہوا تھا۔ کچھ نجی مصروفیات کے باعث دور کا سفر ملتوی کرکے کوپن ہیگن جانے کا ارادہ کیا۔
کوپن ہیگن جو دیو مالائی کہانیوں کے معروف خالق ہنس کرسٹیان اینڈرسن کا شہر ہے وہاں ہم دو ہزار چودہ میں اپنی گرمیوں کی تعطیلات گزارنے کے لیے جاچکے تھے ۔پانی کے جہاز سے ہمارا وہ سفر بہت یادگار تھا ۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ کوپن ہیگن دراصل ڈنمارک کے ایک بڑے جزیرے شی لینڈ کا حصہ ہے یہ حصہ صدیوں سے وہاں بسنے والے لوگوں کے لیے ایک تجارتی بندرگاہ رہا ہے۔ ہماری جرمن دوست اندریا کا شوہر ڈینش ہے اور اس نے ہی بتایا تھا کہ کوپن ہیگن کا مطلب بھی وہاں کی مقامی زبان میں بندرگاہ سے خرید و فروخت کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔
بالٹک کے کنارے آباد تاجروں کا یہ خوبصورت مسکن صدیوں سے سمندر کے مسافروں کی منزل رہا اور یہ علاقے وائی کنگز نامی سمندری قزاقوں کے بھی آماجگاہ و مسکن رہے۔
اسکینڈینیوین کنٹریز کے اس سفر میں اس وقت ہم نے ایک پرائیوٹ مکان کرائے پر تین دن کے لیے لے لیا تھا ۔ یورپ میں اکثر لوگ نجی طور پر اپنے مکان کو سیاحوں کے لیے نہایت مناسب کرائے پر بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے دیتے ہیں اور خود اپنی رہائش گاہ سے پیسے کما کر دوسرے شہر گھومنے پھرنے نکل جاتے ہیں ۔ آر بی اینڈ بی نامی ایک بین الاقوامی گروپ اس سلسلے میں انٹر نیٹ پر متحرک ہے۔ جو یورپ کیا شاید دنیا بھر میں آپ کے لیے نجی رہائش کا مناسب قیمت میں انتظام کرتا ہے۔ ہم نے بھی شہر کے وسط میں ایک قدیم عمارت کے فلیٹ میں اپنی چھٹیوں کے یادگار دن گزارے تھے۔اس بار میں دوسری مرتبہ کوپن ہیگن جانے کا ارادہ باندھ رہی تھی۔
کوپن ہیگن کی وہ جل پری جو یہاں عام سیاحوں کی دلچسپی کے لیے مشہور ہے وہ ایک ننھی جل پری ہے جو ایچ سی اینڈرسن کے بچوں کے لیے لکھی ہوئی کہانی کو 19ویں صدی میں یہاں کی مشہور بئیر بنانے والی کمپنی کارلسبرگ نے مجسم کرواکر جزیرے پر نصب کروائی تھی۔ یہ ننھی جل پری شہر کے شمالی ساحل پر ایک پتھر پر براجمان ہے۔ پتھر پر پتھر ہوئی بیٹھی یہ جل پری کہانی کے مطابق یہ جل پری ایک شہزادے کے عشق میں گرفتار ہوکر سمندری قانون کو توڑتے ہوئے اس شہزادے کو دیکھنے باہر نکل کر پتھر پر بیٹھ گئی تھی اور بعد میں خود ہی پتھر کی ہو گئی۔ ہم بھی اپنے کوپن ہیگن کے پہلے سفر میں اس جل پری کو دیکھنے کے لیے ایک جم غدیریات میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن اس عام سی پتھر کی مورت نے بالکل اسی طرح مایوس کیا جس طرح پیرس کے میوزیم میں دھکے کھا کر رش میں ایک چھوٹی سی مونا لیزا کی تصویر کو دور سے شیشے کے موٹے فریم میں جکڑا دیکھ کر ہوئی تھی ۔ لیکن صدف مرزا کی جادوئی شخصیت اردو ادب و زبان کے حوالے سے اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ ہیگن میں پتھر کی اس جل پری کے بعد جو دوسری صنف نازک اردو کہانیوں میں مشہور ہیں وہ صدف مرزا ہی ہیں ۔
(جاری)
کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے۔ دو ہزار سولہ اور سترہ میں اتنے زیادہ سفر اندرون ِ جرمنی اور بیرونِ جرمنی کئے مگر شاید قسمت میں مزید سفر اس سال یعنی دو ہزار اٹھارہ کے وسیلہ ظفرکے لئے بھی مختص تھے۔ سال کا آغاز ہندوستان اور پاکستان کی جانب ادبی محافل کے دعوت نامے کے ساتھ ہوا۔ کراچی لٹریچر فیسٹول اور اردو کانفرنس ہندوستان سے ادھر دعوت نامہ موصول ہوا۔2017 کے اختتام پہ بزم صدف انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تو ساتھ ہی صدف مرزا نے ڈنمارک سے صدا لگائی کہ سال کے آغازپہ کوپن ہیگن میں جرمنی کے حوالے سے عالمی ادب اور ترجمہ نگاری پرایک لیکچر کے لیے تیاری مکمل رکھوں۔ صدف مرزا نے جن تاریخ کو لیکچر کا اہتمام کیا اتفاقاً ان ہی دنوں میں کراچی لٹریچر فیسٹول میں بھی شرکت کرنا چاہ رہی تھی اور ادھر ہندوستان سے بھی لکھنوء اُردو کانفرنس کا بلاوا آیا ہوا تھا۔ کچھ نجی مصروفیات کے باعث دور کا سفر ملتوی کرکے کوپن ہیگن جانے کا ارادہ کیا۔
کوپن ہیگن جو دیو مالائی کہانیوں کے معروف خالق ہنس کرسٹیان اینڈرسن کا شہر ہے وہاں ہم دو ہزار چودہ میں اپنی گرمیوں کی تعطیلات گزارنے کے لیے جاچکے تھے ۔پانی کے جہاز سے ہمارا وہ سفر بہت یادگار تھا ۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ کوپن ہیگن دراصل ڈنمارک کے ایک بڑے جزیرے شی لینڈ کا حصہ ہے یہ حصہ صدیوں سے وہاں بسنے والے لوگوں کے لیے ایک تجارتی بندرگاہ رہا ہے۔ ہماری جرمن دوست اندریا کا شوہر ڈینش ہے اور اس نے ہی بتایا تھا کہ کوپن ہیگن کا مطلب بھی وہاں کی مقامی زبان میں بندرگاہ سے خرید و فروخت کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔
بالٹک کے کنارے آباد تاجروں کا یہ خوبصورت مسکن صدیوں سے سمندر کے مسافروں کی منزل رہا اور یہ علاقے وائی کنگز نامی سمندری قزاقوں کے بھی آماجگاہ و مسکن رہے۔
اسکینڈینیوین کنٹریز کے اس سفر میں اس وقت ہم نے ایک پرائیوٹ مکان کرائے پر تین دن کے لیے لے لیا تھا ۔ یورپ میں اکثر لوگ نجی طور پر اپنے مکان کو سیاحوں کے لیے نہایت مناسب کرائے پر بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے دیتے ہیں اور خود اپنی رہائش گاہ سے پیسے کما کر دوسرے شہر گھومنے پھرنے نکل جاتے ہیں ۔ آر بی اینڈ بی نامی ایک بین الاقوامی گروپ اس سلسلے میں انٹر نیٹ پر متحرک ہے۔ جو یورپ کیا شاید دنیا بھر میں آپ کے لیے نجی رہائش کا مناسب قیمت میں انتظام کرتا ہے۔ ہم نے بھی شہر کے وسط میں ایک قدیم عمارت کے فلیٹ میں اپنی چھٹیوں کے یادگار دن گزارے تھے۔اس بار میں دوسری مرتبہ کوپن ہیگن جانے کا ارادہ باندھ رہی تھی۔
کوپن ہیگن کی وہ جل پری جو یہاں عام سیاحوں کی دلچسپی کے لیے مشہور ہے وہ ایک ننھی جل پری ہے جو ایچ سی اینڈرسن کے بچوں کے لیے لکھی ہوئی کہانی کو 19ویں صدی میں یہاں کی مشہور بئیر بنانے والی کمپنی کارلسبرگ نے مجسم کرواکر جزیرے پر نصب کروائی تھی۔ یہ ننھی جل پری شہر کے شمالی ساحل پر ایک پتھر پر براجمان ہے۔ پتھر پر پتھر ہوئی بیٹھی یہ جل پری کہانی کے مطابق یہ جل پری ایک شہزادے کے عشق میں گرفتار ہوکر سمندری قانون کو توڑتے ہوئے اس شہزادے کو دیکھنے باہر نکل کر پتھر پر بیٹھ گئی تھی اور بعد میں خود ہی پتھر کی ہو گئی۔ ہم بھی اپنے کوپن ہیگن کے پہلے سفر میں اس جل پری کو دیکھنے کے لیے ایک جم غدیریات میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن اس عام سی پتھر کی مورت نے بالکل اسی طرح مایوس کیا جس طرح پیرس کے میوزیم میں دھکے کھا کر رش میں ایک چھوٹی سی مونا لیزا کی تصویر کو دور سے شیشے کے موٹے فریم میں جکڑا دیکھ کر ہوئی تھی ۔ لیکن صدف مرزا کی جادوئی شخصیت اردو ادب و زبان کے حوالے سے اپنی ایک الگ پہچان ہے۔ ہیگن میں پتھر کی اس جل پری کے بعد جو دوسری صنف نازک اردو کہانیوں میں مشہور ہیں وہ صدف مرزا ہی ہیں ۔
(جاری)