Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
پاکستانی روپیہ،امریکن ڈالر،برطانوی پاونڈ اور سعودی ریال تو سب جانتے ہیں۔ مگر اسکینڈے نیویا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے ناروے، اس کی کرنسی کا نام ہی کرونا ہے۔ اور کرونا نے اسکو بھی نہیں بخشا کم از کم ہم نام ہونے کا ہی خیال کرتا مگر اس کی قدر میں بھی پچیس فیصد تک کی گراوٹ کا باعث یہ وبا بنی۔ ناروے جیسے چھوٹے ملک میں جسكی آبادی ( 5.368ملین) کراچی کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے وہاں ایک سو ایک اموات اب تک ریکارڈ ہوئی ہیں اور چھ ہزار تینتالیس متاثرین ہیں۔ ناروے کی آبادی تو بہت کم ہےمگر معیشت چھوٹی نہیں ہے۔ ناروے کا جی ڈی پی پاکستان کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ اسکے باوجود تین لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔
امریکا سے لیکر ناروے تک غرضیکہ تمام عالم میں آج کل تذکرہ کرونا شب و روز شدومد کے ساتھ جاری و ساری ہے کوئی واقعہ کوئی بات کوئی تذکرہ بغیر کرونا ممکن ہی نہیں آپ چاہیں تو کرونا اور کرونائی، وبائی، تباہی سے صرف نظر نہیں کرسکتے، صبح اٹھیں تو کرونا شام کو بیٹھیں تو کرونا اخبارات میں ٹی وی چینلوں پر کرونااور اس سے جڑی خبریں اور معلومات کا ازدحام ہے جو انسانی نفسیات کو روندتا ہوا آگے بڑھا ہے ۔
مگر اس پوری صورتحال میں گریٹا تھنبرگ ضرور خوش ہوئی ہوگی کیونکہ سننے میں آیا ہے پوری دنیا میں بیک وقت معاشی سرگرمیاں منجمند یا سست پڑنے سے اوزون کی سطح کے زخم بھرنے لگے ہیں۔چین کے شہروں سمیت دنیا کے وہ تمام شہر جو معاشی سرگرمیوں کا مرکز مانے جاتے تھے ان کا ائیر کوالٹی انڈیکس پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہوا ہے۔ ویںنس کا پانی صاف ہوگیا تو ہمارا سی ویو بھی ستھرا،ستھرا لگ رہا ہے، تصویروں میں۔
اس وبا نے کسی کو بھی نہیں بخشا سوشلسٹوں کو سوشل ڈسٹنسنگ پر مجبور کیا تو ،سروائیول آف دا فٹسٹ والوں کو بھی خوب فٹ کر رہی ہے۔
ویسے سرمایه دارانہ نظام میں قومی سرمایادار کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں مگر اس وقت تک جب تک وہ ریاست کے تابع ہوں نہ کہ ریاست سے اپنے من مانے فیصلے عوام پر مسلط کروائیں۔ چین کا قومی سرمایادار اپنی ریاست کے تابع ہے اور ریاست کی پالیسی کے خلاف ذرا بھی دائیں،بائیں نہیں چل سکتا امریکہ میں بھی بےشک سرمایہ دار ہیں پالیسیاں بناتے ہیں مگر وہاں بھی کچھ قوانین اور ضابطے ہیں جو انہیں کھینچ کر رکھتے ہیں۔ جیسے ٹیکس نادہندگان کو ذرا بھی معاف نہیں کیا جاتا اور دیگر کئی ایسی چیزیں ہیں جنھوں نے امریکی قومی سرمایه دار کوبھی باندھ کے رکھا ہوا ہے۔ اب آتے ہیں مملکت خداداد کی جانب جہاں اب سے کچھ مہینے پہلے 300 ارب ان قومی سرمایہ کاروں کے معاف ہوئے تو اب تعمیراتی صنعت کو چلانے کا اعلان کیا گیا جبکہ پورا ملک کرونا سے خوفزدہ ہوکر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے گھروں میں محدود رہنے کو ترجیح دے رہا ہے ایسے موقع پر ایسے موقع پر وزیراعظم کی جانب سے اعلان سمجھ سے بالاتر ہے
تعمیراتی صنعت سے وابستہ لوگوں کا کاروبار یقیناً چل پڑے گا مگر کیا انہیں پابند کیا جائے گا کہ وہ کرونا سے بچنے کی جتنی احتیاطی تدابیر ہیں ان پر اپنے عملے سے سختی سے عمل کروائیں گے اور بیماری کی صورت میں مزدور کا علاج اور بہترین علاج کروائیں گے موت کی صورت میں خطیر رقم تعمیراتی صنعت سے وابستہ مزدور کےخاندان کو دے سکیں گے تو جواب یقینا نفی کی صورت میں آئے گا
کرونا سے مرنا بھوک سے مرنے سے زیادہ اذیت ناک ہوگا ہمارے معاشرے کے غریب اور متوسط طبقے میں اگر کوئی وفات پا جاتا ہے تو تین دن تک گھر کا چولہا نہیں جلتا اڑوس پڑوس، عزیز اقرباءہی کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہیں مگر چشم تصور سے دیکھنے کی کوشش کریں اگر کرونا سے کسی غریب مزدور کی ہلاکت ہوتی ہے تو اس کا پورا خاندان بھوک سے واقعی مر جائے گا کیونکہ کوئی بھی قریب آنے کو تیار نہیں ہوگا نہ تسلی کے لیے، نہ ہی مالی مدد کے لیے
انہی قومی سرمایہ داروں کا کمال ملاحظہ ہو لاک ڈاؤن کی حکومتی ہدایات کے برعکس اپنے ملازمین کی تنخواہ میں 30% سے زائد کٹوتی تو لازمی کی ہے اور جب کسی نے دریافت کیا تو جواب دیا “شکر کرو نوکری سے نہیں نکالا بھائی”
حکومت ان آزمائے ہوئے بازوؤں کو دوبارہ آزمانے کے بجائے غریب اور متوسط طبقے کی براہ راست فلاح و بہبود کے لئے میکنزم کو وضع کرے۔
یہ سرمایہ دار نا حکومت کے مفاد میں کام کریں گے اور نہ عوام کے اردو کی مثال “چمڑی جائے دمڑی نہ جائے” پاکستانی سرمایہ داروں کے لیے ہی ہے ۔
متوسط اور غریب پہلے ہی غریبی اور کرونا کے پاٹوں کے بیچ پس رہا ہے کہ اس پہ ستم بالائے ستم کے الیکٹرک کی ایوریج بلنگ کا ھتوڑا کراچی کی عوام کے سروں پر پڑا ہے۔ سہولت بہم پہنچانے کے بجائے آزار پہنچایا گیا۔ نیپرا کی تازہ ہدایات کے تحت ایوریج بلنگ والے مارچ کے بل اب اپریل کے بلز کیساتھ میٹر ریڈنگ کے بعد جمع کروائیں جائیں گے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کے الیکٹرک کیا واقعی ہدایات پر من وعن عمل کرتی ہے یا نہیں یا پھر روایتی ٹال مٹول سے کام لیتی ہے۔
پاکستانی روپیہ،امریکن ڈالر،برطانوی پاونڈ اور سعودی ریال تو سب جانتے ہیں۔ مگر اسکینڈے نیویا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے ناروے، اس کی کرنسی کا نام ہی کرونا ہے۔ اور کرونا نے اسکو بھی نہیں بخشا کم از کم ہم نام ہونے کا ہی خیال کرتا مگر اس کی قدر میں بھی پچیس فیصد تک کی گراوٹ کا باعث یہ وبا بنی۔ ناروے جیسے چھوٹے ملک میں جسكی آبادی ( 5.368ملین) کراچی کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے وہاں ایک سو ایک اموات اب تک ریکارڈ ہوئی ہیں اور چھ ہزار تینتالیس متاثرین ہیں۔ ناروے کی آبادی تو بہت کم ہےمگر معیشت چھوٹی نہیں ہے۔ ناروے کا جی ڈی پی پاکستان کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ اسکے باوجود تین لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔
امریکا سے لیکر ناروے تک غرضیکہ تمام عالم میں آج کل تذکرہ کرونا شب و روز شدومد کے ساتھ جاری و ساری ہے کوئی واقعہ کوئی بات کوئی تذکرہ بغیر کرونا ممکن ہی نہیں آپ چاہیں تو کرونا اور کرونائی، وبائی، تباہی سے صرف نظر نہیں کرسکتے، صبح اٹھیں تو کرونا شام کو بیٹھیں تو کرونا اخبارات میں ٹی وی چینلوں پر کرونااور اس سے جڑی خبریں اور معلومات کا ازدحام ہے جو انسانی نفسیات کو روندتا ہوا آگے بڑھا ہے ۔
مگر اس پوری صورتحال میں گریٹا تھنبرگ ضرور خوش ہوئی ہوگی کیونکہ سننے میں آیا ہے پوری دنیا میں بیک وقت معاشی سرگرمیاں منجمند یا سست پڑنے سے اوزون کی سطح کے زخم بھرنے لگے ہیں۔چین کے شہروں سمیت دنیا کے وہ تمام شہر جو معاشی سرگرمیوں کا مرکز مانے جاتے تھے ان کا ائیر کوالٹی انڈیکس پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہوا ہے۔ ویںنس کا پانی صاف ہوگیا تو ہمارا سی ویو بھی ستھرا،ستھرا لگ رہا ہے، تصویروں میں۔
اس وبا نے کسی کو بھی نہیں بخشا سوشلسٹوں کو سوشل ڈسٹنسنگ پر مجبور کیا تو ،سروائیول آف دا فٹسٹ والوں کو بھی خوب فٹ کر رہی ہے۔
ویسے سرمایه دارانہ نظام میں قومی سرمایادار کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں مگر اس وقت تک جب تک وہ ریاست کے تابع ہوں نہ کہ ریاست سے اپنے من مانے فیصلے عوام پر مسلط کروائیں۔ چین کا قومی سرمایادار اپنی ریاست کے تابع ہے اور ریاست کی پالیسی کے خلاف ذرا بھی دائیں،بائیں نہیں چل سکتا امریکہ میں بھی بےشک سرمایہ دار ہیں پالیسیاں بناتے ہیں مگر وہاں بھی کچھ قوانین اور ضابطے ہیں جو انہیں کھینچ کر رکھتے ہیں۔ جیسے ٹیکس نادہندگان کو ذرا بھی معاف نہیں کیا جاتا اور دیگر کئی ایسی چیزیں ہیں جنھوں نے امریکی قومی سرمایه دار کوبھی باندھ کے رکھا ہوا ہے۔ اب آتے ہیں مملکت خداداد کی جانب جہاں اب سے کچھ مہینے پہلے 300 ارب ان قومی سرمایہ کاروں کے معاف ہوئے تو اب تعمیراتی صنعت کو چلانے کا اعلان کیا گیا جبکہ پورا ملک کرونا سے خوفزدہ ہوکر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے گھروں میں محدود رہنے کو ترجیح دے رہا ہے ایسے موقع پر ایسے موقع پر وزیراعظم کی جانب سے اعلان سمجھ سے بالاتر ہے
تعمیراتی صنعت سے وابستہ لوگوں کا کاروبار یقیناً چل پڑے گا مگر کیا انہیں پابند کیا جائے گا کہ وہ کرونا سے بچنے کی جتنی احتیاطی تدابیر ہیں ان پر اپنے عملے سے سختی سے عمل کروائیں گے اور بیماری کی صورت میں مزدور کا علاج اور بہترین علاج کروائیں گے موت کی صورت میں خطیر رقم تعمیراتی صنعت سے وابستہ مزدور کےخاندان کو دے سکیں گے تو جواب یقینا نفی کی صورت میں آئے گا
کرونا سے مرنا بھوک سے مرنے سے زیادہ اذیت ناک ہوگا ہمارے معاشرے کے غریب اور متوسط طبقے میں اگر کوئی وفات پا جاتا ہے تو تین دن تک گھر کا چولہا نہیں جلتا اڑوس پڑوس، عزیز اقرباءہی کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہیں مگر چشم تصور سے دیکھنے کی کوشش کریں اگر کرونا سے کسی غریب مزدور کی ہلاکت ہوتی ہے تو اس کا پورا خاندان بھوک سے واقعی مر جائے گا کیونکہ کوئی بھی قریب آنے کو تیار نہیں ہوگا نہ تسلی کے لیے، نہ ہی مالی مدد کے لیے
انہی قومی سرمایہ داروں کا کمال ملاحظہ ہو لاک ڈاؤن کی حکومتی ہدایات کے برعکس اپنے ملازمین کی تنخواہ میں 30% سے زائد کٹوتی تو لازمی کی ہے اور جب کسی نے دریافت کیا تو جواب دیا “شکر کرو نوکری سے نہیں نکالا بھائی”
حکومت ان آزمائے ہوئے بازوؤں کو دوبارہ آزمانے کے بجائے غریب اور متوسط طبقے کی براہ راست فلاح و بہبود کے لئے میکنزم کو وضع کرے۔
یہ سرمایہ دار نا حکومت کے مفاد میں کام کریں گے اور نہ عوام کے اردو کی مثال “چمڑی جائے دمڑی نہ جائے” پاکستانی سرمایہ داروں کے لیے ہی ہے ۔
متوسط اور غریب پہلے ہی غریبی اور کرونا کے پاٹوں کے بیچ پس رہا ہے کہ اس پہ ستم بالائے ستم کے الیکٹرک کی ایوریج بلنگ کا ھتوڑا کراچی کی عوام کے سروں پر پڑا ہے۔ سہولت بہم پہنچانے کے بجائے آزار پہنچایا گیا۔ نیپرا کی تازہ ہدایات کے تحت ایوریج بلنگ والے مارچ کے بل اب اپریل کے بلز کیساتھ میٹر ریڈنگ کے بعد جمع کروائیں جائیں گے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کے الیکٹرک کیا واقعی ہدایات پر من وعن عمل کرتی ہے یا نہیں یا پھر روایتی ٹال مٹول سے کام لیتی ہے۔
پاکستانی روپیہ،امریکن ڈالر،برطانوی پاونڈ اور سعودی ریال تو سب جانتے ہیں۔ مگر اسکینڈے نیویا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے ناروے، اس کی کرنسی کا نام ہی کرونا ہے۔ اور کرونا نے اسکو بھی نہیں بخشا کم از کم ہم نام ہونے کا ہی خیال کرتا مگر اس کی قدر میں بھی پچیس فیصد تک کی گراوٹ کا باعث یہ وبا بنی۔ ناروے جیسے چھوٹے ملک میں جسكی آبادی ( 5.368ملین) کراچی کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے وہاں ایک سو ایک اموات اب تک ریکارڈ ہوئی ہیں اور چھ ہزار تینتالیس متاثرین ہیں۔ ناروے کی آبادی تو بہت کم ہےمگر معیشت چھوٹی نہیں ہے۔ ناروے کا جی ڈی پی پاکستان کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ اسکے باوجود تین لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔
امریکا سے لیکر ناروے تک غرضیکہ تمام عالم میں آج کل تذکرہ کرونا شب و روز شدومد کے ساتھ جاری و ساری ہے کوئی واقعہ کوئی بات کوئی تذکرہ بغیر کرونا ممکن ہی نہیں آپ چاہیں تو کرونا اور کرونائی، وبائی، تباہی سے صرف نظر نہیں کرسکتے، صبح اٹھیں تو کرونا شام کو بیٹھیں تو کرونا اخبارات میں ٹی وی چینلوں پر کرونااور اس سے جڑی خبریں اور معلومات کا ازدحام ہے جو انسانی نفسیات کو روندتا ہوا آگے بڑھا ہے ۔
مگر اس پوری صورتحال میں گریٹا تھنبرگ ضرور خوش ہوئی ہوگی کیونکہ سننے میں آیا ہے پوری دنیا میں بیک وقت معاشی سرگرمیاں منجمند یا سست پڑنے سے اوزون کی سطح کے زخم بھرنے لگے ہیں۔چین کے شہروں سمیت دنیا کے وہ تمام شہر جو معاشی سرگرمیوں کا مرکز مانے جاتے تھے ان کا ائیر کوالٹی انڈیکس پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہوا ہے۔ ویںنس کا پانی صاف ہوگیا تو ہمارا سی ویو بھی ستھرا،ستھرا لگ رہا ہے، تصویروں میں۔
اس وبا نے کسی کو بھی نہیں بخشا سوشلسٹوں کو سوشل ڈسٹنسنگ پر مجبور کیا تو ،سروائیول آف دا فٹسٹ والوں کو بھی خوب فٹ کر رہی ہے۔
ویسے سرمایه دارانہ نظام میں قومی سرمایادار کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں مگر اس وقت تک جب تک وہ ریاست کے تابع ہوں نہ کہ ریاست سے اپنے من مانے فیصلے عوام پر مسلط کروائیں۔ چین کا قومی سرمایادار اپنی ریاست کے تابع ہے اور ریاست کی پالیسی کے خلاف ذرا بھی دائیں،بائیں نہیں چل سکتا امریکہ میں بھی بےشک سرمایہ دار ہیں پالیسیاں بناتے ہیں مگر وہاں بھی کچھ قوانین اور ضابطے ہیں جو انہیں کھینچ کر رکھتے ہیں۔ جیسے ٹیکس نادہندگان کو ذرا بھی معاف نہیں کیا جاتا اور دیگر کئی ایسی چیزیں ہیں جنھوں نے امریکی قومی سرمایه دار کوبھی باندھ کے رکھا ہوا ہے۔ اب آتے ہیں مملکت خداداد کی جانب جہاں اب سے کچھ مہینے پہلے 300 ارب ان قومی سرمایہ کاروں کے معاف ہوئے تو اب تعمیراتی صنعت کو چلانے کا اعلان کیا گیا جبکہ پورا ملک کرونا سے خوفزدہ ہوکر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے گھروں میں محدود رہنے کو ترجیح دے رہا ہے ایسے موقع پر ایسے موقع پر وزیراعظم کی جانب سے اعلان سمجھ سے بالاتر ہے
تعمیراتی صنعت سے وابستہ لوگوں کا کاروبار یقیناً چل پڑے گا مگر کیا انہیں پابند کیا جائے گا کہ وہ کرونا سے بچنے کی جتنی احتیاطی تدابیر ہیں ان پر اپنے عملے سے سختی سے عمل کروائیں گے اور بیماری کی صورت میں مزدور کا علاج اور بہترین علاج کروائیں گے موت کی صورت میں خطیر رقم تعمیراتی صنعت سے وابستہ مزدور کےخاندان کو دے سکیں گے تو جواب یقینا نفی کی صورت میں آئے گا
کرونا سے مرنا بھوک سے مرنے سے زیادہ اذیت ناک ہوگا ہمارے معاشرے کے غریب اور متوسط طبقے میں اگر کوئی وفات پا جاتا ہے تو تین دن تک گھر کا چولہا نہیں جلتا اڑوس پڑوس، عزیز اقرباءہی کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہیں مگر چشم تصور سے دیکھنے کی کوشش کریں اگر کرونا سے کسی غریب مزدور کی ہلاکت ہوتی ہے تو اس کا پورا خاندان بھوک سے واقعی مر جائے گا کیونکہ کوئی بھی قریب آنے کو تیار نہیں ہوگا نہ تسلی کے لیے، نہ ہی مالی مدد کے لیے
انہی قومی سرمایہ داروں کا کمال ملاحظہ ہو لاک ڈاؤن کی حکومتی ہدایات کے برعکس اپنے ملازمین کی تنخواہ میں 30% سے زائد کٹوتی تو لازمی کی ہے اور جب کسی نے دریافت کیا تو جواب دیا “شکر کرو نوکری سے نہیں نکالا بھائی”
حکومت ان آزمائے ہوئے بازوؤں کو دوبارہ آزمانے کے بجائے غریب اور متوسط طبقے کی براہ راست فلاح و بہبود کے لئے میکنزم کو وضع کرے۔
یہ سرمایہ دار نا حکومت کے مفاد میں کام کریں گے اور نہ عوام کے اردو کی مثال “چمڑی جائے دمڑی نہ جائے” پاکستانی سرمایہ داروں کے لیے ہی ہے ۔
متوسط اور غریب پہلے ہی غریبی اور کرونا کے پاٹوں کے بیچ پس رہا ہے کہ اس پہ ستم بالائے ستم کے الیکٹرک کی ایوریج بلنگ کا ھتوڑا کراچی کی عوام کے سروں پر پڑا ہے۔ سہولت بہم پہنچانے کے بجائے آزار پہنچایا گیا۔ نیپرا کی تازہ ہدایات کے تحت ایوریج بلنگ والے مارچ کے بل اب اپریل کے بلز کیساتھ میٹر ریڈنگ کے بعد جمع کروائیں جائیں گے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کے الیکٹرک کیا واقعی ہدایات پر من وعن عمل کرتی ہے یا نہیں یا پھر روایتی ٹال مٹول سے کام لیتی ہے۔
پاکستانی روپیہ،امریکن ڈالر،برطانوی پاونڈ اور سعودی ریال تو سب جانتے ہیں۔ مگر اسکینڈے نیویا کا ایک چھوٹا سا ملک ہے ناروے، اس کی کرنسی کا نام ہی کرونا ہے۔ اور کرونا نے اسکو بھی نہیں بخشا کم از کم ہم نام ہونے کا ہی خیال کرتا مگر اس کی قدر میں بھی پچیس فیصد تک کی گراوٹ کا باعث یہ وبا بنی۔ ناروے جیسے چھوٹے ملک میں جسكی آبادی ( 5.368ملین) کراچی کے مقابلے میں آدھی سے بھی کم ہے وہاں ایک سو ایک اموات اب تک ریکارڈ ہوئی ہیں اور چھ ہزار تینتالیس متاثرین ہیں۔ ناروے کی آبادی تو بہت کم ہےمگر معیشت چھوٹی نہیں ہے۔ ناروے کا جی ڈی پی پاکستان کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ اسکے باوجود تین لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔
امریکا سے لیکر ناروے تک غرضیکہ تمام عالم میں آج کل تذکرہ کرونا شب و روز شدومد کے ساتھ جاری و ساری ہے کوئی واقعہ کوئی بات کوئی تذکرہ بغیر کرونا ممکن ہی نہیں آپ چاہیں تو کرونا اور کرونائی، وبائی، تباہی سے صرف نظر نہیں کرسکتے، صبح اٹھیں تو کرونا شام کو بیٹھیں تو کرونا اخبارات میں ٹی وی چینلوں پر کرونااور اس سے جڑی خبریں اور معلومات کا ازدحام ہے جو انسانی نفسیات کو روندتا ہوا آگے بڑھا ہے ۔
مگر اس پوری صورتحال میں گریٹا تھنبرگ ضرور خوش ہوئی ہوگی کیونکہ سننے میں آیا ہے پوری دنیا میں بیک وقت معاشی سرگرمیاں منجمند یا سست پڑنے سے اوزون کی سطح کے زخم بھرنے لگے ہیں۔چین کے شہروں سمیت دنیا کے وہ تمام شہر جو معاشی سرگرمیوں کا مرکز مانے جاتے تھے ان کا ائیر کوالٹی انڈیکس پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہوا ہے۔ ویںنس کا پانی صاف ہوگیا تو ہمارا سی ویو بھی ستھرا،ستھرا لگ رہا ہے، تصویروں میں۔
اس وبا نے کسی کو بھی نہیں بخشا سوشلسٹوں کو سوشل ڈسٹنسنگ پر مجبور کیا تو ،سروائیول آف دا فٹسٹ والوں کو بھی خوب فٹ کر رہی ہے۔
ویسے سرمایه دارانہ نظام میں قومی سرمایادار کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں مگر اس وقت تک جب تک وہ ریاست کے تابع ہوں نہ کہ ریاست سے اپنے من مانے فیصلے عوام پر مسلط کروائیں۔ چین کا قومی سرمایادار اپنی ریاست کے تابع ہے اور ریاست کی پالیسی کے خلاف ذرا بھی دائیں،بائیں نہیں چل سکتا امریکہ میں بھی بےشک سرمایہ دار ہیں پالیسیاں بناتے ہیں مگر وہاں بھی کچھ قوانین اور ضابطے ہیں جو انہیں کھینچ کر رکھتے ہیں۔ جیسے ٹیکس نادہندگان کو ذرا بھی معاف نہیں کیا جاتا اور دیگر کئی ایسی چیزیں ہیں جنھوں نے امریکی قومی سرمایه دار کوبھی باندھ کے رکھا ہوا ہے۔ اب آتے ہیں مملکت خداداد کی جانب جہاں اب سے کچھ مہینے پہلے 300 ارب ان قومی سرمایہ کاروں کے معاف ہوئے تو اب تعمیراتی صنعت کو چلانے کا اعلان کیا گیا جبکہ پورا ملک کرونا سے خوفزدہ ہوکر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے گھروں میں محدود رہنے کو ترجیح دے رہا ہے ایسے موقع پر ایسے موقع پر وزیراعظم کی جانب سے اعلان سمجھ سے بالاتر ہے
تعمیراتی صنعت سے وابستہ لوگوں کا کاروبار یقیناً چل پڑے گا مگر کیا انہیں پابند کیا جائے گا کہ وہ کرونا سے بچنے کی جتنی احتیاطی تدابیر ہیں ان پر اپنے عملے سے سختی سے عمل کروائیں گے اور بیماری کی صورت میں مزدور کا علاج اور بہترین علاج کروائیں گے موت کی صورت میں خطیر رقم تعمیراتی صنعت سے وابستہ مزدور کےخاندان کو دے سکیں گے تو جواب یقینا نفی کی صورت میں آئے گا
کرونا سے مرنا بھوک سے مرنے سے زیادہ اذیت ناک ہوگا ہمارے معاشرے کے غریب اور متوسط طبقے میں اگر کوئی وفات پا جاتا ہے تو تین دن تک گھر کا چولہا نہیں جلتا اڑوس پڑوس، عزیز اقرباءہی کھانے پینے کا بندوبست کرتے ہیں مگر چشم تصور سے دیکھنے کی کوشش کریں اگر کرونا سے کسی غریب مزدور کی ہلاکت ہوتی ہے تو اس کا پورا خاندان بھوک سے واقعی مر جائے گا کیونکہ کوئی بھی قریب آنے کو تیار نہیں ہوگا نہ تسلی کے لیے، نہ ہی مالی مدد کے لیے
انہی قومی سرمایہ داروں کا کمال ملاحظہ ہو لاک ڈاؤن کی حکومتی ہدایات کے برعکس اپنے ملازمین کی تنخواہ میں 30% سے زائد کٹوتی تو لازمی کی ہے اور جب کسی نے دریافت کیا تو جواب دیا “شکر کرو نوکری سے نہیں نکالا بھائی”
حکومت ان آزمائے ہوئے بازوؤں کو دوبارہ آزمانے کے بجائے غریب اور متوسط طبقے کی براہ راست فلاح و بہبود کے لئے میکنزم کو وضع کرے۔
یہ سرمایہ دار نا حکومت کے مفاد میں کام کریں گے اور نہ عوام کے اردو کی مثال “چمڑی جائے دمڑی نہ جائے” پاکستانی سرمایہ داروں کے لیے ہی ہے ۔
متوسط اور غریب پہلے ہی غریبی اور کرونا کے پاٹوں کے بیچ پس رہا ہے کہ اس پہ ستم بالائے ستم کے الیکٹرک کی ایوریج بلنگ کا ھتوڑا کراچی کی عوام کے سروں پر پڑا ہے۔ سہولت بہم پہنچانے کے بجائے آزار پہنچایا گیا۔ نیپرا کی تازہ ہدایات کے تحت ایوریج بلنگ والے مارچ کے بل اب اپریل کے بلز کیساتھ میٹر ریڈنگ کے بعد جمع کروائیں جائیں گے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کے الیکٹرک کیا واقعی ہدایات پر من وعن عمل کرتی ہے یا نہیں یا پھر روایتی ٹال مٹول سے کام لیتی ہے۔