Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
’نصاب میں ایک مضمون خوشامد کا بھی ہونا چاہیے‘ یہ ہمارے ایک دفتری ساتھی کا کہنا ہے۔ جس سے کچھ حد تک جہاں ہم اختلاف کرتے ہیں وہیں بڑی حد تک اتفاق بھی۔کیونکہ فی زمانہ یہ بھی کامیابی کی کنجی تصور کی جاتی ہے۔ بھلا کون سا ایسا شعبہ نہیں ہوگا جہاں اس کے بغیر گزارہ نہ ہوتا ہو۔ سیاست، فنون لطیفہ، کھیل، محکموں اور ایوان اقتدار، جہاں اس پیارے سے ہنر کی بیساکھیاں تھام کر آپ آگے نہ بڑھتے ہو۔ جس کے پاس ’خوشامد‘ یا پھر ’چاپلوسی‘ یا پھر ’چمچہ گیری‘ کا فن ہو تو وہ بڑی کامیابی کے ساتھ ترقی کا زینہ ایک کے بعد ایک پار کرتا جاتا ہے۔
اب صرف مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو اس فن میں مشاق ہے، وہ کس طرح اور کب اس کا استعمال کرتا ہے۔۔ ’خوشامدی‘ یا پھر ’درباری ٹولہ‘ جہاں اربا ب اقتدار کے پہلومیں بیٹھا ہوتا ہے، وہیں دفاتر میں بھی ان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے۔ ذرا آس پاس نگاہیں دوڑائیں، تو کئی احباب ایسے مل جائیں گے جن کے پاس ’خوشامد‘ کے جملہ حقوق کچھ زیادہ ہی محفوظ ہیں۔ مثلاً ہم ایک ایسے صاحب سے بخوبی واقف ہیں، جب ان کا کوئی ساتھی چٹکلے چھوڑتی کوئی بات ان کے گوش گزار کرے تو وہ ہونقوں کی طرح منہ تکتے رہ جاتے۔ البتہ ’صاحب بہادر‘ کے گھسے پٹے لطائف اور کوئی بے تکی بات پر زمین پر لیٹ کر لوٹ پوٹ ہونے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ اسی خوبی کی بنا پر موصوف ’بحرانی صورتحال‘ میں بھی اپنے لیے ’محفوظ راستہ‘ نکال لیتے ہیں۔
ایک بار ہم نے تلملا کر دریافت کیا کہ وسیم بھائی آپ تھکتے نہیں ہیں ؟ تو جواب یہ نہیں ملا کہ میں سگریٹ نہیں پیتا۔ بلکہ کانوں نے یہ سنا کہ ’میاں موقع محل دیکھ کر بس ’فائر‘ کرنا پڑتا ہے۔ جبھی کہہ رہا ہوں کہ یہ آرٹ ہے۔‘ اعتراف ہی کرنا پڑا کہ واقعی یہ بھی ’آرٹ‘ ہی ہے۔حکام بالا کے موزے سے لے کر ان کے انداز گفتگو اور اقدامات تک کی تعریف و توصیف میں قلابے ملانے والے اس مہارت سے یہ سب کچھ کرتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ اس ’کارکردگی‘ پر کوئی نہ کوئی ایوارڈ تو مخصوص کیا جائے۔’دفتری چمچے‘ باشعور اور سمجھ داروں کے لیے تو ناپسند ہوں گے لیکن جن کے یہ ’چمچے‘ یا عرف عام میں ’منہ چڑھے‘ ہوتے ہیں‘ ان کے منظور نظر بنے رہتے ہیں، گھسا پٹا واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے رکاب میں رکھے پکے پکائے سالم ہرن سے پیٹ پوجا کرنی ہے۔ عقل کے گھوڑے دوڑائے گئے لیکن ناکامی اور مایوسی کے گھپ اندھیروں میں ہرن، رکاب سمیت اڑن چھو ہوگیا ۔
درباریوں میں ایک خوشامدی بھی تھا، جس نے مرغ مسلم کو رکاب میں رکھ کر بادشاہ سلامت کو پیش کرتے ہوئے کہا ’حضور کا جاہ و جلا ل اور رعب دار شخصیت ہے ہی ایسی کہ اس کے سامنے یہ دیکھیں ہرن بھی مرغا بن گیا ہے۔‘ بس جناب آگے آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس خوشامدی کی پھر کس طرح قسمت نے اور پلٹا کھایا ہوگا‘ ایسے ’چرب زبانوں‘ کے پاس ’خوشامد‘ کی ہی گیڈر سنگی ہوتی،ہے، زیاد دور نہ جائیں کچھ مہینوں پہلے ایک کرکٹر کے خواب میں چیف سلیکٹرز کے آنے اور پھر ٹیم کا حصہ بننے کی نوید دینے والی بات تو یاد ہی ہوگی ۔ اب یہ اور بات ہے کہ متعلقہ موصوف سب کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بن کر ٹیم سے چپکے رہے۔۔ کچھ ایسے ہی ’درباری خوشامدی‘ ہر صاحب اقتدار کے ایوانوں میں بھی بیٹھے ہوتے ہیں، حال ہی میں ایک موصوف کا ٹوئٹ نظروں سے گزرا جس میں وہ اپنے محبوب لیڈر کو بغیر ماسک کے کورونا وائرس کے خلاف لڑتے دیکھ کر فخر محسوس کرتے ہوئے دلیر رہنما قرار دینے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے تھے حالانکہ ان کی ہی حکومت، عوام کو یہی تلقین کرتی چلی آرہی ہے کہ ماسک کا استعمال لازمی کریں، خیر اب تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے تو جناب خوشامد بھی اب ’ڈیجٹیلائز‘ ہوگئی ہے ۔ ٹوئٹر کی پوسٹ کو ’ری ٹوئٹ‘ وہ نیک تاثرات کے ساتھ کرنا یا پھر اسے ’دل‘ دے دینا عام ہے۔ اسی طرح فیس بک پر اگر’صاحب بہادر‘ نے کچھ لکھا ہو‘ اس پر ’وا واہ‘ کرنا اور شئیر کرنا اب اس فن کے ’رہنما اصول‘ ہیں۔ چمچہ گیری میں کچھ احباب توجان بوجھ کر ’سمندری حدود‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں‘ ان کے سامنے ’خوشامد‘ اور ’چاپلوسی‘ کے الفاظ انتہائی ادنیٰ سے معلوم ہوتے ہیں۔
کیا یہ کم چمچہ گیری نہیں کہ کسی نے آئی فون کا یا پھر گاڑی کا نیا ماڈل خریدا ہو تو باقاعدہ اشتہار دے کر ان کو مبارک باد دی جائے ۔ ایسے اشتہار ہماری اور آپ کی نگاہوں سے اکثر وبیشتر گزرتے ہی رہتے ہیں۔ایک بار ہم نے اپنے ایک انتہائی ذہین دفتری ساتھی سے دریافت کیا کہ جس کی خوشامد کی جارہی ہوتی تو وہ کیوں نہیں سمجھ پاتا کہ یہ سب ’مکھن‘ لگانے کا کام ہے۔ تو جواب ملا کہ خود کی تعریف سننا دراصل کسی نشے سے کم نہیں جس کے خمار میں گم ہو کر متعلقہ شخص جان ہی نہیں پاتا کہ اصل ماجرہ کیا ہے اور جو اس کے عادی ہوچکے ہوں تو وہ بے چین اور اضطرابی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں‘ جن کے کان ترستے ہیں صرف اور صرف مدحا سرائی کو۔ اس کا اندازہ ہمیں اخبار کی ملازمت کے دوران اُس وقت ہوا، جب ہمارے ایک ’صاحب‘ کو انتہائی بے چینی سے ٹہلتے ہوئے دیکھا تو ساتھی نے بتایا کہ یہ اسد کو ’مس‘ کررہے ہیں۔ اسد دراصل ٹیلی فون آپریٹر تھا، جوکوئی بھی نمبر ملانے سے پہلے اُن صاحب کی مٹھاس بھرے لہجے میں تعریف کرکے اپنے نمبر ضرور بڑھوالیتا۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو ’خوشامد پسند‘ ہوتے ہیں، ان کو ’خوراک‘ نہ ملے تو بے چاروں کی طبعیت تشویش ناک ہونے لگتی ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں یہ طعنہ کانوں کو بڑا برا لگتا تھا کہ یہ تو فلاں سر کا چمچہ ہے۔ لیکن اب ایسے ہی چمچوں سے آس پاس کے افراد محتاط رہتے ہیں، اور ان کے سامنے زبانوں پر تالے لگا کر رکھتے ہیں۔ کیا پتا اور کب نجانے ان کی ’مخبری‘ صاحب بہادر سے کر دی جائے اور پھر ایک نئی مصیبت سے پالا پڑ جائے۔ خیر ہمارے ایک دوست تو اس قدر ’خوشامد پسند‘ ہیں کہ انہیں ایک مرتبہ ہمیں افسر اعلیٰ کے ساتھ انہی کی گاڑی میں لے جانے کا اتفاق ہوا۔۔ جب منزل مقصود پر پہنچے تو گاڑی سے اترتے ہوئے ’چاپلوسی کا یہ ڈرون‘ مارا کہ’ سر ماشا اللہ کیا مہارت سے آپ گاڑی چلاتے ہیں‘ مجھے تو ایسا لگا کہ جیسے ڈرائنگ روم کے صوفے پر بیٹھا ہوں۔‘ افسر اعلیٰ نے تعریفی نگاہوں سے انہیں دیکھا اور مسکراتے ہوئے فرمایا ’پچیس سال کا تجربہ ہے بھئی۔‘ اب یہ الگ بات ہے کہ ان کے پرانے واقف کار ہمیں بتاتے تھے کہ موصوف برسوں تک موٹر سائیکل پر کراچی کی سڑکوں کی خاک چھانتے رہے ہیں۔۔ ویسے آپس کی بات ہے اس ’خوشامد‘ کا عنصر تو اب میڈیا میں بھی آگیا ہے۔ ذرا ٹی وی چینل لگا کر دیکھیں خود سمجھ جائیں گے کہ کون سا چینل کس کی خوشامد یا چاپلوسی میں لگا ہے۔
خیر اب آپ پر چھوڑتے ہیں کہ آپ کی کیا رائے ہے کیا آخر کہ واقعی نصاب میں ’خوشامد‘ اور ’چاپلوسی‘ کے رہنما اصولوں کو شامل کیا جائے۔ اُن افراد کے تجربات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے جو چاپلوسی کے فن میں کوئی ثانی نہ رکھتے ہو۔ کب اور کہاں کس طرح خوشامد کرنی ہے وہ احوال بھی تحریر ہو ں۔ ویسے اب آپ ہرگز یہ نہ سمجھئے گا کہ یہ تحریر، ہم نے چاپلوسی اور خوشامد کرکے لگوائی ہے۔ ٭٭
’نصاب میں ایک مضمون خوشامد کا بھی ہونا چاہیے‘ یہ ہمارے ایک دفتری ساتھی کا کہنا ہے۔ جس سے کچھ حد تک جہاں ہم اختلاف کرتے ہیں وہیں بڑی حد تک اتفاق بھی۔کیونکہ فی زمانہ یہ بھی کامیابی کی کنجی تصور کی جاتی ہے۔ بھلا کون سا ایسا شعبہ نہیں ہوگا جہاں اس کے بغیر گزارہ نہ ہوتا ہو۔ سیاست، فنون لطیفہ، کھیل، محکموں اور ایوان اقتدار، جہاں اس پیارے سے ہنر کی بیساکھیاں تھام کر آپ آگے نہ بڑھتے ہو۔ جس کے پاس ’خوشامد‘ یا پھر ’چاپلوسی‘ یا پھر ’چمچہ گیری‘ کا فن ہو تو وہ بڑی کامیابی کے ساتھ ترقی کا زینہ ایک کے بعد ایک پار کرتا جاتا ہے۔
اب صرف مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو اس فن میں مشاق ہے، وہ کس طرح اور کب اس کا استعمال کرتا ہے۔۔ ’خوشامدی‘ یا پھر ’درباری ٹولہ‘ جہاں اربا ب اقتدار کے پہلومیں بیٹھا ہوتا ہے، وہیں دفاتر میں بھی ان کی تعداد اچھی خاصی ہوتی ہے۔ ذرا آس پاس نگاہیں دوڑائیں، تو کئی احباب ایسے مل جائیں گے جن کے پاس ’خوشامد‘ کے جملہ حقوق کچھ زیادہ ہی محفوظ ہیں۔ مثلاً ہم ایک ایسے صاحب سے بخوبی واقف ہیں، جب ان کا کوئی ساتھی چٹکلے چھوڑتی کوئی بات ان کے گوش گزار کرے تو وہ ہونقوں کی طرح منہ تکتے رہ جاتے۔ البتہ ’صاحب بہادر‘ کے گھسے پٹے لطائف اور کوئی بے تکی بات پر زمین پر لیٹ کر لوٹ پوٹ ہونے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ اسی خوبی کی بنا پر موصوف ’بحرانی صورتحال‘ میں بھی اپنے لیے ’محفوظ راستہ‘ نکال لیتے ہیں۔
ایک بار ہم نے تلملا کر دریافت کیا کہ وسیم بھائی آپ تھکتے نہیں ہیں ؟ تو جواب یہ نہیں ملا کہ میں سگریٹ نہیں پیتا۔ بلکہ کانوں نے یہ سنا کہ ’میاں موقع محل دیکھ کر بس ’فائر‘ کرنا پڑتا ہے۔ جبھی کہہ رہا ہوں کہ یہ آرٹ ہے۔‘ اعتراف ہی کرنا پڑا کہ واقعی یہ بھی ’آرٹ‘ ہی ہے۔حکام بالا کے موزے سے لے کر ان کے انداز گفتگو اور اقدامات تک کی تعریف و توصیف میں قلابے ملانے والے اس مہارت سے یہ سب کچھ کرتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ اس ’کارکردگی‘ پر کوئی نہ کوئی ایوارڈ تو مخصوص کیا جائے۔’دفتری چمچے‘ باشعور اور سمجھ داروں کے لیے تو ناپسند ہوں گے لیکن جن کے یہ ’چمچے‘ یا عرف عام میں ’منہ چڑھے‘ ہوتے ہیں‘ ان کے منظور نظر بنے رہتے ہیں، گھسا پٹا واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے رکاب میں رکھے پکے پکائے سالم ہرن سے پیٹ پوجا کرنی ہے۔ عقل کے گھوڑے دوڑائے گئے لیکن ناکامی اور مایوسی کے گھپ اندھیروں میں ہرن، رکاب سمیت اڑن چھو ہوگیا ۔
درباریوں میں ایک خوشامدی بھی تھا، جس نے مرغ مسلم کو رکاب میں رکھ کر بادشاہ سلامت کو پیش کرتے ہوئے کہا ’حضور کا جاہ و جلا ل اور رعب دار شخصیت ہے ہی ایسی کہ اس کے سامنے یہ دیکھیں ہرن بھی مرغا بن گیا ہے۔‘ بس جناب آگے آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس خوشامدی کی پھر کس طرح قسمت نے اور پلٹا کھایا ہوگا‘ ایسے ’چرب زبانوں‘ کے پاس ’خوشامد‘ کی ہی گیڈر سنگی ہوتی،ہے، زیاد دور نہ جائیں کچھ مہینوں پہلے ایک کرکٹر کے خواب میں چیف سلیکٹرز کے آنے اور پھر ٹیم کا حصہ بننے کی نوید دینے والی بات تو یاد ہی ہوگی ۔ اب یہ اور بات ہے کہ متعلقہ موصوف سب کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بن کر ٹیم سے چپکے رہے۔۔ کچھ ایسے ہی ’درباری خوشامدی‘ ہر صاحب اقتدار کے ایوانوں میں بھی بیٹھے ہوتے ہیں، حال ہی میں ایک موصوف کا ٹوئٹ نظروں سے گزرا جس میں وہ اپنے محبوب لیڈر کو بغیر ماسک کے کورونا وائرس کے خلاف لڑتے دیکھ کر فخر محسوس کرتے ہوئے دلیر رہنما قرار دینے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے تھے حالانکہ ان کی ہی حکومت، عوام کو یہی تلقین کرتی چلی آرہی ہے کہ ماسک کا استعمال لازمی کریں، خیر اب تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے تو جناب خوشامد بھی اب ’ڈیجٹیلائز‘ ہوگئی ہے ۔ ٹوئٹر کی پوسٹ کو ’ری ٹوئٹ‘ وہ نیک تاثرات کے ساتھ کرنا یا پھر اسے ’دل‘ دے دینا عام ہے۔ اسی طرح فیس بک پر اگر’صاحب بہادر‘ نے کچھ لکھا ہو‘ اس پر ’وا واہ‘ کرنا اور شئیر کرنا اب اس فن کے ’رہنما اصول‘ ہیں۔ چمچہ گیری میں کچھ احباب توجان بوجھ کر ’سمندری حدود‘ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں‘ ان کے سامنے ’خوشامد‘ اور ’چاپلوسی‘ کے الفاظ انتہائی ادنیٰ سے معلوم ہوتے ہیں۔
کیا یہ کم چمچہ گیری نہیں کہ کسی نے آئی فون کا یا پھر گاڑی کا نیا ماڈل خریدا ہو تو باقاعدہ اشتہار دے کر ان کو مبارک باد دی جائے ۔ ایسے اشتہار ہماری اور آپ کی نگاہوں سے اکثر وبیشتر گزرتے ہی رہتے ہیں۔ایک بار ہم نے اپنے ایک انتہائی ذہین دفتری ساتھی سے دریافت کیا کہ جس کی خوشامد کی جارہی ہوتی تو وہ کیوں نہیں سمجھ پاتا کہ یہ سب ’مکھن‘ لگانے کا کام ہے۔ تو جواب ملا کہ خود کی تعریف سننا دراصل کسی نشے سے کم نہیں جس کے خمار میں گم ہو کر متعلقہ شخص جان ہی نہیں پاتا کہ اصل ماجرہ کیا ہے اور جو اس کے عادی ہوچکے ہوں تو وہ بے چین اور اضطرابی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں‘ جن کے کان ترستے ہیں صرف اور صرف مدحا سرائی کو۔ اس کا اندازہ ہمیں اخبار کی ملازمت کے دوران اُس وقت ہوا، جب ہمارے ایک ’صاحب‘ کو انتہائی بے چینی سے ٹہلتے ہوئے دیکھا تو ساتھی نے بتایا کہ یہ اسد کو ’مس‘ کررہے ہیں۔ اسد دراصل ٹیلی فون آپریٹر تھا، جوکوئی بھی نمبر ملانے سے پہلے اُن صاحب کی مٹھاس بھرے لہجے میں تعریف کرکے اپنے نمبر ضرور بڑھوالیتا۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو ’خوشامد پسند‘ ہوتے ہیں، ان کو ’خوراک‘ نہ ملے تو بے چاروں کی طبعیت تشویش ناک ہونے لگتی ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں یہ طعنہ کانوں کو بڑا برا لگتا تھا کہ یہ تو فلاں سر کا چمچہ ہے۔ لیکن اب ایسے ہی چمچوں سے آس پاس کے افراد محتاط رہتے ہیں، اور ان کے سامنے زبانوں پر تالے لگا کر رکھتے ہیں۔ کیا پتا اور کب نجانے ان کی ’مخبری‘ صاحب بہادر سے کر دی جائے اور پھر ایک نئی مصیبت سے پالا پڑ جائے۔ خیر ہمارے ایک دوست تو اس قدر ’خوشامد پسند‘ ہیں کہ انہیں ایک مرتبہ ہمیں افسر اعلیٰ کے ساتھ انہی کی گاڑی میں لے جانے کا اتفاق ہوا۔۔ جب منزل مقصود پر پہنچے تو گاڑی سے اترتے ہوئے ’چاپلوسی کا یہ ڈرون‘ مارا کہ’ سر ماشا اللہ کیا مہارت سے آپ گاڑی چلاتے ہیں‘ مجھے تو ایسا لگا کہ جیسے ڈرائنگ روم کے صوفے پر بیٹھا ہوں۔‘ افسر اعلیٰ نے تعریفی نگاہوں سے انہیں دیکھا اور مسکراتے ہوئے فرمایا ’پچیس سال کا تجربہ ہے بھئی۔‘ اب یہ الگ بات ہے کہ ان کے پرانے واقف کار ہمیں بتاتے تھے کہ موصوف برسوں تک موٹر سائیکل پر کراچی کی سڑکوں کی خاک چھانتے رہے ہیں۔۔ ویسے آپس کی بات ہے اس ’خوشامد‘ کا عنصر تو اب میڈیا میں بھی آگیا ہے۔ ذرا ٹی وی چینل لگا کر دیکھیں خود سمجھ جائیں گے کہ کون سا چینل کس کی خوشامد یا چاپلوسی میں لگا ہے۔
خیر اب آپ پر چھوڑتے ہیں کہ آپ کی کیا رائے ہے کیا آخر کہ واقعی نصاب میں ’خوشامد‘ اور ’چاپلوسی‘ کے رہنما اصولوں کو شامل کیا جائے۔ اُن افراد کے تجربات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے جو چاپلوسی کے فن میں کوئی ثانی نہ رکھتے ہو۔ کب اور کہاں کس طرح خوشامد کرنی ہے وہ احوال بھی تحریر ہو ں۔ ویسے اب آپ ہرگز یہ نہ سمجھئے گا کہ یہ تحریر، ہم نے چاپلوسی اور خوشامد کرکے لگوائی ہے۔ ٭٭