قومی اسمبلی میں ہاتھائی کی روایت کو زندہ رکھنے کیلئے تحریک انصاف نے ہمیشہ اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کی ہیں، عمران خان پر اگر ان کے مخالفین نے ان کی ذات پر حملہ کیا تو پی ٹی آئی ارکان ایوان کے اندر چڑھ دوڑتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن اب ایسا نہیں رہا، شاید آپ سمجھ رہے ہوں کہ وہ پریکٹیکل بندے بن گئے ہیں، سیاست جو جدوجہد میں جذبات کا نام ہوتی ہے، اگر اس کی منزل پر پہنچ جائیں تو مزاج میں ٹھراؤ آ ہی جاتا ہے، تاکہ جو عوام سے وعدے کیئے گئے تھے، ان پر کام کیا جائے، لیکن موجودہ سرکار بھی کمال کی سرکار ہے، کام ہوں یا نہ ہوں، لیکن اپنی زبان کے استعمال کا ہنر ابھی تک اس نے نہیں چھوڑا۔
لیکن اس بار ایسا لگا کہ کچھ مختلف تھا، سولہ اکتوبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس تھا،اسی روز پی ڈٰ ایم نے گجرانوالہ میں اپنا پہلا جلسہ ہبھی اعلان کیا تھا، حکومت کی کوشش تھی کہ پی ڈی ایم کے جلسے والے دن اپوزیشن ایوان میں موجود نہیں ہوگی، کیوں نہ اس دن اجلاس بلاکر قانون سازی بھی کرلی جائے اور کھل کر بات بھی کر لی جائے، لیکن حکومت اس بار اس لیئے مکمل طور پر ناکام ہوئی کہ اس کے اپنے ارکان ہاتھ کھڑے کردیئے ، یہ ایسا ہی تھا، جیسے سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران ہوا تھا، پہلے ارکان نے عدم اعتماد کی تحریک کی منظوری پر ووٹ دیا، اور جب ووٹنگ ہوئی تو اس کے خلاف ووٹ دیا، اس بار قومی اسمبلی میں ایسا ہی ہوا، پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا کہ وہ آج کھل کر اپوزیشن کو لتاڑیں، اپنے ارکان کے مشورے پر وزیر اعظم ایوان میں پہنچ گئے، اپوزیشن کے ارکان تو تھوڑے تھے، لیکن ان ارکان نے وزیراعظم کے ساتھ کیا حال کیا یہ ایک مزیدار کہانی ہے، لیکن اس سارے منظرنامے کا حیران کن پہلو یہ تھا کہ حکومت کے اپنے ارکان نے بھی اپنے وزیراعظم کی بے توقیری میں شامل رہے، کہانی کا آغاز اور انجام کس طرح ہوا اس بارے میں جاننے کیلئے لنک کلک کریں: