گوجرانوالہ کے جلسے نے کئی پیغام دیے ہیں۔ احتجاجی تحریکیں رفتہ رفتہ زور پکڑتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ شعلہ جوالہ بن جاتی ہیں، 1977ء میں پاکستان کی سب سے بڑی احتجاجی تحریک بھی اپنی ابتدا اس قدر زور دار نہ تھی لیکن اس جلسے نے ایک نیا ریکارڈ قائم کر کے شبلی فراز کو شرمندہ کر دیا ہے، اب وہ استعفیٰ دیں یا نہ دیں ، یہ ان کی مرضی ہے۔
اس جلسے کا دوسرا پیغام میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں دیا ہے۔ چند روز قبل فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بری فوج کے کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب میں حزب اختلاف کو بالفاظ دیگر مفاہمت کے کچھ اشارے دیے تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں ففتھ جنریشن وار اور ہائبرڈ وار کا ذکر ضرور کیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ بعض لوگوں کی تنقید کو دشمنی اور اختلاف پر محمول نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ ایسی باتیں آپ سے محبت کرنے والے بھی کرتے ہیں۔ یہ گویا ایک انتہا پر پہنچی ہوئی کشیدگی کمی کی ایک کوشش تھی۔ اس کے بعد حزب اختلاف کی طرف سے جواب کا انتظار تھا جو آج سامنے آگیا ہے۔
آرمی چیف کے اس خطاب کا ایک خاص پس منظر تھا۔ بعض مبصرین کاخیال ہے کہ میاں صاحب نے جب سے خطاب شروع کیے ہیں، سیاسی محاذ آرائی کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ ثالثی کا جو کردار ادا کرتی رہی ہے، اسے صدمہ پہنچا ہے۔ جنرل باجوہ کی تقریر کو اس کردار کی بحالی اور حزب اختلاف، خصوصاً مسلم لیگ ن کی طرف خیر سگالی کا ایک پیغام کا پیغام تصور کیا گیا تھا لیکن گوجرانوالہ میں میاں صاحب کے خطاب نے اس خطاب کے اثرات کو زک پہنچائی ہے۔ میاں صاحب کی طرف سے جنرل عاصم سلیم باجوہ پر آرٹیکل چھ کے اطلاق اور گزشتہ انتخابات کے نتائج میں مبینہ رد و بدل کے الزامات جنرل قمر جاوید باجوہ پر عائد کر کے اپنے دباؤ میں کچھ اور اضافہ کر دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت پر سیاسی دباؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔ بعض باخبر ذرائع کے مطابق حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ حکومت اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی طرف رکھے لیکن میاں صاحب کے خطاب سے لگتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں دو نالی بندوق رکھیں گے۔ میاں صاحب کا اگلا خطاب 18 اکتوبر کو کراچی میں متوقع ہے، سب دیکھئے، ان دو دنوں میں کیا ردعمل سامنے آتا ہے۔