انتیس اپریل کانفرنس کا پہلا دن تھا ۔ فجر کی نماز کے بعد مجھے نیند نہیں آئی کچھ بے چینی سی تھی۔ لگ رہا تھا کہ بلڈ پریشر کچھ ہائی ہورہا ہے۔ میں دوا لے کر بستر پہ لیٹی رہی پھر کچھ دیر بعد نہا دھو کر تیار ہوئی اور ناشتہ کرنے طے شدہ وقت کے مطابق ہوٹل کے ڈائینگ ہال میں آگئی۔ صدف اور کیانی صاحب اپنا ناشتہ مکمل کر چکے تھے۔ میں نے صرف چائے پی اور ایک بریڈ کا پیس ساتھ لے کر کمرے میں آگئی۔ اپنی دوائیں کھانے سے پہلے میں نے بریڈ کا وہ پیس زبردستی حلق سے نیچے اُتارا۔ ڈائینگ ہال میں صدف نے مجھے بہت محبت سے ہدایت کی تھی کہ اپنا خیال رکھوں اور ناشتہ ٹھیک سے کروں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے والد غذا سے علاج کیا کرتے تھے۔ صدف اپنے والد کا ذکر بہت کرتی ہیں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اُن کے والد کی وفات کے بعد وہ ان کی یادوں کو زندگی جینے کا سہارا بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے والد کی یادوں پر مشتمل کتاب “برگد” بھی جلد منظر عام پہ آنے والی ہے۔ چند ہفتوں قبل ان کی کتاب جو ڈینش شاعرات کے حوالے سے ہے منظر عام پر آئی تھی۔ اس سے قبل ان کی تصنیف “یار من دانش “اور شعری مجموعہ “ آبِ جو “ میرے پاس موجود ہیں۔ یہ دونوں کتابیں اردو مہجری ادب اور شاعری میں ایک اچھا اضافہ ہیں۔ صدف کی شخصیت بہت حاوی پن کے ساتھ محبت کرنے والی شخصیت ہے۔ وہ میرا اتنا خیال رکھ رہی تھیں اور اتنی محبت جتارہی تھیں کہ میں پریشان ہورہی تھی۔ وہ کیا شعر ہے نا کہ
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی بہل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

اُن کے مجھ پر اس محبت کے بہت احسانات ہیں ۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ صدف کی طبیعت ہی ایسی ہے ہر کسی کے لیے آگے بڑھ کر جی جان سے کام آنا چاہتی ہیں۔ لیکن میری طرح کے احتیاط پسند لوگ انہیں مایوس کر دیتے ہیں۔ جب ہم ہوٹل سے نکلے تو سوچا کہ پیدل ہی چلتے ہیں کیونکہ ابھی کانفرنس کے آغاز میں خاصا وقت تھا۔ میں ویسے بھی تازہ ہوا میں تھوڑی واک کرنا چاہ رہی تھی۔ اس وقت صبح کی گلابی دھوپ اور ہلکی سی سردی میں واک کرنا اچھا لگ رہا تھا لیکن کچھ دیر چلنے کے بعد احساس ہوا کہ اوور کوٹ اور کتابوں سے بھرے بیگ کے ساتھ پیدل چلنا کچھ اتنا آسان بھی نہیں۔ میں نے توجوگر شوز پہنے تھے لیکن صدف کی سینڈل نے انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا۔ کیانی صاحب دو خواتین کے ساتھ شاید تیز قدم نہیں چل رہے تھے ۔ بار بار کہتے کہ ہم بس یا ٹیکسی لے لیتے ہیں۔ ہم آدھے سے زیادہ راستہ پیدل چل چکے تھے ۔ پھر بھی ہم نے ایک اسٹاپ کے لیے ہی سہی بس لینے کا فیصلہ کیا ۔ یونیورسٹی پہنچے تو استقبالیہ میں ہمیں اپنے نام کا ایک بیگ اور لینا پڑا جس میں کانفرنس سے متعلق اور ترکی میں عاکف ارصوئے و جنگ آزادی سے متعلق وزیٹر کارڈ ، کتابیں ، بروشر اور دیگر مطبوعات تھیں ۔
جامعہ انقرہ سے شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر پروفیسر آسمان اوزجان کی ہمراہی میں شعبے کے دیگر اساتذہ ، تحقیق کار اور طالب علم وہاں موجود تھے۔ اس کے علاوہ فارسی اور شعبہ تاریخ کے اساتذہ اور طالب علم وہاں بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ڈاکٹر راشد حق کے ساتھ ساتھ ، ڈاکٹر آرزو اور تحقیق کار زینب بھی وہاں موجود تھیں۔ کچھ ہی دیر میں جناب ڈاکٹر حلیل طوقار صاحب بھی تشریف لے آئے ۔ ہم سب کا ایک دوسرے سے تعارف کروایا گیا۔ حلیل طوقار صاحب سے باالمشافہ یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ بہت پر سکون اور پرخلوص شخصیت کے مالک لگے ۔ کچھ ہی دیر میں اجلاس کا آغاز ہونے کا اعلان ہوا ۔ تمام حاضرین اور ہم ترک زبان سے ناواقف لوگ اس اعلان کے ہوتے ہی اپنی اپنی نشست پر برابر کمان ہوگئے۔ اسٹیج کے سامنے کی نشست پر فہیم بھائی نے اپنے برابر میں میرے لیے جگہ بنائی میرے برابر میں صدف اور ان کے برابر میں کیانی صاحب بیٹھ گئے ۔ درمیانی راہداری کے بعد شعبہ اردو و فارسی کے اراکین اور حلیل طوقار صاحب بیٹھ چکے تھے۔ مہ جبین غزل انصاری جب ہال میں داخل ہوئیں تو اشارے سلام کرتی ہوئی حلیل طوقار صاحب کے ساتھ بیٹھ گئیں۔
اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ ایک نوجوان لڑکی جو شاید اس شعبے کی طالبہ تھی مکمل طور پر ترکی زبان میں نظامت کر رہی تھی۔ ترجمے کا کوئی انتظام نہ تھا ۔ مجھے اپنی اردو انجمن برلن کی محافل یاد آگئیں جہاں ہم اپنا پروگرام نظامت سے شاعری تک اور مقالے سے مباحثے تک جرمن ترجمہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں اردو سمجھنے بولنے والے اور محبان اردو جرمن جو اس زبان جو صرف تہذیب کے حوالے سے جانتے ہیں وہ بھی اس تین چار گھنٹے پہ محیط محفل میں برابر اپنی توجہ شامل رکھتے ہیں۔
یہ ایک بین الاقوامی کانفرنس تھی جس میں ترک مجاہد شاعر عاکف ارصوئے اور شاعر مشرق علامہ اقبال کو خراج پیش کیا جارہا تھا ۔ یقینی طور پر نہایت دلچسپ اور معلوماتی ہوگا لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم ترکی زبان سے آشنا نہیں تھے ۔ دوسری جانب اس کانفرنس میں ہماری بناوٹی دلچسپی کی ناکام اداکاری بھی مندوبین پر عیاں ہورہی تھی۔ تین ساڑھے تین گھنٹے بعد لنچ کا وقفہ ہوا تو حلیل طوقار صاحب کے کمرے میں ان کے گھر سے بنی پاکستانی چکن کڑھائی اور سبزی نے ترکی کھانوں کے وسیع دسترخوان کو مذید وسیع کردیا۔ کانفرنس کے پہلے حصے میں انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے اراکین و سربراہان کے مقالے تھے جس پر انہیں خوب داد مل رہی تھی۔ ڈاکٹر آسمان اوزجان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ بہت دل کھول کر ہنسنے والی اور محبت کرنے والی شخصیت ہیں ۔ فوراً ہی بُلاوا دے ڈالا کہ نومبر میں ہونے والی خیر پور یونیورسٹی پاکستان میں شامل ہو جاؤں ۔ جسے فی الوقت میں نے آمادگی کے ساتھ قبول کر لیا۔ انہوں نے اپنے شعبے کے دیگر اراکین کا تعارف بھی کروایا اور انقرہ آنے کی بہت خلوص دعوت دی۔ کانفرنس میں مکمل طور پر ترکی زبان میں گفتگو جاری تھی ۔ انقرہ سے آئی ہوئی ایک خاتون جرمن ادب و زبان پر کچھ کام کر رہی تھیں ۔ اُن کے شوہر انقرہ یونیورسٹی میں اردو ادب کے لیکچرار اور اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ اس وقت جامعہ انقرہ میں شعبہ اردو کی نگراں پروفیسر ڈاکٹر آسمان بیلن اوزجان کی نگرانی میں یہ وفد کانفرنس میں صرف ایک دن کی شرکت کے لیے استنبول آیا تھا۔
دو پہر میں کانفرنس کے کھانے کے وقفے میں جب مہہ جبین غزل انصاری سے میری بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ حلیل طوقار صاحب کا کہنا ہے کہ ترکی زبان میں ہونے والی یہ تقاریر یقیناً آپ ترکی زبان نہ جاننے والوں کے لیے غیر دلچسپ ہوگی لہٰذا اگر آپ لوگ چاہیں تو استنبول گھوم کر آسکتی ہیں بعد ازاں ہم ایک اردو زبان والوں کے لیے مختصر شعری نشت بھی منعقد کریں گے جس میں آپ سب کی شرکت ضروری ہے۔ اس سے قبل طوقار صاحب مجھ سے پوچھ چکے تھے کہ میں استنبول میں پہلے آچکی ہوں یا نہیں اور اگر دلچسپی ہو تو حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر حاضری کے لیے مہہ جبیں غزل انصاری کے ساتھ چلی جاؤں ۔ راشد حق صاحب اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کے لیے ساتھ ہونگے۔