Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
مریم نواز یکم ستمبر کو اسلام آباد میں سیاسی واردات ڈالنے کے بعد لاہور ہی پہنچیں کہ میاں شہباز شریف دو روزہ دورے پر کراچی روانہ ہوگئے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے ہی دو روزہ دورے پر کراچی پہنچے ہوئے تھے، جب کہ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور بھی اپنے سندھ کے ہم منصب کے ساتھ بارش متاثرین کی خبر لینے بدین پہنچے ہوئے تھے۔
سندھ کے باخبر سیاسی حلقے عسکری اور سیاسی قیادت کی شفقت پر حیران اور پریشان بھی تھے، حیران اس لیئے کہ سب کو ایک ہی وقت میں ان کی بربادی پر ہمدردی کرنے کیسے خیال آگیا، یہ ہی تو وہ لوگ ہیں جو اس شہر کی بربادی میں اپنا حصہ ڈالتے رہے تھے۔ اور پریشان اس لیئے کہ ایک بار پھر ان سب کے انقلابی بیانات سن کر خود کو دھوکہ دینے کیلئے تیار ہونا پڑے گا!
میاں شہباز شریف کو کراچی کے بارش متاثرین کی فکر کم اور اپنی فکر زیادہ تھی، دشمنان شریف کہتے ہیں کہ اگر بڑے میاں صاحب نو ستمبر تک واپس نہ آئے تو میاں شہباز شریف کیا کریں گے، جو اپنے بڑے بھائی میں ضامن ہیں، ظاہر ہے کہ نواز شریف خود کو عدالت کے حوالے نہیں کرتے تو باری شہباز شریف کی آنی ہے،
دوسری جانب حکومت کے تیور دیکھ کر چھوٹے میاں نے بھانپ لیا ہے کہ معاملات بگڑسکتے ہیں، تجربات کی بنیاد پر شہباز شریف کو اندازہ ہوگیا کہ ان کیلئے آنے والے دن کراچی کے بارش متاثرین سے زیادہ خراب ہوسکتے ہیں، اب وہ اس بلاول ہاؤس کے مالک کے سلامی تھے ، جس کیلئے وہ کہا کرتے تھے کہ کرپشن کے پیسوں سے یہ ساری ایمپائر کھڑی کی ہوئی ہے، آصف زرداری اس دن بڑے خوش تھے، سوچ رہے تھے کہ جو شخص انہیں لاہور کی سڑکوں پر گردن میں رسی ڈال کر گھسیٹنے کے دعوے کر رہا تھا، وہ اپنے گھر میں ان کا استقبال کر رہے تھے، جمہوریت بہترین انتقام کی اصطلاح انہیں یاد آئی، لیکن سچ یہ تھا کہ بڑے دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے چھوٹے دشمن اکٹھے ہو گئے تھے۔ دشمن کے دشمن سے دوستی آج کی نہیں صدیوں کی روایت ہے، یہ ایک بار پھر اس روایت کے امین بنے ہوئے تھے۔
اس کے بعد اس ملاقات میں کیا ہوا، بلاول ہاؤس کراچی میں جس کمرے میں میاں شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ آصف زرادری اور بلاول بھٹو سے ملاقات کر رہے تھے، اس کمرے کے باہر کھڑے دوسرے رہنما کیا باتیں کر رہے تھے؟ پیپلزپارٹی ن لیگ کو اتنے رومانس کے باوجود بھی کیوں فاشسٹ سمجھتی ہے؟ شہباز شریف کی گرفتاری کب تک متوقع ہے؟ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں ایک دوسرے کے بغیر کیسے چل سکتیں ہیں؟ ان کا ایک دوسرے پر کتنا اعتبار ہے؟ یہ تمام تفصیلات اس ویڈیو میں، لنک کلک کریں اور سبسکرائب کریں :
مریم نواز یکم ستمبر کو اسلام آباد میں سیاسی واردات ڈالنے کے بعد لاہور ہی پہنچیں کہ میاں شہباز شریف دو روزہ دورے پر کراچی روانہ ہوگئے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے ہی دو روزہ دورے پر کراچی پہنچے ہوئے تھے، جب کہ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور بھی اپنے سندھ کے ہم منصب کے ساتھ بارش متاثرین کی خبر لینے بدین پہنچے ہوئے تھے۔
سندھ کے باخبر سیاسی حلقے عسکری اور سیاسی قیادت کی شفقت پر حیران اور پریشان بھی تھے، حیران اس لیئے کہ سب کو ایک ہی وقت میں ان کی بربادی پر ہمدردی کرنے کیسے خیال آگیا، یہ ہی تو وہ لوگ ہیں جو اس شہر کی بربادی میں اپنا حصہ ڈالتے رہے تھے۔ اور پریشان اس لیئے کہ ایک بار پھر ان سب کے انقلابی بیانات سن کر خود کو دھوکہ دینے کیلئے تیار ہونا پڑے گا!
میاں شہباز شریف کو کراچی کے بارش متاثرین کی فکر کم اور اپنی فکر زیادہ تھی، دشمنان شریف کہتے ہیں کہ اگر بڑے میاں صاحب نو ستمبر تک واپس نہ آئے تو میاں شہباز شریف کیا کریں گے، جو اپنے بڑے بھائی میں ضامن ہیں، ظاہر ہے کہ نواز شریف خود کو عدالت کے حوالے نہیں کرتے تو باری شہباز شریف کی آنی ہے،
دوسری جانب حکومت کے تیور دیکھ کر چھوٹے میاں نے بھانپ لیا ہے کہ معاملات بگڑسکتے ہیں، تجربات کی بنیاد پر شہباز شریف کو اندازہ ہوگیا کہ ان کیلئے آنے والے دن کراچی کے بارش متاثرین سے زیادہ خراب ہوسکتے ہیں، اب وہ اس بلاول ہاؤس کے مالک کے سلامی تھے ، جس کیلئے وہ کہا کرتے تھے کہ کرپشن کے پیسوں سے یہ ساری ایمپائر کھڑی کی ہوئی ہے، آصف زرداری اس دن بڑے خوش تھے، سوچ رہے تھے کہ جو شخص انہیں لاہور کی سڑکوں پر گردن میں رسی ڈال کر گھسیٹنے کے دعوے کر رہا تھا، وہ اپنے گھر میں ان کا استقبال کر رہے تھے، جمہوریت بہترین انتقام کی اصطلاح انہیں یاد آئی، لیکن سچ یہ تھا کہ بڑے دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے چھوٹے دشمن اکٹھے ہو گئے تھے۔ دشمن کے دشمن سے دوستی آج کی نہیں صدیوں کی روایت ہے، یہ ایک بار پھر اس روایت کے امین بنے ہوئے تھے۔
اس کے بعد اس ملاقات میں کیا ہوا، بلاول ہاؤس کراچی میں جس کمرے میں میاں شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ آصف زرادری اور بلاول بھٹو سے ملاقات کر رہے تھے، اس کمرے کے باہر کھڑے دوسرے رہنما کیا باتیں کر رہے تھے؟ پیپلزپارٹی ن لیگ کو اتنے رومانس کے باوجود بھی کیوں فاشسٹ سمجھتی ہے؟ شہباز شریف کی گرفتاری کب تک متوقع ہے؟ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں ایک دوسرے کے بغیر کیسے چل سکتیں ہیں؟ ان کا ایک دوسرے پر کتنا اعتبار ہے؟ یہ تمام تفصیلات اس ویڈیو میں، لنک کلک کریں اور سبسکرائب کریں :
مریم نواز یکم ستمبر کو اسلام آباد میں سیاسی واردات ڈالنے کے بعد لاہور ہی پہنچیں کہ میاں شہباز شریف دو روزہ دورے پر کراچی روانہ ہوگئے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے ہی دو روزہ دورے پر کراچی پہنچے ہوئے تھے، جب کہ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور بھی اپنے سندھ کے ہم منصب کے ساتھ بارش متاثرین کی خبر لینے بدین پہنچے ہوئے تھے۔
سندھ کے باخبر سیاسی حلقے عسکری اور سیاسی قیادت کی شفقت پر حیران اور پریشان بھی تھے، حیران اس لیئے کہ سب کو ایک ہی وقت میں ان کی بربادی پر ہمدردی کرنے کیسے خیال آگیا، یہ ہی تو وہ لوگ ہیں جو اس شہر کی بربادی میں اپنا حصہ ڈالتے رہے تھے۔ اور پریشان اس لیئے کہ ایک بار پھر ان سب کے انقلابی بیانات سن کر خود کو دھوکہ دینے کیلئے تیار ہونا پڑے گا!
میاں شہباز شریف کو کراچی کے بارش متاثرین کی فکر کم اور اپنی فکر زیادہ تھی، دشمنان شریف کہتے ہیں کہ اگر بڑے میاں صاحب نو ستمبر تک واپس نہ آئے تو میاں شہباز شریف کیا کریں گے، جو اپنے بڑے بھائی میں ضامن ہیں، ظاہر ہے کہ نواز شریف خود کو عدالت کے حوالے نہیں کرتے تو باری شہباز شریف کی آنی ہے،
دوسری جانب حکومت کے تیور دیکھ کر چھوٹے میاں نے بھانپ لیا ہے کہ معاملات بگڑسکتے ہیں، تجربات کی بنیاد پر شہباز شریف کو اندازہ ہوگیا کہ ان کیلئے آنے والے دن کراچی کے بارش متاثرین سے زیادہ خراب ہوسکتے ہیں، اب وہ اس بلاول ہاؤس کے مالک کے سلامی تھے ، جس کیلئے وہ کہا کرتے تھے کہ کرپشن کے پیسوں سے یہ ساری ایمپائر کھڑی کی ہوئی ہے، آصف زرداری اس دن بڑے خوش تھے، سوچ رہے تھے کہ جو شخص انہیں لاہور کی سڑکوں پر گردن میں رسی ڈال کر گھسیٹنے کے دعوے کر رہا تھا، وہ اپنے گھر میں ان کا استقبال کر رہے تھے، جمہوریت بہترین انتقام کی اصطلاح انہیں یاد آئی، لیکن سچ یہ تھا کہ بڑے دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے چھوٹے دشمن اکٹھے ہو گئے تھے۔ دشمن کے دشمن سے دوستی آج کی نہیں صدیوں کی روایت ہے، یہ ایک بار پھر اس روایت کے امین بنے ہوئے تھے۔
اس کے بعد اس ملاقات میں کیا ہوا، بلاول ہاؤس کراچی میں جس کمرے میں میاں شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ آصف زرادری اور بلاول بھٹو سے ملاقات کر رہے تھے، اس کمرے کے باہر کھڑے دوسرے رہنما کیا باتیں کر رہے تھے؟ پیپلزپارٹی ن لیگ کو اتنے رومانس کے باوجود بھی کیوں فاشسٹ سمجھتی ہے؟ شہباز شریف کی گرفتاری کب تک متوقع ہے؟ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں ایک دوسرے کے بغیر کیسے چل سکتیں ہیں؟ ان کا ایک دوسرے پر کتنا اعتبار ہے؟ یہ تمام تفصیلات اس ویڈیو میں، لنک کلک کریں اور سبسکرائب کریں :
مریم نواز یکم ستمبر کو اسلام آباد میں سیاسی واردات ڈالنے کے بعد لاہور ہی پہنچیں کہ میاں شہباز شریف دو روزہ دورے پر کراچی روانہ ہوگئے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے ہی دو روزہ دورے پر کراچی پہنچے ہوئے تھے، جب کہ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور بھی اپنے سندھ کے ہم منصب کے ساتھ بارش متاثرین کی خبر لینے بدین پہنچے ہوئے تھے۔
سندھ کے باخبر سیاسی حلقے عسکری اور سیاسی قیادت کی شفقت پر حیران اور پریشان بھی تھے، حیران اس لیئے کہ سب کو ایک ہی وقت میں ان کی بربادی پر ہمدردی کرنے کیسے خیال آگیا، یہ ہی تو وہ لوگ ہیں جو اس شہر کی بربادی میں اپنا حصہ ڈالتے رہے تھے۔ اور پریشان اس لیئے کہ ایک بار پھر ان سب کے انقلابی بیانات سن کر خود کو دھوکہ دینے کیلئے تیار ہونا پڑے گا!
میاں شہباز شریف کو کراچی کے بارش متاثرین کی فکر کم اور اپنی فکر زیادہ تھی، دشمنان شریف کہتے ہیں کہ اگر بڑے میاں صاحب نو ستمبر تک واپس نہ آئے تو میاں شہباز شریف کیا کریں گے، جو اپنے بڑے بھائی میں ضامن ہیں، ظاہر ہے کہ نواز شریف خود کو عدالت کے حوالے نہیں کرتے تو باری شہباز شریف کی آنی ہے،
دوسری جانب حکومت کے تیور دیکھ کر چھوٹے میاں نے بھانپ لیا ہے کہ معاملات بگڑسکتے ہیں، تجربات کی بنیاد پر شہباز شریف کو اندازہ ہوگیا کہ ان کیلئے آنے والے دن کراچی کے بارش متاثرین سے زیادہ خراب ہوسکتے ہیں، اب وہ اس بلاول ہاؤس کے مالک کے سلامی تھے ، جس کیلئے وہ کہا کرتے تھے کہ کرپشن کے پیسوں سے یہ ساری ایمپائر کھڑی کی ہوئی ہے، آصف زرداری اس دن بڑے خوش تھے، سوچ رہے تھے کہ جو شخص انہیں لاہور کی سڑکوں پر گردن میں رسی ڈال کر گھسیٹنے کے دعوے کر رہا تھا، وہ اپنے گھر میں ان کا استقبال کر رہے تھے، جمہوریت بہترین انتقام کی اصطلاح انہیں یاد آئی، لیکن سچ یہ تھا کہ بڑے دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے چھوٹے دشمن اکٹھے ہو گئے تھے۔ دشمن کے دشمن سے دوستی آج کی نہیں صدیوں کی روایت ہے، یہ ایک بار پھر اس روایت کے امین بنے ہوئے تھے۔
اس کے بعد اس ملاقات میں کیا ہوا، بلاول ہاؤس کراچی میں جس کمرے میں میاں شہباز شریف اپنے وفد کے ہمراہ آصف زرادری اور بلاول بھٹو سے ملاقات کر رہے تھے، اس کمرے کے باہر کھڑے دوسرے رہنما کیا باتیں کر رہے تھے؟ پیپلزپارٹی ن لیگ کو اتنے رومانس کے باوجود بھی کیوں فاشسٹ سمجھتی ہے؟ شہباز شریف کی گرفتاری کب تک متوقع ہے؟ اپوزیشن کی دیگر جماعتیں ایک دوسرے کے بغیر کیسے چل سکتیں ہیں؟ ان کا ایک دوسرے پر کتنا اعتبار ہے؟ یہ تمام تفصیلات اس ویڈیو میں، لنک کلک کریں اور سبسکرائب کریں :