{ایک قوم جو اپنی تاریخ میں کبھی بھی بُت پرست نہیں رہی اس کا ایک فرد کیوں بُت پرست ٹھہرایاجاتا ہے؟}
میرے کچھ پاکستانی بہن بھائیوں کے مزاج واقعتا بہت دلچسپ واقع ہوئے ہیں۔ اُن کی تحریریں بالخصوص جب جب ترکوں کا یا مذہب اسلام کا ذکر آئے تو وہ بہت ہی خوشگوار موڈ میں آجاتے ہیں اور اس طرح کے طرہ کھلاتے ہیں جنھیں دیکھ کر ایک تُرک اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگشت بہ دندان رہ جاتا ہوں۔ کیونکہ بسا اوقات ایسے بیانات پیش کیے جاتے ہیں کہ سبحان اللہ۔ جن کا تعلق دُور و نزدیک سے ترکوں کی تاریخ سے نہیں۔ البتہ میرے یہ دوست کچھ حوالہ جات بھی دیتے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان کے مطالعات کا دائرہ یا مغربی خبرایجنسیوں جن کے ترکوں اور مسلمانوں کے ساتھ بغض کا طویل عرصہ صدیوں پر مشتمل ہے کے اندر ہی رہ جاتا ہے یا پھر مغرب کے وہ عظیم دانشور ہیں جو مسلمانوں کی تاریخ بدل بدل کر تایخ کے واقعات کا رخ بدل دیتے ہیں جو ایک ہزار سال سے مل کر جینے والے لوگوں کو ایک دوسرے کے جانی دشمن ٹھہرادیتے ہیں جس طرح عربوں کو ترکوں سے، کردوں کو عربوں اور ترکوں سے، افغانیوں کو پاکستانیوں سے اور پھر شامیوں کو عراقیوں سے نفرت کرادیتے ہیں۔ جس طرح تاریخ کو بدل کر مسلمانوں کوجاہل، ناسمجھ اور وحشی مخلوقات کی صورت پیش کرکے مغربی ممالک کے عام لوگوں کے ذہنوں میں اسلامافوبیا جیسا ایک مہلک مرض پیدا کردیتے ہیں جس کا علاج تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ اور آخری دو دہائیوں میں لاکھوں لاکھ بے گناہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے باوجود اب بھی مسلمان دہشتگرد ہیں۔
یہ تو مجھے سمجھ آتا ہے کہ مسلمانوں سے دشمنی پیدا کرکے ان کے ممالک میں موجود طبعی ذرائع اور دولت پر قبضہ کرنے کا راستہ نکال لیتے ہیں اور اس پر بین الاقوامی حقوق کا پردہ ڈال کر اپنے جرائم کو چھپا لیتے ہیں۔ خیر اس پر حیرت نہیں، میری حیرت اس وقت شروع ہوتی ہے جب ان کے ان خودساختہ مقولوں پر ہمارے مسلمان بہن بھائی بھی یقین کرکے ان کا پرچار شروع کرتے کہ اللہ ہم پر رحم کرے۔
ظاہر ہے کہ اب میرے پیارے دوست دریافت کرنا چاہیں گے کہ خلیل صاحب کے ذہن میں ایسی باتیں اچانک کیوں سوجھیں؟
میرے دوستو، یونہی اچانک میرے آغازِ گفتگو کا اصل سبب مشہورِ زمانہ “ارطغرل غازی ڈرامہ” کی وجہ سےپاکستان کے کچھ حلقوں میں پیدا ہونے والے بحث و مباحثہ کا ناقابلِ تفہیم طوفان ہے۔ یہ غیر ضروری سلسلہ جس کو سمجھنا اس غریب کی سمجھ سے بالا ہےاس حد تک آگے بڑھ گیا کہ بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ کیا ارطغرل غازی مسلمان بھی تھا؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو شاید سات صدیاں یعنی سات سو سال سے سلطنت عثمانیوں کےعہد میں اور جمہوریت ترکی میں مذہبی یا غیر مذہبی، مسلم یا غیر مسلم کسی بھی شخص کے ذہن میں آیا ہو۔ لیکن نجانے کیوں یہ سوال ایک ڈرامہ کے بعد میرے پیارے پاکستانی دوستوں کے ذہن میں آگیا ۔ اللہ خیر کرے۔
جب ارطغرل ڈرامہ کے میدان جنگ میں پاکستان کے مخالف آراء کے اصحاب نے تلوار بہ دست چھلانگ لگالی اور مجھے ان کی تحریریں پڑھ پڑھ کر یوں لگنے لگا کہ انھوں نے اپنے اپنے سیاسی اور تصوراتی مقدمے کی بندوق ارطغرل غازی کے کندھے پر رکھ کر چلانا شروع کی ہے۔
تقریباً چونتیس سال سے میں اردو پڑھ رہا ہوں اور تیس سال سے اردو پڑھارہا ہوں اور میری اہلیہ بھی پاکستانی ہیں اور ہماری شادی کو چوبیس سال ہوچکے ہیں اور اب اتنے سال بعد میں بھی ایک طرح سے پاکستانی بنا ہوا ہوں لہذا مجھے اپنے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کے مزاج کا بخوبی علم ہے، سو میں نے سوچا کہ خاموش رہنا بہتر اور کافی دنوں سے خاموش رہنے پر مصرّ تھا۔پر ہوا یہ ہے کہ میرے ترکی النسل ہونے کی وجہ سے میرے کچھ محترم و مکرم دوستوں کا اصرار تھا کہ ارطغرل غازی کے مذہب کے سوال پر روشنی ڈالوں۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ چلو میں بھی اس موضوع پر قلم اٹھا کر اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کو کچھ معلومات فراہم کروں تو شاید یہ بحث و مباحثے کا بازار گرم کسی حد تک ٹھنڈا پڑجائے اور ان کی نظریں دنیاوی حقیقتوں پر مرکوز ہوجائیں۔
سب سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ارطغرل غازی ڈرامہ جو ہے، وہ ایک ڈرامہ ہی ہے۔ ترکی میں ہم سب اسے ڈرامے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں ۔ یہ ایک ایسا ڈرامہ ہے جسے کچھ تاریخی واقعات کی بنیاد پر فلمایا گیا ہے. اس میں حقیقت بھی ہے، ایکشن بھی ہے، فکشن بھی ہے، ناظرین کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے نئے تازے واقعات بھی ہیں. اس میں عام ناظرین کو بالخصوص نوجوانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت قومی، اخلاقی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی پیغامات دئیے گئے ہیں جن کے خلاف ترکی کے سیکولر یا مذہبی کسی بھی حلقے میں اعتراض کی آواز نہیں اٹھی کیونکہ اس ڈرامے میں جو پیغامات پیش کیے گئے ہیں وہ قوم کے لیے تخریبی نہیں تعمیری عناصر کے حامل ہیں اور فنی لحاظ سے بھی یہ ڈرامہ کمال کا ہے۔اس ڈرامے میں رول ادا کرنے والے اداکار جو ہیں وہ ترکی کے مختلف سماجی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں یعنی ان میں سیکولر لوگ بھی ہیں مذہبی لوگ بھی ہیں اور ان کی اپنی اپنی نجی زندگیوں سے نہ ڈرامے کا تعلق ہے نہ ہی ان اداکاروں کی نجی زندگیوں سے ہم ناظرین کو سر و کار ہے۔ اس لیے میں اپنے پاکستانی دوستوں سے مؤدبانہ التماس کروں گا کہ اسے تختہ ہدف پر لگانے کی بجائے اس حقیقت کو قبول کرلیں اور ارطغرل غازی کا ڈرامہ یا کوئی بھی ڈرامہ یا مووی دیکھتے ہوئے نقص نکالنے کے بجائے یا آرام سے بیٹھ کر اپنی فیملی کے ساتھ لطف اٹھائیں یا اگر پسند نہ آئے چینل چینچ کرکے کوئی ہندوستانی ڈرامہ یا امریکن ایکشن مووی دیکھیں اور اپنےاعصاب پر فشار مت ڈالیں۔ جس طرح یہ خاکسار کیا کرتے ہیں یعنی اگر کوئی ڈرامہ یا مووی پسند نہ آئے میں اسے فوراً بند کرتا ہوں۔
میری دوسری گزارش یہ ہے کہ کسی اور ملک یا قوم کی تاریخی یا داستانی ہیروؤں پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے یہ بھی مد نظر رکھیں کہ کیا آپ لوگوں کے اپنے اپنے سیاسی یا تصوراتی مقدموں کو لڑتے ہوئے کی ہوئی باتیں اس ملک یا قوم کے افراد کو کس قدر رنجیدہ یا دل شکستہ کرتی ہیں؟ اب لیجئے ارطغرل غازی رحمۃ اللہ علیہ کو ۔ وہ ہماری تاریخ کا ایک عظیم کردار ہیں، عثمانی سلطنت کے بانی عثمان بیگ کے جد امجد ہیں۔ ان کے بیٹے جو ایک عظیم سلطنت کو قائم کیا ہے ان کا نام اپنے ایک سکّہ کے اوپر مرقوم کروایا ہے یعنی اس کے مطابق سلطان عثمان کا نام یوں ہے:
“عثمان بن ارطغرل بن گوندوز الپ”
اس کا مطلب یہ ہے کہ عثمان غازی کے والد کا نام ارطغرل ہے اور ان کے دادا کا نام گوندوز الپ ہے۔ کچھ عثمانی تاریخ نویسوں نے ارطغرل غازی کے والد کا نام “سلیمان شاہ” بتاتے ہیں مگر یہ صحیح نہیں لگتا اور جس طرح عثمان بیگ کے سکّہ سے علم ہوتا ہے ان کے والد کے نام کا “گوندوز الپ” ہونا زیادہ قابل یقین ہے اور اس پر شک کرنا ایسا ہے جیسے آپ سب کے شناختی کارڈوں پر لکھے ہوئے اپنے اپنے والدکے نام پر شک کریں۔ اور یہ سوچئے کہ کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک بادشاہ نےاپنے نام کے سکّہ کے اوپر اپنے والد اور دادا کا نام غلط لکھوایا ہو؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں۔
ارطغرل غازی کے جدّ امجد ترکوں کی اوغوز نسل کے قائی نامی برادری یا قبیلہ کہہ لیجیے سے تعلق رکھتے تھے اور اناطولیہ میں فتوحات اسلامیہ کے افتتاح کے دوران سلجوقی سلاطین طغرل بیگ اور الپ ارسلان کے سرداروں کی سرگردگی میں غزوہ و فتوحات کی غرض سے اخلاط کے علاقے میں آگئے مگر کچھ عرصے بعد منگولی یلغار کی وجہ سے اس علاقے سے مشرقی اناطولیہ کے شہر ماردین کی جانب آئے مگر پھر منگولی حملوں کی وجہ سے گوندوز الپ اور ان کے زیر کمان ترکمان قبائلی مغرب کی طرف روانہ ہوئے، وہ موجودہ ترکی کے شہر پاسینلیر پہنچے تھے کہ گوندوز الپ بیمار ہوکر انتقال کرگئے اور ان کی جگہ ان کے صاحبزادے ارطغرل قبیلہ کے سردار بنے۔ پھر ارطغرل بیگ اور ان کے بھائی دونداربیگ کے ہمراہ مغرب کی جانب روانہ تھے کہ ۱۲۳۰ء میں سلجوقی سلطان علاء الدین کیقباد اور خرزم شاہی فوجوں کے درمیان ہونے والی جنگ میں جبکہ سلجوقی فوج شکست کھانے والی تھی، ارطغرل بیگ نے سلجوقیوں کی مدد کی اور جنگ کا رخ بدل گیا اور سلجوقی فوج کی جیت ہوئی تو سلطان علاء الدین کیقباد نے خلعت اور ان کے قبیلے کے آباد ہونے کے لیے انقرہ کے نزدیک قرہ جہ داغ کے علاقے کو عطا کیا۔
کچھ عرصہ اس علاقے میں رہنے کے بعد سلجوقی سلطان علاء الدین کیقباد سے اجازت لے کر مغرب کی جانب سفر کرتے رہے اور سوغوت کے علاقے میں آباد ہوئے اور ادھر سے بیزانطینی علاقوں پر حملہ آور ہوتے رہے۔ ارطغرل غازی اپنی زندگی کے آخری ایام میں عمر رسیدہ ہونے کے سبب اپنے قبیلہ کی سربراہی اپنے صاحبزادے عثمان بیگ کے حوالے کیے اور نوے سال سے زیادہ عمر پاکر ۶۸۰ھ بمطابق ۱۲۸۱\۱۲۸۲ء انتقال کرگئے۔{۱}
ایک ایسے مجاہد جو اپنی زندگی کے آخری ایام تک فتوحات اسلامیہ کی خاطر جنگ و جدال میں مصروف رہے، جن کی قابلیت و صلاحیت کی داد سلجوقی سلاطین نے بھی دی ہو اور ان کی بہادری کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو اپنے قبیلے کے ساتھ آباد ہونے کے لیے وسیع علاقے عطا کیے ہوں اور جن کو ایک اسلامی لقب “غازی” دیا گیا ہو، کیا اس شخص کا غیر مسلم ہوناممکن ہے؟
پھر میں نے کچھ اصحاب کی تحریروں میں ارطغرل غازی کے بُت پرست ہونے کا ذکر بھی دیکھا ہے جوکہ بالکل محیرالعقول امر ہے۔ کیونکہ ترکوں کا بُت پرست ہونا ناممکن تھا۔ ترکوں کامذہب شروع سے ہی وحدت پر قائم تھا اور ان کا ایک ہی خدا تھا جسے وہ گوک تینری یا تینگری کہتے تھے جوکہ قادر مطلق تھا۔ترکوں کی وحدت پسندی اور ان کے مذہبی عقاید کی اسلامی عقاید سے مشابہت تھی لہذا جب ترکوں نے مبلغین اسلام کے ذریعے اسلام کو پہچانا اور دیکھا کہ اسلام ان کے اپنے مذہب سے بہتر ہے تو وہ جوق در جوق مشرف بہ اسلام ہوئے۔
سلسلہ ذرا طویل ہورہا ہے مگر ترکی کے تین بڑے دانشوروں کی تحریر کردہ قابل اعتماد تصنیف بعنوان “ترک اسلامی ریاستوں کی ایک مختصر تاریخ {ماسوائے سلطنت عثمانیہ} سے “ترکوں کے قبول اسلام” نامی تحریر کو پیش کرنا چاہوں گا تاکہ آگے چل کر ارطغرل غازی یا کسی بھی ترک کے بت پرست ہونے پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے مدنظر رکھا جائے اور چند ایک مغربی مصنف اور ان کے حوالے دے کر غلط معلومات پر مبنی ترکوں کی تاریخ ایجاد کرنے والوں پر بھروسہ کرنے سے قبل جن پر غور کیا جائے :
ترکوں کے قبول اسلام کے اسباب
“اسلام قبول کرنے سے قبل ترکوں کا مختلف مذاہب سے رابطہ ہوا اور بوض ترک قبائل نے ان میں سے بعض مذاہب کو قبول کرلیا۔ یہودیت، عسائیت اور بدھ مت جیسے مذاہب کی طرف ترک کم ہی راغب ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ترک برادریوں خاص طور پر حکمرانوں نے اپنے علاقوں میں ان مذاہب کے نفوذ کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا لیکن انھوں نے اسلام کی کوئی مخالفت نہیں کی۔ بارہویں صدی کے نسطوری مذہبی رہنما اور مورخ مخائل {متوفی ۱۱۹۹ء} نے ترکوں کے خوشی سے اسلام قبول کرنے کے اس طرز عمل کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ترک اپنے عقائد کے اعتبار سے ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے اس لیے انھیں اپنے عقائد اور عرب مسلمانوں کے اللہ پر عقیدہ میں یکسانیت نظر آئی۔ میخائل کے اس خیال کی تاریخی عقائد سے تصدیق ہوجاتی ہے کہ تیسری صدی قبل مسیح سے ترک لافانی گوک تانرے {آسمانی خدا} پر یقین رکھتے تھے ایک جو ربانی قوت ہے اور کائنات اور انسان کی تقدیر پر حکومت کرنے والا مطلق حکمران ہے۔ اس لیے ترکوں نے نہایت آسانی سے اسلام کے اللہ کو قبول کرلیا جس کے تصور اور ان کے خدا کے تصور میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے۔ مزید بر آں ترکوں کو دنیا فتح کرنے کے اپنے تصور اور اسلام کے جہاد یعنی مذہب کی اشاعت کے لیے جنگ {مقدس جنگ} کے تصور میں بڑی اپنائیت نظر آئی۔
جہاد کے اوصاف اور اگلی دنیا میں مجاہدین {اسلام کے لیے لڑنے والے سپاہی} کے لیے انعام کے وعدوں میں ترکوں کو اپنا نصب العین مل گیا۔ قبل از اسلام ترکوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ دنیا میں جتنے دشمنوں کو قتل کریں گے۔ جنت میں اسی کے حساب سے ان کو انعام و اکرام سے نوازا جائے گا جو اسلام کے تصور جہاد کے مطابق ہے۔ اس لیے ترکوں کو اسلام قبول کرنے میں آسانی ہوئی۔ ترکوں کا احادیث میں جو تذکرہ آتا ہے اس کی وجہ سے بھی ترکوں کو اسلام سے لگاؤ پیدا ہوا۔ تبدیلی کے بتدریج عمل میں قاموں کی سماوی خصوصیات اور کشف و کرامات کی جگہ ولیوں اور مرشدوں نے لے لی جو روحانی رہنما اور مبلغین تھے اور یہ تبدیلی اس طرح عمل میں آئی کہ اسے کسی نے محسوس نہیں کیا۔ ترکوں کے زندگی گزارنے کے طور طریقوں اور اسلام کے معاشراتی قوانین میں بڑی مماثلت پائی جاتی تھی۔ مندرجہ بالا اسباب ظاہر کرتے ہیں کہ ترکوں نے جلد ہی کیوں نئے مذۃب کو قبول کرلیا۔ انھوں نے اسلامی دین اور تمدن کو اپنے عقائد اور اپنے عالمی نظریات کے عین مطابق پایا۔”{۲}
حوالہ جات
۱۔ فہام الدین باشار، ارطغرل غازی، دائرۃالمعارف اسلامیہ از ترکی دیانت وقف، استنبول ترکی، سن اشاعت ۱۹۹۵ء،جلد یازدہم، ص ۳۱۴۔۳۱۵۔
۲۔ ابراہیم کیفس اوغلو، حقی درسن یلدز، اردوغان میرچل اور محمد سرائے، ترک اسلامی ریاستوں کی ایک مختصر تاریخ {ماسوائے سلطنت عثمانیہ}، مترجم منور علی خان، قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ و ثقافتم سینٹر آف ایکسیکینس، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد۔پاکستان بتعاون تنظیم اسلامی کانفرنس، مرکز تحقیق برائے اسلامی تاریخ، فن اور ثقافت، انقرہ۔ ترکی، سن اشاعت ۲۰۰۲ء،ص ۵۲۔۵۳۔