ٹی وی ٹاک شو میں شریک ماہرتعلیم کاملہ علی کہہ رہی تھیں کہ ان کے بھائی جو زندگی کی نصف زندگی گزار چکے ہیں، نماز روزے سے بہت دور تھے۔ پھر ہوا یوں کہ وہ بڑی محویت سے ”ارطغرل“ دیکھنے لگے۔ ایک دن اہل خانہ پر منکشف ہوا کہ ڈرامے کے زیراثر انھوں نے نماز شروع کردی ہے۔ اسی شو میں سیاست داں شیخ وقاص اکرم نے قصہ سنایا کہ ان کی والدہ کی طبعیت ناساز تھی، دادی کی حالت دیکھ کر کم سِن پوتے نے مشورہ دیا،”انھیں سورة یٰسین پڑھ کر سنائیں یہ ٹھیک ہوجائیں گی۔“ شیخ وقاص نے حیران ہوکر بیٹے سے پوچھا ”یہ تمھیں کس نے بتایا؟“ جواب ملا،”آپ نے دیکھا نہیں ارطغرل کے بھائی کو جب تیر لگا تھا، تو اس کی والدہ نے سورة یٰسین پڑھی اور وہ ٹھیک ہوگیا۔“ یہ واقعات سُن کر مجھے پی ٹی وی سے نشر ہونے والا ڈراما ”تعبیر“ یاد آگیا۔ یہ سیریل برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی عکاس تھی، جس میں اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی سے قیام پاکستان تک پھیلی مسلمانان ہند کی داستان پیش کی گئی تھی۔ یہ میرے بچپن کا زمانہ تھا۔ ہمارے پڑوس میں بسنے والے ایک صاحب جو اس وقت نوجوان تھے اس دور کے بہت سے نوجوانوں کی طرح ”پاکستان کیوں بنا، پاکستان سے کیا ملا، ہم پہلے ہی ٹھیک تھے“ کی منفی سوچ رکھتے تھے۔ ”تعبیر“ دیکھتے دیکھتے جانے کس لمحے ان کی سوچ بدل گئی ”میں تو محب وطن ہوگیا ہوں“ یہ کہتے ہوئے انھیں نے اقرار کرلیا کہ پاکستان صحیح بنا تھا۔ آج بھی یاد ہے کہ اس ڈرامے کے مناظر آنکھیں نم کردیتے تھے۔ میں اسکول میں پڑھتا تھا تو پی ٹی وی سے ایک ڈراما سیریز ”ایک غلطی“ نشر ہوتی تھی، جس کے ہر ڈرامے میں دکھایا جاتا تھا کہ کس طرح ایک معمولی سی غلطی اور غفلت کسی کی زندگی تباہ کردیتی ہے۔ اس سیریز کے ایک ڈرامے میں ایک بچہ دکھایا گیا جو پائلٹ بننے کی شدید خواہش رکھتا ہے، اتنی کہ اس کے کھلونے بھی طیارے ہوتے ہیں۔ اس مقصد کو گلے سے لگائے جوان ہوجاتا ہے اور آخرکار اس کا خواب حقیقت کا روپ دھارلیتا ہے۔ ہوابازی کی تربیت مکمل ہوچکی ہے اور اگلے دن اسے پہلی بار طیارہ اُڑانا ہے۔ رات کو وہ اپنی دوست کے ساتھ ریسٹورینٹ جاتا ہے، وہاں سے نکلتے ہوئے کیلے کے چھلکے پر پاﺅں پڑتا ہے، گرتا ہے اور پیر کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے، ساتھ ہی اس کا پائلٹ بننے کا سپنا بھی ہمیشہ کے لیے چکناچور ہو جاتا ہے۔ وہ ڈراما دیکھنے کے بعد آج تک میں نے کبھی کیلے کا چھلکا زمین پر نہیں پھینکا، کہیں پڑا دیکھتا ہوں تو اسے کوڑے میں ڈال کر ہی آگے بڑھتا ہوں۔ یہ ہوتا ہے ڈراموں کا اثر، اور یہی ہوتا ہے ان کا خوف۔ ڈراما سیریلز فلم سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہ قسط درقسط کہانی کے اتارچڑھاﺅ، کرداروں کے گیٹ اپ، مکالموں، ایکٹنگ، ان کے افعال اور حرکات وسکنات کی ایک دنیا لیے چھوٹی اسکرین کے دریچے سے ہمارے گھروں ہی میں نہیں زندگی، شخصیت، جذبات اور افکار میں بھی در آتی ہیں۔ کوئی ناظر ڈرامے سے کس حد تک متاثر ہورہا ہے؟ یہ اس کے تجربات، خوابوں، محرومیوں، زاویہ نظر، خیالات اور تصورات پر منحصر ہے۔ ڈراموں کی اس اثرپذیری کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ”ارطغرل“ کی پاکستان میں مقبولیت ایک سوال ہے، اور اس کڑی کا اگلا سوال ہے اس ڈرامے کی پوری شدت اور تن دہی سے کی جانے والی مخالفت۔ یہ ڈراما سلطان صلاح الدین ایوبی یا محمودغزنوی جیسی کسی شخصیت کی کہانی نہیں، جن سے ہمارا بچہ بچہ واقف ہے۔ ارطغرل کی شخصیت آج سے پہلے ہمارے معاشرے میں اجنبی تھی، مگر اس ڈرامے نے ”عجیب مانوس اجنبی تھا، مجھے تو حیران کرگیا وہ“ کے شعر کو تمثیل کردکھایا ہے۔ اس ڈرامے کو دیکھنے والی پاکستانی اکثریت کے محسوسات وہی ہیں جو کبھی پی ٹی وی سے نشر ہونے والی تاریخی سیریلز ”شاہین“ اور ”آخری چٹان“، ”ٹیپوسلطان“ وغیرہ کے ناظرین کے ہوا کرتے تھے۔ ابلاغیات کے طالب علم کی حیثیت سے میں قاری اور ناظر کی اس نفسیاتی جہت سے واقف ہوں کہ خبر ہو یا مضمون، ڈراما، فلم، دستاویزی فلم یا اشتہاران میں جو عنصر پڑھنے اور دیکھنے والے کی شخصیت، زندگی، نظریات اور ماحول سے متعلق ہوگا وہ اس لفظی یا عکسی کاوش کو قاری اور ناظر کے لیے گہری دل چسپی کا حامل بنادے گا۔ اس نفسیاتی جہت کے ساتھ پاکستان میں ارطغرل کی مقبولیت کا سیاسی پہلو بھی ہے۔ نائن الیون کے بعد مسلمان بے بسی اور شکست خوردگی کے احساسات سے دوچار ہیں، انھیں اُمت کے تصور سے متنفر، دین سے بے زار اور احساس کمتری کا شکار کرنے کی باقاعدہ کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ خاص طور پر پاکستان میں یہ تصویر بہت واضح ہے۔ نائن الیون کا واقعہ امریکا میں ہوا مگر ان دو اونچی عمارتوں کا سارا ملبہ پاکستان پر آگرا۔ اس تفصیل سے ہم سب واقف ہیں۔ اس دور کے حکم راں جنرل پرویزمشرف نے نہ صرف عملی طور پر پاکستان کو امریکا کی اکاونویں ریاست (امریکا کی پچاس ریاستیں ہیں، باون ریاستوں کا تصور غلط فہمی کا نتیجہ ہے) بنا ڈالا بلکہ ملک کی نظریاتی سمت اور قوم کی نفسیات تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان کوششوں میں میڈیا اور اس پر اُگنے والی دانش وروں کی فصل نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس دور میں حکومت کی زیرسرپرستی امت کے تصور، اسلامی اقدار اور مذہبی روایات کو نشانہ بنانے اور ان پر پھبتیاں کسنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ عام پاکستانی مسلمان اس سب سے متاثر ہوتا رہا، لیکن اس کا نظریاتی تشخص، اپنی تاریخ سے جذباتی وابستگی، مسلم تاریخ کے ہیروز پر فخر، مسلم زعما سے لگاﺅ اور دیگر اقوام کے اپنے ہم مذہبوں سے ہم دردی احساس کم تری کے پانی میں بیٹھی تو گئیں، مگر ان جذبوں کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ ”ارطغرل“ نے انھی جذبوں اور احساسات کو چھوا اور انھیں ہوا دی ہے۔ اسے انقلاب کہنا تو نہایت مبالغہ ہوگا، لیکن غیرشعوری طور پر پاکستانی نوجوانوں میں امت کے تصور اور دینی روایت سے جُڑنے کے آثار ضرور نمودار ہوئے ہیں۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈراموں کی اہدافی ناظر خواتین ہوتی ہیں، لیکن یہ پہلی بار ہے کہ پاکستان میں نوجوان مردوں کی نمایاں تعداد ارطغرل کی ناظر ہے۔ خواتین، نوجوانوں اور بچوں میں اس ڈرامے کی مقبولیت یوں بہت اہم ہے کہ یہ تینوں طبقات ڈراموں اور فلموں کے بہت گہرے اثرات قبول کرتے ہیں۔ یہاں آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اثرات کا دائرہ پاکستان اور مسلمانوں تک محدود نہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک خبر کے مطابق میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے نے ارطغرل دیکھنے کے بعد گذشتہ سال دسمبر میں اسلام قبول کرلیا۔ ارطغرل پاکستان میں کیوں اتنا مقبول ہے؟ یہ جاننے کے بعد اس کی مخالفت کے اسباب بھی سمجھ میں آجاتے ہیں، بلکہ یہ مخالفت اس امر کا ثبوت ہے کہ اس ڈرامے کا نظریاتی پہلو اور اثرات بعض لوگوں کے لیے ناگوارخاطر ہیں۔ چناں چہ کبھی ڈرامے میں کردار ادا کرنے والے اداکاروں کی نجی زندگی کی غیرمناسب تصاویر سوشل میڈیا پر لاکر مسلمانوں کو طعنے دیے جارہے ہیں کہ ”دیکھو یہ ہیں تمھارے ہیرو“، کہیں آرٹ کے سرحدوں سے بے نیاز سمجھنے والوں میں وطن پرستی اور قوم پرستی پوری شدت سے جاگ اُٹھی ہے، کوئی تاریخ کی کتابیں کھنگال کر ارطغرل کو غیرمسلم قرار دینے پر تُلا ہے، اور کسی کو اب ترک ڈراموں کا پاکستان میں نشر ہونا پاکستانی ڈراموں اور اداکاروں کا معاشی قتل دکھائی دے رہا ہے۔ معاملہ صرف مذہب کا نہیں۔ بعض پاکستانی ڈراموں میں مذہب کا رنگ جھلکتا ہے، کردار مذہبی رسومات ادا کرتے نظر آتے ہیں، دینی تعلیمات کا ذکر بھی ہوتا ہے، تصوف اور روحانیت کے مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، یہاں تک کہ خالصتاً توہمات اور جادوٹونے کی کہانیوں پر مشتمل ڈرامے بھی نشر ہورہے ہیں، لیکن ان پر اِس طبقے کو کوئی اعتراض نہیں ہوا جو ارطغرل سے خار کھائے بیٹھا ہے، وجہ بس اتنی سی ہے کہ ارطغرل ”مذہب“ نہیں مسلم امہ، دینی حمیت، جہاد اور شہادت کے تصورات دلوں میں اتار رہا ہے، ذہنوں میں بسا رہا ہے۔