ADVERTISEMENT
ابھی فجر کی نماز کے لیے آنکھ مکمل طور پر کھلنے بھی نہ پائی تھی کہ گاوں سے ابوجی نے فون پر وہ خبر سنائی جسے سن کر دل و دماغ میں آندھیاں چلنے لگیں۔
نیند کہیں دور جا کھڑی ہوئی اور دل ڈوبتا محسوس ہوا۔ کئی بار تسلی کرلینے کے بعد کانوں کو یقین آیا کہ اس بار رب نے اپنے جس بندے کو اپنے پاس بلانے کے لیے منتخب کیا ہے وہ ڈاکٹر حمید اللہ ملک ہی ہیں۔ ہمارے اپنے ڈاکٹر صاحب۔۔
یکایک ذہن میں پرانی تصویریں روشن ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب کا لمبا تڑنگا سراپا، ان کی روشن پیشانی، ان کا تحرک، ان کی خوش مزاجی، ان کا طرز گفتگو، جلسوں اور ریلیوں میں ان کا زور خطابت، ان کا سادہ رہن سہن۔ سب ایک فلم کی مانند ذہن میں رواں ہوگیا۔
یہ 2011 کا سال تھا جب ڈاکٹر صاحب بطور امیدوار صوبائی اسمبلی نامزد ہونے کے بعد حلقے میں متحرک ہوئے۔ انہی دنوں ہماری ان کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی۔ اس سے پہلے جماعت اسلامی کے ذمہ داران اور اسمبلیوں کے امیدواران کو عوامی جلسوں میں بھی نظریاتی اور مذہبی پہلووں پر بات کرتے ہی دیکھا تھا۔ یہ پہلی بار تھی کہ جماعت کا صوبائی اسمبلی کا ایک امیدوار عوام کے پاس جا کر عوام کے دکھ درد پر بات کر رہا تھا، ان کے مسائل سن کر ان کے حل کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا۔
ڈاکٹر صاحب ہفتے کے پانچ دن اپنی یونیورسٹی کو دیتے جبکہ دو دن عوام کے درمیان رہتے۔ ہر غمی، ہر خوشی، ہر آفت اور ہر مشکل میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ ان کا یہی تحرک وہ سرمایہ بنا جس نے حلقے کے عوام کے اندر ڈاکٹر صاحب کے لیے محبت اور احترام کا جذبہ پیدا کر دیا۔ علاقے کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ ڈاکٹر حمیداللہ ملک کون ہے۔ 2013 کی انتخابی مہم کے دوران ہم واضح طور پر محسوس کرتے تھے کہ لوگوں کے دل ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہیں، اگرچہ ووٹ دیتے ہوئے قبیلہ، برادری، پارٹی اور گلی نالی زیادہ اہم ٹھہری۔
ڈاکٹر صاحب نے 2011 سے 2018 کے آٹھ سال بھرپور طریقے سے اپنے علاقے اور جماعت کو دیئے۔ 2013 کے الیکشن کے بعد بھی وہ متحرک رہے اور ایک ایسے وقت میں جبکہ سرکاری ہسپتالوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا، انھوں نے تلہ گنگ کے عوام کو ایک عمدہ ہسپتال کا تحفہ دیا۔ ریسکیو 1122 چکوال شہر تک محدود تھی تو ڈاکٹر صاحب کے حکم پر جماعت اسلامی نے مہم چلائی اور تحصیل تلہ گنگ کو ایمبولینسز دلوا دیں۔
اپنے درویش باپ پروفیسر محمد امیر ملک سے جو صفات ڈاکٹر صاحب کو وراثت میں ملی تھیں ان میں ایک خوبی سادگی بھی تھی۔ تصنع، بناوٹ اور مصنوعی چمک دمک سے عاری، سادہ اور بے تکلف زندگی۔ کئی بار ان کے گاوں کے لڑکوں میں جمعیت کے کام کے لیے ڈاکٹر صاحب کے گھر جانا ہوا تو محسوس ہوا کہ وہ یہی سادگی اپنے بچوں میں بھی منتقل کر رہے تھے۔
وہ واقعی ہر دل عزیز تھے۔ ذاتی سطح پر نوجوانوں، علماء اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطہ رکھتے۔ مجھ جیسے کئی نوجوان اگر کچھ عرصہ جماعت میں کسی حد تک فعال رہے تو اس کے پیچھے ڈاکٹر صاحب کا ذاتی رابطہ، ان کے شفقت اور محبت ہی کارفرما تھی۔۔ میں ایسے کئی نوجوانوں سے واقف ہوں جو ڈاکٹر صاحب سے تعلق کے نتیجے میں جماعت اسلامی کے قریب آگئے۔ یہ الگ بات کہ جماعت کا سخت گیر تنظیمی سٹرکچر انھیں اپنے اندر سمونے میں ناکام رہا۔
وہ 2018 کے انتخابی نتائج کے بعد سیاست سے بددل ہوگئے تھے۔ اب ان کی زیادہ توجہ جماعت کی اندرونی تنظیم اور اپنی تعلیمی سرگرمیوں تک محدود تھی۔
داعئ اجل کو ان کے لیے اتنی ہی مہلت عمل منظور تھی۔ خداوند کریم ان کی حسنات کو قبول کرے، سیئات سے درگزر کرے اور ان کی اگلی منزلیں آسان کرے۔ آمین۔