یہ 2005 کے آس پاس کی بات رہی ہوگی، میں ایک نیوز چینل سے وابستہ تھا، مغرب کے قریب فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف قیصر بھائی کی پاٹ دار آواز، معصوم دفتر میں ہیں،،، کہنے لگے ابھی پریس کلب میں پنجابی پختون اتحاد کی پریس کانفرنس ہوئی ہے اور لفافے بانٹے گئے ہیں، خاصے برہم تھے بولے درخواست یہ ہے کہ یہ خبر نشر نہ کریں، کراچی میں لفافوں کی صحافت کو آغاز میں ہی مار دیں، مجھے پتہ ہے اس کے بعد قیصر محمود اور ادریس بختیار صاحبان یکے بعد دیگر تمام چینلز اور اخبارات کو فون کرتے رہے، سو خبر چلی نہ دوسرے روز چھپی۔ اس سے پہلے بھی ملاقاتیں رہیں مگر یہ قیصر محمود کا الگ روپ تھا، نہ جھکنے، نہ بکنے اور اصولوں پرست قیصر محمود اب ہم میں نہیں رہے، عجیب سال ہے، پہلے انصار نقوی، پھر اطہر ہاشمی صاحب اور اب ایک دن کے فرق سے جواں سال خرم اکبر اور جواں عزم قیصر محمود، خرم اور قیصر بھائی سے قریبی تعلق تھا، ذھن خالی ہے، لگتا ہے کچھ ٹوٹ گیا ہے، کچھ کھو گیا ہے۔
انصار نقوی اور اطہر ہاشمی صاحبان سے ملاقات تو رہی مگر بہت زیادہ نہیں، ادریس بھائی کی بیٹی کی شادی میں میں اور اطہر ہاشمی سے پہلی ملاقات، ایک ساتھ میز پر بیٹھے تھے، گفتگو سیاست اور صحافت پھلانگتی سرحدوں کے پار جا نکلی، ہاشمی صاحب کی شخصیت سے کسی حد تک واقف تھا لہذا احتراما صرف سن رہا تھا، خیر ہاشمی صاحب کی مدلل گفتگو تھی ہی ایسی کے صرف سنا جائے۔ کچھ ہی دیر بعد انہوں نے ایسا بے تکلفانہ رویہ اختیار کیا کہ لگا برسوں سے جانتا ہوں۔ عجیب لوگ تھے باتوں باتوں میں سکھاتے، اپنی غلطیوں پر مذاق اڑا کر خود قہقہہ لگاتے اور دوسروں کو بھی ہنسی ہنسی میں بہت کچھ بتا جاتے، سنگین اختلافی مسائل پر بحث پر بھی ایک بزرگانہ مسکراہٹ ساری تلخی پی جاتی۔ کچھ ایسی ہی شخصیات ادریس بختیار اور قیصر محمود کی تھیں، عمومی طور پر پریس کلب میں دونوں ساتھ نظر آتے، ایک جیسی شفقت، محبت، بزرگانہ چاشنی، دونوں سے بیشمار ملاقاتیں رہیں اور ہر ملاقات میں بہت کچھ سیکھا، صحافت کی اقدار تو کتابوں میں بھی مل جاتی ہیں مگر اس پر آشوب دور میں دامن اور ضمیر صاف رکھکر کس طرح پیشہ ورانہ امور انجام دینے ہیں، کسی کتاب سے نہیں ایسے انمول صحافیوں سے سیکھا۔ ادریس بھائی نہایت ٹھنڈے قیصر بھائی ذرا جارحانہ مزاج کے حامل تھے، مزہ آتا جب دونوں کے درمیان کسی مسئلے پر بحث ہوتی۔ قیصر بھائی میرے نہیں جگت استاد تھے، ٹکر میں کوئی غلطی چل رہی ہو تو فون آتا، معصوم میاں، یہ کیا ہجے ہے، ٹھیک کروائیے، اینکر غلط تلفظ ادا کرے تو تنبیہ ملتی، بھئی خبریں پڑھنا کھیل تو نہیں، انہیں بتائیں کہ ادائیگی اس طرح ہے، دنیا دیکھ اور سن رہی ہے۔ یہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ ایسے تمام صحافی، اینکرز، رپورٹرز اور کیمرہ مینز کیساتھ تھا جو کچھ سیکھنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اب قیصر محمود بھی ساتھ چھوڑ گئے، ایسے بے مثل کھرے صحافی شعبدہ بازی کی دوڑ میں پہلے گم ہوئے اور ہمیشہ کیلئے کھو گئے۔ اس سے اندازہ لگائیے بستر مرگ سے قیصر بھائی کا آخری وڈیو پیغام فیلڈ میں کام کرنیوالے صحافیوں کے حفاظتی اقدامات کے بارے میں تھا، خدا مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
خرم اکبر، لگ بھگ17، 18 سال پہلے کا انڈس نیوز، کڑکی کا دور، صحافت اس وقت تک خوشحالی سے دور بس ایک جنون کا نام تھا، بہرحال جناب ایک نوجوان لڑکا ہر وقت کام میں مگن، مسکراتا چہرہ، بے انتہا تخلیقی ذھن، پروڈکشن کا چیتا، مہذب اور نرم خو، سو خرم جلد ہی سب کی نظروں میں آ گیا۔ ادارے تبدیل ہوتے رہے، خرم جیو میں رہا، اے آر وائی میں عرصہ گزارا، اچھے خاندا کا ذھین پڑھا لکھا لڑکا ترقی کی منازل طے کرتا رہا مگر رابطے استوار رہے، پھر ابتک میں چار سال کا ساتھ رہا جہاں خرم ایگزیکٹو پروڈیوسر تھے۔ اب مہینے میں دو، چار فون اور ایک آدھ ملاقات ہو جاتی۔ جدید ٹیکنیکل معاملات میں میری جہالت کسی سے چھپی نہیں، سو جب بھی کوئی معاملہ الجھتا، اسے سلجھانے والا خرم اکبر ہوتا۔ ابھی چند روز پہلے فون آیا ایک نئے پروجیکٹ پر کام کر رہا ہوں، ملاقات کرنی ہے اور جمعرات کی شام خرم نے آنا تھا مگر موت بڑی بے صبر نکلی۔ مجھے حیرت ہوتی تھی اتنے اچھوتے آئیڈیاز کہاں سے آتے ہیں اس کے دماغ میں، شاعری، میوزک کمپوزیشن، فوٹو گرافی، اینیمیٹڈ اسٹوڈیوز میں خبریں پڑھتے روبوٹ، اچھوتی ڈیزائننگ، جانے اتنے سے دماغ میں کیا کیا بھرا تھا، زندگی نے اسے مہلت نہ دی وگرنہ اسے صرف ایک کلک درکار تھا اسے جانے کہاں پہنچا دیتا۔ بڑے اچھے برے وقت دیکھے ہر حال میں مسکرانے والے خرم اکبر کی نظر ہمیشہ کہیں اور ہوتی، جتنے ہنر اسکے ہاتھ میں تھے اسے پتہ تھا اسے بہت اوپر جانا ہے۔ خرم اکبر صرف چالیس سال کا تھا، جتنا وجیہہ ظاہر تھا اس سے دس گنا زیادہ خوبصورت اسکا باطن، کبھی کسی کی شکایت نہ کرنے والے خرم کی آنکھوں میں ڈھیر سارے خواب تھے، جنکی تعبیر کیلِئے وہ ہر دم کوشاں تھا۔ مگر ایک حادثہ یہ سارے خواب چھین کر لے گیا، تعبیر چھناکے سے ٹوٹ گئی اور شاید ہم سب دوست بھی اندر کہیں ٹوٹ گئے۔ ایسا جیتا جاگتا نوجوان ایک لمحے میں بچھڑ گیا کہ یقین ہی نہیں آتا، زندگی بے اعتبار تو تھی مگر اتنی کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ خدا حافظ قیصر بھائی، خدا حافظ خرم اکبر، اللہ والی
اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے