ہمیں علم نہیں کہ ننھا منا نقطہ کتنا ضروری اور اہم ہے، شاید زندگی کی بیشتر اہم چیزیں اس وقت تک غیر اہم یا غیر ضروری رہتی ہیں جب تک دسترس میں ہوں۔ بہرحال نقطہ یا ڈاٹ ایسے ہی ایجاد نہیں ہو گیا بلکہ انسان نے صدیوں کو سفر طے کر کے نقطے کی اہمیت کو جانا۔ ذرا سوچیں آپ کچھ لکھنا چاہیں، کچھ پڑھ رہے ہو اور نقطہ نہ ہو تو کیسا لگے گا، زندگی اجیرن ہو جائیگی۔ ہوسکتا ہے کہ بات ہے سمجھ میں نہ آئے، تھوڑی آئے تھوڑی نہ آئے یہ بھی ممکن ہے کہ معاملہ بالکل ہی الٹ ہو جائے۔یہی وجہ ہے جناب! اور آپ کو یہ جان کر بے انتہا حیرت ہوگی کہ جب نقطہ نہیں ہوتا تھا تو جملہ ختم نہیں ہوتا تھا اور جملہ ختم نہ ہو تو پوری تحریر ایک جملہ بن جاتی تھی یعنی اوپر سے نیچے تک ایک ہی جملہ، انسانی معاشرے نے صدیوں تک یہ طریقہ تحریر جھیلا۔ اس کی بہت سی مثالیں ہمیں دنیا کی مختلف زبانوں میں عام مل جائیں گی یہاں تک کہ اردو میں بھی۔ ہم علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی اور برصغیر پاک و ہند کے ممتاز مصلح سر سید احمد خان کو جدید اردو کے پانچ بانیوں میں شمار کرتے ہیں لیکن ان کی تحریر پڑھ کر دیکھیں تو طول طویل جملے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنی بات کہتے چلے جاتے ہیں لیکن جملہ ختم نہیں ہوتا۔ اسی طرح ترجمہ کرنے والوں کی مشکل ہوتی ہے جیسے ہی جملہ طویل ہوتا ہے، ترجمہ مشکل ہو جاتا ہے۔ خیر پہلے کی بات تو اور ہے مگر آج تو ہماری زندگی نقطے کے گرد گھومتی ہے، ایک لمحے کو سوچیں اگر نکتہ نہ ہو تو کیا ہو گا، نہیں شاید آپ پوری طرح تصور نہ کر پائینگے کہ کیا کیا کھو جائیگا نقطے کے بغیر،،، آئیے دیکھتے ہیں نقطے کی تاریخ، کب اور کہاں ایجاد ہوا، کس نے ایجاد کیا اور موجودہ دنیا میں کتنا اہم بلکہ اہم ترین ہے۔