کئی برس کی انفرادی خواہشات ،خفیہ کوششوں اور باہمی رابطوں کے بعد بالآخر متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان خوشگوار تعلقات اور دوطرفہ تعاون کے معاہدےکا اعلان ہو گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فریقین کو آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ انہی کے ٹوئٹر ہینڈل سے یہ اعلان کیا گیا کہ ان کی سرپرستی میں ایک سہ طرفہ فون کال کے دوران اسرائیلی صدر بینجمن نیتن یاہو اور اماراتی ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید نے “ابراہیمی معاہدے”(Abrahamic Agreement)پر دستخط کرنے پر اتفاق رائے ظاہر کیا ہے۔توقع ہے کہ فریقین آئندہ تین ہفتوں میں معاہدے پر دستخط کر دیں گے۔ معاہدے کے مطابق دونوں ممالک اب معمول کے تعلقات کی بحالی اور باہمی تعاون کی جانب قدم بڑھائیں گے ۔ معاہدے کی شرط کے طور پر اسرائیل مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعمیر بھی روک دے گا۔اسی شق کو بنیاد بنا کر متحدہ عرب امارات اسے فلسطینی عوام کے حق میں ایک تاریخی جیت قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے، تاہم اس شق کی قلعی نیتن یاہو کے اس بیان نے کھول دی ہے کہ اسرائیلی حکومت نے یہودی بستیوں کی تعمیر کا ارادہ ملتوی کیا ہے، منسوخ نہیں۔
متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی جانب بڑھنےوالا پہلا عرب ملک نہیں ہے ۔مصر ، اردن اور عمان طویل عرصے سے اس کشتی کے سوار ہیں ۔ تاہم حالیہ اقدام مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا رخ تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔چند ماہ قبل ہی امریکی صدر نےاسرائیل فلسطین تنازعے کے ضمن میں مشرق وسطیٰ کے لیے اپنی “ڈیل آف سنچری” کا اعلان کیا تھا۔ موجودہ پیش رفت اسی ڈیل کا حصہ لگتی ہے اور یقینا ًیہ مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ ، نیتن یاہو اور جیرڈ کشنرکے منصوبوں کو تقویت بخشے گی۔
حالیہ سالوں میں خطے کے تمام تر معاملات میں عرب امارات اور سعودی عرب ایک صفحے پر رہے ہیں۔ عرب اماراتی شہزادوں اورنوجوان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خطے کے معاملات کو کسی نظریاتی یا مذہبی بنیاد پر دیکھنے کی بجائے جدید قومی مفادات کے تناظر میں حل کرنے کے حامی ہیں۔ ٹرمپ کے ساتھ محمد بن سلمان کے ذاتی تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ فلسطینیوں سے کہہ چکے ہیں کہ وہ ان کا دیا ہوا حل قبول کریں یا “اپنا منہ بند رکھیں”۔ چنانچہ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ عرب امارات نے یہ اقدام سعودی آمادگی کے بغیر اٹھایا ہو، بالخصوص ان حالات میں جبکہ سعودی عرب کی جانب سے اس کی مذمت میں اب تک کوئی نمائشی بیان بھی سامنے نہیں آیا۔ ایسے میں یہ عین ممکن ہے کہ جلد یا بدیر سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے۔ خود صدر ٹرمپ بھی ایک ٹویٹ میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کرنے والا آخری ملک نہیں ہوگا۔
فلسطینی گروپوں نے متفقہ طور پر اس معاہدے کو اپنی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے، تاہم عالمی برادری نے اب تک جو ردعمل ظاہر کیا ہے وہ فلسطینی کاز کے لیے کسی بھی صورت حوصلہ افزا نہیں قرار دیا جا سکتا ۔تمام غیر مسلم اقوام بشمول چین نے اسے ایک خوشگوار پیش رفت قرار دیا ہے۔ فلسطینیوں کے حقوق کے وکیل سمجھے جانے والے ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار جوزف بائیڈن بھی اس بنا پر اس معاہدے کی حمایت کر رہے ہیں کہ اس میں اسرائیلی آبادکاری کو محدود کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ عرب دنیا میں سے مصر اور اردن کے علاوہ کویت اور بحرین نے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے فریقین کی تحسین کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں ریاستیں بھی کچھ ہی عرصے میں اسرائیل کے ساتھ پیار کی پینگ ڈال رہی ہوں گی۔
اسلامی دنیا میں سے صرف دو ممالک یعنی ترکی اور ایران نے ببانگِ دہل اس معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے اسے فلسطین کی تحریکِ مزاحمت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ترکی اگرچہ اسرائیل کو بطور آئینی ریاست تسلیم کرتا ہے تاہم طیب اردوان کی جانب سے اعلانیہ اسرائیل مخالف موقف اور اقدامات کی وجہ سے دونوں کے باہمی تعلقات کبھی خوش گوار نہیں رہے۔ دوسری جانب ایران امریکہ و اسرائیل اور عرب ریاستوں کے گٹھ جوڑ کا اولین ہدف رہتا ہے۔ اس معاہدے کو بھی ایک امریکی سفارت کار نے ایران کے لیے بدترین خواب قرار دیا ہے۔ ایران کی مذہبی پالیسی سے اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ لیکن فلسطین کے لیے اس کےتاریخی موقف میں آج تک کوئی تزلزل رونما نہیں ہوا۔ تحریک مزاحمت کے لیے ایران کی حمایت صرف یوم القدس کی ریلیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ حماس کی قیادت کے ساتھ تعلقات اور باہمی تعاون میں ایران ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔
موجودہ صورت حال پاکستان کے لیے خاصی پریشان کن ہوسکتی ہے۔ تاریخی طور پر پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے دور سے بیت المقدس کی آزادی کا پرجوش حامی رہا ہے۔ اسرائیل کے وجود کو آج تک پاکستانی ریاست اور عوام نے ناجائز ہی سمجھا ہے۔ تاہم پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے بیک چینل رابطوں کے بعد سے یہاں کچھ حلقوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرلینے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ اب جب کہ عرب دنیا بھی اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بنانے کو ہے، اسرائیل کے حوالے سے پاکستانی پالیسی کی اخلاقی سپورٹ میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ پاکستان پر اندرونی اور بیرونی دباوٴ بڑھے گا کہ وہ بھی اسرائیل کو بطور جائز ریاست تسلیم کرلے۔ ان حالات میں پاکستان کو فلسطینی کاز کے لیے دیرینہ حمایت جاری رکھتے ہوئے اپنے مفاد میں کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہوگا۔
بحیثیت مجموعی اس امر میں کوئی شک نہیں کہ یہ محض دو ممالک کا باہمی معاہدہ نہیں بلکہ دور رس اثرات کی حامل ایک پیش رفت ہے جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کی سیاسی و سماجی حرکیات نمایاں طور پر بدل جائیں گی۔ ہمارے ایک دوست کے مطابق “ابراہیمی معاہدے” کا تمام تر پھل بنی اسرائیل کو ملے گا ، اولادِ اسماعیل کے ہاتھ فی الحال کچھ نہیں آنے والا۔