بالاخر عربوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنا شروع کر دیا، ارض فلسطین حیران، مسلم دنیا پریشان، امریکہ اور یورپ مہربان نظر آتے ہیں۔ دنیا میں بہت کچھ تبدیل ہونے جا رہا ہے، نئی سیاسی صف بندیاں، معاشی حد بندیاں اور شاید یہ بھی اہم ہے کہ اس بار امریکہ مخالف دنیا کی قیادت چین کریگا۔ آج کی دنیا میں دفاع، ترقی، خوشحالی، دوستی، دشمنی سب کچھ معیشت میں سمو گیا ہے، سو یہ صف بندیاں دنیا کی معاشی جہت بھی طے کرینگی۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ قطعی حیران کن نہیں، خاصے عرصے سے ماحول بنایا جا رہا تھا، یہ پہلا قدم ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کریگا۔ عرب لیگ کے ارکان کو ایک نئے دباؤ کا سامنا ہو گا۔ یکے بعد دیگر لیگ کے ارکان بھی سعودی عرب اور یو اے ای کی تقلید کریں گے۔ عرب، اسرائیل، یورپ اور امریکہ میں شادیانے بج رہے ہیں۔ عرب ممالک تین جنگیں ہارنے اور 70 سالہ مخالفت کے بعد اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں، زخم خوردہ فلسطین نوحہ کناں ہے۔ عالم اسلام کے متعدد ممالک اسے غداری تعبیر کر رہے ہیں اور پاکستان جیسے کئی ملک متذبذب سکتے میں ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ عرب ممالک کو اپنا فیصلہ کرنے کا پورا حق ہے، ناتواں اسلامی دنیا جو پہلے ہی منتشر و مضطرب ہے اب مکمل اور واضح تقسیم سے دوچار ہو گی۔ متحدہ عرب امارات کا موقف ہے کہ معاہدے کے تحت اسرائیل نےغرب اردن کے انضمام کو روکنے پر اتفاق کیا ہے، دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ اس عمل کو صرف ’روکا‘ گیا ہے، اس منصوبے پر امریکی حمایت موجود ہے اور عمل درآمد کا آپشن بھی، دوطرفہ بیانات کی روشنی میں حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ برتر کون ہے؟
سعودی عرب کی اندرونی اور بیرونی تبدیلیوں نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ریاست اور اقتدار کا کوئی مذھب نہیں ہوتا، ملکی فیصلے جذباتی نہیں بلکہ صد فیصد مفادات کے پیش نظر کیے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب سعودی عرب مسلم دنیا کی نمائندگی کرتا تھا، عالم اسلام میں ایک خاص احترام اور عقیدت رکھتا تھا، شاہ فیصل بن عبدالعزیز، شاہ خالد، شاہ فہد کے ادوار کس کو یاد نہیں، مگر اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ محمد بن سلمان کا سعودی عرب ایک مختلف ملک ہے، ماضی سے رشتہ توڑتا ہوا جدیدیت کا طالب، نظریات، اقدار، اہداف، دوستیاں، دشمنیاں سب کچھ بدل چکا ہے۔ یہ وہی سعودی عرب ہے جس کی تائید پر پاکستان ایک ایسی جنگ میں کود گیا جسکا کوئی حاصل حصول نہ تھا، ایک ایسی مسلکی آگ بھڑکا بیٹھا جس میں پاکستانی اب تک جھلس رہے ہیں، وہ کہتے ہیں ناں کہ میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا والی کیفیت ہے۔ یہ درست ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کا ہر مرحلے پر بھرپور ساتھ دیا ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان نے بھی سعودی عرب کی انتہائی کڑے وقتوں میں ایسی امداد کی ہے جیسی کوئی نہیں کر سکتا۔ پورا عرب خطہ اور بالخصوص سعودی عرب کبھی بھی دفاعی لحاظ سے مضبوط نہ رہا، عرب دنیا کی سب سے بڑی جنگی قوت مصر اسرائیل کے مقابل شکست کی ہزیمت سے آج تک نہ نکل سکا۔ کیا یہ درست نہیں کہ پاکستان نے سعودی عرب کا سنگین وقتوں میں نہایت دیانتدارانہ ساتھ دیا ہے جسکا تاریخ میں بیشک تذکرہ ہو نہ ہو مگر سب کو پتہ ضرور ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان نے مسلم برادر ملک کا ساتھ عقیدت و احترام میں نہایت ارزاں دیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیشہ یہ تو بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو بھرپور ساتھ دیا ہے مگر جانے کیوں ہمارے رہنما اور دانشور یہ نہیں بتاتے کہ پاکستان نے سعودی عرب کا ساتھ ان مواقع پر دیا جہاں دنیا کا کوئی ملک حتیِ کہ مسلم ملک بھی ساتھ دینے پر آمادہ نہ تھا اور شاید مستقبل میں بھی اس انمول ساتھ کی ضرورت پڑے، جو اسلامی دنیا سمیت کوئی بھی فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، حتی کہ امریکہ اور بھارت بھی نہیں۔
چند ماہ پہلے پاکستان مسئلہ کشمیر پر ترکی اور ملائیشیا کی کھلی حمایت کے باوجود او آئی سی اجلاس سے یو ٹرن لینے پر مجبور ہوا، بیشک پاکستان اب بھی اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہو مگر موجودہ صورتحال میں اسلامی ممالک کا فیصلہ آسان ہوتا جا رہا ہے۔ ترک اور عرب تاریخی مخاصمت کتنی ہی شدید کیوں نہ رہی ہو، مگر حالیہ فیصلے کے بعد او آئی سی پر عرب گرفت کمزور ہو گی۔ دوسری جانب چین کا اثر و رسوخ صرف خطے میں نہیں بلکہ دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ دنیا بہت جلد دھڑوں میں تقسیم نظر آئیگی، بلاشبہ عالمی معیشت امریکہ اور یورپ کے زیر تسلط ہے مگر چین ایک بڑے عظیم خطرے کو طور پر سامنے آ چکا ہے۔ ایک ایسا عالمی اتحاد بننے جا رہا ہے جس میں چین، روس، ترکی کے سمیت دیگر ممالک شامل ہونگے، پاکستان کا فطری اتحاد نظر آتا ہے مگر شاید یہ فیصلہ اب بھی اتنا آسان نہیں، ملک عزیز کے ہر طبقہ فکر اور شعبوں میں گہرا امریکی اثر و نفوذ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور یہی کچھ احوال کسی حد تک سعودی عرب کا بھی ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اب دو کشتیوں میں سفر شاید ممکن نہ رہے۔ متحدہ عرب امارت کے فیصلے پر پاکستان کا رد عمل حسب معمول بین بین ہے، فلسطینوں کی حمایت اور فیصلے کے دو رس اثرات تک محدود، جبکہ جن ممالک کی پالیسی واضح ہے انکا رد عمل بھی واضح ہے۔ پاکستان کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اگر عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو ماننے کی پالیسی کی حمایت کرتا ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط پر اسکا موقف خود بخود ختم ہو جائیگا۔ جس طرح اسرائیل، ارض فلسطین پر قابض ہے بالکل یہی صورتحال کشمیر کی ہے، جیسے یہودی افواج نہتے فلسطینوں کو ظلم ڈھا رہی ہیں یہی معاملہ بھارت میں ہے جہاں قابض فوجیں نہتے کشمیریوں کو سفاکیت کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ برادر عرب ممالک کے حمایت سے پہلے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ برادر ممالک کا کشمیر کے بارے میں کیا موقف رہا اور یہ بھی کہ کیا ہم کشمیر پر اصولی موقف سے دستبردار ہونے پر تیار ہیں؟
پاکستان شاید یہ پہلے ہی بھانپ چکا تھا، کچھ دن پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر عرب دنیا کے بھارت نواز رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا تو ملک میں کہرام مچ گیا، مزیدار بات یہ ہے کہ اس بیان کے کچھ دنوں بعد ہی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں بھی امور خارجہ پر روشنی ڈالی گئی، خیر یہ تو پاکستان کیلئے عجیب بات نہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے پر بھی ناتواں حکومت اور توانا اسٹیبلشمنٹ ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا ملک ہو جو اپنی ترجیحات پر دوسروں کو افضلیت دیتا ہو، شاید وقت آ گیا ہے ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہماری ترجیح کیا ہے، امریکہ، چین، ترکی، سعودی عرب، ایران یا پھر صرف اور صرف پاکستان؟