آپ جاپان کیا کرنے آۓ ہیں؟ یہ پہلا سوال تھا جو امیگریشن آفیسر نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے اس کے پہلے سوال کا ایسا تفصیلی جواب دیا کہ اسے مجھ سے مزید سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں کراچی یونیورسٹی سے نکلنے والے میگزین یونیورسٹی ٹائمز کا ایڈیٹر ھوں اور ایک تحقیقاتی رپورٹ کے سلسلے میں یہاں کی یونیورسٹیوں کا دورہ کرنے آیا ھوں تو اسے یہ جان کر بہت خوش ھوئی کہ میں ایک صحافی ھوں۔اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگلش میں مجھے خوش آمدید کہا اور بتایا کہ جاپان ایک بہت اچھا ملک ھے اور مجھے اس دورے میں بہت مزا آۓ گا۔ میں نے اسے بتایا کہ میرے ساتھ میرا کیمرا مین بھی ھے۔ اس نے مجھ سے دونوں پاسپورٹ لیے اور ان پر ویزے لگا دیے۔ہم دونوں انتہائی خوش تھے۔ ہمیں ایک ترقی یافتہ ملک میں داخلے کی اجازت مل گئ تھی۔ ہمیں نہیں معلوم دوسری لائنوں میں لگے پاکستانیوں کے ساتھ کیا ھوا۔ ہم نے تو اپنے پاسپورٹ لیے اور اندر داخل ھو گۓ۔ یہاں کی تو دنیا ہی نرالی تھی۔
مجھے کراچی ایئر پورٹ یاد آ گیا جو اب ریلوے اسٹیشن کی شکل اختیار کر چکا ھے۔ صفائی کی انتہائی ناقص صورتحال سے واپس اپنےملک آنے والے بد دل اور ملک سے جانے والے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ یہاں لوگ کم اور مشینیں زیادہ تھیں۔ میرے ایک قریبی دوست کے بھائی قمر کافی عرصہ سے جاپان میں مقیم تھے۔ انھیں فون کرنے بار بار کوشش کی لیکن ہر کوشش بے سود۔ ہمارے پاس ان کا پتہ بھی تھا۔ ہم نے کئی لوگوں سے اس پتے کے بارے میں پوچھنا چاہا لیکن انھیں انگریزی نہ آتی تھی اور ہمیں جاپانی۔
پھر ہمیں ایک گورا نظر آیا ۔ اس نے ہمیں وہ پتہ مکمل طور پر سمجھا دیا۔ سب سے پہلے ہمیں امریکی ڈالرز کو جاپانی کرنسی ین Yen میں تبدیل کروانا تھا۔قریب ہی بینک کے ایک کاؤنٹر سے چند ڈالرز کو yen میں تبدیل کروایا۔ اور قریب ہی Narita ریلوے اسٹیشن کی طرف روانہ ھوۓ۔ اسٹیشن پر لگی مشین میں پیسے ڈالے اور Ueno اسٹیشن والا بٹن دبایا۔ مشین سے Ueno کا ٹکٹ اور باقی بچی ھوئی رقم باہر آئی۔ یہ سب ہم پہلی دفعہ دیکھ رہے تھے اور ہمیں بڑا عجیب لگ رہا تھا۔
اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر جانے کے لیے ٹکٹ چیک کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ایک رکاوٹ موجود تھی جس میں جب میں نے ٹکٹ ڈالا تو وہ رکاوٹ ہٹ گئی اور ہم پلیٹ فارم پر پہنچ گۓ۔ یہاں ٹرین موجود تھی۔ ہم ٹرین میں داخل ھو گۓ۔ ہمیں پہلے Narita Airport سے Ueno اسٹیشن جانا تھا۔ ٹرین کے دروازے بند ھوۓ اور اس نے سفر شروع کیا۔ چند لمحوں کے بعد مجھے یاد آیا کی میں نے جو بیگ لٹکایا ھوا تھا وہ ٹکٹ والی مشین کے پاس ہی بھول آیا ھوں۔ میرے اس بیگ میں پاسپورٹ، ڈالر اور دیگر تمام ضروری کاغذات تھے۔
فیصلہ کیا کہ اگلے اسٹاپ پر اتر کر واپس جانے والی ٹرین پکڑوں گا۔دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اگلے اسٹیشن پر اتر کر واپس جانے والی ٹرین لی اور Narita اسٹیشن پہنچ گیا۔ دبے دبے قدموں کے ساتھ اس مشین کے پاس پہنچا جہاں سے ٹکٹ لیا تھا۔اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میرا بیگ اسی حالت میں پڑا تھا۔اگلا مرحلہ بیگ میں موجود سامان چیک کرنا تھا۔ میں انتہائی خوش اور حیرت زدہ بھی ھوا جب میں نے بیگ کی موجود تمام چیزیں دیکھ لیں۔ مجھے جاپان کا یہ اصول بہت پسند آیا کہ جو چیز جہاں پڑی ھے اسے وہیں رہنے دو، جس کی ھو گی وہ آکر لے لے گا۔
اپنا سامان لے کر دوبارہ UENO کی طرف روانہ ھوۓ۔ Narita سے Ueno تک کا سفر تقریباً 41 منٹ کا ھے۔ Ueno اتر کر دوست کے بھائی سے دوباہ رابطہ کی کوشش کی لیکن ناکامی ھوئی۔ یہ دسمبر کی انتہائی سرد رات تھی۔ ہم Ueno اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر بیٹھے تھے کہ ایک لمبا تڑنگا پاکستانی لڑکا ہمارے قریب آیا اس نے اپنا تعارف بشیر کے نام سے کروایا۔اور بتایا کہ وہ اپنے بھائی رفیق کے ساتھ جاپان میں مقیم ھے۔ ہم نے اسے بتایا کہ ہم اس نمبر پر کال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس نے بھی کوشش کی لیکن اسے بھی ناکامی ھوئی ۔ اس نے ہم سے پوچھا کہ پاکستان میں ہمارا تعلق کس شھر سے ہے۔ ہم نے اسے بتا دیا کراچی سے۔اس نے ہم سے پوچھا کہ اگر ہم رہائش اور ملازمت میں دلچسپی رکھتے ہیں تو۔اس وقت تو ہمیں رات گزارنی تھی۔ اس لڑکے نے کہا کہ وہ ایک ہزار ڈالر لے گا اور ہمارے لیے ملازمت اور رہائش کا انتظام کر دے گا۔ ہم نے حامی بھر لی۔ ہم اسٹیشن سے باہر آۓ۔
اس نے ایک ٹیکسی روکی اور ہم تینوں اس میں بیٹھ گۓ۔ ہم دونوں بہت خوفزدہ بھی تھے۔ 45 منٹ کے سفر کے بعد ہماری ٹیکسی ایک اپارٹمنٹ کے سامنے رکی۔ اس لڑکے کے پاس چابی تھی اس نے دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ھو گۓ۔ اندر کا منظر عجیب تھا۔ایک چھوٹے سے کمرے میں کئی لڑکے گہری نیند سو رہے تھے۔ بشیر نے ہم سے کھانے کے بارے میں پوچھا۔ ہمارے ہاں کہنے پر اس نے ایک لڑکے کو اٹھایا اور اسے کھانا لانے کو کہا۔ وہ گیا اور دس منٹ بعد پتلی سی دال اور ڈبل روٹی کے چار slices لے آیا۔ دن میں ایک بار دال پکائی جاتی تھی اور ہر آنے والے کو اسی طر ح کھانا دیا جاتا تھا۔ ہم نے کھانا شروع کیا۔ یہ بہت بدذآئقہ دال تھی۔ بار بار پانی ڈالنے کی وجہ سے اس میں نہ نمک کا ذآئقہ تھا نہ مرچوں کا۔ ہمیں بھوک لگی تھی سو ہم نے اپنی بھوک مٹائی۔ بشیر نےہمیں کہا کہ سامان اندر رکھ کر اسی کمرے میں سو جاؤ۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے سامان اندر رکھا۔ اور ان لڑکوں کے درمیان جو خالی جگہ موجود تھی اس میں اپنے آپ کو فٹ کرنے کی کوشش کی۔ گنجائش اتنی کم تھی کہ کروٹ لینا محال تھا۔
شدید تھکاوٹ کی وجہ سے آنکھ لگ گئی۔ صبح آنکھ کھلی تو وہ لڑکے جا چکے تھے جو دن کی jobs کرتے تھے اور اب وہ لڑکے سو رہے تھے جو رات کی ڈیوٹی کر کے صبح واپس آۓ تھے۔ بشیر نے ایک لڑکے کو ہمارے لیے ناشتہ لانے کا کہا۔ کچھ دیر بعد وہ ہمارے لیے چاۓ اور ڈبل روٹی لےآیا۔ ابھی تک ہمیں اس پراسرار گھر کی حقیقت آشکار نہ ھوئی تھی۔میں نے بشیر سے کہا کہ ہمارے پاس کچھ ضروری سامان ھے جو ہمیں اپنے دوست تک پہنچانا ھے۔ہم باہر کا چکر لگا کر آتے ہیں اور بوتھ سے فون بھی کر لیں گے۔اس نے اپنے اس اپارٹمنٹ کا پتہ لکھ کر ہمیں دے دیا کہ اگر کہیں آگے پیچھے ھو جاؤ تو کسی کو بھی یہ پتہ دکھانا اور وہ تم کو یہاں پہنچنے میں مدد کر دے گا۔ہم باہر نکلے اور بوتھ سے قمر بھائی کو فون ملایا۔ قمر بھائی کو بتایا کہ رات کو بھی آپ کو فون ملاتے رہے۔انہیں بتایا کہ ہم اس وقت بشیر اور رفیق نامی لڑکوں کے اپارٹمنٹ میں ہیں۔ قمر بھائی نے کہا کہ آپ لوگ اب پھنس چکے ھو۔(جاری ھے)