پیار کی کوئی زبان نہیں ہوتی، اسے صرف اشاروں اور لہجوں کے سہارے مل جائیں تو کافی ہیں، کبھی کبھار ہلکی سے مسکراہٹ، آنکھ کا جذبات سے مخمور ہوکے جھکنا، زلفوں کی لٹ سنوارنے کو بھی محبت کی زبان میں مضبوط سگنل سمجھا جاتا رہا ہے، اب ایسے اشارے ناپید ہوتے جارہے ہیں، شاید کہیں فلموں ڈراموں میں بھی نفیس انداز میں کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
دراصل اشاروں کی ترجیحات ، وقت کے تقاضوں اور دستیاب سہولتوں کے نتیجے میں تبدیل ہوتی جارہی ہیں، اب ایک ہی بہت ہی مستعمل اور سادہ اشارہ، جس میں ہم شہادت کی انگلی کو ہلکا سا اپنی طرف اٹھاتے ہیں، اس کے کئی معنی ہیں۔
ذرا میری بات سنئیے گا،
ارے جناب ادھر دیکھئیے،
اپنی نشست سے کھڑے ہوجائیں
میں آپ سے کچھ کہنا ہے۔
چلو۔ آجاو اب تمہاری باری ہے۔
اٹھو اور نکلو یہاں سے۔
ایسے کئی اور معنی بھی نکالے جاسکتے ہیں، اسی طرح آنکھوں کا گھورنا بھی مختلف مطلب پیش کرتا ہے، زیادہ تر ہمیں غصے میں گھورنے کا مشاہدہ اور تجربہ ہوا ہے، لیکن محبت ، اپنائیت اور کبھی حیرت میں بھی یہ عمل ہوجاتا ہے۔ یہ گھورنا بہت خطرناک اس صورت میں ہوتا ہے جب کوئی خاتون یا لڑکی اسے ہراساں کرنے کا نام دے دے، پھر اس نوجوان یا شخص کی خیریت نہیں رہتی ہے، جسے کہتے ہیں، ساریاں گھوریاں نکل جاتی ہیں۔
نظروں یا نگاہوں کے اشارے اب بھی بہت معنی رکھتے ہیں، بولنے کی صلاحیت سے محروم افراد اس کا بہت استعمال کرتے ہیں، کبھی یہ جملہ بہت مشہور ہوتا تھا، آنکھ نے آنکھ سے کی بات اور پھر سلسلہ کہیں کا کہیں چل نکلا۔
دوسروں پر غلط آنکھ رکھنا بھی بُرے اشاروں کی فہرست میں آتا ہے، جنہیں کبھی اچھا خیال نہیں کیا گیا۔
سیٹی بھی اشارے کی ایک صنف ہے، اسے بھی اچھے، بُرے دونوں مقاصد پورے کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اشاروں کا ایک حوالہ کچھ عمل یا کام کرکے ایک پیغام دینا ہوتا ہے کہ فلاں مسئلے کا یہ حل ہے، یا فلاں کام ایسے کریں تو آپ کے لیے زیادہ سودمند ثابت ہوگا۔
اس کی بڑی مثال اشتہارات ہیں ،جن کا مقصد بالکل یہی ہے کہ آپ بھی ایسا کریں۔ نئے اور جدید ملبوسات پہننا اور انواع اقسام کے پکوان تیار کرکے مزے سے کھاتے دکھانا، یہ سب دوسروں کو مائل کرنے کے طریقے ہیں یعنی اشارہ ہوتا ہے۔
موسیقار، ہدایتکار اشاروں کے بارے میں مشہور ہیں اسی طرح کھیلوں کے امپائر اور ریفری بھی کچھ اشارے کرتے ہیں۔ اسی نوعیت کے سنگنلز زندگے کے مختلف شعبوں میں دیکھنے میں آتے ہیں۔
یہ محاورہ کہ تم کس کے اشاروں پر چل رہے ہو، حقیقت پر مبنی ہے ، دنیا میں انسانی سوچ نے جس قدر ترقی کی ہے، اس میں طاقتور کا اشارہ اب بھی معنی رکھتا ہے، اس پر عمل نہ کرنے کا خیال زیادہ آسان تصور نہیں کیا جاتا۔ زورآور کی بات ماننے میں ہی بچت دکھائی دیتی ہے۔ اس سب میں اشارہ ہی ہوتا ہے عالمی طاقتیں ایک اشارے پر پوری دنیا کو بے وقوف بنا دیتی ہیں۔
دوسرے ہمارے لہجے ہوتے ہیں، ان کا اتارچڑھاو نہ جانے کیا سے کیا مطلب چھوڑ جاتا ہے، زندگی میں اتنی زیادہ تلخیاں اور پریشانیاں آگئی ہیں کہ دھیمے اورمیٹھے لہجے ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ ہاں بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جن کا فطری طور پر لہجہ دھیما ہوگا یا کسی کے لہجے میں مٹھاس پائی جاتی ہو۔
کبھی کبھی ہم کم گو شخص کو دھیمے لہجے والا قرار دے دیتے ہیں۔ ایسا ضروری نہیں ہے۔
پبلک ڈیلنگ یعنی عوام سے رابطے میں رہنے والوں کے عموماً کرخت یا کم ازکم نرم لہجے نہیں ہوتے، اگر کہیں بہت سکون سے جواب دینے والا مل جائے تو حیرت بلکہ خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ سیاست کے میدان میں زیادہ تر مخالفین کو ہدف بنانا ہی مقصد ہوتا ہے، اس لئے الفاظ زہر بھرے اور لہجے ایسے کہ ابھی جان لے لیں۔ انہیں میں سے کچھ نے اب نوجوان طبقے کو متوجہ کرنے کے لئے نیا طریقہ اختیار کیا کہ لہجے وہی ہیں لیکن کچھ کانٹینٹ تبدیل کرکے طنزومزاح یا ایسی تیکھی بات کردیتے ہیں جس سے سننے والا تھوڑا محظوظ ہوجاتا ہے۔
اگر دیکھیں تو مجموعی طور پر لہجہ اپنی تلخی کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے ہوتا ہے۔ پیار بھرے لہجے مخاطب کو ایسا اپنا گرویدہ بنالیا کرتے تھے کہ وہ پھر برسوں کے واسطے میں بندھ جاتے، گھروں میں بیویوں کو اکثر تندوتیز باتیں سننے کو ملتی ہیں، کہیں کہیں شوہر بھی تلخ جملوں سے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں باہمی محبت کا جذبہ کہیں منوں مٹی تلے دفن ہوجاتا ہے اور محض چہروں پر کبھی کبھی کی مسکراہٹ ایک باہمی تعلق کومصنوعی سہارہ دے رہی ہوتی ہے۔
روز مرہ زندگی میں دفتر، دکان، فیکٹری کہیں بھی واسطہ پڑنے پر لہجہ سب کچھ جیت بھی لیتا ہے، یا پھر بندے کو کہیں کا نہیں چھوڑتا، اسے اپنی شخصیت سازی میں عرصہ لگ جاتا ہے اگر وہ اپنا مزاج اور لہجہ درست کربھی لے۔
ہماری زندگیوں میں اشاروں اور لہجوں کے اتارچڑھاو کی کس قدر اہمیت ہے یہ شاید ہم نے کبھی زیادہ غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔ یہ ایک دوسرے کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتے ہیں، آپس میں جوڑے کے عمل کی بنیاد ڈالتے ہیں، اچھے اشارے، دھیمے، میٹھے اور پیار بھرے لہجے نے ہی انسانوں کے درمیان تعلق مضبوط بنانا ہوتے ہیں۔
ہماری کامیابی اور خوشی کاانحصار بھی زیادہ تر انہیں مثبت اشاروں اور لہجوں پر ہوتا ہے، جن کے سہارے آدمی بڑے احسن طریقے سے اپنے کام انجام دیتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ بھی اس کی بات سمجھیں، آئندہ مخالف فریق بھی مثبت اشارے دیتا اور اپنی تلخی میں کمی لاکر نسبتاً دھیما انداز اپناتا ہے۔