خبر یہ ہے کہ قومی معیشت کے پرانے رازداں ڈاکٹر وقار مسعود نے موجودہ حکومت میں ایک غیر معمولی منصب سنبھال لیا ہے۔ وہ وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے محصولات ہوں گے۔
پیشہ دارانہ نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو اس تقرر میں اعتراض کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ ڈاکٹر وقار مسعود معیشت کی دنیا کی ایک نمایاں اور قابل شخصیت ہیں جنھوں نے ساری زندگی یہی کام کیا اور قومی معیشت کے پیچیدہ مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی۔ بیوروکریٹ کی حیثیت سے وہ کافی عرصہ عرصہ قبل ریٹائر ہو چکے تھے لیکن خال ہی کوئی ایسی حکومت ہوگی جس نے ان کی خدمات کے حصول کو ضروری نہ سمجھا ہو۔ قومی معیشت کے لیے ان کی یہ ناگزیریت ان کی قابلیت اور نیک نامی کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ اس پس منظر میں اگر موجودہ حکومت نے ان کی خدمات حاصل کی ہیں تو اس میں ہرج کی کوئی بات نہیں لیکن ماضی اور حال میں ایک بڑا فرق رونما ہو چکا ہے۔
موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو ڈاکٹر وقار مسعود ان ماہرین معاشیات میں سے نمایاں ترین تھے جنھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ حکومت کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہئے۔ فنی اعتبار سے اس مشورے میں ہرج کی کوئی بات نہیں لیکن اب وہ محض ایک ماہر معیشت نہیں ہیں، ایک سیاسی جماعت یعنی جماعت اسلامی کے رکن ہیں اور جماعت اسلامی وہ جماعت ہے جو اس حکومت کی اقتصادی پالیسیوں پر تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے مدد لینے کی بھی مخالفت کرتی ہے۔ آنے والے دنوں میں جب ڈاکٹر وقار مسعود کے مشورے کے نتیجے میں حکومت کا انحصار آئی ایم ایف پر بڑھے گا اور عام آدمی کی زندگی میں مشکلات پیدا ہوں گی تو کیا جماعت اس کی ذمہ داری قبول کرے گی؟ اس معاملے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے یہ عہدہ ذاتی حیثیت میں قبول کیا ہے، یہ بات درست ہوسکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ جماعت سے علیحدگی اختیار کریں لیکن ایسی کوئی خبر تاحال سامنے نہیں آئی۔
آنے والے دنوں میں اگر یہ صورت حال جوں کی توں رہتی ہے تو ڈاکٹر وقار مسعود کی حکومت میں شمولیت دراصل جماعت اسلامی کی شمولیت سمجھی جائے گی اور جماعت کے پاس حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا کوئی جواز نہیں ہو گا۔