پیٹ بھر کر نان کھانے کے بعد ایسا محسوس ہورہا تھا کہ چہل قدمی دوبارہ ضروری ہے ورنہ وہ خمیری نان معدے کو گیس کا سلنڈر بنا دے گا۔ ہوٹل واپسی کا سفر راشد صاحب کی رہبری میں ہمیں ہوٹل کے قریب ہی ایک پارک تک لے گیا۔ وہاں سے انہوں نے ہم سے رخصت چاہی اور اگلے روز وقت پر پہنچنے کا وعدہ لے کر وہ رخصت ہوگئے۔ ہم تینوں کچھ دیر اس پارک میں بیٹھے خوش گپیاں کرتے رہے۔صدف مرزا اور کیانی صاحب پنجابی زبان میں گاہے گاہے ایک دوسرے کو مخاطب کرتے اور میری موجودگی کا احساس ہوتے ہی اپنی بات چیت یکایک پنجابی سے اردو میں منتقل کر دیتے۔ اس وقت مجھے محسوس ہورہا تھا کہ میرا پنجابی نہ بولنابلکہ بولنے کی کوشش نہ کرنا یورپ کے کئی دوستوں کے سامنے ایک غیریت کی دیوار بنا دیتا ہے۔ لیکن اسی فی صد پنجابی سمجھنے کے باوجود مجھے بولنے میں بہت ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔ صدف مرزا اور کیانی صاحب یوں بھی اپنی مادری زبان یعنی پنجابی زبان کے مایہ ناز اور اعلیٰ پائے کے قلمکاروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ میں نے شاید پنجابی بولنے کی یہ سوچ کر بھی کوشش نہیں کی کہ اگر میری ٹوٹی پھوٹی پنجابی ان کی گفتگو میں کہیں غلط مقام میں شامل ہوگئی تو وہ ایسا مذاق ہی نہ بنا لیں جیسا کہ پنجاب یونیورسٹی میں کچھ عرصہ رہتے ہوئے وہاں ہاسٹل کی لڑکیوں نے بنایا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک لڑکی نے مجھ سے کہا تھا کہ
“ عشرت ! تم پنجابی لوک گیت اتنے اچھے گا لیتی ہو لیکن جب کچھ پنجابی میں باتیں کرنے لگتی ہو تو تمہیں “ کرفیو” لگ جاتا ہے”
اُس زمانے میں کراچی کے سیاسی حالات کی وجہ سے شہر میں اکثر کرفیو لگا دیا جاتا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں کچھ لڑکیاں جو پنجاب کے اندرونی علاقاجات سے تعلق رکھتی تھیں، آپس میں پنجابی ہی میں بات چیت کیا کرتی تھیں جبکہ وہاں اردو یا انگریزی بولنے والی لڑکیاں بھی کافی تعداد میں موجود تھیں۔ صدف مرزا کو دیکھ کر مجھے جامعہ پنجاب کی ایک ہاسٹل کی لڑکی ہاجرہ ملک بہت یاد آتی تھی۔ جو بلا کی ذہین تھی اور میرے لیے ہر ممکنہ مدد کو ہر وقت تیار رہتی تھی۔ وہ بہت محبت اور اپنائیت سے اپنی دوستی کا مجھ پر حق جماتی اور توقع رکھتی کہ میں صرف اُس کے خیالات کو اپنے ارادوں اور افکار پر حاوی رکھوں۔ حتٰی کہ اپنے اسائنمنٹ بھی مجھے اپنی فکری آزادی کے ساتھ نہیں لکھنے دیتی تھی۔ جب کہ میں ابلاغ عامہ کی طالبہ تھی اور وہ شاید فزکس یا کیمسٹری پڑھ رہی تھی۔ لیکن محبت اور خلوص کے مضامین میں وہ اتنی ماہر تھی کہ میں اُس کے آگے خود کو اکثر بے بس محسوس کرتی تھی۔ ہم ایک ساتھ ایک کمرے میں چند ہفتے ہی ساتھ رہے لیکن اُس کے خلوص و محبت نے میرے ذہن و دل پر عمر بھر کے لیے محبت بھری یادیں اور احساسات نقش کر دیئے ہیں۔ کاش آج وہ کہیں مجھے مل جائے تو میں اُس کو بتاؤں کہ اُس نے مجھے اپنے خلوص و محبت کی ایسی گرہ سے باندھا ہے کہ آج بھی کبھی خواب میں اور کبھی سچ مچ جاگتے میں راوی کنارے مال روڈ پر اور کبھی پرانے لاہور کی تنگ گلیوں میں کالی چادر والی دبلی پتلی اور گوری سی لڑکی کو گزرتا دیکھتی ہوں تو ہاجرہ سے ملنے کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔
اس وقت رات گئے استنبول کے ایک پارک میں اپنے ارد گرد سے بے نیاز اونچے قہقہے لگا کر زندگی کا احساس جگانے والی صدف مرزا مجھے اپنے برابر میں بیٹھی ہاجرہ ملک لگ رہی تھی جو کہ اکثر رات کو ہاسٹل کی راہداری میں بیٹھ کر اپنے علاقے کا کوئی واقعہ سناتے ہوئے ساری دنیا سے بے نیاز ہوجایا کرتی تھی ۔اچانک میرا دل چاہا کہ ہاجرہ ملک کو گلے لگا لوں لیکن میں اس وقت بہت محبت سے صدف کا ہاتھ تھام کر پوچھنے لگی کہ اور کتنی دیر یہاں بیٹھنا ہے۔
میرے اس سوال پہ کیانی صاحب بھی اس لمحے کے سحر سے نکل آئے اور اپنے تھکن سے چور مسکراہٹ بھرے لہجے میں بولے “ بس اب چلتے ہیں کیونکہ ہمیں صبح صبح یونیورسٹی پہنچنا ہے اور دیکھنا ہے کہ کل کا سیمینار کیسا رہتا ہے ۔۔۔ کیونکہ ہمیں جو شیڈیول ملا ہے وہ تو سارے کا سارا پلان ترکی زبان میں ہے۔ صرف علامہ اقبال اور عاکف ارصوئے کی تصویر کے نیچے مندوبین کے نام ہی پروگرام کی ترتیب کی کچھ آگاہی دے رہے ہیں”
پھر اگلے دن ناشتے پہ ملنے کا وقت طے کرکے ہوٹل پہنچے اور اپنے اپنے کمروں کا رخ کیا۔
اپنے کمرے میں آکر حسب معمول عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد بچوں اور ان کے پاپا سے بات کی ،صبح کے لیے اپنے کپڑے نکالے اور اپنی ڈائری لکھتے لکھتے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔