ہم ان دنوں کچھ الگ سے خیالات میں الجھ سے گئے ہیں، معلوم بھی نہیں پڑا کب اردگرد کے رشتے ناطے کچھ لاتعلق سے ہوگئے، یہ لاتعلقی کسی دانستہ فعل اور کارروائی کا نتیجہ ہرگز نہ تھی۔ زندگی کا معمول ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہر کوئی اپنی سوچ کے گرداب میں گھرا ہوا ہے، اب فکر، پریشانی، تحفظات کے تعریفیں بھی جیسے بدل سی گئی ہیں، روزگار، پڑھائی، صحت اور ایسے مسائل کبھی سوچوں کے محور رہتے تھے، نہ جانے اب معاملات کی نوعیت ہی کچھ اور ہوگئی ہے۔
ہاتھ میں پکڑی مشین نما شے ہمیں نہ جانے کون سی دنیا کا نقشہ پیش کرتی اور کون سی ترکیبیں بتا رہی ہوتی ہے۔ ہمارا دھیان پوری طرح اس میں لگا ہوتا ہے، نگاہیں ہر وقت اس کی سکرین پر ٹکی پوتی ہیں، کچھ نیا آیا، کہاں کیا ہورہا ہے، کون کہاں ہے اور کیا کررہا ہے۔ ہم کیا کررہے ہیں۔ دوسروں کو کیسے اپنے پیچھے لگائیں یا انہیں متوجہ کریں۔ ہاں کہہ لیں نہ صرف اپنے حلقہ احباب بلکہ آگے ان کے جاننے والوں کی توجہ حاصل کرنا سرگرمی رہ جاتی ہے۔ ذہن کسی مشق میں لگا رہتا ہے، اسے آرام دینے کے بجائے ہاتھوں اور انگلیوں کو مسلسل مصروف رکھتے ہیں۔
نہ جانے ہم کیا چاہتے ہیں، جیسے ایک دوسرے سے دوڑ لگانے میں لگے ہیں، لیکن کبھی کبھی لگتا ہے اپنی الگ تھلگ دنیا بسائے بیٹھے ہیں۔ کسی سے کوئی سروکار نہیں، اہل خانہ، بیوی بچے، دوست، رشتہ دار سبھی جیسے دور کی کوئی شے دکھائی دیتی ہے۔ کوئی دکھ، تکلیف، پریشانی میں ہے، اس کا حال پوچھنا بھی جیسے رسم بن گیا، جس نے نبھالی تو نبھالی باقی ویسے ہی کہ میں ان رسوم میں یقین نہیں رکھتا۔
نہ جانے کیوں لاتعلقی اور دوری بڑھتی جارہی ہے، ایک دوسرے سے جڑنے ساتھ نبھانے کے تقاضے کیوں بھولتے جارہے ہیں۔ زندگی اب ورچول، آن لائن رابطوں پر زیادہ انحصار کرنے لگی ہے۔ ہم شاید بات بھی وہاں کی زیادہ مانتے ہیں۔ سچ وہیں اٹکا ہوا لگتا ہے، آپس کی بات چیت جیسے جھوٹ یا کہہ لیں غیر ضروری لگتی ہے۔ کبھی زیادہ دھیان نہیں دیا۔ کسی سے گفتگو کرنا، حال دریافت کرنا، مسئلہ حل کرنے میں مدد دینا، اب تھوڑا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ تیار حل ڈھونڈنے کی کوشش زیادہ ہوتی ہے، سرچ انجنز پر دباو زیادہ بڑھ گیا ہے، اگر بڑے بوڑھے ہیں بھی تو کوئی ان سے پوچھنے کے بجائے خود کمپوٹر سے مشورہ لے لیتا ہے اور کچھ نہیں سوشل میڈیا پر موجود سیانے کیا کم ہیں۔ پتے کی باتیں بتانے والے سب مل جاتے ہیں۔
نہ جانے کیوں ہم زیادہ مصروف بھی نہیں لیکن فراغت بھی انتہا درجے کی ہے، اگر تجزیہ کرنے بیٹھیں معلوم ہوگا کوئی نتیجہ خیز کام نہیں کیا۔ یہ بچوں یا جوانوں کا ذکر نہیں، ہم سب کا یہی حال ہے۔ معمولات زندگی کی ترتیب کچھ اپنے انداز میں بنالی ہے۔ جس میں پریشانیوں اور تفکرات کی گٹھری ہر وقت سر پر اٹھائی ہوتی ہے، کبھی بوجھ محسوس ہوتا ہے لیکن زیادہ تر اس کو انجوائے کررہے ہوتے ہیں۔
نہ جانے ہم کس منزل کی تلاش میں چلے جارہے ہیں، ہمسفروں کی پروا کئے بغیر تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایک ایسے مقصد کا حصول ہمارا نصب العین ہے، جس کی وضاحت اور تعریف کئی بار بیان نہیں کرپاتے۔ کیوں اس قدر بیزاری اور لاتعلقی ہمیں اردگرد سے آنکھیں موند لینے پر راغب کرتی ہے۔ ہم اس سے جان کیوں نہیں چھڑالیتے، ہم الجھنوں کے گھر میں ڈیرے ڈالنے میں کیوں خوشی محسوس کرتے ہیں، دوسروں کا ہاتھ تھامنے اور انہیں اپنا حال بتانے سے کیوں ڈرنے لگے ہیں۔
نہ جانے کیوں ملنا، خیریت جاننا اور خوشیاں باٹنا مشکل کیوں لگنے لگا ہے، ہماری دوڑ کیوں لگی ہے، دوسروں سے بظاہر جڑنے کا عمل بھی کھلے ذہن اور پیار سے کیوں نہیں انجام دیتے، یہ آن لائن اطمینان کا حصول ہمیں نہ جانے کہاں لے جائے گا۔ اس سب کو ترک کرنا مسئلے کا حل نہیں، ورچول ملاقاتیں اگر مستقبل کا رابطہ ہے، پھر سوچ اور فکر کا تبادلہ بھی کہیں سیٹلائیٹ لہروں پر ہوگا۔
نہ جانے ہم کب اور کہاں ذہنی طور پر پھر سے مل پائیں گے۔ اپنوں سے بچھڑنے والے اب خواب بھی ڈیجٹل نہ دیکھنے لگیں۔ جدید زندگی کے تقاضے ٹائم میشن جیسی کہانیوں کو عملی جامہ پہنانے میں لگے ہیں، اب ماضی میں جانے یا مستقبل میں جھانکنے میں بھی دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے، نئی نسل کو پرانی باتوں میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی، اس میں ان کے فائدے یا تجربے کی خاص بات نہیں ہوتی۔ انہیں اب کہاوتیں، محاورے اور حکاتیں سب فضول یا کتابی باتیں لگتی ہیں، ان کے مطلب یا چھپے مقصد جاننے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں۔
نہ جانے زندگی کہاں ہمیں قریب کرے گی، یہ آن لائن سہولت کہیں مستقل اور پائیداری اختیار نہ کرتی جائے۔ رابطے کے جدید تقاضے بڑے سہانے لگتے ہیں مگر ان پر انحصار نہ جانے کہاں لے جائے گا۔