عمومی خیال تو یہی تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس سے میاں نواز شریف کا خطاب رسمی ہو گا لیکن یوں کہئے کہ انھوں نے میلہ لوٹ لیا ہے۔ ان کے خطاب کا پہلا نکتہ تو یہی ہے کہ وہ ووٹ کو عزت دو کے بیانئے پر روز اول کی طرح کھڑے ہیں۔ ان کی تقریر کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے موجودہ حکومت اور اس کے سربراہ کو اپنا حریف قرار نہیں دیا۔ ان کی تقریر کی باقی دو باتوں کو اگر ان ہی دو نکات کی تفصیل قرار دیا جائے تو یہ غلط نہ ہو گا۔
اس اجتماع سے سابق وزیر اعظم کے خطاب کے بعد اگر کانفرنس کے میزبان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے اس نکتے سے ملا کر دیکھا جائے تو حزب اختلاف کا ذہن واضح ہو جاتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اس جواں سال جانشین نے اپنے خطاب میں کئی اہم باتیں کہی ہیں لیکن حاصل تقریر وہی نکتہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر میثاق جمہوریت کو تازہ کرنے یا اسے نئی شکل دینے کی ضرورت ہے تو اس میں دیر نہیں ہونی چاہئے۔
اے پی سی کا دوسرا سیشن جاری ہے لیکن حقیقت یہی بات ہے حزب اختلاف نے اپنا ذہن قوم کے سامنے واضح کر دیا ہے۔ اگر اس بیانئے کے مطابق حزب اختلاف جمہوریت کے لیے ایک طویل لڑائی کے لیے تیار ہو گئی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی تقریروں کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا؟
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کہتے ہیں کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں جو آگ لگائی تھی، شہباز شریف نے اس پر پانی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ آصف علی زرداری کے خطاب کو اگر پانی ڈالنے کی کوشش قرار نہ بھی دیا جائے تو نواز شریف کے مقابلے میں معتدل ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔
تو کیا حزب اختلاف نواز شریف کی آگ اور شہباز شریف کے پانی میں ہی کہیں بجھ کر رہ جائے گی یااس کا کچھ حاصل وصول بھی ہوگا؟
بظاہر یہ دونوں موقف ایک دوسرے کی ضد دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر شہباز اور زرداری کے خطاب کو نواز اور بلاول کے موقف سے ملا کر دیکھا جائے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس میں تضاد ہے لیکن اگر اس سوال کا جواب مولانا فضل الرحمان کی حکمت عملی میں تلاش کیا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ حکومت کو اتنے دباؤ میں رکھاجائے کہ وہ سکون کا سانس نہ لے سکے۔ گویا یہ وہی حمکت عملی ہے جس پر گزشتہ دور میں عمران خان کاربند رہے۔ یعنی حزب اختلاف دو پہلو رکھنے والی حکمت عملی کی طرف بڑھ رہی ہے، ایک مختصر مدتی اور دوسری بڑے مقاصد کے لیے طویل مدتی۔