نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا۔موٹر وے جیسی محفوظ ترین روڈ پر ایک خاتون کے ساتھ اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی گئی۔اس روڈ پہ موجود ہر شے اس تکلیف دہ منظر کی گواہ بن گئی ہوگی۔انسانیت نے اپنا منہ چھپا لیا ہوگا۔خاتون کی چیخوں نے فضا کو چیر کر رکھ دیا ہوگا لیکن نہیں رحم آیا تو ان درندوں کو جنھیں شاید درندہ کہنا بھی درندگی کی توہین ہے۔کیا منظر ہوگا،کیا تکلیف ہوگی،کیا بے بسی ہوگی جو اس عورت نے ان لمحات میں محسوس کی ہوگی۔تصور بھی محال ہے۔
موٹروے کا سانحہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے۔ملک میں روز رہپ اور زیادتی جیسے جرائم ہوتے ہیں لیکن مجرم دندناتا رہتا ہے صرف 2020 کے پہلے سات مہینوں میں زیادتی کے 5883 واقعات رپورٹ ہوئے۔ بس فرق یہ ہے زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون امیر طبقہ سے تعلق رکھتی ہے اس کے پاس فرانس کی شہریت بھی ہے اور یہ معاملہ میڈیا کی بھی زینت بن گیا لہٰذا پورے ملک میں بھر پور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔لاہور کے لبرٹی چوک میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی چھوٹی بڑی ابھی تنظیموں نے پلے کارڈز اٹھا کے احتجاج کیا۔اکثریت کا مطالبہ ہے کہ مجرم کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے سر عام پھانسی دی جائے۔کئی حلقے اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ ایسے مجرموں کو نامرد بنا دینا چاہیے۔ساتھ ہی پولیس تفشیش اور نظام عدل کی کمزوریاں دور کرنے کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ محکمہ پولیس اور نظام عدل کی خامیاں مجرموں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں مظلوم خاندان بعض اوقات نظام عدل کی کمزوری کا ادراک کرتا ہوا خاموش رہتا ہے اور یہ خاموشی مجرم کو اور دلیر بنا دیتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے جنسی زیادتی کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کی حمایت کی ہے جو بلاشبہ احسن اقدام ہے اور معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے ایک بہترین قدم ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر عملدرآمد کیا جائے اور اس کے لیے نظام عدل کی خامیوں کو دور کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ سزائیں عدالت دیتی ہے اور اس وقت عدالتوں کی نالائقی کے عالم کی وجہ سے خواتین کی عصمت دری کے واقعات میں سزا کی شرح صرف 2 فیصد ہے۔مقدمات عدالت پہنچتے ہیں لیکن مجرم دھونس اور کبھی پیسے کے ذریعہ سے مظلوم کو صلح صفائی کرنے پر مجبور کردیتے ہیں جبکہ جنسی زیادتی میں صلح کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی لیکن کئی طریقے نکال لیے جاتے ہیں جیسے زیادتی کا شکار یا مرنے والے کے ورثا ملزم کو پہچانے سے انکار کردیتے ہیں اپنی ایف آئی اے واپس لے لیتے ہیں۔اب موٹروے زیادتی کیس کا بڑا ملزم عابد علی کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ سات سال پہلے بھی زنا بالجبر کے ایک واقعہ میں ملوث تھا لیکن ورثا نے اس سے صلح کر کے اس کے بری ہونے کا راستہ بنا دیا اگر اسے پہلے ہی سزا مل چکی ہوتی تو وہ دوبارہ ایسا گھناؤنا جرم کبھی نہ کرتا۔اس لیے اس وقت نظام عدل کو بھی مضبوط بنانے کے لیے آوازیں اٹھ رہی ہیں کیونکہ مجرم کو سر عام پھانسی اس وقت مل سکتی ہے جب مقدمہ چکے اور عدالت سزا سنائے لیکن اگر عدالت مجرموں کے حوالے سے دو ٹوک موقف اپنانے میں ناکام رہتی ہے تو معاشرہ جرائم کا گڑھ بن جاتا ہے۔ انسپکٹر عطا الرحمن کا حالیہ کیس نظام عدل کی کمزوریوں کو مزید نمایاں کرتا ہے۔
بعض حلقے پھانسی کی سزا کے سخت مخالف ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ معاشرے تربیت کرنے سے ٹھیک ہوتے ہیں پھانسی جرائم کو روکنے کا کوئی حل نہیں ہے حالانکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب احمد داود کے بیٹے پپو کو اغوا زیادتی اور پھر جان سے مار دینے کا واقعہ پیش آیا ہے تو جنرل ضیاءالحق نے نوٹس لیتے ہوئے لاہور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اقبال کو ہدایت کی کہ مجرموں کو فوری گرفتار کیا جائے،پولیس کے حرکت میں آنے سے ملزمان پکڑے گئے تو انہیں کیمپ جیل کے باہر سرعام پھانسی پر لٹکا دیا گیا اس کے بعد کئی سال تک پورے ملک میں کسی بچے کے اغوا اور زیادتی کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پھانسی عوام کو جرائم سے روکنے میں بے حد معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
پھانسی کے مخالف حلقوں میں سے کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پھانسی کی سزاوں کا سلسلہ شروع کیا گیا تو یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کا جو درجہ ملا ہے وہ ختم ہوسکتا ہے۔لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ صرف جی ایس پی کو جواز بنا کر کیا ہم اپنے ملک کو زیادتی اور ریپ جیسے جرائم کو جاری رہنے دیں؟آج دنیا میں جن ممالک میں سرعام سزائے موت دینے کا قانون نافذ ہے وہاں جرائم کی شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے جن میں قتل جیسا جرم بھی شامل ہے۔
ایک بار امریکی صحافی فراسٹ نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل سے کیا کہ آپ کے ملک میں دی جانے والی سزائیں یعنی سرقلم کردینا،ہاتھ کاٹ دینا،یہ سزائیں ظالمانہ لگتی ہیں۔شاہ فیصل نے امریکی صحافی فراسٹ کو جواب دیا کہ میرے ملک میں پورے سال اتنے جرائم نہیں ہوتے جتنے امریکہ میں ایک گھنٹے میں ہوجاتے ہیں۔ہم نے اپنے معاشرے میں سزا کا تصور قائم کیا ہوا ہے۔مجرم کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ پکڑا گیا تو مارا جائے گا لہذا وہ جرم کرنے سے باز رہتا ہے۔
پھانسی جنسی زیادتی جیسے گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کے لیے بہترین سزا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پھانسی کی سزا مقرر کرنے سے معاشرے میں جرائم کی شرح بہت کم ہوجائے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ نظام عدل کے ادارے کی ناکامیوں کو بھی درست کرنا ہوگا کیونکہ محض سزا مقرر کرنے سے جرائم کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔بلکہ اس کے لیے سزا لاگو کرنے والے ادارے کو بھی درست کرنا ہوگا تب ہی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے ۔۔