Warning: Attempt to read property "child" on null in
/home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line
45
Warning: Attempt to read property "child" on null in
/home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line
25
Warning: Undefined array key 1 in
/home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line
86
Warning: Attempt to read property "child" on null in
/home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line
25
گھبرانا نہیں، گھبرانا نہیں، یہ الفاظ اکثر قوم کے ڈگمگاتے اعتماد کو سنبھالا دینے کے لئے وزیراعظم بول دیتے ہیں، لیکن اس روز میں نے دیکھا وہ خود گھبرا گئے تھے، فطری عمل تھا، بائیس سال کی تگ ودو کے بعد منزل سامنے تھی، آج سے دو سال قبل ایوان صدر میں کپتان کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے، اس کے بارے میں اس وقت بہت لکھا گیا اور تبصرے بھی ہوئے، حلف برداری میں کیا دیکھا اور سنا، سب کی آنکھیں اور کان کھلے تھے۔ بہت کچھ سب کو نظر آیا اور سننے میں آیا۔ حاضرین کی چہ میگوئیاں تھیں، معزز مہمانوں کی ایک دوسرے سے گفتگو اور کہیں کہیں دبی آواز میں فقرے بازی، تقریب کا وقت سوا نو بجے دیا گیا تھا مگر اس وقت تک تقریب شروع ہونے کے کوئی آثار نہیں تھے، ساڑھے نو بجے ایک فوجی افسر نے منتظمین سے کہا لوگوں کو بیٹھنے کے لیے کہا جائے تاکہ تقریب کے آغاز کا اعلان کیا جاسکے۔ یہ دراصل مسلح افواج کے سربراہان کی آمد کے لیے راہ ہموار کرانے کی ہدایت تھی۔ 9 بج کر 45 منٹ پر پہلے ایئرچیف، پھر آرمی چیف، اس کے بعد نیول چیف اور سب سے آخر میں 9 بجکر 52 منٹ پر جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی آئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ غیر معمولی انداز میں نشست سے اٹھ کر مہمانوں میں اگلی صف میں بیٹھے سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے پاس آئے، اور گپ شپ لگانے لگے۔ حاضرین میں سے سرگوشی ہوئی،”باجوہ صاحب سدھو کو مل رہے ہیں دونوں جاٹ ہیں، خیریت پوچھ رہے ہوں گے”۔ دونوں کے درمیان گفتگو سدھو نے بعد میں میڈیا کو بتائی لیکن کسی نے لکھا تھا، بھارتی مہمان نے آرمی چیف سے بغل گیر ہونے کی درخواست کی، ایسا نہیں تھا، جنرل باجوہ نے اپنے جذبات کا اظہار انہیں گلے لگا کر کیا۔ اتنی محبت کیوں ظاہر کی گئی یہ جنرل صاحب ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے اور بعد میں بھی بہت زیادہ لوگوں سے مصافحہ نہیں کیا۔ وزرائے اعلیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی اور چند معزز مہمانوں سے ہاتھ ملائے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ 9 بجکر 55 منٹ پر خاتون اول بشریٰ عمران پورے پروٹوکول کے ساتھ ہال داخل ہوئیں اور سیدھی اپنی نشست کی جانب بڑھیں جہاں قریب ہی بیٹھے جنرل باجوہ نہ صرف کھڑے ہوگئے بلکہ انہوں نے سلیوٹ بھی کیا۔ اور دبے الفاظ میں سلام کیا۔ خاتون اول نے آرمی چیف کی اہلیہ سے ہاتھ بھی ملایا۔ اور اپنی نشست پر بیٹھ گئیں، حاضرین میں سے کسی نے سرگوشی کی”دیکھتے ہیں کپتان آج کیا دھماکا کرتے ہیں”۔ پارٹی قیادت بھی تقریباً پہنچ گئی، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین ایک دوسرے سے دور مگر ایک ہی صف میں بیٹھے تھے۔ جہانگیر ترین بہت کم لوگوں سے ملے اور وہ سوچ میں گم نظر آئے، جیسے کوئی اگلی پلاننگ کررہے ہوں، ہوسکتا ہے پنجاب کی حکومت سازی ذھن میں ہو یا چند دن بعد ملک سے باہر جاکر کیا کرنا ہے اس کی منصوبہ بندی کررہے ہوں۔ شیخ رشید بھی ایک طرف بیٹھے رہے اور چہرے کے تاثرات خفگی کی کہانی بیان کررہے تھے۔ میڈیا کے لوگ بھی ایک دوسرے سے نپے تلے انداز میں مل رہے تھے، چینلز کی خواتین اینکرز اپنے رکھ رکھاؤ میں لگی تھیں۔ 10 بجکر 12 منٹ پر بگل بجے۔ ہال کے مرکزی دروازے پر پہلے سے جمی نگاہیں اب جیسے چوکس ہوگئیں۔ صدر ممنون حسین، ان کے دائیں وزیر اعظم عمران خان اور بائیں نگران وزیر اعظم ناصر الملک نمودار ہوئے۔ سب کھڑے ہوئے تالیوں سے نومنتخب وزیراعظم کا استقبال کیا، عمران خان نے بالکل سامنے پہلی صف میں کھڑی اپنی اہلیہ سمیت تمام اہم شخصیات کو دیکھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا۔ تینوں حضرات بیٹھ گئے، اس سے پہلے عمران خان کی آمد پر کوئی نعرہ نہیں لگا، اس پر تعجب ضرور ہوا۔ کیونکہ ماضی کی روایت ہے اور پی ٹی آئی کے کھلاڑی بھی نعروں پر جھجھکنے والے نہیں۔ قومی ترانے کی صرف دھن بج رہی تھی لیکن ہال میں جیسے کسی خاتون یا چند خواتین کے ترانے کے الفاظ ساتھ دہرانے کی آواز سنائی دی، تجسس میں نگاہ دڑائی تو محسوس ہوا کہ خاتون اول جو کہ سفید عبایا اور نقاب میں خود کو مکمل طور پر مستور کئے تھیں، لب ہلا رہی ہیں اور انہوں نے بڑے احترام سے ترانے کا اختتام بھی سرجھکا کر کیا۔ وہ مسلسل ہاتھ میں پکڑی تسبیح پھیر رہی تھیں۔ ان کے اور آرمی چیف کی اہلیہ کے درمیان خالی جگہ پر ایک کرسی لاکر رکھ دی گئی تھی جس پر ایک خاتون آکر بیٹھ گئیں اور پھر آرمی چیف اور انکی اہلیہ سے بڑے بے تکلف انداز میں گپ شپ کرنے لگ گئیں، معلوم پڑنے پر بتایا گیا کہ وہ خاتون اول کی قریبی دوست یا عزیزہ ہیں۔ تلاوت کے بعد حلف برداری کا اعلان ہوا، صدر مملکت اپنی نشست پر اٹھے اور فولڈر ہاتھ میں تھام لیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اٹھ کر لمحے کے لیے کچھ سوچا پھر اپنی شیروانی کو دائیں جانب سے اوپر کیا اور قمیض کی بغل کے نیچے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولنے کے انداز میں کچھ نکالنے لگے۔ اس دوران انہوں نے صدر ممنون سے کہا “ایک منٹ، ایک منٹ”پھر بولے”ٹھہریں”۔ سب نگاہیں ان پر جم گئی تھیں، اسی دوران انہوں نے جیب سے چشمہ نکالا اور آنکھوں پر لگالیا۔ حلف برداری کے الفاظ بولے، عمران خان کی آواز حاضرین نے پہلی بار سنی، بظاہر چہرے پر طمانیت اور ہلکا سا خوشی کا تاثر تھا، لیکن جس دن کا انہیں شدت سے انتظار تھا، اس گھڑی کے آنے پر کچھ گھبرائے سے لگے۔ انہوں نے آنے کے بعد بیٹھتے ہی پہلے دائیں اور پھر بائیں دیکھا مگر کسی کے ساتھ نظریں نہیں ملائیں، حلف برداری کے دوران تیاری نامکمل تھی یا نروس ہوگئے۔ اور روز قیامت کو روز قیادت بول دیا۔ صدر نے درست کرایا تو پہلے مسکرائے پھر جلدی میں “سوری” کہہ گئے۔ حاضرین میں سے دبی آواز آئی،”لگتا ہے پڑھ کر نہیں آئے”۔ “شاید جلدی میں کچھ نہ کچھ بھول جاتے ہیں، پہلے دن ویسٹ کوٹ، دوسرے دن کارڈ، تیسرے دن غصے پر قابو رکھنا اور حلف برداری میں عینک شیروانی کی اوپر والی جیب میں رکھنا”۔ جیب سے عینک نکالنے اور قیامت کو قیادت کہنے پر حاضرین میں سے اکثر اپنی ہنسی دبا گئے بعض مسکرانا چھپا نہ سکے۔ تقریب ختم ہونے کا اعلان ہوا، وزیر اعظم سٹیج سے اترے اور سیدھے اپنی اہلیہ کے پاس گئے، جنہوں نے آنکھوں کے اشارے اور ہلکا سا سر کو جھاکر مبارکباد دی۔ مسلح افواج کے سربراہان نے سیلوٹ کیا اور مبارکباد پیش کی۔ کپتان سے وزیر اعظم کا سفر طے کرنے والے عمران خان کے نئے کیرئیر کا آغاز ہوگیا۔ “ابھی تک وہ سرکاری قواعد اور رسم و رواج پر پوری طرح کاربند دکھائی نہیں دیئے”، “انہوں نے پروٹوکول ختم یا کم کرنے کا اعلان کیا۔ لگتا یہی تھا کہ یہ سب ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس میں بہت زیادہ پابندیاں ہوتی ہیں”۔ نوجوت سدھو حاضرین میں سے ہر کسی کے ساتھ بڑے تپاک سے ملتے اور اپنے جذبات کا بھرپور الفاظ میں اظہار کرتے رہے۔ انہوں نے کہا دونوں دیش کے عوام محبت اور امن کے بھوکے ہیں، راستے کھول کر ایک دوسرے سے ملنے کا موقع دیں پھر ہر طرف شانتی ہوگی۔ جنرل باجوہ نے بھی انہیں اس بات کا یقین دلایا۔ سدھو بولے “میں بڑے عرصے بعد آیا ہوں یہاں سے خوشیاں اور محبتیں سمیٹ کر جارہا ہوں”۔ تقریب کے بعد بسکٹ کے ساتھ چائے پینے کے دوران مہمانوں کی گفتگو کچھ ایسے ہی ملے جلے ردعمل پر مبنی تھی۔ چائے اور بسکٹ پیش کرنے پر ایک سابق سینئر بیوروکریٹ کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا،”یہ تبدیلی ہے”۔ لیکن منتظمین سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ معمول میں یہی ہوتا ہے۔ کپتان اس روز گھبرا گئے، لیکن آنے والے دنوں میں جن چیلنجز کا انہیں سامنا کرنا پڑا، اس کے نتیجے میں اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں پوری قوم گھبرا گئی، انہیں یہ کہنا پڑا، گھبرانا نہیں، مگر یہ کہنا آسان ہے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے انہیں کچھ دینا ہوگا، محض سابق حکمرانوں کے کارنامے سنانے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنی کارکردگی سے ساکھ بنانا ہوگی۔ گھبرانا نہیں کہنے سے بات نہیں بنے گی۔
گھبرانا نہیں، گھبرانا نہیں، یہ الفاظ اکثر قوم کے ڈگمگاتے اعتماد کو سنبھالا دینے کے لئے وزیراعظم بول دیتے ہیں، لیکن اس روز میں نے دیکھا وہ خود گھبرا گئے تھے، فطری عمل تھا، بائیس سال کی تگ ودو کے بعد منزل سامنے تھی، آج سے دو سال قبل ایوان صدر میں کپتان کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے، اس کے بارے میں اس وقت بہت لکھا گیا اور تبصرے بھی ہوئے، حلف برداری میں کیا دیکھا اور سنا، سب کی آنکھیں اور کان کھلے تھے۔ بہت کچھ سب کو نظر آیا اور سننے میں آیا۔ حاضرین کی چہ میگوئیاں تھیں، معزز مہمانوں کی ایک دوسرے سے گفتگو اور کہیں کہیں دبی آواز میں فقرے بازی، تقریب کا وقت سوا نو بجے دیا گیا تھا مگر اس وقت تک تقریب شروع ہونے کے کوئی آثار نہیں تھے، ساڑھے نو بجے ایک فوجی افسر نے منتظمین سے کہا لوگوں کو بیٹھنے کے لیے کہا جائے تاکہ تقریب کے آغاز کا اعلان کیا جاسکے۔ یہ دراصل مسلح افواج کے سربراہان کی آمد کے لیے راہ ہموار کرانے کی ہدایت تھی۔ 9 بج کر 45 منٹ پر پہلے ایئرچیف، پھر آرمی چیف، اس کے بعد نیول چیف اور سب سے آخر میں 9 بجکر 52 منٹ پر جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی آئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ غیر معمولی انداز میں نشست سے اٹھ کر مہمانوں میں اگلی صف میں بیٹھے سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے پاس آئے، اور گپ شپ لگانے لگے۔ حاضرین میں سے سرگوشی ہوئی،”باجوہ صاحب سدھو کو مل رہے ہیں دونوں جاٹ ہیں، خیریت پوچھ رہے ہوں گے”۔ دونوں کے درمیان گفتگو سدھو نے بعد میں میڈیا کو بتائی لیکن کسی نے لکھا تھا، بھارتی مہمان نے آرمی چیف سے بغل گیر ہونے کی درخواست کی، ایسا نہیں تھا، جنرل باجوہ نے اپنے جذبات کا اظہار انہیں گلے لگا کر کیا۔ اتنی محبت کیوں ظاہر کی گئی یہ جنرل صاحب ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے اور بعد میں بھی بہت زیادہ لوگوں سے مصافحہ نہیں کیا۔ وزرائے اعلیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی اور چند معزز مہمانوں سے ہاتھ ملائے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ 9 بجکر 55 منٹ پر خاتون اول بشریٰ عمران پورے پروٹوکول کے ساتھ ہال داخل ہوئیں اور سیدھی اپنی نشست کی جانب بڑھیں جہاں قریب ہی بیٹھے جنرل باجوہ نہ صرف کھڑے ہوگئے بلکہ انہوں نے سلیوٹ بھی کیا۔ اور دبے الفاظ میں سلام کیا۔ خاتون اول نے آرمی چیف کی اہلیہ سے ہاتھ بھی ملایا۔ اور اپنی نشست پر بیٹھ گئیں، حاضرین میں سے کسی نے سرگوشی کی”دیکھتے ہیں کپتان آج کیا دھماکا کرتے ہیں”۔ پارٹی قیادت بھی تقریباً پہنچ گئی، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین ایک دوسرے سے دور مگر ایک ہی صف میں بیٹھے تھے۔ جہانگیر ترین بہت کم لوگوں سے ملے اور وہ سوچ میں گم نظر آئے، جیسے کوئی اگلی پلاننگ کررہے ہوں، ہوسکتا ہے پنجاب کی حکومت سازی ذھن میں ہو یا چند دن بعد ملک سے باہر جاکر کیا کرنا ہے اس کی منصوبہ بندی کررہے ہوں۔ شیخ رشید بھی ایک طرف بیٹھے رہے اور چہرے کے تاثرات خفگی کی کہانی بیان کررہے تھے۔ میڈیا کے لوگ بھی ایک دوسرے سے نپے تلے انداز میں مل رہے تھے، چینلز کی خواتین اینکرز اپنے رکھ رکھاؤ میں لگی تھیں۔ 10 بجکر 12 منٹ پر بگل بجے۔ ہال کے مرکزی دروازے پر پہلے سے جمی نگاہیں اب جیسے چوکس ہوگئیں۔ صدر ممنون حسین، ان کے دائیں وزیر اعظم عمران خان اور بائیں نگران وزیر اعظم ناصر الملک نمودار ہوئے۔ سب کھڑے ہوئے تالیوں سے نومنتخب وزیراعظم کا استقبال کیا، عمران خان نے بالکل سامنے پہلی صف میں کھڑی اپنی اہلیہ سمیت تمام اہم شخصیات کو دیکھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا۔ تینوں حضرات بیٹھ گئے، اس سے پہلے عمران خان کی آمد پر کوئی نعرہ نہیں لگا، اس پر تعجب ضرور ہوا۔ کیونکہ ماضی کی روایت ہے اور پی ٹی آئی کے کھلاڑی بھی نعروں پر جھجھکنے والے نہیں۔ قومی ترانے کی صرف دھن بج رہی تھی لیکن ہال میں جیسے کسی خاتون یا چند خواتین کے ترانے کے الفاظ ساتھ دہرانے کی آواز سنائی دی، تجسس میں نگاہ دڑائی تو محسوس ہوا کہ خاتون اول جو کہ سفید عبایا اور نقاب میں خود کو مکمل طور پر مستور کئے تھیں، لب ہلا رہی ہیں اور انہوں نے بڑے احترام سے ترانے کا اختتام بھی سرجھکا کر کیا۔ وہ مسلسل ہاتھ میں پکڑی تسبیح پھیر رہی تھیں۔ ان کے اور آرمی چیف کی اہلیہ کے درمیان خالی جگہ پر ایک کرسی لاکر رکھ دی گئی تھی جس پر ایک خاتون آکر بیٹھ گئیں اور پھر آرمی چیف اور انکی اہلیہ سے بڑے بے تکلف انداز میں گپ شپ کرنے لگ گئیں، معلوم پڑنے پر بتایا گیا کہ وہ خاتون اول کی قریبی دوست یا عزیزہ ہیں۔ تلاوت کے بعد حلف برداری کا اعلان ہوا، صدر مملکت اپنی نشست پر اٹھے اور فولڈر ہاتھ میں تھام لیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اٹھ کر لمحے کے لیے کچھ سوچا پھر اپنی شیروانی کو دائیں جانب سے اوپر کیا اور قمیض کی بغل کے نیچے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولنے کے انداز میں کچھ نکالنے لگے۔ اس دوران انہوں نے صدر ممنون سے کہا “ایک منٹ، ایک منٹ”پھر بولے”ٹھہریں”۔ سب نگاہیں ان پر جم گئی تھیں، اسی دوران انہوں نے جیب سے چشمہ نکالا اور آنکھوں پر لگالیا۔ حلف برداری کے الفاظ بولے، عمران خان کی آواز حاضرین نے پہلی بار سنی، بظاہر چہرے پر طمانیت اور ہلکا سا خوشی کا تاثر تھا، لیکن جس دن کا انہیں شدت سے انتظار تھا، اس گھڑی کے آنے پر کچھ گھبرائے سے لگے۔ انہوں نے آنے کے بعد بیٹھتے ہی پہلے دائیں اور پھر بائیں دیکھا مگر کسی کے ساتھ نظریں نہیں ملائیں، حلف برداری کے دوران تیاری نامکمل تھی یا نروس ہوگئے۔ اور روز قیامت کو روز قیادت بول دیا۔ صدر نے درست کرایا تو پہلے مسکرائے پھر جلدی میں “سوری” کہہ گئے۔ حاضرین میں سے دبی آواز آئی،”لگتا ہے پڑھ کر نہیں آئے”۔ “شاید جلدی میں کچھ نہ کچھ بھول جاتے ہیں، پہلے دن ویسٹ کوٹ، دوسرے دن کارڈ، تیسرے دن غصے پر قابو رکھنا اور حلف برداری میں عینک شیروانی کی اوپر والی جیب میں رکھنا”۔ جیب سے عینک نکالنے اور قیامت کو قیادت کہنے پر حاضرین میں سے اکثر اپنی ہنسی دبا گئے بعض مسکرانا چھپا نہ سکے۔ تقریب ختم ہونے کا اعلان ہوا، وزیر اعظم سٹیج سے اترے اور سیدھے اپنی اہلیہ کے پاس گئے، جنہوں نے آنکھوں کے اشارے اور ہلکا سا سر کو جھاکر مبارکباد دی۔ مسلح افواج کے سربراہان نے سیلوٹ کیا اور مبارکباد پیش کی۔ کپتان سے وزیر اعظم کا سفر طے کرنے والے عمران خان کے نئے کیرئیر کا آغاز ہوگیا۔ “ابھی تک وہ سرکاری قواعد اور رسم و رواج پر پوری طرح کاربند دکھائی نہیں دیئے”، “انہوں نے پروٹوکول ختم یا کم کرنے کا اعلان کیا۔ لگتا یہی تھا کہ یہ سب ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس میں بہت زیادہ پابندیاں ہوتی ہیں”۔ نوجوت سدھو حاضرین میں سے ہر کسی کے ساتھ بڑے تپاک سے ملتے اور اپنے جذبات کا بھرپور الفاظ میں اظہار کرتے رہے۔ انہوں نے کہا دونوں دیش کے عوام محبت اور امن کے بھوکے ہیں، راستے کھول کر ایک دوسرے سے ملنے کا موقع دیں پھر ہر طرف شانتی ہوگی۔ جنرل باجوہ نے بھی انہیں اس بات کا یقین دلایا۔ سدھو بولے “میں بڑے عرصے بعد آیا ہوں یہاں سے خوشیاں اور محبتیں سمیٹ کر جارہا ہوں”۔ تقریب کے بعد بسکٹ کے ساتھ چائے پینے کے دوران مہمانوں کی گفتگو کچھ ایسے ہی ملے جلے ردعمل پر مبنی تھی۔ چائے اور بسکٹ پیش کرنے پر ایک سابق سینئر بیوروکریٹ کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا،”یہ تبدیلی ہے”۔ لیکن منتظمین سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ معمول میں یہی ہوتا ہے۔ کپتان اس روز گھبرا گئے، لیکن آنے والے دنوں میں جن چیلنجز کا انہیں سامنا کرنا پڑا، اس کے نتیجے میں اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں پوری قوم گھبرا گئی، انہیں یہ کہنا پڑا، گھبرانا نہیں، مگر یہ کہنا آسان ہے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے انہیں کچھ دینا ہوگا، محض سابق حکمرانوں کے کارنامے سنانے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنی کارکردگی سے ساکھ بنانا ہوگی۔ گھبرانا نہیں کہنے سے بات نہیں بنے گی۔
گھبرانا نہیں، گھبرانا نہیں، یہ الفاظ اکثر قوم کے ڈگمگاتے اعتماد کو سنبھالا دینے کے لئے وزیراعظم بول دیتے ہیں، لیکن اس روز میں نے دیکھا وہ خود گھبرا گئے تھے، فطری عمل تھا، بائیس سال کی تگ ودو کے بعد منزل سامنے تھی، آج سے دو سال قبل ایوان صدر میں کپتان کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے، اس کے بارے میں اس وقت بہت لکھا گیا اور تبصرے بھی ہوئے، حلف برداری میں کیا دیکھا اور سنا، سب کی آنکھیں اور کان کھلے تھے۔ بہت کچھ سب کو نظر آیا اور سننے میں آیا۔ حاضرین کی چہ میگوئیاں تھیں، معزز مہمانوں کی ایک دوسرے سے گفتگو اور کہیں کہیں دبی آواز میں فقرے بازی، تقریب کا وقت سوا نو بجے دیا گیا تھا مگر اس وقت تک تقریب شروع ہونے کے کوئی آثار نہیں تھے، ساڑھے نو بجے ایک فوجی افسر نے منتظمین سے کہا لوگوں کو بیٹھنے کے لیے کہا جائے تاکہ تقریب کے آغاز کا اعلان کیا جاسکے۔ یہ دراصل مسلح افواج کے سربراہان کی آمد کے لیے راہ ہموار کرانے کی ہدایت تھی۔ 9 بج کر 45 منٹ پر پہلے ایئرچیف، پھر آرمی چیف، اس کے بعد نیول چیف اور سب سے آخر میں 9 بجکر 52 منٹ پر جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی آئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ غیر معمولی انداز میں نشست سے اٹھ کر مہمانوں میں اگلی صف میں بیٹھے سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے پاس آئے، اور گپ شپ لگانے لگے۔ حاضرین میں سے سرگوشی ہوئی،”باجوہ صاحب سدھو کو مل رہے ہیں دونوں جاٹ ہیں، خیریت پوچھ رہے ہوں گے”۔ دونوں کے درمیان گفتگو سدھو نے بعد میں میڈیا کو بتائی لیکن کسی نے لکھا تھا، بھارتی مہمان نے آرمی چیف سے بغل گیر ہونے کی درخواست کی، ایسا نہیں تھا، جنرل باجوہ نے اپنے جذبات کا اظہار انہیں گلے لگا کر کیا۔ اتنی محبت کیوں ظاہر کی گئی یہ جنرل صاحب ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے اور بعد میں بھی بہت زیادہ لوگوں سے مصافحہ نہیں کیا۔ وزرائے اعلیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی اور چند معزز مہمانوں سے ہاتھ ملائے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ 9 بجکر 55 منٹ پر خاتون اول بشریٰ عمران پورے پروٹوکول کے ساتھ ہال داخل ہوئیں اور سیدھی اپنی نشست کی جانب بڑھیں جہاں قریب ہی بیٹھے جنرل باجوہ نہ صرف کھڑے ہوگئے بلکہ انہوں نے سلیوٹ بھی کیا۔ اور دبے الفاظ میں سلام کیا۔ خاتون اول نے آرمی چیف کی اہلیہ سے ہاتھ بھی ملایا۔ اور اپنی نشست پر بیٹھ گئیں، حاضرین میں سے کسی نے سرگوشی کی”دیکھتے ہیں کپتان آج کیا دھماکا کرتے ہیں”۔ پارٹی قیادت بھی تقریباً پہنچ گئی، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین ایک دوسرے سے دور مگر ایک ہی صف میں بیٹھے تھے۔ جہانگیر ترین بہت کم لوگوں سے ملے اور وہ سوچ میں گم نظر آئے، جیسے کوئی اگلی پلاننگ کررہے ہوں، ہوسکتا ہے پنجاب کی حکومت سازی ذھن میں ہو یا چند دن بعد ملک سے باہر جاکر کیا کرنا ہے اس کی منصوبہ بندی کررہے ہوں۔ شیخ رشید بھی ایک طرف بیٹھے رہے اور چہرے کے تاثرات خفگی کی کہانی بیان کررہے تھے۔ میڈیا کے لوگ بھی ایک دوسرے سے نپے تلے انداز میں مل رہے تھے، چینلز کی خواتین اینکرز اپنے رکھ رکھاؤ میں لگی تھیں۔ 10 بجکر 12 منٹ پر بگل بجے۔ ہال کے مرکزی دروازے پر پہلے سے جمی نگاہیں اب جیسے چوکس ہوگئیں۔ صدر ممنون حسین، ان کے دائیں وزیر اعظم عمران خان اور بائیں نگران وزیر اعظم ناصر الملک نمودار ہوئے۔ سب کھڑے ہوئے تالیوں سے نومنتخب وزیراعظم کا استقبال کیا، عمران خان نے بالکل سامنے پہلی صف میں کھڑی اپنی اہلیہ سمیت تمام اہم شخصیات کو دیکھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا۔ تینوں حضرات بیٹھ گئے، اس سے پہلے عمران خان کی آمد پر کوئی نعرہ نہیں لگا، اس پر تعجب ضرور ہوا۔ کیونکہ ماضی کی روایت ہے اور پی ٹی آئی کے کھلاڑی بھی نعروں پر جھجھکنے والے نہیں۔ قومی ترانے کی صرف دھن بج رہی تھی لیکن ہال میں جیسے کسی خاتون یا چند خواتین کے ترانے کے الفاظ ساتھ دہرانے کی آواز سنائی دی، تجسس میں نگاہ دڑائی تو محسوس ہوا کہ خاتون اول جو کہ سفید عبایا اور نقاب میں خود کو مکمل طور پر مستور کئے تھیں، لب ہلا رہی ہیں اور انہوں نے بڑے احترام سے ترانے کا اختتام بھی سرجھکا کر کیا۔ وہ مسلسل ہاتھ میں پکڑی تسبیح پھیر رہی تھیں۔ ان کے اور آرمی چیف کی اہلیہ کے درمیان خالی جگہ پر ایک کرسی لاکر رکھ دی گئی تھی جس پر ایک خاتون آکر بیٹھ گئیں اور پھر آرمی چیف اور انکی اہلیہ سے بڑے بے تکلف انداز میں گپ شپ کرنے لگ گئیں، معلوم پڑنے پر بتایا گیا کہ وہ خاتون اول کی قریبی دوست یا عزیزہ ہیں۔ تلاوت کے بعد حلف برداری کا اعلان ہوا، صدر مملکت اپنی نشست پر اٹھے اور فولڈر ہاتھ میں تھام لیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اٹھ کر لمحے کے لیے کچھ سوچا پھر اپنی شیروانی کو دائیں جانب سے اوپر کیا اور قمیض کی بغل کے نیچے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولنے کے انداز میں کچھ نکالنے لگے۔ اس دوران انہوں نے صدر ممنون سے کہا “ایک منٹ، ایک منٹ”پھر بولے”ٹھہریں”۔ سب نگاہیں ان پر جم گئی تھیں، اسی دوران انہوں نے جیب سے چشمہ نکالا اور آنکھوں پر لگالیا۔ حلف برداری کے الفاظ بولے، عمران خان کی آواز حاضرین نے پہلی بار سنی، بظاہر چہرے پر طمانیت اور ہلکا سا خوشی کا تاثر تھا، لیکن جس دن کا انہیں شدت سے انتظار تھا، اس گھڑی کے آنے پر کچھ گھبرائے سے لگے۔ انہوں نے آنے کے بعد بیٹھتے ہی پہلے دائیں اور پھر بائیں دیکھا مگر کسی کے ساتھ نظریں نہیں ملائیں، حلف برداری کے دوران تیاری نامکمل تھی یا نروس ہوگئے۔ اور روز قیامت کو روز قیادت بول دیا۔ صدر نے درست کرایا تو پہلے مسکرائے پھر جلدی میں “سوری” کہہ گئے۔ حاضرین میں سے دبی آواز آئی،”لگتا ہے پڑھ کر نہیں آئے”۔ “شاید جلدی میں کچھ نہ کچھ بھول جاتے ہیں، پہلے دن ویسٹ کوٹ، دوسرے دن کارڈ، تیسرے دن غصے پر قابو رکھنا اور حلف برداری میں عینک شیروانی کی اوپر والی جیب میں رکھنا”۔ جیب سے عینک نکالنے اور قیامت کو قیادت کہنے پر حاضرین میں سے اکثر اپنی ہنسی دبا گئے بعض مسکرانا چھپا نہ سکے۔ تقریب ختم ہونے کا اعلان ہوا، وزیر اعظم سٹیج سے اترے اور سیدھے اپنی اہلیہ کے پاس گئے، جنہوں نے آنکھوں کے اشارے اور ہلکا سا سر کو جھاکر مبارکباد دی۔ مسلح افواج کے سربراہان نے سیلوٹ کیا اور مبارکباد پیش کی۔ کپتان سے وزیر اعظم کا سفر طے کرنے والے عمران خان کے نئے کیرئیر کا آغاز ہوگیا۔ “ابھی تک وہ سرکاری قواعد اور رسم و رواج پر پوری طرح کاربند دکھائی نہیں دیئے”، “انہوں نے پروٹوکول ختم یا کم کرنے کا اعلان کیا۔ لگتا یہی تھا کہ یہ سب ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس میں بہت زیادہ پابندیاں ہوتی ہیں”۔ نوجوت سدھو حاضرین میں سے ہر کسی کے ساتھ بڑے تپاک سے ملتے اور اپنے جذبات کا بھرپور الفاظ میں اظہار کرتے رہے۔ انہوں نے کہا دونوں دیش کے عوام محبت اور امن کے بھوکے ہیں، راستے کھول کر ایک دوسرے سے ملنے کا موقع دیں پھر ہر طرف شانتی ہوگی۔ جنرل باجوہ نے بھی انہیں اس بات کا یقین دلایا۔ سدھو بولے “میں بڑے عرصے بعد آیا ہوں یہاں سے خوشیاں اور محبتیں سمیٹ کر جارہا ہوں”۔ تقریب کے بعد بسکٹ کے ساتھ چائے پینے کے دوران مہمانوں کی گفتگو کچھ ایسے ہی ملے جلے ردعمل پر مبنی تھی۔ چائے اور بسکٹ پیش کرنے پر ایک سابق سینئر بیوروکریٹ کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا،”یہ تبدیلی ہے”۔ لیکن منتظمین سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ معمول میں یہی ہوتا ہے۔ کپتان اس روز گھبرا گئے، لیکن آنے والے دنوں میں جن چیلنجز کا انہیں سامنا کرنا پڑا، اس کے نتیجے میں اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں پوری قوم گھبرا گئی، انہیں یہ کہنا پڑا، گھبرانا نہیں، مگر یہ کہنا آسان ہے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے انہیں کچھ دینا ہوگا، محض سابق حکمرانوں کے کارنامے سنانے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنی کارکردگی سے ساکھ بنانا ہوگی۔ گھبرانا نہیں کہنے سے بات نہیں بنے گی۔
گھبرانا نہیں، گھبرانا نہیں، یہ الفاظ اکثر قوم کے ڈگمگاتے اعتماد کو سنبھالا دینے کے لئے وزیراعظم بول دیتے ہیں، لیکن اس روز میں نے دیکھا وہ خود گھبرا گئے تھے، فطری عمل تھا، بائیس سال کی تگ ودو کے بعد منزل سامنے تھی، آج سے دو سال قبل ایوان صدر میں کپتان کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے، اس کے بارے میں اس وقت بہت لکھا گیا اور تبصرے بھی ہوئے، حلف برداری میں کیا دیکھا اور سنا، سب کی آنکھیں اور کان کھلے تھے۔ بہت کچھ سب کو نظر آیا اور سننے میں آیا۔ حاضرین کی چہ میگوئیاں تھیں، معزز مہمانوں کی ایک دوسرے سے گفتگو اور کہیں کہیں دبی آواز میں فقرے بازی، تقریب کا وقت سوا نو بجے دیا گیا تھا مگر اس وقت تک تقریب شروع ہونے کے کوئی آثار نہیں تھے، ساڑھے نو بجے ایک فوجی افسر نے منتظمین سے کہا لوگوں کو بیٹھنے کے لیے کہا جائے تاکہ تقریب کے آغاز کا اعلان کیا جاسکے۔ یہ دراصل مسلح افواج کے سربراہان کی آمد کے لیے راہ ہموار کرانے کی ہدایت تھی۔ 9 بج کر 45 منٹ پر پہلے ایئرچیف، پھر آرمی چیف، اس کے بعد نیول چیف اور سب سے آخر میں 9 بجکر 52 منٹ پر جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی آئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ غیر معمولی انداز میں نشست سے اٹھ کر مہمانوں میں اگلی صف میں بیٹھے سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے پاس آئے، اور گپ شپ لگانے لگے۔ حاضرین میں سے سرگوشی ہوئی،”باجوہ صاحب سدھو کو مل رہے ہیں دونوں جاٹ ہیں، خیریت پوچھ رہے ہوں گے”۔ دونوں کے درمیان گفتگو سدھو نے بعد میں میڈیا کو بتائی لیکن کسی نے لکھا تھا، بھارتی مہمان نے آرمی چیف سے بغل گیر ہونے کی درخواست کی، ایسا نہیں تھا، جنرل باجوہ نے اپنے جذبات کا اظہار انہیں گلے لگا کر کیا۔ اتنی محبت کیوں ظاہر کی گئی یہ جنرل صاحب ہی بہتر بتاسکتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے اور بعد میں بھی بہت زیادہ لوگوں سے مصافحہ نہیں کیا۔ وزرائے اعلیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی اور چند معزز مہمانوں سے ہاتھ ملائے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ 9 بجکر 55 منٹ پر خاتون اول بشریٰ عمران پورے پروٹوکول کے ساتھ ہال داخل ہوئیں اور سیدھی اپنی نشست کی جانب بڑھیں جہاں قریب ہی بیٹھے جنرل باجوہ نہ صرف کھڑے ہوگئے بلکہ انہوں نے سلیوٹ بھی کیا۔ اور دبے الفاظ میں سلام کیا۔ خاتون اول نے آرمی چیف کی اہلیہ سے ہاتھ بھی ملایا۔ اور اپنی نشست پر بیٹھ گئیں، حاضرین میں سے کسی نے سرگوشی کی”دیکھتے ہیں کپتان آج کیا دھماکا کرتے ہیں”۔ پارٹی قیادت بھی تقریباً پہنچ گئی، شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین ایک دوسرے سے دور مگر ایک ہی صف میں بیٹھے تھے۔ جہانگیر ترین بہت کم لوگوں سے ملے اور وہ سوچ میں گم نظر آئے، جیسے کوئی اگلی پلاننگ کررہے ہوں، ہوسکتا ہے پنجاب کی حکومت سازی ذھن میں ہو یا چند دن بعد ملک سے باہر جاکر کیا کرنا ہے اس کی منصوبہ بندی کررہے ہوں۔ شیخ رشید بھی ایک طرف بیٹھے رہے اور چہرے کے تاثرات خفگی کی کہانی بیان کررہے تھے۔ میڈیا کے لوگ بھی ایک دوسرے سے نپے تلے انداز میں مل رہے تھے، چینلز کی خواتین اینکرز اپنے رکھ رکھاؤ میں لگی تھیں۔ 10 بجکر 12 منٹ پر بگل بجے۔ ہال کے مرکزی دروازے پر پہلے سے جمی نگاہیں اب جیسے چوکس ہوگئیں۔ صدر ممنون حسین، ان کے دائیں وزیر اعظم عمران خان اور بائیں نگران وزیر اعظم ناصر الملک نمودار ہوئے۔ سب کھڑے ہوئے تالیوں سے نومنتخب وزیراعظم کا استقبال کیا، عمران خان نے بالکل سامنے پہلی صف میں کھڑی اپنی اہلیہ سمیت تمام اہم شخصیات کو دیکھا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کیا۔ تینوں حضرات بیٹھ گئے، اس سے پہلے عمران خان کی آمد پر کوئی نعرہ نہیں لگا، اس پر تعجب ضرور ہوا۔ کیونکہ ماضی کی روایت ہے اور پی ٹی آئی کے کھلاڑی بھی نعروں پر جھجھکنے والے نہیں۔ قومی ترانے کی صرف دھن بج رہی تھی لیکن ہال میں جیسے کسی خاتون یا چند خواتین کے ترانے کے الفاظ ساتھ دہرانے کی آواز سنائی دی، تجسس میں نگاہ دڑائی تو محسوس ہوا کہ خاتون اول جو کہ سفید عبایا اور نقاب میں خود کو مکمل طور پر مستور کئے تھیں، لب ہلا رہی ہیں اور انہوں نے بڑے احترام سے ترانے کا اختتام بھی سرجھکا کر کیا۔ وہ مسلسل ہاتھ میں پکڑی تسبیح پھیر رہی تھیں۔ ان کے اور آرمی چیف کی اہلیہ کے درمیان خالی جگہ پر ایک کرسی لاکر رکھ دی گئی تھی جس پر ایک خاتون آکر بیٹھ گئیں اور پھر آرمی چیف اور انکی اہلیہ سے بڑے بے تکلف انداز میں گپ شپ کرنے لگ گئیں، معلوم پڑنے پر بتایا گیا کہ وہ خاتون اول کی قریبی دوست یا عزیزہ ہیں۔ تلاوت کے بعد حلف برداری کا اعلان ہوا، صدر مملکت اپنی نشست پر اٹھے اور فولڈر ہاتھ میں تھام لیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اٹھ کر لمحے کے لیے کچھ سوچا پھر اپنی شیروانی کو دائیں جانب سے اوپر کیا اور قمیض کی بغل کے نیچے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولنے کے انداز میں کچھ نکالنے لگے۔ اس دوران انہوں نے صدر ممنون سے کہا “ایک منٹ، ایک منٹ”پھر بولے”ٹھہریں”۔ سب نگاہیں ان پر جم گئی تھیں، اسی دوران انہوں نے جیب سے چشمہ نکالا اور آنکھوں پر لگالیا۔ حلف برداری کے الفاظ بولے، عمران خان کی آواز حاضرین نے پہلی بار سنی، بظاہر چہرے پر طمانیت اور ہلکا سا خوشی کا تاثر تھا، لیکن جس دن کا انہیں شدت سے انتظار تھا، اس گھڑی کے آنے پر کچھ گھبرائے سے لگے۔ انہوں نے آنے کے بعد بیٹھتے ہی پہلے دائیں اور پھر بائیں دیکھا مگر کسی کے ساتھ نظریں نہیں ملائیں، حلف برداری کے دوران تیاری نامکمل تھی یا نروس ہوگئے۔ اور روز قیامت کو روز قیادت بول دیا۔ صدر نے درست کرایا تو پہلے مسکرائے پھر جلدی میں “سوری” کہہ گئے۔ حاضرین میں سے دبی آواز آئی،”لگتا ہے پڑھ کر نہیں آئے”۔ “شاید جلدی میں کچھ نہ کچھ بھول جاتے ہیں، پہلے دن ویسٹ کوٹ، دوسرے دن کارڈ، تیسرے دن غصے پر قابو رکھنا اور حلف برداری میں عینک شیروانی کی اوپر والی جیب میں رکھنا”۔ جیب سے عینک نکالنے اور قیامت کو قیادت کہنے پر حاضرین میں سے اکثر اپنی ہنسی دبا گئے بعض مسکرانا چھپا نہ سکے۔ تقریب ختم ہونے کا اعلان ہوا، وزیر اعظم سٹیج سے اترے اور سیدھے اپنی اہلیہ کے پاس گئے، جنہوں نے آنکھوں کے اشارے اور ہلکا سا سر کو جھاکر مبارکباد دی۔ مسلح افواج کے سربراہان نے سیلوٹ کیا اور مبارکباد پیش کی۔ کپتان سے وزیر اعظم کا سفر طے کرنے والے عمران خان کے نئے کیرئیر کا آغاز ہوگیا۔ “ابھی تک وہ سرکاری قواعد اور رسم و رواج پر پوری طرح کاربند دکھائی نہیں دیئے”، “انہوں نے پروٹوکول ختم یا کم کرنے کا اعلان کیا۔ لگتا یہی تھا کہ یہ سب ان کے مزاج کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس میں بہت زیادہ پابندیاں ہوتی ہیں”۔ نوجوت سدھو حاضرین میں سے ہر کسی کے ساتھ بڑے تپاک سے ملتے اور اپنے جذبات کا بھرپور الفاظ میں اظہار کرتے رہے۔ انہوں نے کہا دونوں دیش کے عوام محبت اور امن کے بھوکے ہیں، راستے کھول کر ایک دوسرے سے ملنے کا موقع دیں پھر ہر طرف شانتی ہوگی۔ جنرل باجوہ نے بھی انہیں اس بات کا یقین دلایا۔ سدھو بولے “میں بڑے عرصے بعد آیا ہوں یہاں سے خوشیاں اور محبتیں سمیٹ کر جارہا ہوں”۔ تقریب کے بعد بسکٹ کے ساتھ چائے پینے کے دوران مہمانوں کی گفتگو کچھ ایسے ہی ملے جلے ردعمل پر مبنی تھی۔ چائے اور بسکٹ پیش کرنے پر ایک سابق سینئر بیوروکریٹ کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا،”یہ تبدیلی ہے”۔ لیکن منتظمین سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ معمول میں یہی ہوتا ہے۔ کپتان اس روز گھبرا گئے، لیکن آنے والے دنوں میں جن چیلنجز کا انہیں سامنا کرنا پڑا، اس کے نتیجے میں اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں پوری قوم گھبرا گئی، انہیں یہ کہنا پڑا، گھبرانا نہیں، مگر یہ کہنا آسان ہے۔ عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے انہیں کچھ دینا ہوگا، محض سابق حکمرانوں کے کارنامے سنانے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنی کارکردگی سے ساکھ بنانا ہوگی۔ گھبرانا نہیں کہنے سے بات نہیں بنے گی۔