Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے چینی کے نرخ اور مارکیٹ میں دستیابی سے متعلق تفصیلات جاری کی ہیں کہ پشاور میں چینی کی قیمت ایک سو دس روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے کوئٹہ، اسلام آباد، راولپنڈی،لاہور،کراچی اور حیدرآباد میں چینی سو روپے کلو جب کہ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ملتان اور سکھر میں چینی پچانوے روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ رپورٹ میں بتاتی ہے کہ ملک میں چینی کی اوسط قیمت پچانوے روپے سڑسٹھ پیسے فی کلو تک ہے اور ایک کلو چینی کی کم ازکم قیمت بانوے روپے جب کہ زیادہ سے زیادہ ایک سو دس روپے فی کلو ہے تحریک انصاف کی کور ٹیم نے اس صورت حال پر تشویش ظاہر کی ہے باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ وفاقی وزراء بھی مہنگائی کے باعث پریشان ہیں اور بیورو کریسی کو صورت حال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں‘ ایک ذمہ دار بیورو کریٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ وزراء کی ساری توجہ بیان بازی ہر ہوتی ہے اور بیوروکریٹس کی تجاویز نظر انداز کی جارہی ہیں لہذا مسائل بڑھ رہے ہیں کیونکہ وزراء کو تجاویز دینا بند کر دی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اشیاء خوردونوش بارے درست حقائق پیش نہیں کیے جاتے یا ان سے حقائق چھپائے جاتے ہیں دونوں صورتوں میں بوجھ عام آدمی پر ہی آتا ہے وفاقی حکومت خوراک جیسے اہم مسئلے کو نظرانداز کر کے بہت بڑے بحران کو دعوت دے رہی ہے ملک میں اس وقت پندرہ لاکھ ٹن سے زائد چینی موجود ہے اور ہماری ضرورت ساڑھے پانچ لاکھ ٹن ماہانہ ہے پنجاب میں نو لاکھ اٹھانوے ہزار دو سو ٹن، سندھ میں پانچ لاکھ چودہ ہزار پانچ سو ٹن اور خیبرپختونخوا میں اکسٹھ ہزار پانچ سو ٹن چینی موجود ہے اکتوبر میں یہ ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بحران کھڑا ہوجائے گا۔
وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے چینی کے نرخ اور مارکیٹ میں دستیابی سے متعلق تفصیلات جاری کی ہیں کہ پشاور میں چینی کی قیمت ایک سو دس روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے کوئٹہ، اسلام آباد، راولپنڈی،لاہور،کراچی اور حیدرآباد میں چینی سو روپے کلو جب کہ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ملتان اور سکھر میں چینی پچانوے روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ رپورٹ میں بتاتی ہے کہ ملک میں چینی کی اوسط قیمت پچانوے روپے سڑسٹھ پیسے فی کلو تک ہے اور ایک کلو چینی کی کم ازکم قیمت بانوے روپے جب کہ زیادہ سے زیادہ ایک سو دس روپے فی کلو ہے تحریک انصاف کی کور ٹیم نے اس صورت حال پر تشویش ظاہر کی ہے باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ وفاقی وزراء بھی مہنگائی کے باعث پریشان ہیں اور بیورو کریسی کو صورت حال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں‘ ایک ذمہ دار بیورو کریٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ وزراء کی ساری توجہ بیان بازی ہر ہوتی ہے اور بیوروکریٹس کی تجاویز نظر انداز کی جارہی ہیں لہذا مسائل بڑھ رہے ہیں کیونکہ وزراء کو تجاویز دینا بند کر دی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اشیاء خوردونوش بارے درست حقائق پیش نہیں کیے جاتے یا ان سے حقائق چھپائے جاتے ہیں دونوں صورتوں میں بوجھ عام آدمی پر ہی آتا ہے وفاقی حکومت خوراک جیسے اہم مسئلے کو نظرانداز کر کے بہت بڑے بحران کو دعوت دے رہی ہے ملک میں اس وقت پندرہ لاکھ ٹن سے زائد چینی موجود ہے اور ہماری ضرورت ساڑھے پانچ لاکھ ٹن ماہانہ ہے پنجاب میں نو لاکھ اٹھانوے ہزار دو سو ٹن، سندھ میں پانچ لاکھ چودہ ہزار پانچ سو ٹن اور خیبرپختونخوا میں اکسٹھ ہزار پانچ سو ٹن چینی موجود ہے اکتوبر میں یہ ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بحران کھڑا ہوجائے گا۔
وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے چینی کے نرخ اور مارکیٹ میں دستیابی سے متعلق تفصیلات جاری کی ہیں کہ پشاور میں چینی کی قیمت ایک سو دس روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے کوئٹہ، اسلام آباد، راولپنڈی،لاہور،کراچی اور حیدرآباد میں چینی سو روپے کلو جب کہ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ملتان اور سکھر میں چینی پچانوے روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ رپورٹ میں بتاتی ہے کہ ملک میں چینی کی اوسط قیمت پچانوے روپے سڑسٹھ پیسے فی کلو تک ہے اور ایک کلو چینی کی کم ازکم قیمت بانوے روپے جب کہ زیادہ سے زیادہ ایک سو دس روپے فی کلو ہے تحریک انصاف کی کور ٹیم نے اس صورت حال پر تشویش ظاہر کی ہے باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ وفاقی وزراء بھی مہنگائی کے باعث پریشان ہیں اور بیورو کریسی کو صورت حال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں‘ ایک ذمہ دار بیورو کریٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ وزراء کی ساری توجہ بیان بازی ہر ہوتی ہے اور بیوروکریٹس کی تجاویز نظر انداز کی جارہی ہیں لہذا مسائل بڑھ رہے ہیں کیونکہ وزراء کو تجاویز دینا بند کر دی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اشیاء خوردونوش بارے درست حقائق پیش نہیں کیے جاتے یا ان سے حقائق چھپائے جاتے ہیں دونوں صورتوں میں بوجھ عام آدمی پر ہی آتا ہے وفاقی حکومت خوراک جیسے اہم مسئلے کو نظرانداز کر کے بہت بڑے بحران کو دعوت دے رہی ہے ملک میں اس وقت پندرہ لاکھ ٹن سے زائد چینی موجود ہے اور ہماری ضرورت ساڑھے پانچ لاکھ ٹن ماہانہ ہے پنجاب میں نو لاکھ اٹھانوے ہزار دو سو ٹن، سندھ میں پانچ لاکھ چودہ ہزار پانچ سو ٹن اور خیبرپختونخوا میں اکسٹھ ہزار پانچ سو ٹن چینی موجود ہے اکتوبر میں یہ ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بحران کھڑا ہوجائے گا۔
وفاقی ادارہ شماریات کی طرف سے چینی کے نرخ اور مارکیٹ میں دستیابی سے متعلق تفصیلات جاری کی ہیں کہ پشاور میں چینی کی قیمت ایک سو دس روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے کوئٹہ، اسلام آباد، راولپنڈی،لاہور،کراچی اور حیدرآباد میں چینی سو روپے کلو جب کہ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ملتان اور سکھر میں چینی پچانوے روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ رپورٹ میں بتاتی ہے کہ ملک میں چینی کی اوسط قیمت پچانوے روپے سڑسٹھ پیسے فی کلو تک ہے اور ایک کلو چینی کی کم ازکم قیمت بانوے روپے جب کہ زیادہ سے زیادہ ایک سو دس روپے فی کلو ہے تحریک انصاف کی کور ٹیم نے اس صورت حال پر تشویش ظاہر کی ہے باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ وفاقی وزراء بھی مہنگائی کے باعث پریشان ہیں اور بیورو کریسی کو صورت حال کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں‘ ایک ذمہ دار بیورو کریٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ وزراء کی ساری توجہ بیان بازی ہر ہوتی ہے اور بیوروکریٹس کی تجاویز نظر انداز کی جارہی ہیں لہذا مسائل بڑھ رہے ہیں کیونکہ وزراء کو تجاویز دینا بند کر دی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اشیاء خوردونوش بارے درست حقائق پیش نہیں کیے جاتے یا ان سے حقائق چھپائے جاتے ہیں دونوں صورتوں میں بوجھ عام آدمی پر ہی آتا ہے وفاقی حکومت خوراک جیسے اہم مسئلے کو نظرانداز کر کے بہت بڑے بحران کو دعوت دے رہی ہے ملک میں اس وقت پندرہ لاکھ ٹن سے زائد چینی موجود ہے اور ہماری ضرورت ساڑھے پانچ لاکھ ٹن ماہانہ ہے پنجاب میں نو لاکھ اٹھانوے ہزار دو سو ٹن، سندھ میں پانچ لاکھ چودہ ہزار پانچ سو ٹن اور خیبرپختونخوا میں اکسٹھ ہزار پانچ سو ٹن چینی موجود ہے اکتوبر میں یہ ذخائر ختم ہو جائیں گے۔ اس کے بعد بحران کھڑا ہوجائے گا۔