پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں ہمیشہ گرم جوشی رہی لیکن افغان جہاد کے زمانے میں اس میں مزید وسعتیں پیدا ہوئیں۔ پاکستان کو جب بھی مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا تو سعودی عرب نے ہمیشہ آگے بڑھ کر ادھار تیل فراہم کر کے پاکستان کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے اسی طرح پاکستان نے بھی ہمیشہ سعودی عرب کو یہ یقین دلایا کہ پاکستان اور پاک فوج مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے ہمیشہ دستیاب ہے۔تین سال قبل جب سعودی عرب نے 34 مسلم ممالک کی متحدہ فوج یمن میں حوثی باغیوں سے لڑنے کے لیے تشکیل دی تو گرچہ پاکستان نے اپنی افواج یمن میں بھیجنے سے انکار کردیا لیکن جب سعودی عرب نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اس فوجی اتحاد کا سربراہ مقرر کیا تو پاکستان نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا۔
حالیہ دنوں میں تاثر یہ ہے کہ پاک سعودیہ گرم جوشی میں کمی پیدا ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان بھارت کی جانب سے گذشتہ سال کشمیر کی آئینی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد سے او آئی سی سے مطالبہ کررہا تھا کہ وہ وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس بلائے لیکنیہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
او آئی سی ایک بین الاقوامی تنظیم ہے۔57 مسلم ممالک اس کے رکن ہیں۔او آئی سی کا مقصد مسلم امت کے مسائل کو حل کرنا ہے،مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے لیکن افسوس کے ساتھ او آئی سی نے آج تک سوائے اجلاس طلب کرنے کے عالمی سطح پر اور کوئی کام نہیں کیا لیکن کشمیر کے معاملے میں یہ سابقہ روایت بھی ٹوٹ گئی اور مسئلہ کشمیر کے معاملے میں او آئی سی کا ایک بھی اجلاس طلب نہیں کیا جاسکا گوکہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے گزشہ برس پاکستان کے دورے کے دوران مسئلہ کشمیر کے ایجنڈے پر اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس بلانے پر اتفاق ہوا تھا اس اتفاق کے باوجود او آئی سی کا اجلاس نہیں ہوا جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔
گزشتہ ہفتے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تنازع کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس طلب نہ کیے جانے پر بات چیت کی۔یاد رہے کہ اطلاعات کے مطابق اس بیان سے دو روز قبل سعودی عرب نے پاکستان کو دیے گئے ادھار ایک ارب ڈالر بھی واپس مانگ لیا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے تنازع کشمیر پر نجی چینل اے آر وائی نیوز کے پروگرام “آف دی ریکارڈ” میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر او آئی سی سے کہتے ہیں کہ پاکستان توقع رکھتا پے کہ مسئلہ کشمیر پر تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلا تاخیر بلایا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر او آئی سی کونسل آف فارن منسٹر کا اجلاس نہیں بلا سکتی تو وہ مجبور وزیر اعظم سے گزارش کریں گے وہ مسلم ممالک جو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ہیں،ان کا اجلاس بلا لیں چاہے وہ او آئی سی کے فورم پر ہوں یا نہ ہوں۔
گوکہ اس بیان کو بعد ازاں چینل نے سنسر کردیا اور ٹیلی وژن پہ دوبارہ نشر نہیں کیا گیا لیکن شاہ محمود قریشی کا یہ بیان بہت سے پاکستانیوں کے جذبات کی ترجمانی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی عوام مسئلہ کشمیر پر عرب ممالک خاص طور سے سعودی عرب کے کردار سے کافی مایوس ہوا ہے کیونکہ پاکستانیوں کو امید تھی کہ جس طرح سعودی عرب نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے اسلامی برادر ملک ہونے کے ناطے اسی طرح وہ مسئلہ کشمیر پر بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہوگا لیکن سعودی عرب کے بھارت میں کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے کے فورا بعد 100 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کر کے پاکستان کو واضح طور پر یہ پیغام دے دیا تھا کہ اب سعودی عرب کے لیے اپنے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ ایک دفعہ یہ خبر بھی بھارتی میڈیا کی زینت بنی کہ اجیت ڈوول نے سعودی عرب جا کر اعلی حکام سے دو گھنٹے بند کمرے میں طویل ملاقات کی ہے اور اس ملاقات میں سعودی عرب کے اعلی حکام نے مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کی حمایت کی ہے۔
اسی حوالے سے شاہ محمود قریشی کا متنازعہ بیان سامنے آیا۔کافی عرصہ سے یہ بات ملک میں گردش کررہی تھی کہ اب عالمی منظرنامہ تبدیل ہورہا ہے اور ایک نیا بلاک بننے کی تیاری ہورہی ہے جس کے رکن ممالک ترکی، روس، چین،ایران، قطر،ملائشیا اور پاکستان ہونگے اور ان تمام ممالک کا ایجنڈا ایک ہی ہوگا اور کئی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ اس بلاک میں شامل ممالک کی کرنسی مشترکہ ہوگی اور یہ سب ممالک مسئلہ کشمیر کے مسئلہ میں کھل کر پاکستان کا ساتھ دیں گے۔
کئی تجزیہ کار شاہ محمود قریشی کے سعودی عرب کے حوالے سے متنازعہ بیان کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں ان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب پاکستان کے وزیر خارجہ نے واضح طور پر نیا بلاک بننے کا عندیہ دے دیا ہے لیکن پاکستانی حکومت نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے لیکن پاکستان میں ایسے تجزیہ نگاروں کی بھی کمی نہیں ہے جو شاہ محمود قریشی کے بیان کو نئے بلاک کے تناظر میں نہیں بلکہ دو دوستوں کے باہمی معاملات معاملے کی حدود میں دیکھ رہے ہیں اور پرامید ہیں کہ آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب بہت سے مثبت نتائج سامنے لائے گا۔
پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سمجھتا ہے کہ پاکستان کو اب سعودی عرب سے تعلقات میں تھوڑی لچک دکھا کر ان ممالک کی طرف دلچسپی ظاہر کرنی چاہیے جو بھارت سے خائف اور مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کے حامی ہیں۔ اس سوچ کے حامی طبقہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان نے صرف سعودی عرب کی وجہ سے کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کی تھی کیونکہ کوالالمپور سمٹ کے حوالے سے سعودی عرب تحفظات کا شکار تھا حالانکہ مہا تیر محمد نے بھارت کی ناراضگی مول لے کر مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کی تھی،لیکن اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملا؟سعودی عرب نے ایک مذمتی بیان تک دینا بھی پسند نہیں فرمایا۔۔
پاکستان کو اس حقیقت کا ادراک بہت اچھے سے ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں دراڑ مسلم امت کے لیے سود مند نہیں ہے اسلام دشمن قوتیں اس تناو کا فائدہ اٹھا کر اس خطے میں اپنے قدم جما سکتی ہیں۔اسی حقیقت کو سمجھتے ہوئے پاکستان کے آرمی چیف پاکستان کے نمائندے بن کر سعودی عرب جا رہے ہیں امید ہے کہ ان کا دورہ بہت سے مثبت نتائج سامنے لائے گا اور پاک سعودیہ تعلقات میں تناو کی کیفیت بھی کافی حد تک کم ہوگی۔