Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آدمی “دنیا” میں آنے کے بعد “زمین” پر چار حروف کا “قیدی” بن کر رہ جاتا ہے ، “جیون” ، “سانس” لینے سے “شروع ” ہوتا ہے اور ساری “حیات”، “پانی”، “روٹی”، “اناج”، “بھوک”، “پیاس” بجھانے کے چکر میں گزار دیتا ہے۔ “مومن” “اللہ” اور “محمد” کا ذکر کرتے رہتے ہیں، “زندہ” رہنے کے لئے کوئی نہ کوئی “پیشہ” اختیار کرتے ہیں۔ “محنت”، مشقت سے کام کرتے ہیں، “ہندو” “پوجا” کرکے اپنے بھگوان کو رام کرتے ہیں۔ اصل میں سب “مذہب”، “نیکی” کی تلقین کرتے ہیں۔ “پیار”، “محبت”سے ہی “نفرت” کو دور کیا جاسکتا ہے۔ “مسلم” “قرآن” اور ہندو “گیتا” سے سیکھتے ہیں۔ یہ “کتاب” ان کے لئے کسی بھی “مشکل” میں “آسان” راہ دکھاتی ہے۔ انہیں “سکون” اور “چین” سے “زندہ” رہنے کا راستہ دکھائی دیتا ہے۔ “انسان” جو بھی پیشہ اپناتا ہے اُس کا “مقصد” روٹی کا “حصول” ہوتا ہے، وہ اپنے “ہاتھ”، “بازو”، “آنکھ” “زبان”اور “ٹانگ” کے ساتھ ساتھ “دماغ” کا استعمال کرتا ہے۔ اُسے کاروبار کے لئے “قرضہ” درکار ہوتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں “شہرت” بھی ملتی ہے۔ لیکن جب اقتدار یا اختیار مل جائے تو وہ “ظالم” بھی بن جاتاہے۔ وہ “طاقت” کے “نشے” میں سب کچھ “بھول” جاتاہے۔
“مکان” ،”دولت” “پیشہ” “شہرت”، “گاڑی”، “زمین” “عورت” اس سب کی “لالچ” میں دوسروں کو “شکت” دینے کے “درپے” رہتا ہے۔ “دوست” اور “دشمن” کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ “جدید” تقاضوں کی خاطر وہ “قدیم” روایات کو فراموش کردیتا ہے۔ تمام “رسوم” اور “رواج” نظرانداز کردیئے جاتے ہیں۔ انسان کو اپنی “خوشی” زیادہ “مقدم” ہوجاتی ہے۔ وہ “تکبر” اور “غرور” میں آکر بہت زیادہ “عیار” بن جاتاہے۔ “مذہب” سےدور ہوکر “جادو” پر یقین کرنے لگتا ہے۔ دوسروں کی زندگی “وبال” بنانے میں کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔ “شکت” پانے کے بعد اُسے “قسمت” کا “لکھا” قرار دے دیتا ہے۔
“دلہا”، “دلہن” بن کر “شادی” کی “رسوم” ادا کرتاہے، جس کے بعد “شوہر” اور “بیوی” کے “رشتے” کا آغاز ہوجاتاہے، “ساتھ” نبھانے کا”وعدہ” کرتے ہیں۔ پھر ان کی زندگی میں “بچوں” کی آمد ہوتی ہے۔ ہر طرف خوشی اور “روشنی” بکھر جاتی ہے۔ پیار اور محبت کے اس رشتے میں کبھی کبھی “رنجش” بھی آجاتی ہے۔ “حساس” لوگ ہمیشہ دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ رشتہ مضبوط نہ ہو تو “نوبت” “طلاق” تک آجاتی ہے۔ شادی اور طلاق کے چار حروف اپنے اندر بڑے “معنی” رکھتے ہیں۔ جسے ان کی “سمجھ” آجائے وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔
“چرند” “پرند”، “پھول”، “پودے”، “درخت”، “پہاڑ”، “پانی”، “سورج”، “چاند”،”تارے”، “بادل”، “بارش”، “موسم”، “گرمی”، سردی”، “بہار”، “خزاں”، “قدرت” اپنے اندر “سمیٹ” لیتی ہے۔
انسان کو “گروہ” کی صورت “متحد” رہنا پڑتا ہے، اپنے “دفاع” کے لئے “سپاہ” تشکیل دینی پڑتی ہے، ریاست کا “نظام” چلانے کے لئے “وزیر” مشیر”،اور “سفیر” مقرر کرنے پڑتے ہیں۔ کچھ مل جائے تو “مقدر” اور نہ ملنے پر “قسمت ” کا کھیل سمجھ لیتے ہیں۔
“اناج” میں “انسان” کو “روٹی” اور “گندم” ،”چاول” درکار ہوتے ہیں۔ آدمی زندہ سوال مردہ جواب تلاش کرتے حیات گزار دیتا محسن کوئی کمال دکھا جائے حیرت مثال بنتا۔
“بہشت” کی خواہش ضرور کرتا ہے لیکن “آخرت” اور “جہنم” کے معاملات ذہن سےنکال دیتا ہے، اس کا “مزاج” بالکل تبدیل ہوجاتا ہے۔
“مذہب” سے “آگہی” کےلئے “بیان” سنتا ہے، “عالم” سے رابطہ کرتا ہے، “نماز” پڑھتا ہے “روزہ” رکھتا ہے، “زکوۃ” دیتا ہے، دکھی انسانیت کی “خدمت” میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، بندے کے حقوق کا خاص خیال رکھتا ہے، “صدقہ” دینے کا بھی اسے احساس رہتا ہے، “اذان” سنتے ہی “مسجد” کی طرف بھاگتا ہے۔ نماز پڑھنے کے بعد اللہ کی کتاب کھول لیتا ہے۔ اسے دنیا کی حقیقت معلوم ہوگئی۔ بلکہ آخرت کا مکمل ادراک بھی ہوگیا۔
آدمی “دنیا” میں آنے کے بعد “زمین” پر چار حروف کا “قیدی” بن کر رہ جاتا ہے ، “جیون” ، “سانس” لینے سے “شروع ” ہوتا ہے اور ساری “حیات”، “پانی”، “روٹی”، “اناج”، “بھوک”، “پیاس” بجھانے کے چکر میں گزار دیتا ہے۔ “مومن” “اللہ” اور “محمد” کا ذکر کرتے رہتے ہیں، “زندہ” رہنے کے لئے کوئی نہ کوئی “پیشہ” اختیار کرتے ہیں۔ “محنت”، مشقت سے کام کرتے ہیں، “ہندو” “پوجا” کرکے اپنے بھگوان کو رام کرتے ہیں۔ اصل میں سب “مذہب”، “نیکی” کی تلقین کرتے ہیں۔ “پیار”، “محبت”سے ہی “نفرت” کو دور کیا جاسکتا ہے۔ “مسلم” “قرآن” اور ہندو “گیتا” سے سیکھتے ہیں۔ یہ “کتاب” ان کے لئے کسی بھی “مشکل” میں “آسان” راہ دکھاتی ہے۔ انہیں “سکون” اور “چین” سے “زندہ” رہنے کا راستہ دکھائی دیتا ہے۔ “انسان” جو بھی پیشہ اپناتا ہے اُس کا “مقصد” روٹی کا “حصول” ہوتا ہے، وہ اپنے “ہاتھ”، “بازو”، “آنکھ” “زبان”اور “ٹانگ” کے ساتھ ساتھ “دماغ” کا استعمال کرتا ہے۔ اُسے کاروبار کے لئے “قرضہ” درکار ہوتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں “شہرت” بھی ملتی ہے۔ لیکن جب اقتدار یا اختیار مل جائے تو وہ “ظالم” بھی بن جاتاہے۔ وہ “طاقت” کے “نشے” میں سب کچھ “بھول” جاتاہے۔
“مکان” ،”دولت” “پیشہ” “شہرت”، “گاڑی”، “زمین” “عورت” اس سب کی “لالچ” میں دوسروں کو “شکت” دینے کے “درپے” رہتا ہے۔ “دوست” اور “دشمن” کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ “جدید” تقاضوں کی خاطر وہ “قدیم” روایات کو فراموش کردیتا ہے۔ تمام “رسوم” اور “رواج” نظرانداز کردیئے جاتے ہیں۔ انسان کو اپنی “خوشی” زیادہ “مقدم” ہوجاتی ہے۔ وہ “تکبر” اور “غرور” میں آکر بہت زیادہ “عیار” بن جاتاہے۔ “مذہب” سےدور ہوکر “جادو” پر یقین کرنے لگتا ہے۔ دوسروں کی زندگی “وبال” بنانے میں کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔ “شکت” پانے کے بعد اُسے “قسمت” کا “لکھا” قرار دے دیتا ہے۔
“دلہا”، “دلہن” بن کر “شادی” کی “رسوم” ادا کرتاہے، جس کے بعد “شوہر” اور “بیوی” کے “رشتے” کا آغاز ہوجاتاہے، “ساتھ” نبھانے کا”وعدہ” کرتے ہیں۔ پھر ان کی زندگی میں “بچوں” کی آمد ہوتی ہے۔ ہر طرف خوشی اور “روشنی” بکھر جاتی ہے۔ پیار اور محبت کے اس رشتے میں کبھی کبھی “رنجش” بھی آجاتی ہے۔ “حساس” لوگ ہمیشہ دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ رشتہ مضبوط نہ ہو تو “نوبت” “طلاق” تک آجاتی ہے۔ شادی اور طلاق کے چار حروف اپنے اندر بڑے “معنی” رکھتے ہیں۔ جسے ان کی “سمجھ” آجائے وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔
“چرند” “پرند”، “پھول”، “پودے”، “درخت”، “پہاڑ”، “پانی”، “سورج”، “چاند”،”تارے”، “بادل”، “بارش”، “موسم”، “گرمی”، سردی”، “بہار”، “خزاں”، “قدرت” اپنے اندر “سمیٹ” لیتی ہے۔
انسان کو “گروہ” کی صورت “متحد” رہنا پڑتا ہے، اپنے “دفاع” کے لئے “سپاہ” تشکیل دینی پڑتی ہے، ریاست کا “نظام” چلانے کے لئے “وزیر” مشیر”،اور “سفیر” مقرر کرنے پڑتے ہیں۔ کچھ مل جائے تو “مقدر” اور نہ ملنے پر “قسمت ” کا کھیل سمجھ لیتے ہیں۔
“اناج” میں “انسان” کو “روٹی” اور “گندم” ،”چاول” درکار ہوتے ہیں۔ آدمی زندہ سوال مردہ جواب تلاش کرتے حیات گزار دیتا محسن کوئی کمال دکھا جائے حیرت مثال بنتا۔
“بہشت” کی خواہش ضرور کرتا ہے لیکن “آخرت” اور “جہنم” کے معاملات ذہن سےنکال دیتا ہے، اس کا “مزاج” بالکل تبدیل ہوجاتا ہے۔
“مذہب” سے “آگہی” کےلئے “بیان” سنتا ہے، “عالم” سے رابطہ کرتا ہے، “نماز” پڑھتا ہے “روزہ” رکھتا ہے، “زکوۃ” دیتا ہے، دکھی انسانیت کی “خدمت” میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، بندے کے حقوق کا خاص خیال رکھتا ہے، “صدقہ” دینے کا بھی اسے احساس رہتا ہے، “اذان” سنتے ہی “مسجد” کی طرف بھاگتا ہے۔ نماز پڑھنے کے بعد اللہ کی کتاب کھول لیتا ہے۔ اسے دنیا کی حقیقت معلوم ہوگئی۔ بلکہ آخرت کا مکمل ادراک بھی ہوگیا۔
آدمی “دنیا” میں آنے کے بعد “زمین” پر چار حروف کا “قیدی” بن کر رہ جاتا ہے ، “جیون” ، “سانس” لینے سے “شروع ” ہوتا ہے اور ساری “حیات”، “پانی”، “روٹی”، “اناج”، “بھوک”، “پیاس” بجھانے کے چکر میں گزار دیتا ہے۔ “مومن” “اللہ” اور “محمد” کا ذکر کرتے رہتے ہیں، “زندہ” رہنے کے لئے کوئی نہ کوئی “پیشہ” اختیار کرتے ہیں۔ “محنت”، مشقت سے کام کرتے ہیں، “ہندو” “پوجا” کرکے اپنے بھگوان کو رام کرتے ہیں۔ اصل میں سب “مذہب”، “نیکی” کی تلقین کرتے ہیں۔ “پیار”، “محبت”سے ہی “نفرت” کو دور کیا جاسکتا ہے۔ “مسلم” “قرآن” اور ہندو “گیتا” سے سیکھتے ہیں۔ یہ “کتاب” ان کے لئے کسی بھی “مشکل” میں “آسان” راہ دکھاتی ہے۔ انہیں “سکون” اور “چین” سے “زندہ” رہنے کا راستہ دکھائی دیتا ہے۔ “انسان” جو بھی پیشہ اپناتا ہے اُس کا “مقصد” روٹی کا “حصول” ہوتا ہے، وہ اپنے “ہاتھ”، “بازو”، “آنکھ” “زبان”اور “ٹانگ” کے ساتھ ساتھ “دماغ” کا استعمال کرتا ہے۔ اُسے کاروبار کے لئے “قرضہ” درکار ہوتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں “شہرت” بھی ملتی ہے۔ لیکن جب اقتدار یا اختیار مل جائے تو وہ “ظالم” بھی بن جاتاہے۔ وہ “طاقت” کے “نشے” میں سب کچھ “بھول” جاتاہے۔
“مکان” ،”دولت” “پیشہ” “شہرت”، “گاڑی”، “زمین” “عورت” اس سب کی “لالچ” میں دوسروں کو “شکت” دینے کے “درپے” رہتا ہے۔ “دوست” اور “دشمن” کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ “جدید” تقاضوں کی خاطر وہ “قدیم” روایات کو فراموش کردیتا ہے۔ تمام “رسوم” اور “رواج” نظرانداز کردیئے جاتے ہیں۔ انسان کو اپنی “خوشی” زیادہ “مقدم” ہوجاتی ہے۔ وہ “تکبر” اور “غرور” میں آکر بہت زیادہ “عیار” بن جاتاہے۔ “مذہب” سےدور ہوکر “جادو” پر یقین کرنے لگتا ہے۔ دوسروں کی زندگی “وبال” بنانے میں کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔ “شکت” پانے کے بعد اُسے “قسمت” کا “لکھا” قرار دے دیتا ہے۔
“دلہا”، “دلہن” بن کر “شادی” کی “رسوم” ادا کرتاہے، جس کے بعد “شوہر” اور “بیوی” کے “رشتے” کا آغاز ہوجاتاہے، “ساتھ” نبھانے کا”وعدہ” کرتے ہیں۔ پھر ان کی زندگی میں “بچوں” کی آمد ہوتی ہے۔ ہر طرف خوشی اور “روشنی” بکھر جاتی ہے۔ پیار اور محبت کے اس رشتے میں کبھی کبھی “رنجش” بھی آجاتی ہے۔ “حساس” لوگ ہمیشہ دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ رشتہ مضبوط نہ ہو تو “نوبت” “طلاق” تک آجاتی ہے۔ شادی اور طلاق کے چار حروف اپنے اندر بڑے “معنی” رکھتے ہیں۔ جسے ان کی “سمجھ” آجائے وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔
“چرند” “پرند”، “پھول”، “پودے”، “درخت”، “پہاڑ”، “پانی”، “سورج”، “چاند”،”تارے”، “بادل”، “بارش”، “موسم”، “گرمی”، سردی”، “بہار”، “خزاں”، “قدرت” اپنے اندر “سمیٹ” لیتی ہے۔
انسان کو “گروہ” کی صورت “متحد” رہنا پڑتا ہے، اپنے “دفاع” کے لئے “سپاہ” تشکیل دینی پڑتی ہے، ریاست کا “نظام” چلانے کے لئے “وزیر” مشیر”،اور “سفیر” مقرر کرنے پڑتے ہیں۔ کچھ مل جائے تو “مقدر” اور نہ ملنے پر “قسمت ” کا کھیل سمجھ لیتے ہیں۔
“اناج” میں “انسان” کو “روٹی” اور “گندم” ،”چاول” درکار ہوتے ہیں۔ آدمی زندہ سوال مردہ جواب تلاش کرتے حیات گزار دیتا محسن کوئی کمال دکھا جائے حیرت مثال بنتا۔
“بہشت” کی خواہش ضرور کرتا ہے لیکن “آخرت” اور “جہنم” کے معاملات ذہن سےنکال دیتا ہے، اس کا “مزاج” بالکل تبدیل ہوجاتا ہے۔
“مذہب” سے “آگہی” کےلئے “بیان” سنتا ہے، “عالم” سے رابطہ کرتا ہے، “نماز” پڑھتا ہے “روزہ” رکھتا ہے، “زکوۃ” دیتا ہے، دکھی انسانیت کی “خدمت” میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، بندے کے حقوق کا خاص خیال رکھتا ہے، “صدقہ” دینے کا بھی اسے احساس رہتا ہے، “اذان” سنتے ہی “مسجد” کی طرف بھاگتا ہے۔ نماز پڑھنے کے بعد اللہ کی کتاب کھول لیتا ہے۔ اسے دنیا کی حقیقت معلوم ہوگئی۔ بلکہ آخرت کا مکمل ادراک بھی ہوگیا۔
آدمی “دنیا” میں آنے کے بعد “زمین” پر چار حروف کا “قیدی” بن کر رہ جاتا ہے ، “جیون” ، “سانس” لینے سے “شروع ” ہوتا ہے اور ساری “حیات”، “پانی”، “روٹی”، “اناج”، “بھوک”، “پیاس” بجھانے کے چکر میں گزار دیتا ہے۔ “مومن” “اللہ” اور “محمد” کا ذکر کرتے رہتے ہیں، “زندہ” رہنے کے لئے کوئی نہ کوئی “پیشہ” اختیار کرتے ہیں۔ “محنت”، مشقت سے کام کرتے ہیں، “ہندو” “پوجا” کرکے اپنے بھگوان کو رام کرتے ہیں۔ اصل میں سب “مذہب”، “نیکی” کی تلقین کرتے ہیں۔ “پیار”، “محبت”سے ہی “نفرت” کو دور کیا جاسکتا ہے۔ “مسلم” “قرآن” اور ہندو “گیتا” سے سیکھتے ہیں۔ یہ “کتاب” ان کے لئے کسی بھی “مشکل” میں “آسان” راہ دکھاتی ہے۔ انہیں “سکون” اور “چین” سے “زندہ” رہنے کا راستہ دکھائی دیتا ہے۔ “انسان” جو بھی پیشہ اپناتا ہے اُس کا “مقصد” روٹی کا “حصول” ہوتا ہے، وہ اپنے “ہاتھ”، “بازو”، “آنکھ” “زبان”اور “ٹانگ” کے ساتھ ساتھ “دماغ” کا استعمال کرتا ہے۔ اُسے کاروبار کے لئے “قرضہ” درکار ہوتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں “شہرت” بھی ملتی ہے۔ لیکن جب اقتدار یا اختیار مل جائے تو وہ “ظالم” بھی بن جاتاہے۔ وہ “طاقت” کے “نشے” میں سب کچھ “بھول” جاتاہے۔
“مکان” ،”دولت” “پیشہ” “شہرت”، “گاڑی”، “زمین” “عورت” اس سب کی “لالچ” میں دوسروں کو “شکت” دینے کے “درپے” رہتا ہے۔ “دوست” اور “دشمن” کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ “جدید” تقاضوں کی خاطر وہ “قدیم” روایات کو فراموش کردیتا ہے۔ تمام “رسوم” اور “رواج” نظرانداز کردیئے جاتے ہیں۔ انسان کو اپنی “خوشی” زیادہ “مقدم” ہوجاتی ہے۔ وہ “تکبر” اور “غرور” میں آکر بہت زیادہ “عیار” بن جاتاہے۔ “مذہب” سےدور ہوکر “جادو” پر یقین کرنے لگتا ہے۔ دوسروں کی زندگی “وبال” بنانے میں کوئی موقع نہیں چھوڑتا۔ “شکت” پانے کے بعد اُسے “قسمت” کا “لکھا” قرار دے دیتا ہے۔
“دلہا”، “دلہن” بن کر “شادی” کی “رسوم” ادا کرتاہے، جس کے بعد “شوہر” اور “بیوی” کے “رشتے” کا آغاز ہوجاتاہے، “ساتھ” نبھانے کا”وعدہ” کرتے ہیں۔ پھر ان کی زندگی میں “بچوں” کی آمد ہوتی ہے۔ ہر طرف خوشی اور “روشنی” بکھر جاتی ہے۔ پیار اور محبت کے اس رشتے میں کبھی کبھی “رنجش” بھی آجاتی ہے۔ “حساس” لوگ ہمیشہ دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ رشتہ مضبوط نہ ہو تو “نوبت” “طلاق” تک آجاتی ہے۔ شادی اور طلاق کے چار حروف اپنے اندر بڑے “معنی” رکھتے ہیں۔ جسے ان کی “سمجھ” آجائے وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔
“چرند” “پرند”، “پھول”، “پودے”، “درخت”، “پہاڑ”، “پانی”، “سورج”، “چاند”،”تارے”، “بادل”، “بارش”، “موسم”، “گرمی”، سردی”، “بہار”، “خزاں”، “قدرت” اپنے اندر “سمیٹ” لیتی ہے۔
انسان کو “گروہ” کی صورت “متحد” رہنا پڑتا ہے، اپنے “دفاع” کے لئے “سپاہ” تشکیل دینی پڑتی ہے، ریاست کا “نظام” چلانے کے لئے “وزیر” مشیر”،اور “سفیر” مقرر کرنے پڑتے ہیں۔ کچھ مل جائے تو “مقدر” اور نہ ملنے پر “قسمت ” کا کھیل سمجھ لیتے ہیں۔
“اناج” میں “انسان” کو “روٹی” اور “گندم” ،”چاول” درکار ہوتے ہیں۔ آدمی زندہ سوال مردہ جواب تلاش کرتے حیات گزار دیتا محسن کوئی کمال دکھا جائے حیرت مثال بنتا۔
“بہشت” کی خواہش ضرور کرتا ہے لیکن “آخرت” اور “جہنم” کے معاملات ذہن سےنکال دیتا ہے، اس کا “مزاج” بالکل تبدیل ہوجاتا ہے۔
“مذہب” سے “آگہی” کےلئے “بیان” سنتا ہے، “عالم” سے رابطہ کرتا ہے، “نماز” پڑھتا ہے “روزہ” رکھتا ہے، “زکوۃ” دیتا ہے، دکھی انسانیت کی “خدمت” میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، بندے کے حقوق کا خاص خیال رکھتا ہے، “صدقہ” دینے کا بھی اسے احساس رہتا ہے، “اذان” سنتے ہی “مسجد” کی طرف بھاگتا ہے۔ نماز پڑھنے کے بعد اللہ کی کتاب کھول لیتا ہے۔ اسے دنیا کی حقیقت معلوم ہوگئی۔ بلکہ آخرت کا مکمل ادراک بھی ہوگیا۔