Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
”علم حاصل کرنا ہر مسلما ن مرد و عورت پر فرض ہے“۔ حضور اکرم ﷺ کی یہ حدیث ہمارے لئے مشعل راہ ہے ”تعلیم وہ دولت ہے جو جاہل اور باشعور کے بیچ کا فرق ختم کرتی ہے“۔زمانہ ئ حاضر میں ایک سوچ بہت تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے کہ پڑھنے لکھنے سے کچھ نہیں ہوتا……سب محنت کا ہی کمال ہے، بے شک اس بات میں کسی حد تک صداقت تو ہے، لیکن تعلیم کا اصل حق تو ترقی کے بعد ہی ادا ہوتا ہے۔
چونکہ تعلیم کی وجہ سے کامیاب ترین شخص بھی اپنے پیر زمین پر جمائے رکھتا ہے جس کی وجہ سے غرور جیسی لعنت سے بچا رہتا ہے اور کامیابی حاصل کرتا ہے تو تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے۔اس سے ایک اچھا صاف ستھرا اور مثبت معاشرہ جنم لیتا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں تعلیم کا اتنا فقدان کیوں ہے؟آئیے نظر ڈالتے ہیں چند اہم وجوہات کی طرف جو ذیل بیان کی گئی ہیں۔
بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں۔اللہ کی دی گئی تعلیمات جوکہ قرآن حکیم میں موجود ہیں اور حضور ﷺ کی تعلیمات جو احادیث مبارکہ کی شکل میں ہمیں میسر ہیں۔
قرآن کریم کی پہلی آیت اقراء جس کے معنی ہیں پڑھ! ہم تک اللہ کا یہ پیغام پہنچاتی ہے کہ جب رب ذوالجلال نے اپنی اس مقدس کتاب کی ابتداء کے لئے اس آیت کا چناؤ کیا تو یقینا اس آیت میں پروردگار عالم کی طرف سے ہمارے لئے علم حاصل کرنے کی بھرپور اور واضح ہدایت موجود ہے۔
دوسری جانب حضور اکرمﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ”علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے“۔
سرکارِ دوعالم محمد مصطفی ﷺ نے جو ارشاد فرمایا بلا شبہ وہ ہم سب مسلمانوں کے لئے حرف آخر ہے۔لیکن باوجود اس کے ہم لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔اسلام تو تعلیم کو فروغ دیتا ہے پھر بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تعلیم کا یہ حال کیو ں ہے؟؟
اگر ہم آئین پاکستان پر نظر ڈالیں توآرٹیکل 25-A،واضح طور پر اُن بچوں کو جن کی عمر پانچ سے سولہ سال کے درمیان ہے ان کو مفت تعلیم دینے پر حکومت کو پابند کرتا ہے۔ جبکہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک کے سرکاری اسکولوں کا کیا حال ہے؟
نہ اساتذہ وقت پر آتے ہیں اور نہ ہی پڑھانے لائق نصاب موجود ہے، دلچسپ بات تویہ ہے کہ آئین کی اس بنیادی شق کی خلاف ورزی کرنے پر آج تک کسی حکمران کے خلاف کوئی پرچہ نہیں کٹا اور کسی بھی نوعیت کی جوابدہی اور قانونی کاروائی بھی نہیں ہوئی .شاید کسی نے کوشش کی ہو لیکن وہ کوشش مقبولیت حاصل نہ کرسکی۔جب سرکاری اسکولوں کا یہ حال ہے تو والدین اچھی اور معیاری تعلیم کے لئے مجبوراً نجی اسکولوں کا رخ کرتے ہیں مگرنجی اسکولوں نے تعلیم کے معیار سے زیادہ اپنی کمائی کو اہمیت دی ہے مگر بہرحال سرکاری اسکولوں سے بہرحال بہتر صورتحال ہے۔
یہ قدم والدین کو مزید معاشی مشکلات کی طرف دھکیلتا ہے کیونکہ کسی بھی اچھے نجی اسکول کی فیس بہت بھاری ہوتی ہے جوکہ والدین پر ایک اضافی بوجھ ہوا کرتی ہے۔ مالی حالات خراب ہونے کی وجہ سے متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ بچو ں کی تعلیم منقطع کرکے انہیں کام اور کسی بھی ہنر سیکھنے پر لگا دیتے ہیں تاکہ ان کی خاندان کی آمدنی میں دو پیسے کااضافہ ہوسکے۔
بدقسمتی سے نجی اسکو لوں کی فیس اس قدر زیادہ ہے کہ عوام کی اکثریت سے لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے اور کچھ امیر طبقے کے خاندان ہی بچوں کو اعلیٰ اور معیاری تعلیم دلوا سکتے ہے جوکہ بین الاقوامی طور پر قابل قبول ہے۔
کم اور غیر معیاری تعلیم ہونے کی وجہ سے یقینا معاشرہ بھی ہر لحاظ سے کم عقلی کا شکا رہوتا ہے۔اور پھر دیگر مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔مثلاً عورتوں پر بے جا پابندیاں لگانا، بچوں کو کم عمری میں کام پر لگا دینا، معاشرے میں پڑھے لکھے لوگوں کی وہ عزت نہ
ہونا جس کے وہ مستحق ہیں وغیرہ وغیرہ۔
عورتوں کا مسئلہ خاصا سنگین ہے، پاکستان میں عورتوں کی تعداد مردوں کے تناسب سے زیادہ جن کی آبادی کل آبادی کا 52% فیصد ہے۔عورتوں کو تعلیم سے دور رکھنا گویا ایسا ہے کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی کو ہم جان بوجھ کر جاہل رکھنا چاہتے جوکہ کسی بھی ملک کے لئے لمحہ فکریہ ہے اور ملک کی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
تعلیم سے وابستہ مسائل بے شک پاکستان میں بہت زیادہ ہیں لیکن ان کو ختم کرنا ہر گز ناممکن نہیں۔حکومت کا اس معاملے میں بہت ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ملک کی معاشی پالیسیا ں اس طرح وضع کی جائیں کہ لوگ اپنے بچوں کو باآسانی تعلیم فراہم کرسکیں اور بلاشبہ یہ قدم پاکستان کے آئین اور دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
تعلیم ہی وہ ایک واحد خزانہ ہے جس کی موجودگی اس معاشرے کو عالمی سطح پر عزت و وقار دلوا سکتی ہے۔ اور پھر ہمارا معاشرہ بھی دیگر مہذب معاشروں کی طرح مثال بن سکتا ہے۔ اللہ ہمیں وطن عزیز کی خدمت کرنے کا اور اسے بہتر بنانے کا موقع نصیب فرمائے آمین۔