Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اماں نے کبھی آدم کے بیٹوں کی کہانی سنائی تھی، انہوں نے بتایا تھا کہ قابیل اور ہابیل کے درمیان اختلاف اور پھر جھگڑے کے نتیجے میں ایک کے قتل کی سرگزشت میں بھی حکمت تھی۔ قابیل نے ہابیل تو میری بات نہیں مان رہا میں تجھے قتل کرکے رہوں گا، ہابیل نے جواب دیا کہ اللہ صرف اپنے متقی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے، اگر تم مجھے قتل کرنے کے لئے مجھ پر دست درازی کرو گے تو میں تم کو قتل کرنے کے لئے تم پر ہاتھ اٹھانے والا نہیں۔ دونوں نے اپنی قیمتی اشیاء یعنی قابیل نے کھیتی اور ہابیل نے اپنی بھیڑ بکریاں پیش کردیں، قربانی قبول کرنے کا ثبوت یہ ہوتا کہ آسمانی بجلی زمین پر گرتی اور جس چیز کو ساتھ لے جاتی، اسے قبولیت مل جاتی۔ اللہ نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی، اس نے کہا میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں، میں چاہتا ہوں میرا گناہ اور اپنا گناہ، دونوں تمہی لے کر لوٹو اور جہنم والوں میں سے بنو، اور یہی سزا ہے ظالموں کی۔
بالآخر قابیل کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا اور وہ اس کو قتل کرکے نامرادوں میں سے ہوگیا۔ اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین میں کریدتا تھا تاکہ وہ اس کو دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے۔
قابیل بولا، ہائے میری کم بختی۔ کیا میں اس کوے جیسا بھی نہیں ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو ڈھانک دیتا؟ وہ اس پر شرمسار ہوا۔
اماں نے بتایا کہ قرآن میں اس واقعہ سے حکمت کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں، یہ کہ خدا کا خوف وہ چیز ہے جو عہدالہٰی پر قائم رکھتا ہے اور شیطان کے بھڑکانے سے پیدا ہونے والے فاسد جذبات اس عہد کے توڑنے کا باعث بنتے ہیں۔
یہ کہ اللہ کے نیک بندے حق وعدل کی حفاظت میں اپنی جان قربان کردینے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور خدا پر ایمان ، اس کی عبادت، اخلاص، تقویٰ، اعمال کی جزا وسزا کی تعلیمات پر انسان سے پہلے ہی عہد لیا جاچکا ہوتا ہے۔
ہابیل کا جواب درحقیقت اس بات کا کھلا اظہار تھا کہ میں تمہارے قتل میں پہل کرکے کوئی بارگناہ اپنے سرلیے ہوئے اپنے رب کی طرف پلٹنا نہیں چاہتا، اگر تم یہ بوجھ اٹھا سکتے ہو تو اٹھاو۔
ہابیل نے پہل کرنے سے نفی کی ہے، بچاو کی نفی نہیں ہے، اپنی جان اور اپنے مال کی مدافعت کرنا خوف خدا کے منافی نہیں ہے، اماں نے کچھ وضاحت کی کہ درحقیقت ایک اندرونی کشمکش ارادہ قتل سے قابیل کے اندر پیدا ہوئی یہ جھجھک ہر مجرم کو جرم کا ارادہ کرنے پر پیش آتی ہے لیکن قابیل کے حسد نے بالآخر اس کو قتل کے جرم پر آمادہ کرلیا۔ اس نے اپنے بھائی کی لاش یوں ہی پڑی چھوڑ دی، اس کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی، کوے کے زمین کریدنے سے آسے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی تدبیر سمجھ میں آئی۔
یہ شیطان ہی انسان کو جرم پر اکساتا اور پھر اس کو چھپانے کی تدبیریں سجھاتا ہے،
قابیل کی شروفساد کی ذہنیت کا اظہار چونکہ لوگوں کی طرف سے برابر ہوتا رہتا ہے، اس لئے قرآن میں درج واقعے کو بنیاد بناکر اس مسئلے پر غور کرو، بندہ اچھے کام کرنے کا ہمیشہ آرزومند رہتا ہے، اس کے دوران جب بھی اندر کی خواہشات سرابھارتی ہیں، اُن کی تکمیل کی راہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے بندے کا ذھن کسی اور طرف نکل جاتا ہے، وہ تمام راستے جنہیں سماجی اور اخلاقی طور پر درست سمجھا جاتا ہے ان سے شاید ہٹ کر ہوتے ہیں۔
اسی مقام پر ذھن ایک کشمکش کا شکار ہوکر ایک دہرائے پر آن کھڑا ہوتا ہے، خواہشات پوری کرنے کا دباو یا کچھ بھی حاصل کرنے کی چاہت، بندے کو وقتی طور پر امتحان میں ڈال دیتی ہے، لیکن یہ صرف ابتدا میں ہی ہوتا ہے جب وہ طے کرلیتا ہے کہ ان چیزوں کا حصول کسی بھی طور ممکن بنانا ہے تو پھر دوبارہ یہ خلش یا سوال کم ہی اُسے روکتا یا متنبہ کرتا ہے کہ تم کچھ غلط کررہے ہو۔
درحقیقت پہل اچھے کام کی ہو یا پھر بُرے کی، اس نے راستہ ہی دکھانا ہوتا ہے، قرآن جسے خوف خدا کہتا ہے وہ دراصل انسان کو نقصان پہنچانے والے کام ہیں، یعنی جو کرتا ہے اس کے فائدے میں بھی نہیں اور اس کے نتائج دوسروں پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ازل سے اس جنس کو ساتھ لگادیا ہے، اور بندے کے لئے دنیا میں امتحان رکھا ہے، کہاں وہ سیدھے رستے کو پکڑے اور جہاں اُسے کوئی کشش ، لالچ، ترغیب اپنی طرف کھینچتی ہے تو وہیں اس کی آزمائش شروع ہوجاتی ہے، چونکہ فیصلہ فوری کرنا ہوتا ہے، اس لئے تھوڑی سی دیر بھی بندے کو راہ راست سے ہٹانے کے لئے کافی ہے۔
اماں کہتی کہ میں پہلے بھی تمہیں بتاچکی ہوں یہ ازلی دشمن انسان کو بیٹھے بٹھائے سب کے سامنے مجرم بنادیتا ہے ایسے کام جنہیں کوئی دوسرا جانتا تک نہیں لیکن اللہ دیکھ رہا ہے، اس کا بندہ کیا کررہا ہے، اور کس کے اکسانے پر لگا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس کی نیت کیا تھی۔ بندے نے ابتدا اچھی سوچ کے ساتھ کی تھی یا وہ پہلے سے ہی غلط ارادہ لئے آیا تھا۔
سماج میں بندے کا کردار بہت زیادہ معنی رکھتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی سرگرمی سے دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹائیں، اگر ہم اپنا معاملہ ہی ٹھیک کرلیں تو اس سے دوسرے کے کئی مسئلے خراب ہونے سے بچ سکتے ہیں، اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے اور بروقت انجام دینے کا مطلب ہے اپنے حصے کا نہ صرف فرض ادا کردیا بلکہ اس کام کی تکمیل بھی کرادی، بالکل اس کے الٹ دیکھیں اگر ایسا نہ کرنے کی صورت میں سب کچھ ادھورا رہ جاتا یا اچھے انداز سے تکمیل کے مراحل میں نہ جاتا، اس کا بوجھ بھی کندھے پر آجانا تھا۔
بڑی سادہ اور حکمت ک باتیں انسان ہمیشہ سن بھی لیتا ہے اور اکثر خود سے عہد بھی کرلیتا ہے کہ ایسے ہی زندگی گزارنے کی کوشش کروں گا، لیکن اس کے ذھن میں پیدا ہونے والے وسوسے کئی بار اس کے قدم روک دیتے ہیں، اگر میں نے ایسا کردیا تو فلاں نقصان ہوجائے گا، دھوپ میں نکلا تو گرمی لگے گی، اندھیرے میں چلنے سے کہیں گر نہ جاوں، کسی کی مدد کرنے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا، بہت معمولی، سطحی اور غیر اہم باتیں اسے الجھائے رکھتی ہیں، جن کے باعث وہ اپنی توجہ اصل مسئلے سے ہٹا دیتا ہے۔
اماں کا کہنا تھا کہ انسان اپنی سوچ درست رکھے تو زیادہ پریشانی نہیں ہوتی، اپنے ذھن میں خواہشات کے انبار لگائے نہ رکھے تو آسانی رہتی ہے۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسکا حل موجود نہ ہو، بندہ صرف گھبرا جاتا ہے، رب پر بھروسا چھوڑ کر کسی اور طرف نگاہیں دڑاتا ہے، وہاں اس کا دشمن گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ بندے کا اس سے جان چھڑانا کوئی مشکل نہیں، اپنی توجہ نیک نیتی سے اپنے کام پر رکھے اور اسے بددیانتی کئے بغیر مکمل کرے۔ کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اور ایسے بندے ہی راست باز قرار دیئے گئے ہیں، ہابیل کی سوچ اپنانے والوں کو کسی بار گناہ کو اٹھانے اور جرم چھپانے تک کی نوبت نہیں آئے گی۔
اماں نے کبھی آدم کے بیٹوں کی کہانی سنائی تھی، انہوں نے بتایا تھا کہ قابیل اور ہابیل کے درمیان اختلاف اور پھر جھگڑے کے نتیجے میں ایک کے قتل کی سرگزشت میں بھی حکمت تھی۔ قابیل نے ہابیل تو میری بات نہیں مان رہا میں تجھے قتل کرکے رہوں گا، ہابیل نے جواب دیا کہ اللہ صرف اپنے متقی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے، اگر تم مجھے قتل کرنے کے لئے مجھ پر دست درازی کرو گے تو میں تم کو قتل کرنے کے لئے تم پر ہاتھ اٹھانے والا نہیں۔ دونوں نے اپنی قیمتی اشیاء یعنی قابیل نے کھیتی اور ہابیل نے اپنی بھیڑ بکریاں پیش کردیں، قربانی قبول کرنے کا ثبوت یہ ہوتا کہ آسمانی بجلی زمین پر گرتی اور جس چیز کو ساتھ لے جاتی، اسے قبولیت مل جاتی۔ اللہ نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی، اس نے کہا میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں، میں چاہتا ہوں میرا گناہ اور اپنا گناہ، دونوں تمہی لے کر لوٹو اور جہنم والوں میں سے بنو، اور یہی سزا ہے ظالموں کی۔
بالآخر قابیل کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا اور وہ اس کو قتل کرکے نامرادوں میں سے ہوگیا۔ اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین میں کریدتا تھا تاکہ وہ اس کو دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے۔
قابیل بولا، ہائے میری کم بختی۔ کیا میں اس کوے جیسا بھی نہیں ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو ڈھانک دیتا؟ وہ اس پر شرمسار ہوا۔
اماں نے بتایا کہ قرآن میں اس واقعہ سے حکمت کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں، یہ کہ خدا کا خوف وہ چیز ہے جو عہدالہٰی پر قائم رکھتا ہے اور شیطان کے بھڑکانے سے پیدا ہونے والے فاسد جذبات اس عہد کے توڑنے کا باعث بنتے ہیں۔
یہ کہ اللہ کے نیک بندے حق وعدل کی حفاظت میں اپنی جان قربان کردینے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور خدا پر ایمان ، اس کی عبادت، اخلاص، تقویٰ، اعمال کی جزا وسزا کی تعلیمات پر انسان سے پہلے ہی عہد لیا جاچکا ہوتا ہے۔
ہابیل کا جواب درحقیقت اس بات کا کھلا اظہار تھا کہ میں تمہارے قتل میں پہل کرکے کوئی بارگناہ اپنے سرلیے ہوئے اپنے رب کی طرف پلٹنا نہیں چاہتا، اگر تم یہ بوجھ اٹھا سکتے ہو تو اٹھاو۔
ہابیل نے پہل کرنے سے نفی کی ہے، بچاو کی نفی نہیں ہے، اپنی جان اور اپنے مال کی مدافعت کرنا خوف خدا کے منافی نہیں ہے، اماں نے کچھ وضاحت کی کہ درحقیقت ایک اندرونی کشمکش ارادہ قتل سے قابیل کے اندر پیدا ہوئی یہ جھجھک ہر مجرم کو جرم کا ارادہ کرنے پر پیش آتی ہے لیکن قابیل کے حسد نے بالآخر اس کو قتل کے جرم پر آمادہ کرلیا۔ اس نے اپنے بھائی کی لاش یوں ہی پڑی چھوڑ دی، اس کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی، کوے کے زمین کریدنے سے آسے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی تدبیر سمجھ میں آئی۔
یہ شیطان ہی انسان کو جرم پر اکساتا اور پھر اس کو چھپانے کی تدبیریں سجھاتا ہے،
قابیل کی شروفساد کی ذہنیت کا اظہار چونکہ لوگوں کی طرف سے برابر ہوتا رہتا ہے، اس لئے قرآن میں درج واقعے کو بنیاد بناکر اس مسئلے پر غور کرو، بندہ اچھے کام کرنے کا ہمیشہ آرزومند رہتا ہے، اس کے دوران جب بھی اندر کی خواہشات سرابھارتی ہیں، اُن کی تکمیل کی راہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے بندے کا ذھن کسی اور طرف نکل جاتا ہے، وہ تمام راستے جنہیں سماجی اور اخلاقی طور پر درست سمجھا جاتا ہے ان سے شاید ہٹ کر ہوتے ہیں۔
اسی مقام پر ذھن ایک کشمکش کا شکار ہوکر ایک دہرائے پر آن کھڑا ہوتا ہے، خواہشات پوری کرنے کا دباو یا کچھ بھی حاصل کرنے کی چاہت، بندے کو وقتی طور پر امتحان میں ڈال دیتی ہے، لیکن یہ صرف ابتدا میں ہی ہوتا ہے جب وہ طے کرلیتا ہے کہ ان چیزوں کا حصول کسی بھی طور ممکن بنانا ہے تو پھر دوبارہ یہ خلش یا سوال کم ہی اُسے روکتا یا متنبہ کرتا ہے کہ تم کچھ غلط کررہے ہو۔
درحقیقت پہل اچھے کام کی ہو یا پھر بُرے کی، اس نے راستہ ہی دکھانا ہوتا ہے، قرآن جسے خوف خدا کہتا ہے وہ دراصل انسان کو نقصان پہنچانے والے کام ہیں، یعنی جو کرتا ہے اس کے فائدے میں بھی نہیں اور اس کے نتائج دوسروں پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ازل سے اس جنس کو ساتھ لگادیا ہے، اور بندے کے لئے دنیا میں امتحان رکھا ہے، کہاں وہ سیدھے رستے کو پکڑے اور جہاں اُسے کوئی کشش ، لالچ، ترغیب اپنی طرف کھینچتی ہے تو وہیں اس کی آزمائش شروع ہوجاتی ہے، چونکہ فیصلہ فوری کرنا ہوتا ہے، اس لئے تھوڑی سی دیر بھی بندے کو راہ راست سے ہٹانے کے لئے کافی ہے۔
اماں کہتی کہ میں پہلے بھی تمہیں بتاچکی ہوں یہ ازلی دشمن انسان کو بیٹھے بٹھائے سب کے سامنے مجرم بنادیتا ہے ایسے کام جنہیں کوئی دوسرا جانتا تک نہیں لیکن اللہ دیکھ رہا ہے، اس کا بندہ کیا کررہا ہے، اور کس کے اکسانے پر لگا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس کی نیت کیا تھی۔ بندے نے ابتدا اچھی سوچ کے ساتھ کی تھی یا وہ پہلے سے ہی غلط ارادہ لئے آیا تھا۔
سماج میں بندے کا کردار بہت زیادہ معنی رکھتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی سرگرمی سے دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹائیں، اگر ہم اپنا معاملہ ہی ٹھیک کرلیں تو اس سے دوسرے کے کئی مسئلے خراب ہونے سے بچ سکتے ہیں، اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے اور بروقت انجام دینے کا مطلب ہے اپنے حصے کا نہ صرف فرض ادا کردیا بلکہ اس کام کی تکمیل بھی کرادی، بالکل اس کے الٹ دیکھیں اگر ایسا نہ کرنے کی صورت میں سب کچھ ادھورا رہ جاتا یا اچھے انداز سے تکمیل کے مراحل میں نہ جاتا، اس کا بوجھ بھی کندھے پر آجانا تھا۔
بڑی سادہ اور حکمت ک باتیں انسان ہمیشہ سن بھی لیتا ہے اور اکثر خود سے عہد بھی کرلیتا ہے کہ ایسے ہی زندگی گزارنے کی کوشش کروں گا، لیکن اس کے ذھن میں پیدا ہونے والے وسوسے کئی بار اس کے قدم روک دیتے ہیں، اگر میں نے ایسا کردیا تو فلاں نقصان ہوجائے گا، دھوپ میں نکلا تو گرمی لگے گی، اندھیرے میں چلنے سے کہیں گر نہ جاوں، کسی کی مدد کرنے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا، بہت معمولی، سطحی اور غیر اہم باتیں اسے الجھائے رکھتی ہیں، جن کے باعث وہ اپنی توجہ اصل مسئلے سے ہٹا دیتا ہے۔
اماں کا کہنا تھا کہ انسان اپنی سوچ درست رکھے تو زیادہ پریشانی نہیں ہوتی، اپنے ذھن میں خواہشات کے انبار لگائے نہ رکھے تو آسانی رہتی ہے۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسکا حل موجود نہ ہو، بندہ صرف گھبرا جاتا ہے، رب پر بھروسا چھوڑ کر کسی اور طرف نگاہیں دڑاتا ہے، وہاں اس کا دشمن گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ بندے کا اس سے جان چھڑانا کوئی مشکل نہیں، اپنی توجہ نیک نیتی سے اپنے کام پر رکھے اور اسے بددیانتی کئے بغیر مکمل کرے۔ کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اور ایسے بندے ہی راست باز قرار دیئے گئے ہیں، ہابیل کی سوچ اپنانے والوں کو کسی بار گناہ کو اٹھانے اور جرم چھپانے تک کی نوبت نہیں آئے گی۔
اماں نے کبھی آدم کے بیٹوں کی کہانی سنائی تھی، انہوں نے بتایا تھا کہ قابیل اور ہابیل کے درمیان اختلاف اور پھر جھگڑے کے نتیجے میں ایک کے قتل کی سرگزشت میں بھی حکمت تھی۔ قابیل نے ہابیل تو میری بات نہیں مان رہا میں تجھے قتل کرکے رہوں گا، ہابیل نے جواب دیا کہ اللہ صرف اپنے متقی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے، اگر تم مجھے قتل کرنے کے لئے مجھ پر دست درازی کرو گے تو میں تم کو قتل کرنے کے لئے تم پر ہاتھ اٹھانے والا نہیں۔ دونوں نے اپنی قیمتی اشیاء یعنی قابیل نے کھیتی اور ہابیل نے اپنی بھیڑ بکریاں پیش کردیں، قربانی قبول کرنے کا ثبوت یہ ہوتا کہ آسمانی بجلی زمین پر گرتی اور جس چیز کو ساتھ لے جاتی، اسے قبولیت مل جاتی۔ اللہ نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی، اس نے کہا میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں، میں چاہتا ہوں میرا گناہ اور اپنا گناہ، دونوں تمہی لے کر لوٹو اور جہنم والوں میں سے بنو، اور یہی سزا ہے ظالموں کی۔
بالآخر قابیل کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا اور وہ اس کو قتل کرکے نامرادوں میں سے ہوگیا۔ اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین میں کریدتا تھا تاکہ وہ اس کو دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے۔
قابیل بولا، ہائے میری کم بختی۔ کیا میں اس کوے جیسا بھی نہیں ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو ڈھانک دیتا؟ وہ اس پر شرمسار ہوا۔
اماں نے بتایا کہ قرآن میں اس واقعہ سے حکمت کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں، یہ کہ خدا کا خوف وہ چیز ہے جو عہدالہٰی پر قائم رکھتا ہے اور شیطان کے بھڑکانے سے پیدا ہونے والے فاسد جذبات اس عہد کے توڑنے کا باعث بنتے ہیں۔
یہ کہ اللہ کے نیک بندے حق وعدل کی حفاظت میں اپنی جان قربان کردینے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور خدا پر ایمان ، اس کی عبادت، اخلاص، تقویٰ، اعمال کی جزا وسزا کی تعلیمات پر انسان سے پہلے ہی عہد لیا جاچکا ہوتا ہے۔
ہابیل کا جواب درحقیقت اس بات کا کھلا اظہار تھا کہ میں تمہارے قتل میں پہل کرکے کوئی بارگناہ اپنے سرلیے ہوئے اپنے رب کی طرف پلٹنا نہیں چاہتا، اگر تم یہ بوجھ اٹھا سکتے ہو تو اٹھاو۔
ہابیل نے پہل کرنے سے نفی کی ہے، بچاو کی نفی نہیں ہے، اپنی جان اور اپنے مال کی مدافعت کرنا خوف خدا کے منافی نہیں ہے، اماں نے کچھ وضاحت کی کہ درحقیقت ایک اندرونی کشمکش ارادہ قتل سے قابیل کے اندر پیدا ہوئی یہ جھجھک ہر مجرم کو جرم کا ارادہ کرنے پر پیش آتی ہے لیکن قابیل کے حسد نے بالآخر اس کو قتل کے جرم پر آمادہ کرلیا۔ اس نے اپنے بھائی کی لاش یوں ہی پڑی چھوڑ دی، اس کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی، کوے کے زمین کریدنے سے آسے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی تدبیر سمجھ میں آئی۔
یہ شیطان ہی انسان کو جرم پر اکساتا اور پھر اس کو چھپانے کی تدبیریں سجھاتا ہے،
قابیل کی شروفساد کی ذہنیت کا اظہار چونکہ لوگوں کی طرف سے برابر ہوتا رہتا ہے، اس لئے قرآن میں درج واقعے کو بنیاد بناکر اس مسئلے پر غور کرو، بندہ اچھے کام کرنے کا ہمیشہ آرزومند رہتا ہے، اس کے دوران جب بھی اندر کی خواہشات سرابھارتی ہیں، اُن کی تکمیل کی راہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے بندے کا ذھن کسی اور طرف نکل جاتا ہے، وہ تمام راستے جنہیں سماجی اور اخلاقی طور پر درست سمجھا جاتا ہے ان سے شاید ہٹ کر ہوتے ہیں۔
اسی مقام پر ذھن ایک کشمکش کا شکار ہوکر ایک دہرائے پر آن کھڑا ہوتا ہے، خواہشات پوری کرنے کا دباو یا کچھ بھی حاصل کرنے کی چاہت، بندے کو وقتی طور پر امتحان میں ڈال دیتی ہے، لیکن یہ صرف ابتدا میں ہی ہوتا ہے جب وہ طے کرلیتا ہے کہ ان چیزوں کا حصول کسی بھی طور ممکن بنانا ہے تو پھر دوبارہ یہ خلش یا سوال کم ہی اُسے روکتا یا متنبہ کرتا ہے کہ تم کچھ غلط کررہے ہو۔
درحقیقت پہل اچھے کام کی ہو یا پھر بُرے کی، اس نے راستہ ہی دکھانا ہوتا ہے، قرآن جسے خوف خدا کہتا ہے وہ دراصل انسان کو نقصان پہنچانے والے کام ہیں، یعنی جو کرتا ہے اس کے فائدے میں بھی نہیں اور اس کے نتائج دوسروں پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ازل سے اس جنس کو ساتھ لگادیا ہے، اور بندے کے لئے دنیا میں امتحان رکھا ہے، کہاں وہ سیدھے رستے کو پکڑے اور جہاں اُسے کوئی کشش ، لالچ، ترغیب اپنی طرف کھینچتی ہے تو وہیں اس کی آزمائش شروع ہوجاتی ہے، چونکہ فیصلہ فوری کرنا ہوتا ہے، اس لئے تھوڑی سی دیر بھی بندے کو راہ راست سے ہٹانے کے لئے کافی ہے۔
اماں کہتی کہ میں پہلے بھی تمہیں بتاچکی ہوں یہ ازلی دشمن انسان کو بیٹھے بٹھائے سب کے سامنے مجرم بنادیتا ہے ایسے کام جنہیں کوئی دوسرا جانتا تک نہیں لیکن اللہ دیکھ رہا ہے، اس کا بندہ کیا کررہا ہے، اور کس کے اکسانے پر لگا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس کی نیت کیا تھی۔ بندے نے ابتدا اچھی سوچ کے ساتھ کی تھی یا وہ پہلے سے ہی غلط ارادہ لئے آیا تھا۔
سماج میں بندے کا کردار بہت زیادہ معنی رکھتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی سرگرمی سے دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹائیں، اگر ہم اپنا معاملہ ہی ٹھیک کرلیں تو اس سے دوسرے کے کئی مسئلے خراب ہونے سے بچ سکتے ہیں، اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے اور بروقت انجام دینے کا مطلب ہے اپنے حصے کا نہ صرف فرض ادا کردیا بلکہ اس کام کی تکمیل بھی کرادی، بالکل اس کے الٹ دیکھیں اگر ایسا نہ کرنے کی صورت میں سب کچھ ادھورا رہ جاتا یا اچھے انداز سے تکمیل کے مراحل میں نہ جاتا، اس کا بوجھ بھی کندھے پر آجانا تھا۔
بڑی سادہ اور حکمت ک باتیں انسان ہمیشہ سن بھی لیتا ہے اور اکثر خود سے عہد بھی کرلیتا ہے کہ ایسے ہی زندگی گزارنے کی کوشش کروں گا، لیکن اس کے ذھن میں پیدا ہونے والے وسوسے کئی بار اس کے قدم روک دیتے ہیں، اگر میں نے ایسا کردیا تو فلاں نقصان ہوجائے گا، دھوپ میں نکلا تو گرمی لگے گی، اندھیرے میں چلنے سے کہیں گر نہ جاوں، کسی کی مدد کرنے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا، بہت معمولی، سطحی اور غیر اہم باتیں اسے الجھائے رکھتی ہیں، جن کے باعث وہ اپنی توجہ اصل مسئلے سے ہٹا دیتا ہے۔
اماں کا کہنا تھا کہ انسان اپنی سوچ درست رکھے تو زیادہ پریشانی نہیں ہوتی، اپنے ذھن میں خواہشات کے انبار لگائے نہ رکھے تو آسانی رہتی ہے۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسکا حل موجود نہ ہو، بندہ صرف گھبرا جاتا ہے، رب پر بھروسا چھوڑ کر کسی اور طرف نگاہیں دڑاتا ہے، وہاں اس کا دشمن گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ بندے کا اس سے جان چھڑانا کوئی مشکل نہیں، اپنی توجہ نیک نیتی سے اپنے کام پر رکھے اور اسے بددیانتی کئے بغیر مکمل کرے۔ کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اور ایسے بندے ہی راست باز قرار دیئے گئے ہیں، ہابیل کی سوچ اپنانے والوں کو کسی بار گناہ کو اٹھانے اور جرم چھپانے تک کی نوبت نہیں آئے گی۔
اماں نے کبھی آدم کے بیٹوں کی کہانی سنائی تھی، انہوں نے بتایا تھا کہ قابیل اور ہابیل کے درمیان اختلاف اور پھر جھگڑے کے نتیجے میں ایک کے قتل کی سرگزشت میں بھی حکمت تھی۔ قابیل نے ہابیل تو میری بات نہیں مان رہا میں تجھے قتل کرکے رہوں گا، ہابیل نے جواب دیا کہ اللہ صرف اپنے متقی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے، اگر تم مجھے قتل کرنے کے لئے مجھ پر دست درازی کرو گے تو میں تم کو قتل کرنے کے لئے تم پر ہاتھ اٹھانے والا نہیں۔ دونوں نے اپنی قیمتی اشیاء یعنی قابیل نے کھیتی اور ہابیل نے اپنی بھیڑ بکریاں پیش کردیں، قربانی قبول کرنے کا ثبوت یہ ہوتا کہ آسمانی بجلی زمین پر گرتی اور جس چیز کو ساتھ لے جاتی، اسے قبولیت مل جاتی۔ اللہ نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی، اس نے کہا میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں، میں چاہتا ہوں میرا گناہ اور اپنا گناہ، دونوں تمہی لے کر لوٹو اور جہنم والوں میں سے بنو، اور یہی سزا ہے ظالموں کی۔
بالآخر قابیل کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کرلیا اور وہ اس کو قتل کرکے نامرادوں میں سے ہوگیا۔ اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین میں کریدتا تھا تاکہ وہ اس کو دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے۔
قابیل بولا، ہائے میری کم بختی۔ کیا میں اس کوے جیسا بھی نہیں ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو ڈھانک دیتا؟ وہ اس پر شرمسار ہوا۔
اماں نے بتایا کہ قرآن میں اس واقعہ سے حکمت کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں، یہ کہ خدا کا خوف وہ چیز ہے جو عہدالہٰی پر قائم رکھتا ہے اور شیطان کے بھڑکانے سے پیدا ہونے والے فاسد جذبات اس عہد کے توڑنے کا باعث بنتے ہیں۔
یہ کہ اللہ کے نیک بندے حق وعدل کی حفاظت میں اپنی جان قربان کردینے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور خدا پر ایمان ، اس کی عبادت، اخلاص، تقویٰ، اعمال کی جزا وسزا کی تعلیمات پر انسان سے پہلے ہی عہد لیا جاچکا ہوتا ہے۔
ہابیل کا جواب درحقیقت اس بات کا کھلا اظہار تھا کہ میں تمہارے قتل میں پہل کرکے کوئی بارگناہ اپنے سرلیے ہوئے اپنے رب کی طرف پلٹنا نہیں چاہتا، اگر تم یہ بوجھ اٹھا سکتے ہو تو اٹھاو۔
ہابیل نے پہل کرنے سے نفی کی ہے، بچاو کی نفی نہیں ہے، اپنی جان اور اپنے مال کی مدافعت کرنا خوف خدا کے منافی نہیں ہے، اماں نے کچھ وضاحت کی کہ درحقیقت ایک اندرونی کشمکش ارادہ قتل سے قابیل کے اندر پیدا ہوئی یہ جھجھک ہر مجرم کو جرم کا ارادہ کرنے پر پیش آتی ہے لیکن قابیل کے حسد نے بالآخر اس کو قتل کے جرم پر آمادہ کرلیا۔ اس نے اپنے بھائی کی لاش یوں ہی پڑی چھوڑ دی، اس کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی، کوے کے زمین کریدنے سے آسے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کی تدبیر سمجھ میں آئی۔
یہ شیطان ہی انسان کو جرم پر اکساتا اور پھر اس کو چھپانے کی تدبیریں سجھاتا ہے،
قابیل کی شروفساد کی ذہنیت کا اظہار چونکہ لوگوں کی طرف سے برابر ہوتا رہتا ہے، اس لئے قرآن میں درج واقعے کو بنیاد بناکر اس مسئلے پر غور کرو، بندہ اچھے کام کرنے کا ہمیشہ آرزومند رہتا ہے، اس کے دوران جب بھی اندر کی خواہشات سرابھارتی ہیں، اُن کی تکمیل کی راہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے بندے کا ذھن کسی اور طرف نکل جاتا ہے، وہ تمام راستے جنہیں سماجی اور اخلاقی طور پر درست سمجھا جاتا ہے ان سے شاید ہٹ کر ہوتے ہیں۔
اسی مقام پر ذھن ایک کشمکش کا شکار ہوکر ایک دہرائے پر آن کھڑا ہوتا ہے، خواہشات پوری کرنے کا دباو یا کچھ بھی حاصل کرنے کی چاہت، بندے کو وقتی طور پر امتحان میں ڈال دیتی ہے، لیکن یہ صرف ابتدا میں ہی ہوتا ہے جب وہ طے کرلیتا ہے کہ ان چیزوں کا حصول کسی بھی طور ممکن بنانا ہے تو پھر دوبارہ یہ خلش یا سوال کم ہی اُسے روکتا یا متنبہ کرتا ہے کہ تم کچھ غلط کررہے ہو۔
درحقیقت پہل اچھے کام کی ہو یا پھر بُرے کی، اس نے راستہ ہی دکھانا ہوتا ہے، قرآن جسے خوف خدا کہتا ہے وہ دراصل انسان کو نقصان پہنچانے والے کام ہیں، یعنی جو کرتا ہے اس کے فائدے میں بھی نہیں اور اس کے نتائج دوسروں پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ازل سے اس جنس کو ساتھ لگادیا ہے، اور بندے کے لئے دنیا میں امتحان رکھا ہے، کہاں وہ سیدھے رستے کو پکڑے اور جہاں اُسے کوئی کشش ، لالچ، ترغیب اپنی طرف کھینچتی ہے تو وہیں اس کی آزمائش شروع ہوجاتی ہے، چونکہ فیصلہ فوری کرنا ہوتا ہے، اس لئے تھوڑی سی دیر بھی بندے کو راہ راست سے ہٹانے کے لئے کافی ہے۔
اماں کہتی کہ میں پہلے بھی تمہیں بتاچکی ہوں یہ ازلی دشمن انسان کو بیٹھے بٹھائے سب کے سامنے مجرم بنادیتا ہے ایسے کام جنہیں کوئی دوسرا جانتا تک نہیں لیکن اللہ دیکھ رہا ہے، اس کا بندہ کیا کررہا ہے، اور کس کے اکسانے پر لگا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس کی نیت کیا تھی۔ بندے نے ابتدا اچھی سوچ کے ساتھ کی تھی یا وہ پہلے سے ہی غلط ارادہ لئے آیا تھا۔
سماج میں بندے کا کردار بہت زیادہ معنی رکھتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی سرگرمی سے دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹائیں، اگر ہم اپنا معاملہ ہی ٹھیک کرلیں تو اس سے دوسرے کے کئی مسئلے خراب ہونے سے بچ سکتے ہیں، اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے اور بروقت انجام دینے کا مطلب ہے اپنے حصے کا نہ صرف فرض ادا کردیا بلکہ اس کام کی تکمیل بھی کرادی، بالکل اس کے الٹ دیکھیں اگر ایسا نہ کرنے کی صورت میں سب کچھ ادھورا رہ جاتا یا اچھے انداز سے تکمیل کے مراحل میں نہ جاتا، اس کا بوجھ بھی کندھے پر آجانا تھا۔
بڑی سادہ اور حکمت ک باتیں انسان ہمیشہ سن بھی لیتا ہے اور اکثر خود سے عہد بھی کرلیتا ہے کہ ایسے ہی زندگی گزارنے کی کوشش کروں گا، لیکن اس کے ذھن میں پیدا ہونے والے وسوسے کئی بار اس کے قدم روک دیتے ہیں، اگر میں نے ایسا کردیا تو فلاں نقصان ہوجائے گا، دھوپ میں نکلا تو گرمی لگے گی، اندھیرے میں چلنے سے کہیں گر نہ جاوں، کسی کی مدد کرنے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا، بہت معمولی، سطحی اور غیر اہم باتیں اسے الجھائے رکھتی ہیں، جن کے باعث وہ اپنی توجہ اصل مسئلے سے ہٹا دیتا ہے۔
اماں کا کہنا تھا کہ انسان اپنی سوچ درست رکھے تو زیادہ پریشانی نہیں ہوتی، اپنے ذھن میں خواہشات کے انبار لگائے نہ رکھے تو آسانی رہتی ہے۔ کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسکا حل موجود نہ ہو، بندہ صرف گھبرا جاتا ہے، رب پر بھروسا چھوڑ کر کسی اور طرف نگاہیں دڑاتا ہے، وہاں اس کا دشمن گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ بندے کا اس سے جان چھڑانا کوئی مشکل نہیں، اپنی توجہ نیک نیتی سے اپنے کام پر رکھے اور اسے بددیانتی کئے بغیر مکمل کرے۔ کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اور ایسے بندے ہی راست باز قرار دیئے گئے ہیں، ہابیل کی سوچ اپنانے والوں کو کسی بار گناہ کو اٹھانے اور جرم چھپانے تک کی نوبت نہیں آئے گی۔