Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ایک چھوٹی سی بچی جس کو بچپن میں بغیر آستینوں کے کپڑے پہنائے جائیں کہ ابھی تو بچی ہے !
چھوٹی سی عمر میں اس کو سکھائی جائے فلائنگ کس کہ ابھی تو بچی ہے !
اسے کہا جائے زبردستی نامحرموں کے ہاتھ چومے کہ ابھی تو بچی ہے !
دوپٹہ اوڑھنے کی ضد پر ڈانٹا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
چھوٹی سی عمر میں ڈراموں اور فلموں کے سین کروائے جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
گھر والوں کی نقل کروائی جائے کہ ابھی تو بچی ہے!
پھر اس طرح پالا جائے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی کا چھلا کہ ابھی تو بچی ہے !
اس کی تمام تر تعریفیں اس کے حسن کی ،کی جائیں کہ ابھی تو بچی ہے !
اس کی زبان درازی پر ہنسا جائے کہ ابھی تو بچی ہے!
عبایا پہنے کی عمر پہ روکا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
عمر حجاب کی ہو تو روکا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
ارے یہ بھی تو دیکھو کہ لڑکی ہے !!
اب جب وہ اس ماحول سے نکال کر اس ماحول میں پہنچتی ہے جہاں نا حیاء ہوتی ہے ، نا شرم ہوتی ہے تو اس کو حیرانی نہیں ہوتی ، نا ہی عجیب لگتا ہے۔ کیونکہ وہ بےحیاء اور باحیاء کے فرق سے انجان ہوتی ہے !
عمر کے اس حصے میں آجاتی ہے کہ حیاء کا تقاضا مردوں کی نگاہوں میں چاہتی ہے !
اب وہ اسی ماحول میں رہنا چاہتی ہے جو اس کو بچپن میں دیا گیا !
بچپن میں اس کو پڑھایا گیا، سکھایا گیا، بتایا گیا کہ وہ حسن کی ملکہ ہے ! اس دین اسلام کی شہزادی نہیں، جس دین اسلام نے اس کو سایہ نور کی چادر سے چھپاکر امت مسلمہ کی پہچان بنایا ہے !
اس کو علم ہے تو محض اس بات کا کہ وہ اس زمین میں ناز نکھرے اٹھوانے آئی ہے !
اب اس کی تربیت اسکے ذہن میں یہ سوچ اجاگر کرتی ہے کہ خوبصورتی ہی سب کچھ ہے ،اگر خوبصورتی نہیں تو کچھ نہیں !
اور پھر عمر کے اس حصے میں اسکو ٹوکا جاتا ہے کہ سیدھی بیٹھو ، سیدھی کھڑی ہو ، صحیح سے چلو ، دوپٹہ سر پہ لو، عبایا پہنے کی عادت ڈالو !!
تو کیا اب !!
ان جملوں کو وہ نصحیت سمجھ کر ، اپنی زندگی میں اپنائے گی ؟؟ یا ان جملوں کو اپنی ذات کا عکس بنا پائے گی ؟
نصیحتوں والی عمر میں تو اس کو بتایا گیا کہ مرد کا عورت کو دیکھنا ، اسکی تعریفیں کرنا ، اس کے آگے پیچھے گھومنا ، اس کے اگے سر جھکانا ، اس کا حکم بجا لانا ہے !
اس کو بتایا گیا کہ مرد کی دوسری شادی ، اس کے لیے موت کے مترادف ہے ! تو اب کیا وہ دوسری عورت برداشت کر پائے گی؟
کہا جائے گا کہ لڑکی ہے اس لیے حساس ہے !
*جب پیدا ہوئی تھی تو حساس نہیں تھی ، اسے حساس بنایا گیا !
*جب پیدا ہوئی تھی تو بےحیاء نہیں تھی ،اسے فرق نہیں سمجھایا گیا !
*جب پیدا ہوئی تھی تو اسے( امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) کی مثالیں نہیں دی گئیں ! حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کا عکس اپنانے کی تلقین نہیں کی گئی !
• بیٹی کو ایک ہیرے کی مانند چھپا کر رکھیں!
• دین اسلام کی شہزادی کے طور پر تربیت کریں
• اس کا دل بڑا کریں!
• اسے حیا کا سبق سکھائیں!
• ام المؤمنین کی زندگیوں کو اپنی عملی زندگی کا عکس بنانے کو کہیں!
*اسے بتائیں کہ وہ اسلام کی شہزادی ہے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے آئی ہے
بحیثیت عورت اپنی ذات کا تماشہ بنانے نہیں!
ایک چھوٹی سی بچی جس کو بچپن میں بغیر آستینوں کے کپڑے پہنائے جائیں کہ ابھی تو بچی ہے !
چھوٹی سی عمر میں اس کو سکھائی جائے فلائنگ کس کہ ابھی تو بچی ہے !
اسے کہا جائے زبردستی نامحرموں کے ہاتھ چومے کہ ابھی تو بچی ہے !
دوپٹہ اوڑھنے کی ضد پر ڈانٹا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
چھوٹی سی عمر میں ڈراموں اور فلموں کے سین کروائے جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
گھر والوں کی نقل کروائی جائے کہ ابھی تو بچی ہے!
پھر اس طرح پالا جائے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی کا چھلا کہ ابھی تو بچی ہے !
اس کی تمام تر تعریفیں اس کے حسن کی ،کی جائیں کہ ابھی تو بچی ہے !
اس کی زبان درازی پر ہنسا جائے کہ ابھی تو بچی ہے!
عبایا پہنے کی عمر پہ روکا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
عمر حجاب کی ہو تو روکا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
ارے یہ بھی تو دیکھو کہ لڑکی ہے !!
اب جب وہ اس ماحول سے نکال کر اس ماحول میں پہنچتی ہے جہاں نا حیاء ہوتی ہے ، نا شرم ہوتی ہے تو اس کو حیرانی نہیں ہوتی ، نا ہی عجیب لگتا ہے۔ کیونکہ وہ بےحیاء اور باحیاء کے فرق سے انجان ہوتی ہے !
عمر کے اس حصے میں آجاتی ہے کہ حیاء کا تقاضا مردوں کی نگاہوں میں چاہتی ہے !
اب وہ اسی ماحول میں رہنا چاہتی ہے جو اس کو بچپن میں دیا گیا !
بچپن میں اس کو پڑھایا گیا، سکھایا گیا، بتایا گیا کہ وہ حسن کی ملکہ ہے ! اس دین اسلام کی شہزادی نہیں، جس دین اسلام نے اس کو سایہ نور کی چادر سے چھپاکر امت مسلمہ کی پہچان بنایا ہے !
اس کو علم ہے تو محض اس بات کا کہ وہ اس زمین میں ناز نکھرے اٹھوانے آئی ہے !
اب اس کی تربیت اسکے ذہن میں یہ سوچ اجاگر کرتی ہے کہ خوبصورتی ہی سب کچھ ہے ،اگر خوبصورتی نہیں تو کچھ نہیں !
اور پھر عمر کے اس حصے میں اسکو ٹوکا جاتا ہے کہ سیدھی بیٹھو ، سیدھی کھڑی ہو ، صحیح سے چلو ، دوپٹہ سر پہ لو، عبایا پہنے کی عادت ڈالو !!
تو کیا اب !!
ان جملوں کو وہ نصحیت سمجھ کر ، اپنی زندگی میں اپنائے گی ؟؟ یا ان جملوں کو اپنی ذات کا عکس بنا پائے گی ؟
نصیحتوں والی عمر میں تو اس کو بتایا گیا کہ مرد کا عورت کو دیکھنا ، اسکی تعریفیں کرنا ، اس کے آگے پیچھے گھومنا ، اس کے اگے سر جھکانا ، اس کا حکم بجا لانا ہے !
اس کو بتایا گیا کہ مرد کی دوسری شادی ، اس کے لیے موت کے مترادف ہے ! تو اب کیا وہ دوسری عورت برداشت کر پائے گی؟
کہا جائے گا کہ لڑکی ہے اس لیے حساس ہے !
*جب پیدا ہوئی تھی تو حساس نہیں تھی ، اسے حساس بنایا گیا !
*جب پیدا ہوئی تھی تو بےحیاء نہیں تھی ،اسے فرق نہیں سمجھایا گیا !
*جب پیدا ہوئی تھی تو اسے( امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) کی مثالیں نہیں دی گئیں ! حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کا عکس اپنانے کی تلقین نہیں کی گئی !
• بیٹی کو ایک ہیرے کی مانند چھپا کر رکھیں!
• دین اسلام کی شہزادی کے طور پر تربیت کریں
• اس کا دل بڑا کریں!
• اسے حیا کا سبق سکھائیں!
• ام المؤمنین کی زندگیوں کو اپنی عملی زندگی کا عکس بنانے کو کہیں!
*اسے بتائیں کہ وہ اسلام کی شہزادی ہے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے آئی ہے
بحیثیت عورت اپنی ذات کا تماشہ بنانے نہیں!
ایک چھوٹی سی بچی جس کو بچپن میں بغیر آستینوں کے کپڑے پہنائے جائیں کہ ابھی تو بچی ہے !
چھوٹی سی عمر میں اس کو سکھائی جائے فلائنگ کس کہ ابھی تو بچی ہے !
اسے کہا جائے زبردستی نامحرموں کے ہاتھ چومے کہ ابھی تو بچی ہے !
دوپٹہ اوڑھنے کی ضد پر ڈانٹا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
چھوٹی سی عمر میں ڈراموں اور فلموں کے سین کروائے جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
گھر والوں کی نقل کروائی جائے کہ ابھی تو بچی ہے!
پھر اس طرح پالا جائے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی کا چھلا کہ ابھی تو بچی ہے !
اس کی تمام تر تعریفیں اس کے حسن کی ،کی جائیں کہ ابھی تو بچی ہے !
اس کی زبان درازی پر ہنسا جائے کہ ابھی تو بچی ہے!
عبایا پہنے کی عمر پہ روکا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
عمر حجاب کی ہو تو روکا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
ارے یہ بھی تو دیکھو کہ لڑکی ہے !!
اب جب وہ اس ماحول سے نکال کر اس ماحول میں پہنچتی ہے جہاں نا حیاء ہوتی ہے ، نا شرم ہوتی ہے تو اس کو حیرانی نہیں ہوتی ، نا ہی عجیب لگتا ہے۔ کیونکہ وہ بےحیاء اور باحیاء کے فرق سے انجان ہوتی ہے !
عمر کے اس حصے میں آجاتی ہے کہ حیاء کا تقاضا مردوں کی نگاہوں میں چاہتی ہے !
اب وہ اسی ماحول میں رہنا چاہتی ہے جو اس کو بچپن میں دیا گیا !
بچپن میں اس کو پڑھایا گیا، سکھایا گیا، بتایا گیا کہ وہ حسن کی ملکہ ہے ! اس دین اسلام کی شہزادی نہیں، جس دین اسلام نے اس کو سایہ نور کی چادر سے چھپاکر امت مسلمہ کی پہچان بنایا ہے !
اس کو علم ہے تو محض اس بات کا کہ وہ اس زمین میں ناز نکھرے اٹھوانے آئی ہے !
اب اس کی تربیت اسکے ذہن میں یہ سوچ اجاگر کرتی ہے کہ خوبصورتی ہی سب کچھ ہے ،اگر خوبصورتی نہیں تو کچھ نہیں !
اور پھر عمر کے اس حصے میں اسکو ٹوکا جاتا ہے کہ سیدھی بیٹھو ، سیدھی کھڑی ہو ، صحیح سے چلو ، دوپٹہ سر پہ لو، عبایا پہنے کی عادت ڈالو !!
تو کیا اب !!
ان جملوں کو وہ نصحیت سمجھ کر ، اپنی زندگی میں اپنائے گی ؟؟ یا ان جملوں کو اپنی ذات کا عکس بنا پائے گی ؟
نصیحتوں والی عمر میں تو اس کو بتایا گیا کہ مرد کا عورت کو دیکھنا ، اسکی تعریفیں کرنا ، اس کے آگے پیچھے گھومنا ، اس کے اگے سر جھکانا ، اس کا حکم بجا لانا ہے !
اس کو بتایا گیا کہ مرد کی دوسری شادی ، اس کے لیے موت کے مترادف ہے ! تو اب کیا وہ دوسری عورت برداشت کر پائے گی؟
کہا جائے گا کہ لڑکی ہے اس لیے حساس ہے !
*جب پیدا ہوئی تھی تو حساس نہیں تھی ، اسے حساس بنایا گیا !
*جب پیدا ہوئی تھی تو بےحیاء نہیں تھی ،اسے فرق نہیں سمجھایا گیا !
*جب پیدا ہوئی تھی تو اسے( امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) کی مثالیں نہیں دی گئیں ! حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کا عکس اپنانے کی تلقین نہیں کی گئی !
• بیٹی کو ایک ہیرے کی مانند چھپا کر رکھیں!
• دین اسلام کی شہزادی کے طور پر تربیت کریں
• اس کا دل بڑا کریں!
• اسے حیا کا سبق سکھائیں!
• ام المؤمنین کی زندگیوں کو اپنی عملی زندگی کا عکس بنانے کو کہیں!
*اسے بتائیں کہ وہ اسلام کی شہزادی ہے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے آئی ہے
بحیثیت عورت اپنی ذات کا تماشہ بنانے نہیں!
ایک چھوٹی سی بچی جس کو بچپن میں بغیر آستینوں کے کپڑے پہنائے جائیں کہ ابھی تو بچی ہے !
چھوٹی سی عمر میں اس کو سکھائی جائے فلائنگ کس کہ ابھی تو بچی ہے !
اسے کہا جائے زبردستی نامحرموں کے ہاتھ چومے کہ ابھی تو بچی ہے !
دوپٹہ اوڑھنے کی ضد پر ڈانٹا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
چھوٹی سی عمر میں ڈراموں اور فلموں کے سین کروائے جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
گھر والوں کی نقل کروائی جائے کہ ابھی تو بچی ہے!
پھر اس طرح پالا جائے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی کا چھلا کہ ابھی تو بچی ہے !
اس کی تمام تر تعریفیں اس کے حسن کی ،کی جائیں کہ ابھی تو بچی ہے !
اس کی زبان درازی پر ہنسا جائے کہ ابھی تو بچی ہے!
عبایا پہنے کی عمر پہ روکا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
عمر حجاب کی ہو تو روکا جائے کہ ابھی تو بچی ہے !
ارے یہ بھی تو دیکھو کہ لڑکی ہے !!
اب جب وہ اس ماحول سے نکال کر اس ماحول میں پہنچتی ہے جہاں نا حیاء ہوتی ہے ، نا شرم ہوتی ہے تو اس کو حیرانی نہیں ہوتی ، نا ہی عجیب لگتا ہے۔ کیونکہ وہ بےحیاء اور باحیاء کے فرق سے انجان ہوتی ہے !
عمر کے اس حصے میں آجاتی ہے کہ حیاء کا تقاضا مردوں کی نگاہوں میں چاہتی ہے !
اب وہ اسی ماحول میں رہنا چاہتی ہے جو اس کو بچپن میں دیا گیا !
بچپن میں اس کو پڑھایا گیا، سکھایا گیا، بتایا گیا کہ وہ حسن کی ملکہ ہے ! اس دین اسلام کی شہزادی نہیں، جس دین اسلام نے اس کو سایہ نور کی چادر سے چھپاکر امت مسلمہ کی پہچان بنایا ہے !
اس کو علم ہے تو محض اس بات کا کہ وہ اس زمین میں ناز نکھرے اٹھوانے آئی ہے !
اب اس کی تربیت اسکے ذہن میں یہ سوچ اجاگر کرتی ہے کہ خوبصورتی ہی سب کچھ ہے ،اگر خوبصورتی نہیں تو کچھ نہیں !
اور پھر عمر کے اس حصے میں اسکو ٹوکا جاتا ہے کہ سیدھی بیٹھو ، سیدھی کھڑی ہو ، صحیح سے چلو ، دوپٹہ سر پہ لو، عبایا پہنے کی عادت ڈالو !!
تو کیا اب !!
ان جملوں کو وہ نصحیت سمجھ کر ، اپنی زندگی میں اپنائے گی ؟؟ یا ان جملوں کو اپنی ذات کا عکس بنا پائے گی ؟
نصیحتوں والی عمر میں تو اس کو بتایا گیا کہ مرد کا عورت کو دیکھنا ، اسکی تعریفیں کرنا ، اس کے آگے پیچھے گھومنا ، اس کے اگے سر جھکانا ، اس کا حکم بجا لانا ہے !
اس کو بتایا گیا کہ مرد کی دوسری شادی ، اس کے لیے موت کے مترادف ہے ! تو اب کیا وہ دوسری عورت برداشت کر پائے گی؟
کہا جائے گا کہ لڑکی ہے اس لیے حساس ہے !
*جب پیدا ہوئی تھی تو حساس نہیں تھی ، اسے حساس بنایا گیا !
*جب پیدا ہوئی تھی تو بےحیاء نہیں تھی ،اسے فرق نہیں سمجھایا گیا !
*جب پیدا ہوئی تھی تو اسے( امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) کی مثالیں نہیں دی گئیں ! حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کا عکس اپنانے کی تلقین نہیں کی گئی !
• بیٹی کو ایک ہیرے کی مانند چھپا کر رکھیں!
• دین اسلام کی شہزادی کے طور پر تربیت کریں
• اس کا دل بڑا کریں!
• اسے حیا کا سبق سکھائیں!
• ام المؤمنین کی زندگیوں کو اپنی عملی زندگی کا عکس بنانے کو کہیں!
*اسے بتائیں کہ وہ اسلام کی شہزادی ہے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے آئی ہے
بحیثیت عورت اپنی ذات کا تماشہ بنانے نہیں!