ہم اپنے عزیز رشتہ داروں اور دوستوں سے تعلق کو پکا کرنے کے لیے اُن سے ملتے جلتے ہیں اُن کا تذکرہ اکثر اچھے الفاظ میں کرتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ اُن کی محبت میں بعض اوقات کسی اور کا ذکر آجائے تو بُرا منا جاتے ہیں۔ اس سب کے باعث ہمارا تعلق بہت مضبوط ہو جاتا ہے۔
آپ کے ساتھ تعلق بناتے وقت ہم اس نظریئے اور سوچ کو بھول جاتے ہیں سب سے پہلے یاد رکھنے کی ترجیحات ہیں، مشکل پڑے تو رجوع کرلیا ورنہ بھولے رہے۔ کچھ تو بدقسمت پریشانی اور تکلیف میں بھی بھولے ہی رہتے ہیں۔ ایسے میں تعلق نے کیا مضبوط ہونا ہے۔ ہمیں اپنے جیسے عاجز اور بے بس ، بے کس بندے یاد آتے ہیں، اُن پر بھروسا کرنے لگتے ہیں۔ کہ وہ کسی طرح سے اس مصیبت سے ہمیں نکالیں گے۔ یہیں سے ہمارا تعلق آپ کے ساتھ کمزور پڑجاتا ہے۔
آپ کو میری باتوں سے سو فیصد اتفاق ہوگا کیونکہ یہ سب آپ کے سامنے ہورہا ہے اور کوئی ایک حرکت، سوچ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
آپ نے فرمایا کہ ہمارا کھلا دشمن اور حریف ہمیں تنگ دستی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کی راہ سجھاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ نے اپنے فضل کا ہم سے وعدہ کیا۔ اور یہ بھی وعدہ کیا آپ جس کو چاہتے ہیں حکمت بخشتے ہیں۔ اور پھر جسے حکمت ملتی ہے اسے خیر کا خزانہ مل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ آپ نے واضح کردیا کہ یہ سب یاد رکھنے والا وہی ہے جو عقل والا ہے۔
آپ کی نصیحت ہے کہ اپنے پاکیزہ مال میں سے دوسروں پر خرچ کرو۔ اور جس مال کو خرچ کرنے کا سوچ لیا ہے۔ اس میں سے اپنے لئے استعمال کرنے کا خیال تک نہ ذہن میں لاؤ۔ اس نصیحت کا مقصد بالکل واضح ہے کہ جس کے پاس کچھ نہیں یا کم ہے، وہ بھی بھوکا نہ سوئے۔
بقائے باہمی کا یہی اصول انسان کو دوسرے انسان کے نہ صرف قریب لاتا ہے بلکہ اس کے دکھ، درد اور تکلیف کو سمجھنے میں مدد بھی دیتا ہے۔
آپ نے اس عمل کو ظاہر کرکے اور چھپا کر دونوں طریقوں سے دینے کی تاکید کی ۔ آپ نے کہا کہ اگر تم چپکے سے غریبوں کو دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہوگا۔
انسان دنیا میں اچھے بُرے راستوں پر چلنے اور نہ چلنے کے بارے میں ساری زندگی الجھن کا شکار رہتا ہے، اس کو یہ ہدایت بھی بڑی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔ درحقیقت آپ نے اس بات کو بڑا واضح بتادیا کہ ہدایت دینا کسی فرد کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ بھی آپ جسے چاہتے ہیں ہدایت دے دیتے ہیں۔
آپ نے ہمیں یہ بات صاف بتادی کہ آپ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے میں ہی ہماری بھلائی ہے اور یہ رسی وہ ہدایت ہے جس کو کلام کی صورت ہم تک پہنچایا گیاہے۔
آپ نے ہمیں اپنے اس فضل سے بھی آگاہ کیا کہ جب ہم لوگ ایک دوسرے کے دشمن تھے تو آپ نے ہمارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا اور آپ ہی کے فضل سے ہم سب بھائی بھائی بن گئے۔
آپ کی بتائی باتوں کو اچھی طرح سے سمجھنے اور ان پر کاربند رہنے والے ہی درحقیقت کامیاب ہیں۔ ان میں سے اچھے کاموں کی طرف راغب کرنے والے اور بُرے کاموں سے روکنے والے ہی اصل نیکوکار ہیں۔ یہی معاشرے میں فلاح اور بھلائی کے موجب بنتے ہیں۔
آپ نے تنگ دستی اور کھلے ہاتھ دونوں حالتوں میں دوسروں پر خرچ کرنے والوں ، غصے کو ضبط کرنے والوں اور لوگوں کی غلطیوں پر ان کو درگزر معاف کرنے والوں اور بھلائی کے کام کرنے والوں کو اپنا دوست بتایا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ ایسے لوگ بہت کم ہیں لیکن وہ جب کوئی عمل کرتے ہیں تو سب پر اپنا ایک اثر چھوڑ جاتے ہیں یعنی وہ دوسروں کو اس بات پر مائل کرتے ہیں کہ انہیں بھی اچھے اور بھلائی کے کاموں میں حصہ لینا چاہیے۔
آپ نے کیا خوب نصیحت کی ہے کہ کسی بھی حال میں ہمت نہیں ٹوٹنے دینی اور غم نہیں کرنا، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر خود کو دوسروں سے بہتر مقام پر فائز پائیں گے۔
آپ نے کہا کہ اگر تمہیں کوئی چوٹ پہنچے تو اس سے پست ہمت نہ ہو، آخر دشمن کو بھی اسی طرح کی چوٹ پہنچی ہے۔ یہ ایام ہم لوگوں کے اندر اسی طرح الٹ پھیر کرتے ہیں۔ آپ نے شکر گزاروں کے لیے حوصلے کی نوید بھی سنائی ہے۔