Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ھم کامرس کالج ایف 8 اسلام آباد کے طالب علم تھے۔ سب ھی دوست تھے، بھلا وقت تھا۔ اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز ایف 8 امتحانی مرکز تھا۔ درمیانے درجے کے طالبعلم تھے۔ کلاسیں ساری باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ ساتھ ساتھ باسکٹ بال، سکاؤٹنگ، سیاست، این سی سی بھی چلتی تھی، آوارہ گرد پیدائشی تھے، تو بات ھورھی تھی امتحانی مرکز کی مضمون پرنسپل آف کامرس کا پرچہ تھا، ندیم قریشی میرا کلاس فیلو تھا بہت اچھا دوست بھی کہنے لگا، پیا جی مکمل حل شدہ پرچہ موجود ھے، پیش کروں، ایک لمحے کو دل بھی کیا اور پھر ایک جملہ منہ سے ادا ھوگیا، نہیں یار میں نے آگے پڑھنا ھے تو نقل روز روز نہیں ھوتی، مشکل ھوجائے گی، اس لئے رھنے دو، پیا جی جیسے آپکی مرضی، رزلٹ آیا تو ندیم کے میرے سے تین نمبر زیادہ تھے اور وہ قہقہے لگا رھا تھا، یہ ھیں پڑھاکو بچے، نمبر دیکھو ۔ مجھے کوئی شرم نہیں محسوس ھوئی میرے کم نمبر بھی زیادہ تھے کیونکہ میری اپنی محنت کے تھے۔
بی کام پارٹ ون میں میں لاھور نیشنل کالج آف آرٹس چلاگیا اور ندیم بی کام نہ کرسکا بعد میں بی اے کرکے وکیل بن گیا،
نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کرکے جب پاکستان ٹیلیویژن میں آئے تو کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ ایم بی اے کرلیا جائے اور ھم دوستوں نے ایک یونیورسٹی جوائن کرلی۔ یونیورسٹی مالکان سے دوستی ھوگئی، جو کہنے لگے ھم میڈیا ڈیپارٹمنٹ کھولنا چاھتے ھیں۔ اور ھماری خواھش ھے کہ آپ ھمیں جوائن کرلیں ، جی کوشش کروں گا، ھماری کوشش ھوگی کہ آپ کو ایم بی اے میں گولڈ میڈل ملے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ میں تو ھمیشہ سے درمیانے درجے کا طالبعلم اور شہری ھوں، جب پہلے مڈٹرم امتحان آئے تو مجھے ایک لفافہ ملا۔ میں نے پوچھا جی یہ کیا ھے، یہ پرچوں کی فوٹو سٹیٹ ھے، آپ انکو دیکھ کر تیاری کرلیں ان شاءاللہ آپ ھی پہلی پوزیشن لیں گے، لفافہ کھولے بغیر ھی واپس کیا، معذرت چاھتا ھوں، اسطرح میں بچوں کو پڑھا نہیں سکوں گا، اور میرا بطور استاد کیرئیر ختم ھوجائے گا، آپ فیس بھی واپس نہ کریں اور مجھے اجازت دے دیں، بہت شکریہ۔ کچھ عرصے بعد وہ کیمپس بند ھوگیا اور الزام مجھ پر تھا کہ آپ ساتھ چلتے تو ھم بہترین ادارہ ھوتے پر آپ بیچ میں ھی چھوڑ کر چلے گئے، ایسے اداروں کا بند ھونا ھی بہتر ھے۔
میں جتنے بھی جعلی ڈگری والوں سے ملا ھوں یا ان کو دیکھا ھے، ان کی کچھ صفات ملتی جلتی ھوتی ھیں، ڈھیٹ ھونا، بے شرم ھونا، اصول پسند ھونے کا ڈرامہ کرنا، اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا اور کبھی نہ ماننا کہ انکی ڈگری جعلی ھے، دیندار ھونے کی کوشش کرنا،
ھمارے ادارے کے کافی ساتھی جعلی ڈگریوں پر آتے جاتے رھتے ھیں، کچھ عدالتوں سے بحال ھوگئے، کچھ نے انکوائری آفیسر بدلوا لئے، اور کچھ نوکریوں سے فارغ ھوگئے، کچھ ابھی پس پردہ ھیں۔ خوش آئند بات یہ ھے کہ سب نے معاملہ اللہ کے حوالے کردیا ھے اور کہتے ھیں کہ وہ بہتر انصاف کرنے والے ھیں، اس میں ھمارا کیا قصور۔
ھر الیکشن میں بہت سے جعلی ڈگری ھولڈرز آتے ھیں، اور پھر معاملہ اللہ پر چھوڑ کر بھاگ جاتے ھیں۔
اللہ خیر تو ھمیشہ سے ھی سنا تھا پھر اسی سے متاثر ھوکر ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی اور جس جس کے پاس اڑھائی لاکھ روپے تھے وہ بی سی ایس اور ایم سی ایس کی ڈگری کا مالک بن گیا، اور کئی تو ایم بی اے بھی کر گئے، ادارے کے اندر ھی ایسے نیک لوگ موجود ھیں جو بہت ایمانداری سے یہ جعلی ڈگری کا کام سرانجام دیتے ھیں، کچھ میڑک تھے اور بی سی ایس کی بنیاد پر نوکری حاصل کرلی نوکری کے ساتھ ساتھ اللہ خیر کا ورد کرتے کرتے بی سی ایس اور ایم سی ایس بھی کرلیا، کچھ دوستوں کا کہنا ھے کہ انکے پاس پنجاب یونیورسٹی کو ادا کرنے کی اس وقت فیس نہیں تھی اس لئے ڈگری نہیں نکلوا سکے اس لیئے بعد میں دوسری یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرلی، کچھ احباب نوکری کے وقت کوئی اور یونیورسٹی کی ڈگری جمع کرواتے ھیں اور چند سالوں بعد وہ ڈگریاں ذاتی تعلقات پر بدلوا دیتے ھیں، اور اصل ڈگریاں انکی جگہ لے لیتی ھیں، یہ کھیل ھر ادارے میں کھیلا جارھا ھے، سنا ھے دو سو ارب لانے والے بھائی کی ڈگری بھی جعلی نکل آئی ھے بندہ مشورہ ھی کرلیتا ھے ھم اس کو صرف اڑھائی لاکھ میں اصل بنوادیتے، پچھلی تاریخوں میں داخلہ اور شرطیہ رزلٹ۔
جب بھی جعلی ڈگری کی انکوائری ھو بے شک کسی کی بھی ھو احتیاط کی جائے جج اسکی مرضی کا نہ ھو تو اچھا ھے، پر ھر جگہ ھر ادارے میں مرضی کے جج موجود ھیں بس انکی مرضی کی فیس ادا کرنے کی ضرورت ھے،
جب مسلم لیگ ن کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں، ایم کیو ایم کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں ، پیپلز پارٹی کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں تواگر پاکستان تحریک انصاف کے کچھ دوستوں کی نکل آئیں تو کونسی قیامت آگئی، بس معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں بے شک وہ بہتر فیصلہ کرنے والے ھیں۔
وزیراعلی بلوچستان نے کیا خوبصورت بات کہی تھی،”ڈگری تو ڈگری ھوتی ھے جعلی ھو یا اصلی”
میری امی جی کہانی سنایا کرتیں تھیں کہ پرانے وقتوں میں ایک گھڑ سوار بازار میں جارھا تھا تو ایک شخص آوازیں لگا رھا تھا، ڈگری لے لو ڈگری، ایم اے انگلش، ایم اے فارسی، ایم اے عربی، ایم اے فلسفہ۔ انتہائی مناسب قیمت، بڑی ڈگری عزت میں اضافہ۔ وہ گھڑ سوار رک گیا بھائی کیا قیمت ھے جی پانچ سو اشرفی فی ایم اے، اچھا یہ لو ایک ھزار اشرفی مجھے دو ڈگریاں ایم اے فارسی کی دے دو، اچھا نام کیا لکھنا ھے، ایک پر میرا نام لکھ دو اور ایک پر میرے گھوڑے کا نام لکھ دو، کیا مطلب گھوڑے کانام۔ میں چاھتا ھوں لوگ کہیں ایم اے فارسی پر ایم اے فارسی سوار ھے۔
آج کل سب ھی ایم اے ھیں اور کچھ کی تو جماعتیں بھی ایم ایم اے ھیں مطلب ڈبل ایم اے۔
ایسی تعلیم کا کیا کرنا جس کے امتحان کوئی اور دے رزلٹ کسی اور کا آئے، یا پھر آپ کو یونیورسٹی کا ایڈریس بھی معلوم نہ ھو اور چھ سال ریگولر پڑھنے کی بنیاد پر ڈگری بھی جاری ھوجائے،
سب دا بھلا سب دی الخیر۔
ھم کامرس کالج ایف 8 اسلام آباد کے طالب علم تھے۔ سب ھی دوست تھے، بھلا وقت تھا۔ اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز ایف 8 امتحانی مرکز تھا۔ درمیانے درجے کے طالبعلم تھے۔ کلاسیں ساری باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ ساتھ ساتھ باسکٹ بال، سکاؤٹنگ، سیاست، این سی سی بھی چلتی تھی، آوارہ گرد پیدائشی تھے، تو بات ھورھی تھی امتحانی مرکز کی مضمون پرنسپل آف کامرس کا پرچہ تھا، ندیم قریشی میرا کلاس فیلو تھا بہت اچھا دوست بھی کہنے لگا، پیا جی مکمل حل شدہ پرچہ موجود ھے، پیش کروں، ایک لمحے کو دل بھی کیا اور پھر ایک جملہ منہ سے ادا ھوگیا، نہیں یار میں نے آگے پڑھنا ھے تو نقل روز روز نہیں ھوتی، مشکل ھوجائے گی، اس لئے رھنے دو، پیا جی جیسے آپکی مرضی، رزلٹ آیا تو ندیم کے میرے سے تین نمبر زیادہ تھے اور وہ قہقہے لگا رھا تھا، یہ ھیں پڑھاکو بچے، نمبر دیکھو ۔ مجھے کوئی شرم نہیں محسوس ھوئی میرے کم نمبر بھی زیادہ تھے کیونکہ میری اپنی محنت کے تھے۔
بی کام پارٹ ون میں میں لاھور نیشنل کالج آف آرٹس چلاگیا اور ندیم بی کام نہ کرسکا بعد میں بی اے کرکے وکیل بن گیا،
نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کرکے جب پاکستان ٹیلیویژن میں آئے تو کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ ایم بی اے کرلیا جائے اور ھم دوستوں نے ایک یونیورسٹی جوائن کرلی۔ یونیورسٹی مالکان سے دوستی ھوگئی، جو کہنے لگے ھم میڈیا ڈیپارٹمنٹ کھولنا چاھتے ھیں۔ اور ھماری خواھش ھے کہ آپ ھمیں جوائن کرلیں ، جی کوشش کروں گا، ھماری کوشش ھوگی کہ آپ کو ایم بی اے میں گولڈ میڈل ملے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ میں تو ھمیشہ سے درمیانے درجے کا طالبعلم اور شہری ھوں، جب پہلے مڈٹرم امتحان آئے تو مجھے ایک لفافہ ملا۔ میں نے پوچھا جی یہ کیا ھے، یہ پرچوں کی فوٹو سٹیٹ ھے، آپ انکو دیکھ کر تیاری کرلیں ان شاءاللہ آپ ھی پہلی پوزیشن لیں گے، لفافہ کھولے بغیر ھی واپس کیا، معذرت چاھتا ھوں، اسطرح میں بچوں کو پڑھا نہیں سکوں گا، اور میرا بطور استاد کیرئیر ختم ھوجائے گا، آپ فیس بھی واپس نہ کریں اور مجھے اجازت دے دیں، بہت شکریہ۔ کچھ عرصے بعد وہ کیمپس بند ھوگیا اور الزام مجھ پر تھا کہ آپ ساتھ چلتے تو ھم بہترین ادارہ ھوتے پر آپ بیچ میں ھی چھوڑ کر چلے گئے، ایسے اداروں کا بند ھونا ھی بہتر ھے۔
میں جتنے بھی جعلی ڈگری والوں سے ملا ھوں یا ان کو دیکھا ھے، ان کی کچھ صفات ملتی جلتی ھوتی ھیں، ڈھیٹ ھونا، بے شرم ھونا، اصول پسند ھونے کا ڈرامہ کرنا، اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا اور کبھی نہ ماننا کہ انکی ڈگری جعلی ھے، دیندار ھونے کی کوشش کرنا،
ھمارے ادارے کے کافی ساتھی جعلی ڈگریوں پر آتے جاتے رھتے ھیں، کچھ عدالتوں سے بحال ھوگئے، کچھ نے انکوائری آفیسر بدلوا لئے، اور کچھ نوکریوں سے فارغ ھوگئے، کچھ ابھی پس پردہ ھیں۔ خوش آئند بات یہ ھے کہ سب نے معاملہ اللہ کے حوالے کردیا ھے اور کہتے ھیں کہ وہ بہتر انصاف کرنے والے ھیں، اس میں ھمارا کیا قصور۔
ھر الیکشن میں بہت سے جعلی ڈگری ھولڈرز آتے ھیں، اور پھر معاملہ اللہ پر چھوڑ کر بھاگ جاتے ھیں۔
اللہ خیر تو ھمیشہ سے ھی سنا تھا پھر اسی سے متاثر ھوکر ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی اور جس جس کے پاس اڑھائی لاکھ روپے تھے وہ بی سی ایس اور ایم سی ایس کی ڈگری کا مالک بن گیا، اور کئی تو ایم بی اے بھی کر گئے، ادارے کے اندر ھی ایسے نیک لوگ موجود ھیں جو بہت ایمانداری سے یہ جعلی ڈگری کا کام سرانجام دیتے ھیں، کچھ میڑک تھے اور بی سی ایس کی بنیاد پر نوکری حاصل کرلی نوکری کے ساتھ ساتھ اللہ خیر کا ورد کرتے کرتے بی سی ایس اور ایم سی ایس بھی کرلیا، کچھ دوستوں کا کہنا ھے کہ انکے پاس پنجاب یونیورسٹی کو ادا کرنے کی اس وقت فیس نہیں تھی اس لئے ڈگری نہیں نکلوا سکے اس لیئے بعد میں دوسری یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرلی، کچھ احباب نوکری کے وقت کوئی اور یونیورسٹی کی ڈگری جمع کرواتے ھیں اور چند سالوں بعد وہ ڈگریاں ذاتی تعلقات پر بدلوا دیتے ھیں، اور اصل ڈگریاں انکی جگہ لے لیتی ھیں، یہ کھیل ھر ادارے میں کھیلا جارھا ھے، سنا ھے دو سو ارب لانے والے بھائی کی ڈگری بھی جعلی نکل آئی ھے بندہ مشورہ ھی کرلیتا ھے ھم اس کو صرف اڑھائی لاکھ میں اصل بنوادیتے، پچھلی تاریخوں میں داخلہ اور شرطیہ رزلٹ۔
جب بھی جعلی ڈگری کی انکوائری ھو بے شک کسی کی بھی ھو احتیاط کی جائے جج اسکی مرضی کا نہ ھو تو اچھا ھے، پر ھر جگہ ھر ادارے میں مرضی کے جج موجود ھیں بس انکی مرضی کی فیس ادا کرنے کی ضرورت ھے،
جب مسلم لیگ ن کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں، ایم کیو ایم کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں ، پیپلز پارٹی کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں تواگر پاکستان تحریک انصاف کے کچھ دوستوں کی نکل آئیں تو کونسی قیامت آگئی، بس معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں بے شک وہ بہتر فیصلہ کرنے والے ھیں۔
وزیراعلی بلوچستان نے کیا خوبصورت بات کہی تھی،”ڈگری تو ڈگری ھوتی ھے جعلی ھو یا اصلی”
میری امی جی کہانی سنایا کرتیں تھیں کہ پرانے وقتوں میں ایک گھڑ سوار بازار میں جارھا تھا تو ایک شخص آوازیں لگا رھا تھا، ڈگری لے لو ڈگری، ایم اے انگلش، ایم اے فارسی، ایم اے عربی، ایم اے فلسفہ۔ انتہائی مناسب قیمت، بڑی ڈگری عزت میں اضافہ۔ وہ گھڑ سوار رک گیا بھائی کیا قیمت ھے جی پانچ سو اشرفی فی ایم اے، اچھا یہ لو ایک ھزار اشرفی مجھے دو ڈگریاں ایم اے فارسی کی دے دو، اچھا نام کیا لکھنا ھے، ایک پر میرا نام لکھ دو اور ایک پر میرے گھوڑے کا نام لکھ دو، کیا مطلب گھوڑے کانام۔ میں چاھتا ھوں لوگ کہیں ایم اے فارسی پر ایم اے فارسی سوار ھے۔
آج کل سب ھی ایم اے ھیں اور کچھ کی تو جماعتیں بھی ایم ایم اے ھیں مطلب ڈبل ایم اے۔
ایسی تعلیم کا کیا کرنا جس کے امتحان کوئی اور دے رزلٹ کسی اور کا آئے، یا پھر آپ کو یونیورسٹی کا ایڈریس بھی معلوم نہ ھو اور چھ سال ریگولر پڑھنے کی بنیاد پر ڈگری بھی جاری ھوجائے،
سب دا بھلا سب دی الخیر۔
ھم کامرس کالج ایف 8 اسلام آباد کے طالب علم تھے۔ سب ھی دوست تھے، بھلا وقت تھا۔ اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز ایف 8 امتحانی مرکز تھا۔ درمیانے درجے کے طالبعلم تھے۔ کلاسیں ساری باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ ساتھ ساتھ باسکٹ بال، سکاؤٹنگ، سیاست، این سی سی بھی چلتی تھی، آوارہ گرد پیدائشی تھے، تو بات ھورھی تھی امتحانی مرکز کی مضمون پرنسپل آف کامرس کا پرچہ تھا، ندیم قریشی میرا کلاس فیلو تھا بہت اچھا دوست بھی کہنے لگا، پیا جی مکمل حل شدہ پرچہ موجود ھے، پیش کروں، ایک لمحے کو دل بھی کیا اور پھر ایک جملہ منہ سے ادا ھوگیا، نہیں یار میں نے آگے پڑھنا ھے تو نقل روز روز نہیں ھوتی، مشکل ھوجائے گی، اس لئے رھنے دو، پیا جی جیسے آپکی مرضی، رزلٹ آیا تو ندیم کے میرے سے تین نمبر زیادہ تھے اور وہ قہقہے لگا رھا تھا، یہ ھیں پڑھاکو بچے، نمبر دیکھو ۔ مجھے کوئی شرم نہیں محسوس ھوئی میرے کم نمبر بھی زیادہ تھے کیونکہ میری اپنی محنت کے تھے۔
بی کام پارٹ ون میں میں لاھور نیشنل کالج آف آرٹس چلاگیا اور ندیم بی کام نہ کرسکا بعد میں بی اے کرکے وکیل بن گیا،
نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کرکے جب پاکستان ٹیلیویژن میں آئے تو کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ ایم بی اے کرلیا جائے اور ھم دوستوں نے ایک یونیورسٹی جوائن کرلی۔ یونیورسٹی مالکان سے دوستی ھوگئی، جو کہنے لگے ھم میڈیا ڈیپارٹمنٹ کھولنا چاھتے ھیں۔ اور ھماری خواھش ھے کہ آپ ھمیں جوائن کرلیں ، جی کوشش کروں گا، ھماری کوشش ھوگی کہ آپ کو ایم بی اے میں گولڈ میڈل ملے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ میں تو ھمیشہ سے درمیانے درجے کا طالبعلم اور شہری ھوں، جب پہلے مڈٹرم امتحان آئے تو مجھے ایک لفافہ ملا۔ میں نے پوچھا جی یہ کیا ھے، یہ پرچوں کی فوٹو سٹیٹ ھے، آپ انکو دیکھ کر تیاری کرلیں ان شاءاللہ آپ ھی پہلی پوزیشن لیں گے، لفافہ کھولے بغیر ھی واپس کیا، معذرت چاھتا ھوں، اسطرح میں بچوں کو پڑھا نہیں سکوں گا، اور میرا بطور استاد کیرئیر ختم ھوجائے گا، آپ فیس بھی واپس نہ کریں اور مجھے اجازت دے دیں، بہت شکریہ۔ کچھ عرصے بعد وہ کیمپس بند ھوگیا اور الزام مجھ پر تھا کہ آپ ساتھ چلتے تو ھم بہترین ادارہ ھوتے پر آپ بیچ میں ھی چھوڑ کر چلے گئے، ایسے اداروں کا بند ھونا ھی بہتر ھے۔
میں جتنے بھی جعلی ڈگری والوں سے ملا ھوں یا ان کو دیکھا ھے، ان کی کچھ صفات ملتی جلتی ھوتی ھیں، ڈھیٹ ھونا، بے شرم ھونا، اصول پسند ھونے کا ڈرامہ کرنا، اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا اور کبھی نہ ماننا کہ انکی ڈگری جعلی ھے، دیندار ھونے کی کوشش کرنا،
ھمارے ادارے کے کافی ساتھی جعلی ڈگریوں پر آتے جاتے رھتے ھیں، کچھ عدالتوں سے بحال ھوگئے، کچھ نے انکوائری آفیسر بدلوا لئے، اور کچھ نوکریوں سے فارغ ھوگئے، کچھ ابھی پس پردہ ھیں۔ خوش آئند بات یہ ھے کہ سب نے معاملہ اللہ کے حوالے کردیا ھے اور کہتے ھیں کہ وہ بہتر انصاف کرنے والے ھیں، اس میں ھمارا کیا قصور۔
ھر الیکشن میں بہت سے جعلی ڈگری ھولڈرز آتے ھیں، اور پھر معاملہ اللہ پر چھوڑ کر بھاگ جاتے ھیں۔
اللہ خیر تو ھمیشہ سے ھی سنا تھا پھر اسی سے متاثر ھوکر ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی اور جس جس کے پاس اڑھائی لاکھ روپے تھے وہ بی سی ایس اور ایم سی ایس کی ڈگری کا مالک بن گیا، اور کئی تو ایم بی اے بھی کر گئے، ادارے کے اندر ھی ایسے نیک لوگ موجود ھیں جو بہت ایمانداری سے یہ جعلی ڈگری کا کام سرانجام دیتے ھیں، کچھ میڑک تھے اور بی سی ایس کی بنیاد پر نوکری حاصل کرلی نوکری کے ساتھ ساتھ اللہ خیر کا ورد کرتے کرتے بی سی ایس اور ایم سی ایس بھی کرلیا، کچھ دوستوں کا کہنا ھے کہ انکے پاس پنجاب یونیورسٹی کو ادا کرنے کی اس وقت فیس نہیں تھی اس لئے ڈگری نہیں نکلوا سکے اس لیئے بعد میں دوسری یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرلی، کچھ احباب نوکری کے وقت کوئی اور یونیورسٹی کی ڈگری جمع کرواتے ھیں اور چند سالوں بعد وہ ڈگریاں ذاتی تعلقات پر بدلوا دیتے ھیں، اور اصل ڈگریاں انکی جگہ لے لیتی ھیں، یہ کھیل ھر ادارے میں کھیلا جارھا ھے، سنا ھے دو سو ارب لانے والے بھائی کی ڈگری بھی جعلی نکل آئی ھے بندہ مشورہ ھی کرلیتا ھے ھم اس کو صرف اڑھائی لاکھ میں اصل بنوادیتے، پچھلی تاریخوں میں داخلہ اور شرطیہ رزلٹ۔
جب بھی جعلی ڈگری کی انکوائری ھو بے شک کسی کی بھی ھو احتیاط کی جائے جج اسکی مرضی کا نہ ھو تو اچھا ھے، پر ھر جگہ ھر ادارے میں مرضی کے جج موجود ھیں بس انکی مرضی کی فیس ادا کرنے کی ضرورت ھے،
جب مسلم لیگ ن کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں، ایم کیو ایم کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں ، پیپلز پارٹی کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں تواگر پاکستان تحریک انصاف کے کچھ دوستوں کی نکل آئیں تو کونسی قیامت آگئی، بس معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں بے شک وہ بہتر فیصلہ کرنے والے ھیں۔
وزیراعلی بلوچستان نے کیا خوبصورت بات کہی تھی،”ڈگری تو ڈگری ھوتی ھے جعلی ھو یا اصلی”
میری امی جی کہانی سنایا کرتیں تھیں کہ پرانے وقتوں میں ایک گھڑ سوار بازار میں جارھا تھا تو ایک شخص آوازیں لگا رھا تھا، ڈگری لے لو ڈگری، ایم اے انگلش، ایم اے فارسی، ایم اے عربی، ایم اے فلسفہ۔ انتہائی مناسب قیمت، بڑی ڈگری عزت میں اضافہ۔ وہ گھڑ سوار رک گیا بھائی کیا قیمت ھے جی پانچ سو اشرفی فی ایم اے، اچھا یہ لو ایک ھزار اشرفی مجھے دو ڈگریاں ایم اے فارسی کی دے دو، اچھا نام کیا لکھنا ھے، ایک پر میرا نام لکھ دو اور ایک پر میرے گھوڑے کا نام لکھ دو، کیا مطلب گھوڑے کانام۔ میں چاھتا ھوں لوگ کہیں ایم اے فارسی پر ایم اے فارسی سوار ھے۔
آج کل سب ھی ایم اے ھیں اور کچھ کی تو جماعتیں بھی ایم ایم اے ھیں مطلب ڈبل ایم اے۔
ایسی تعلیم کا کیا کرنا جس کے امتحان کوئی اور دے رزلٹ کسی اور کا آئے، یا پھر آپ کو یونیورسٹی کا ایڈریس بھی معلوم نہ ھو اور چھ سال ریگولر پڑھنے کی بنیاد پر ڈگری بھی جاری ھوجائے،
سب دا بھلا سب دی الخیر۔
ھم کامرس کالج ایف 8 اسلام آباد کے طالب علم تھے۔ سب ھی دوست تھے، بھلا وقت تھا۔ اسلام آباد ماڈل کالج فار بوائز ایف 8 امتحانی مرکز تھا۔ درمیانے درجے کے طالبعلم تھے۔ کلاسیں ساری باقاعدگی سے پڑھتے تھے۔ ساتھ ساتھ باسکٹ بال، سکاؤٹنگ، سیاست، این سی سی بھی چلتی تھی، آوارہ گرد پیدائشی تھے، تو بات ھورھی تھی امتحانی مرکز کی مضمون پرنسپل آف کامرس کا پرچہ تھا، ندیم قریشی میرا کلاس فیلو تھا بہت اچھا دوست بھی کہنے لگا، پیا جی مکمل حل شدہ پرچہ موجود ھے، پیش کروں، ایک لمحے کو دل بھی کیا اور پھر ایک جملہ منہ سے ادا ھوگیا، نہیں یار میں نے آگے پڑھنا ھے تو نقل روز روز نہیں ھوتی، مشکل ھوجائے گی، اس لئے رھنے دو، پیا جی جیسے آپکی مرضی، رزلٹ آیا تو ندیم کے میرے سے تین نمبر زیادہ تھے اور وہ قہقہے لگا رھا تھا، یہ ھیں پڑھاکو بچے، نمبر دیکھو ۔ مجھے کوئی شرم نہیں محسوس ھوئی میرے کم نمبر بھی زیادہ تھے کیونکہ میری اپنی محنت کے تھے۔
بی کام پارٹ ون میں میں لاھور نیشنل کالج آف آرٹس چلاگیا اور ندیم بی کام نہ کرسکا بعد میں بی اے کرکے وکیل بن گیا،
نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کرکے جب پاکستان ٹیلیویژن میں آئے تو کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ ایم بی اے کرلیا جائے اور ھم دوستوں نے ایک یونیورسٹی جوائن کرلی۔ یونیورسٹی مالکان سے دوستی ھوگئی، جو کہنے لگے ھم میڈیا ڈیپارٹمنٹ کھولنا چاھتے ھیں۔ اور ھماری خواھش ھے کہ آپ ھمیں جوائن کرلیں ، جی کوشش کروں گا، ھماری کوشش ھوگی کہ آپ کو ایم بی اے میں گولڈ میڈل ملے، مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کیونکہ میں تو ھمیشہ سے درمیانے درجے کا طالبعلم اور شہری ھوں، جب پہلے مڈٹرم امتحان آئے تو مجھے ایک لفافہ ملا۔ میں نے پوچھا جی یہ کیا ھے، یہ پرچوں کی فوٹو سٹیٹ ھے، آپ انکو دیکھ کر تیاری کرلیں ان شاءاللہ آپ ھی پہلی پوزیشن لیں گے، لفافہ کھولے بغیر ھی واپس کیا، معذرت چاھتا ھوں، اسطرح میں بچوں کو پڑھا نہیں سکوں گا، اور میرا بطور استاد کیرئیر ختم ھوجائے گا، آپ فیس بھی واپس نہ کریں اور مجھے اجازت دے دیں، بہت شکریہ۔ کچھ عرصے بعد وہ کیمپس بند ھوگیا اور الزام مجھ پر تھا کہ آپ ساتھ چلتے تو ھم بہترین ادارہ ھوتے پر آپ بیچ میں ھی چھوڑ کر چلے گئے، ایسے اداروں کا بند ھونا ھی بہتر ھے۔
میں جتنے بھی جعلی ڈگری والوں سے ملا ھوں یا ان کو دیکھا ھے، ان کی کچھ صفات ملتی جلتی ھوتی ھیں، ڈھیٹ ھونا، بے شرم ھونا، اصول پسند ھونے کا ڈرامہ کرنا، اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا اور کبھی نہ ماننا کہ انکی ڈگری جعلی ھے، دیندار ھونے کی کوشش کرنا،
ھمارے ادارے کے کافی ساتھی جعلی ڈگریوں پر آتے جاتے رھتے ھیں، کچھ عدالتوں سے بحال ھوگئے، کچھ نے انکوائری آفیسر بدلوا لئے، اور کچھ نوکریوں سے فارغ ھوگئے، کچھ ابھی پس پردہ ھیں۔ خوش آئند بات یہ ھے کہ سب نے معاملہ اللہ کے حوالے کردیا ھے اور کہتے ھیں کہ وہ بہتر انصاف کرنے والے ھیں، اس میں ھمارا کیا قصور۔
ھر الیکشن میں بہت سے جعلی ڈگری ھولڈرز آتے ھیں، اور پھر معاملہ اللہ پر چھوڑ کر بھاگ جاتے ھیں۔
اللہ خیر تو ھمیشہ سے ھی سنا تھا پھر اسی سے متاثر ھوکر ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی اور جس جس کے پاس اڑھائی لاکھ روپے تھے وہ بی سی ایس اور ایم سی ایس کی ڈگری کا مالک بن گیا، اور کئی تو ایم بی اے بھی کر گئے، ادارے کے اندر ھی ایسے نیک لوگ موجود ھیں جو بہت ایمانداری سے یہ جعلی ڈگری کا کام سرانجام دیتے ھیں، کچھ میڑک تھے اور بی سی ایس کی بنیاد پر نوکری حاصل کرلی نوکری کے ساتھ ساتھ اللہ خیر کا ورد کرتے کرتے بی سی ایس اور ایم سی ایس بھی کرلیا، کچھ دوستوں کا کہنا ھے کہ انکے پاس پنجاب یونیورسٹی کو ادا کرنے کی اس وقت فیس نہیں تھی اس لئے ڈگری نہیں نکلوا سکے اس لیئے بعد میں دوسری یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرلی، کچھ احباب نوکری کے وقت کوئی اور یونیورسٹی کی ڈگری جمع کرواتے ھیں اور چند سالوں بعد وہ ڈگریاں ذاتی تعلقات پر بدلوا دیتے ھیں، اور اصل ڈگریاں انکی جگہ لے لیتی ھیں، یہ کھیل ھر ادارے میں کھیلا جارھا ھے، سنا ھے دو سو ارب لانے والے بھائی کی ڈگری بھی جعلی نکل آئی ھے بندہ مشورہ ھی کرلیتا ھے ھم اس کو صرف اڑھائی لاکھ میں اصل بنوادیتے، پچھلی تاریخوں میں داخلہ اور شرطیہ رزلٹ۔
جب بھی جعلی ڈگری کی انکوائری ھو بے شک کسی کی بھی ھو احتیاط کی جائے جج اسکی مرضی کا نہ ھو تو اچھا ھے، پر ھر جگہ ھر ادارے میں مرضی کے جج موجود ھیں بس انکی مرضی کی فیس ادا کرنے کی ضرورت ھے،
جب مسلم لیگ ن کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں، ایم کیو ایم کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں ، پیپلز پارٹی کی ڈگریاں جعلی نکل سکتی ھیں تواگر پاکستان تحریک انصاف کے کچھ دوستوں کی نکل آئیں تو کونسی قیامت آگئی، بس معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں بے شک وہ بہتر فیصلہ کرنے والے ھیں۔
وزیراعلی بلوچستان نے کیا خوبصورت بات کہی تھی،”ڈگری تو ڈگری ھوتی ھے جعلی ھو یا اصلی”
میری امی جی کہانی سنایا کرتیں تھیں کہ پرانے وقتوں میں ایک گھڑ سوار بازار میں جارھا تھا تو ایک شخص آوازیں لگا رھا تھا، ڈگری لے لو ڈگری، ایم اے انگلش، ایم اے فارسی، ایم اے عربی، ایم اے فلسفہ۔ انتہائی مناسب قیمت، بڑی ڈگری عزت میں اضافہ۔ وہ گھڑ سوار رک گیا بھائی کیا قیمت ھے جی پانچ سو اشرفی فی ایم اے، اچھا یہ لو ایک ھزار اشرفی مجھے دو ڈگریاں ایم اے فارسی کی دے دو، اچھا نام کیا لکھنا ھے، ایک پر میرا نام لکھ دو اور ایک پر میرے گھوڑے کا نام لکھ دو، کیا مطلب گھوڑے کانام۔ میں چاھتا ھوں لوگ کہیں ایم اے فارسی پر ایم اے فارسی سوار ھے۔
آج کل سب ھی ایم اے ھیں اور کچھ کی تو جماعتیں بھی ایم ایم اے ھیں مطلب ڈبل ایم اے۔
ایسی تعلیم کا کیا کرنا جس کے امتحان کوئی اور دے رزلٹ کسی اور کا آئے، یا پھر آپ کو یونیورسٹی کا ایڈریس بھی معلوم نہ ھو اور چھ سال ریگولر پڑھنے کی بنیاد پر ڈگری بھی جاری ھوجائے،
سب دا بھلا سب دی الخیر۔