اسلام میں نشے کو حرام قرار دیا گیا ھے۔ لیکن ہم مسلمان نشے سے مراد صرف شراب کا نشہ ہی لیتے ہیں۔ باقی نشوں کو اپنی تسلی کے لیے ہم عادت قرار دیتے ہیں۔ آج شائد ہی کوئی ایسا گھر ھو جس کا کم از کم کوئی ایک فرد پان، گٹکا، مین پوری، نسوار یا ماوا استعمال نہ کرتا ھو۔
اس قسم کے نشے کا آغاز پان سے ھوا۔ ماضی میں نانی اماں اور دادی اماں کےذاتی پاندان ھوا کرتے تھے۔ جن میں پان، چھالیہ، کتھا اور چونا وغیرہ کا اسٹاک میں موجود ھوتا تھا۔ پہلے عام طور پر پان صرف عمر رسیدہ لوگوں کا شوق ھوا کرتا تھا۔ لیکن آج کل ہر عمر کے لوگ پان کے نشے کا شکار ہیں۔اور پاکستان ایک بڑی رقم ان نشوں کی درآمد پر خرچ کر رہا ھے۔
پان کے بعد گٹکے کا زمانہ آیا۔ اور لوگوں نے گٹکے کی عادت ڈال لی پھر مین پوری کا دور آیا اور قوم نے اپنا رخ مین پوری کی طرف کرلیا۔ آج کا دور ماوے کا دور ھے۔ اور لوگوں کی بڑی تعداد خاص طور پرنوجوان نسل ماوا استعمال کر رہی ھے۔ اور اپنے آپ کو تباہ کر رہی ھے۔
یہ بھی پڑھئے:
میکسیکن ڈرگ مافیا نے امریکا میں کراس بارڈر سرنگ بنا لی
چائے کا ایک کپ
جو نشہ پان سے شروع ھوا تھا آج وہ ماوے تک جا پہنچا ھے۔ آئندہ کون کون سے نشے وجود میں آئیں گے ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
مجھے ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ آخر ان نشوں کا فائدہ کیا ھے۔ان تمام نشوں کا سراسر نقصان ہی نقصان ھے۔
جو لوگ اس طرح کے نشے کر رہے ہیں دراصل وہ اپنی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ اور خود کشی کی طرف رواں دواں ہیں۔ چونا، کتھا اور چھالیہ مسلسل استعمال کرنے سے ان لوگوں کے منہ کا اندرونی حصہ بری طرح متاثر ھوتا ھے۔ اور لوگوں کی بڑی تعداد منہ کے کینسر کا شکار ھو جاتی ھے۔
اسی طرح ان نشوں میں استعمال ھونے والی دیگر اشیاء سانس کی نالی اور گردوں کے لیے بہت نقصان دہ ھوتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کے گردے فیل ھو جاتے ہیں یا وہ گردوں کی دیگر بیماریوں کا شکار ھو جاتے ہیں۔
جو لوگ ان میں سے کسی بھی قسم کا نشہ کرتے ہیں وہ ذہنی اور طبعئ طور پر بہت کمزور ھو جاتےہیں۔ نہ دوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی وزن اٹھا سکتے ہیں۔ ان کے نہ قد بڑھتے ہیں اور نہ وزن۔
مجھے اس وقت بہت تعجب ھوتا ھے جب میں پڑھے لکھے افراد کو یہ چیزیں استعمال کرتے ھوۓ دیکھتا ھوں۔
اس سے بھی زیادہ حیرت اس بات پر ھوتی ھے جب میں مختلف مذہبی رہنماؤں اور مولانا حضرات کو یہ اشیاء باقاعدگی سے استعمال کرتے ھوۓ دیکھتا ھوں۔ یہ مذہبی رہنما اور مولانا حضرات پان اور گٹکے کو نشہ ہی نہیں مانتے اور اس کے بارے میں عجیب و غریب دلائل دیتے ہیں۔
جو لوگ یہ نشہ آور اشیاء استعمال نہیں کرتے انھیں ان نشہ آور اشیاء سے اور ان کے استعمال کرنے والوں سے بہت گھن آتی ھے۔ اور بعض تو شدید نفرت بھی کرتے ہیں۔
جو لوگ پان اور گٹکا استعمال کرتے ہیں ان کے دانتوں کا رنگ ہی بدل جاتا ھے۔ وہ جتنا مہنگا ٹوتھ پیسٹ استعمال کر لیں ان کے دانت کبھی صاف نہیں ھوتے۔
اسی طرح جو لوگ پان اور گٹکا استعمال کرتے ہیں ان کا بات کرنے کا انداز اور بات کرتے وقت منہ کا زاویہ ہی بدل جاتا ھے۔یہ لوگ منہ تیڑھا کر کے گفتگو کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا قطعی احساس نہیں ھوتا۔
سب سے اھم بات یہ کہ جب ان کا منہ پان یا گٹکے سے بھرا ھوتا ھے اور یہ کسی سے بات کرتے ہیں تو ان کی بات کسی کو سمجھ نہیں آتی۔
ان کے منہ سے ہر وقت بدبو آتی رہتی ھے۔ لیکن یہ لوگ اس بدبو کے اتنے عادی ھوچکے ھوتے ہیں کہ وہ اس بدبو کو بھی خوشبو کا نام دیتے ہیں۔
اسی طرح جب یہ لوگ کسی سے بات کرتے ہیں تو پان اور گٹکے کی پچکاری سامنے والے کے منہ پر پڑتی ھے۔
پان ، گٹکا اور دیگر ایسی اشیاء کھانے والے قطعئ طور پر صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ آپ نے بھی یقیناً مختلف سرکاری دفاتر میں پیکوں کے نشان ضرور دیکھے ھوں گے۔ اسی طرح چلتی ھوئی گاڑی سے بھی پیک ماری جاتی ھے۔اور یوں سڑکوں کو یا دیگر راہگیروں کے کپڑوں کو سرخ کیا جاتا ھے۔
میں ایسے کئی طالب علموں کو جانتا ھوں جنھیں ایسے نشےکی عادت اپنے گھر سے پڑی۔بچے کے والد یا کوئی اور قریبی عزیز ان میں سے کوئی ایک نشہ کرتا تھا اور یوں اس بچے کو بھی اس نشے کی لت پڑ گئی۔
کبھی کبھی میں ان عورتوں کے بارے میں سوچتا ھوں جن کے شوہروں کے منہ ہر وقت پان ، گٹکے، مین پوری، نسوار یا ماوے سے بھرے رہتے ہیں۔خدا جانتا ھے کہ ایسی عورتیں کس طرح اپنے شوہروں کو برداشت کرتی ھوں گی کیونکہ اس طرح کے نشہ کرنے والے افراد کو حقیقت میں کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
یہ لوگ روزانہ سو سے دو سو روپۓ اپنے ان نشوں کی نظر کر دیتے ہیں۔ لیکن اپنی اولاد پر پیسہ خرچ کرتے ھوئے بہت بخیلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اور ان کی جائز ضروریات تک پوری نہیں کرتے۔
حکومت نے ان اشیاء پر کئی دفعہ پابندی لگانے کی کوشش کی ھے لیکن اسے خاص کامیابی حاصل نہیں ھوئی۔
میری تمام والدین سے درخواست ھے کہ وہ اپنی بھر پور کوشش کر کہ ایسی تمام اشیاء کا استعمال فوری طور پر ترک کردیں اور ایک صحت مند زندگی کا آغاز کریں۔ اپنے بچوں کے لیے پہلے خود مثال بنیں، پھر انھیں منع کریں۔
اسی طرح ہمارے اساتذہ اور مولانا حضرات کو خود بھی ایسی تمام مضر صحت اشیاء سے اجتناب کرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی ان سے دور رہنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ اس طرح ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔