• مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home تبادلہ خیال

ماوا، مین پوری، گٹکا،نسوار اور پان| محمد اشفاق

پان اور گٹکا استعمال کرنے والے لوگوں کے بات کرنے کا انداز اور منہ کا زاویہ ہی بدل جاتا ھے،یہ لوگ منہ ٹیڑھا کر کے گفتگو کرتے ہیں

محمد اشفاق by محمد اشفاق
July 12, 2020
in تبادلہ خیال
0
ماوا، مین پوری، گٹکا،نسوار اور پان| محمد اشفاق
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

اسلام میں نشے کو حرام قرار دیا گیا ھے۔ لیکن ہم مسلمان نشے سے مراد صرف شراب کا نشہ ہی لیتے ہیں۔ باقی نشوں کو اپنی تسلی کے لیے ہم عادت قرار دیتے ہیں۔ آج شائد ہی کوئی ایسا گھر ھو جس کا کم از کم کوئی ایک فرد پان، گٹکا، مین پوری، نسوار یا ماوا استعمال نہ کرتا ھو۔
اس قسم کے نشے کا آغاز پان سے ھوا۔ ماضی میں نانی اماں اور دادی اماں کےذاتی پاندان ھوا کرتے تھے۔ جن میں پان، چھالیہ، کتھا اور چونا وغیرہ کا اسٹاک میں موجود ھوتا تھا۔ پہلے عام طور پر پان صرف عمر رسیدہ لوگوں کا شوق ھوا کرتا تھا۔ لیکن آج کل ہر عمر کے لوگ پان کے نشے کا شکار ہیں۔اور پاکستان ایک بڑی رقم ان نشوں کی درآمد پر خرچ کر رہا ھے۔
پان کے بعد گٹکے کا زمانہ آیا۔ اور لوگوں نے گٹکے کی عادت ڈال لی پھر مین پوری کا دور آیا اور قوم نے اپنا رخ مین پوری کی طرف کرلیا۔ آج کا دور ماوے کا دور ھے۔ اور لوگوں کی بڑی تعداد خاص طور پرنوجوان نسل ماوا استعمال کر رہی ھے۔ اور اپنے آپ کو تباہ کر رہی ھے۔

یہ بھی پڑھئے:

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

میکسیکن ڈرگ مافیا نے امریکا میں کراس بارڈر سرنگ بنا لی

ADVERTISEMENT

چائے کا ایک کپ
جو نشہ پان سے شروع ھوا تھا آج وہ ماوے تک جا پہنچا ھے۔ آئندہ کون کون سے نشے وجود میں آئیں گے ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
مجھے ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ آخر ان نشوں کا فائدہ کیا ھے۔ان تمام نشوں کا سراسر نقصان ہی نقصان ھے۔
جو لوگ اس طرح کے نشے کر رہے ہیں دراصل وہ اپنی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ اور خود کشی کی طرف رواں دواں ہیں۔ چونا، کتھا اور چھالیہ مسلسل استعمال کرنے سے ان لوگوں کے منہ کا اندرونی حصہ بری طرح متاثر ھوتا ھے۔ اور لوگوں کی بڑی تعداد منہ کے کینسر کا شکار ھو جاتی ھے۔
اسی طرح ان نشوں میں استعمال ھونے والی دیگر اشیاء سانس کی نالی اور گردوں کے لیے بہت نقصان دہ ھوتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کے گردے فیل ھو جاتے ہیں یا وہ گردوں کی دیگر بیماریوں کا شکار ھو جاتے ہیں۔
جو لوگ ان میں سے کسی بھی قسم کا نشہ کرتے ہیں وہ ذہنی اور طبعئ طور پر بہت کمزور ھو جاتےہیں۔ نہ دوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی وزن اٹھا سکتے ہیں۔ ان کے نہ قد بڑھتے ہیں اور نہ وزن۔
مجھے اس وقت بہت تعجب ھوتا ھے جب میں پڑھے لکھے افراد کو یہ چیزیں استعمال کرتے ھوۓ دیکھتا ھوں۔
اس سے بھی زیادہ حیرت اس بات پر ھوتی ھے جب میں مختلف مذہبی رہنماؤں اور مولانا حضرات کو یہ اشیاء باقاعدگی سے استعمال کرتے ھوۓ دیکھتا ھوں۔ یہ مذہبی رہنما اور مولانا حضرات پان اور گٹکے کو نشہ ہی نہیں مانتے اور اس کے بارے میں عجیب و غریب دلائل دیتے ہیں۔
جو لوگ یہ نشہ آور اشیاء استعمال نہیں کرتے انھیں ان نشہ آور اشیاء سے اور ان کے استعمال کرنے والوں سے بہت گھن آتی ھے۔ اور بعض تو شدید نفرت بھی کرتے ہیں۔
جو لوگ پان اور گٹکا استعمال کرتے ہیں ان کے دانتوں کا رنگ ہی بدل جاتا ھے۔ وہ جتنا مہنگا ٹوتھ پیسٹ استعمال کر لیں ان کے دانت کبھی صاف نہیں ھوتے۔
اسی طرح جو لوگ پان اور گٹکا استعمال کرتے ہیں ان کا بات کرنے کا انداز اور بات کرتے وقت منہ کا زاویہ ہی بدل جاتا ھے۔یہ لوگ منہ تیڑھا کر کے گفتگو کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات کا قطعی احساس نہیں ھوتا۔
سب سے اھم بات یہ کہ جب ان کا منہ پان یا گٹکے سے بھرا ھوتا ھے اور یہ کسی سے بات کرتے ہیں تو ان کی بات کسی کو سمجھ نہیں آتی۔
ان کے منہ سے ہر وقت بدبو آتی رہتی ھے۔ لیکن یہ لوگ اس بدبو کے اتنے عادی ھوچکے ھوتے ہیں کہ وہ اس بدبو کو بھی خوشبو کا نام دیتے ہیں۔
اسی طرح جب یہ لوگ کسی سے بات کرتے ہیں تو پان اور گٹکے کی پچکاری سامنے والے کے منہ پر پڑتی ھے۔
پان ، گٹکا اور دیگر ایسی اشیاء کھانے والے قطعئ طور پر صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ آپ نے بھی یقیناً مختلف سرکاری دفاتر میں پیکوں کے نشان ضرور دیکھے ھوں گے۔ اسی طرح چلتی ھوئی گاڑی سے بھی پیک ماری جاتی ھے۔اور یوں سڑکوں کو یا دیگر راہگیروں کے کپڑوں کو سرخ کیا جاتا ھے۔
میں ایسے کئی طالب علموں کو جانتا ھوں جنھیں ایسے نشےکی عادت اپنے گھر سے پڑی۔بچے کے والد یا کوئی اور قریبی عزیز ان میں سے کوئی ایک نشہ کرتا تھا اور یوں اس بچے کو بھی اس نشے کی لت پڑ گئی۔
کبھی کبھی میں ان عورتوں کے بارے میں سوچتا ھوں جن کے شوہروں کے منہ ہر وقت پان ، گٹکے، مین پوری، نسوار یا ماوے سے بھرے رہتے ہیں۔خدا جانتا ھے کہ ایسی عورتیں کس طرح اپنے شوہروں کو برداشت کرتی ھوں گی کیونکہ اس طرح کے نشہ کرنے والے افراد کو حقیقت میں کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
یہ لوگ روزانہ سو سے دو سو روپۓ اپنے ان نشوں کی نظر کر دیتے ہیں۔ لیکن اپنی اولاد پر پیسہ خرچ کرتے ھوئے بہت بخیلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اور ان کی جائز ضروریات تک پوری نہیں کرتے۔
حکومت نے ان اشیاء پر کئی دفعہ پابندی لگانے کی کوشش کی ھے لیکن اسے خاص کامیابی حاصل نہیں ھوئی۔
میری تمام والدین سے درخواست ھے کہ وہ اپنی بھر پور کوشش کر کہ ایسی تمام اشیاء کا استعمال فوری طور پر ترک کردیں اور ایک صحت مند زندگی کا آغاز کریں۔ اپنے بچوں کے لیے پہلے خود مثال بنیں، پھر انھیں منع کریں۔
اسی طرح ہمارے اساتذہ اور مولانا حضرات کو خود بھی ایسی تمام مضر صحت اشیاء سے اجتناب کرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی ان سے دور رہنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ اس طرح ہم ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

Tags: پانماوامین پورینسوارنشہ' گٹکا
Previous Post

علم سے مبرا ڈگری| محمد اظہر حفیظ

Next Post

قاضی عمران کی موت کے ذمہ دار ہم بھی ہیں | عابد حسین

محمد اشفاق

محمد اشفاق

کئی سال بیرون ملک ملازمت کرنے اور کراچی یونیورسٹی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹر کرنے کے بعد میں نے کچھ عرصہ تک فری لانس صحافت کی۔لیکن اسے اپنا پیشہ نہ بنایا۔اس کی بجاۓ میں نے ٹیچنگ کو ترجیح دی۔ ٹیچنگ میں پہلی ملازمت 1996 میں کی۔ دو سال مختلف اداروں میں ٹیچنگ کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ٹیچرپڑھانے میں آزاد نہیں۔اور ان پر بے پناہ پابندیاں عائد ہیں۔ ان پابندیوں سے تنگ آکر میں نے دی اسکالر اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے میں یوں تو کئ خوبیاں ہیں لیکن جو خوبی اسے دوسرے اداروں سے ممتاز کرتی ھے وہ یہ کہ اس اسکول میں داخلہ لینے والا ہر بچہ تعلیمی طور پر insure ھوتا ھے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچے نے پہلی جماعت میں داخلہ لیا اور تیسری یا کسی بھی جماعت میں اس کے والد کا کسی بھی وجہ سے انتقال ھو جاۓ تو اس بچے کی میٹرک تک کی تعلیم مفت کر دی جاتی ھے۔ اسی طرح داخلہ لینے والے بچے کے والدین کورس اور یونیفارم خریدنے میں آزاد ھوتے ہیں۔اسکول میں ماہانہ اور سالانہ فیس کے علاوہ اور کسی قسم کی فیس نہیں لی جاتی۔ ادارے میں ریڈنگ ، لکھائ اور املا پر خصوصی توجہ دی جاتی ھے۔

Next Post
قاضی عمران کی موت کے ذمہ دار ہم بھی ہیں | عابد حسین

قاضی عمران کی موت کے ذمہ دار ہم بھی ہیں | عابد حسین

محشر خیال

آمد نواز شریف کی اور ایک نئی جماعت کی
محشر خیال

آمد نواز شریف کی اور ایک نئی جماعت کی

نواز شریف کی واپسی اور عمار مسعود کی کالم آرائی
Aawaza

نواز شریف کی واپسی اور عمار مسعود کی کالم آرائی

مصر کے بازار میں پاکستانی شاہ کار
محشر خیال

مصر کے بازار میں پاکستانی شاہ کار

مسجد کس کے قبضے میں ہے؟
محشر خیال

جڑانوالہ: مسجد کس کے قبضے میں ہے؟

تبادلہ خیال

یوم دفاع کیسے منائیں؟
تبادلہ خیال

یوم دفاع منانے کے چھ طریقے

شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست
تبادلہ خیال

شہباز شریف اور پھوٹی کوڑی ،دمڑی اور دھیلے کی سیاست

کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو
تبادلہ خیال

کراچی، مرتضیٰ وہاب اور حافظ نعیم، ایک سے بھلے دو

باجوہ! اللہ تجھے پولیس کی حفاظت میں رکھے
تبادلہ خیال

جنرل باجوہ! اللہ تجھے پولیس کی حفاظت میں رکھے

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • ٹیکنالوجی
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions