Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ADVERTISEMENT
کراچی پریس کلب ، کے یو جے دستور کے رکن اور جسارت اخبار سے وابستہ کہنہ مشق صحافی قاضی عمران مرحوم کو جمعہ 11 جولائی 2020 کو سپرد خاک کردیا گیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی موت پر دوستوں اور خیر خواہوں کی جانب سے فیس بک اور واٹس اپ پر تعزیتی اور مذمتی تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض مذمتی تبصرے پڑھ کر افسوس بھی ہوا۔ تعزیتی تبصرے اور دعائیہ جملے تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن ان کی مالی پریشانیوں کو جس طرح سوشل میڈیا پر عیاں کیا جارہا ہے وہ قطعی مناسب معلوم نہیں ہورہا. مذمت کرنے والے دوستوں سے گزارش ہے کہ جسارت اخبار اور کسی صحافتی تنظیم کے رویہ کی مذمت کرنے کے بجائے پہلے خود اپنی مذمت کریں اور سوچیں کہ ہم نے اپنی ذات میں اس کی کیا مدد کی جبکہ جسارت اخبار کی انتظامیہ وضاحت کرچکی ہے کہ مرحوم کی تنخواہ کا کوئی ایشو نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
مجھے یاد ہے ،34 سال پہلے کی ایک بات,جون 1986 کا ایک واقعہ جب فلم ،ٹی وی اور اسٹیج کے مشہور مزاحیہ اداکار ننھا(رفیع خاور) نے مبینہ خودکشی کی تھی(قتل یا خودکشی یہ طویل بحث ہے)۔ ان کی اس ناگہانی موت پر سب سے غور طلب تبصرہ ان کے قریبی دوست کمال احمد رضوی عرف الن نے کیا تھا۔ رپورٹر نے ان سے پوچھا تھا کہ ننھا کے اس طرح دنیا سے چلے جانے پر آپ کے کیا جذبات ہیں۔۔؟ اور اس صورتحال کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں۔۔؟ تو کمال احمد رضوی نے کمال جواب دیا تھا،،،،’’میں خود‘‘
پھر کچھ وقفے کے بعد انہوں نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں ’’میں خود‘‘ کی وضاحت کچھ اس طرح کی تھی کہ ’’میں اپنے آپ کو ذمہ دار اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر میرا دعویٰ ہے کہ میں ننھا سے سب سے زیادہ قریب تھا تو پھر مجھے ہی اس کی اس پریشانی کا علم ہونا چاہیے تھا جس نے اسے خود کشی پر مجبور کیا۔۔
دوست تو کہتے ہی اسے ہیں جو دوست کی پریشانی کو پڑھ لے اور اس کے کہے بغیر اسے حل کرے یا حل کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
آج ہمارے ارد گرد بھی کچھ اموات ایسی ہورہی ہیں جن کی وجہ مالی پریشانیاں بتائی جارہی ہیں۔اس لیے ان اموات کا ذمہ دار اگر کسی کو ٹہرانا ہے تو پہلے اپنے آپ کو ٹھہرائیں۔ اگر آپ خود کسی کا مالی مسئلہ بوجوہ حل نہیں کرسکتے تو خاموشی سے اپنے کسی صاحب حیثیت دوستوں سے رجوع کرلیں۔ میرا ایمان اور تجربہ ہے کہ آپ کے صاحب حیثیت دوست آپ کے کہنے پر کسی پریشان حال کی مدد کرنے میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ الحمدللہ بہت سے لوگ خاموشی سے یہ نیک کام کر بھی رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کراچی پریس کلب یا کے یو جے (دونوں گروپوں)کے عہدیدار کوئی طریقہ کار نکال سکتے ہیں لیکن کسی اجتماعی حل سے پہلے انفرادی سطح پر امداد کا سلسلہ فوری شروع کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں میری خدمات حاضر ہیں۔
حل۔۔طریقہ کار۔۔تجاویز۔
ہر صحافی اپنے صرف 5 صاحب حیثیت دوستوں یا خاندان کے افراد (اندرون ملک یا بیرون ملک)کو اعتماد میں لے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ ان سے رجوع کریں گے۔ اگر پریس کلب کے صرف 20 صحافی پانچ پانچ صاحب حیثیت افراد کو اعتماد میں رکھیں تو یہ تعداد 100 بن جاتی ہے اور صحافیوں کے لیے 5 صاحب ثروت افراد سے رابطے میں رہنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ کچھ صاحب حیثیت لوگ مشترکہ ہوسکتے ہیں ۔ اس صورت میں نشاندہی ہونے پر آپ کسی اور سے رجوع کرسکتے ہیں۔ سوچیں ذرا!
100 افراد جب ہر وقت مدد کے لیے آمادہ ہوں گے تو یقین کریں آئندہ کسی صحافی کا مالی مسئلہ اس طرح عیاں نہیں ہوگا کہ اس کے بچے ہر جگہ شرمندگی محسوس کریں۔کورونا کا دور صرف باتیں بنانے کا نہیں بلکہ عملی مدد کا دور ہے۔ ہر شخص ایدھی ہے۔۔۔ایدھی بن سکتا ہے۔۔۔کوشش کریں،،،،ایک فیصد بھی ایدھی بن گئے تو 100 فیصد لوگوں کو فائدہ ہوگا۔۔۔ایدھی صاحب نے فیس بک اور واٹس اپ کے بغیر اتنا کام کرلیا تو آپ اور ہم کتنا نہیں کرسکتے۔۔۔؟شرط ہمت،جذبہ،دیانتداری اور خلوص ۔۔۔۔آئیں پھر بسم اللہ کریں۔۔۔خاموشی سے مشن شروع کردیں۔۔
کراچی پریس کلب ، کے یو جے دستور کے رکن اور جسارت اخبار سے وابستہ کہنہ مشق صحافی قاضی عمران مرحوم کو جمعہ 11 جولائی 2020 کو سپرد خاک کردیا گیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی موت پر دوستوں اور خیر خواہوں کی جانب سے فیس بک اور واٹس اپ پر تعزیتی اور مذمتی تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ بعض مذمتی تبصرے پڑھ کر افسوس بھی ہوا۔ تعزیتی تبصرے اور دعائیہ جملے تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن ان کی مالی پریشانیوں کو جس طرح سوشل میڈیا پر عیاں کیا جارہا ہے وہ قطعی مناسب معلوم نہیں ہورہا. مذمت کرنے والے دوستوں سے گزارش ہے کہ جسارت اخبار اور کسی صحافتی تنظیم کے رویہ کی مذمت کرنے کے بجائے پہلے خود اپنی مذمت کریں اور سوچیں کہ ہم نے اپنی ذات میں اس کی کیا مدد کی جبکہ جسارت اخبار کی انتظامیہ وضاحت کرچکی ہے کہ مرحوم کی تنخواہ کا کوئی ایشو نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیے:
مجھے یاد ہے ،34 سال پہلے کی ایک بات,جون 1986 کا ایک واقعہ جب فلم ،ٹی وی اور اسٹیج کے مشہور مزاحیہ اداکار ننھا(رفیع خاور) نے مبینہ خودکشی کی تھی(قتل یا خودکشی یہ طویل بحث ہے)۔ ان کی اس ناگہانی موت پر سب سے غور طلب تبصرہ ان کے قریبی دوست کمال احمد رضوی عرف الن نے کیا تھا۔ رپورٹر نے ان سے پوچھا تھا کہ ننھا کے اس طرح دنیا سے چلے جانے پر آپ کے کیا جذبات ہیں۔۔؟ اور اس صورتحال کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں۔۔؟ تو کمال احمد رضوی نے کمال جواب دیا تھا،،،،’’میں خود‘‘
پھر کچھ وقفے کے بعد انہوں نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں ’’میں خود‘‘ کی وضاحت کچھ اس طرح کی تھی کہ ’’میں اپنے آپ کو ذمہ دار اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر میرا دعویٰ ہے کہ میں ننھا سے سب سے زیادہ قریب تھا تو پھر مجھے ہی اس کی اس پریشانی کا علم ہونا چاہیے تھا جس نے اسے خود کشی پر مجبور کیا۔۔
دوست تو کہتے ہی اسے ہیں جو دوست کی پریشانی کو پڑھ لے اور اس کے کہے بغیر اسے حل کرے یا حل کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
آج ہمارے ارد گرد بھی کچھ اموات ایسی ہورہی ہیں جن کی وجہ مالی پریشانیاں بتائی جارہی ہیں۔اس لیے ان اموات کا ذمہ دار اگر کسی کو ٹہرانا ہے تو پہلے اپنے آپ کو ٹھہرائیں۔ اگر آپ خود کسی کا مالی مسئلہ بوجوہ حل نہیں کرسکتے تو خاموشی سے اپنے کسی صاحب حیثیت دوستوں سے رجوع کرلیں۔ میرا ایمان اور تجربہ ہے کہ آپ کے صاحب حیثیت دوست آپ کے کہنے پر کسی پریشان حال کی مدد کرنے میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ الحمدللہ بہت سے لوگ خاموشی سے یہ نیک کام کر بھی رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کراچی پریس کلب یا کے یو جے (دونوں گروپوں)کے عہدیدار کوئی طریقہ کار نکال سکتے ہیں لیکن کسی اجتماعی حل سے پہلے انفرادی سطح پر امداد کا سلسلہ فوری شروع کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں میری خدمات حاضر ہیں۔
حل۔۔طریقہ کار۔۔تجاویز۔
ہر صحافی اپنے صرف 5 صاحب حیثیت دوستوں یا خاندان کے افراد (اندرون ملک یا بیرون ملک)کو اعتماد میں لے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ ان سے رجوع کریں گے۔ اگر پریس کلب کے صرف 20 صحافی پانچ پانچ صاحب حیثیت افراد کو اعتماد میں رکھیں تو یہ تعداد 100 بن جاتی ہے اور صحافیوں کے لیے 5 صاحب ثروت افراد سے رابطے میں رہنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ کچھ صاحب حیثیت لوگ مشترکہ ہوسکتے ہیں ۔ اس صورت میں نشاندہی ہونے پر آپ کسی اور سے رجوع کرسکتے ہیں۔ سوچیں ذرا!
100 افراد جب ہر وقت مدد کے لیے آمادہ ہوں گے تو یقین کریں آئندہ کسی صحافی کا مالی مسئلہ اس طرح عیاں نہیں ہوگا کہ اس کے بچے ہر جگہ شرمندگی محسوس کریں۔کورونا کا دور صرف باتیں بنانے کا نہیں بلکہ عملی مدد کا دور ہے۔ ہر شخص ایدھی ہے۔۔۔ایدھی بن سکتا ہے۔۔۔کوشش کریں،،،،ایک فیصد بھی ایدھی بن گئے تو 100 فیصد لوگوں کو فائدہ ہوگا۔۔۔ایدھی صاحب نے فیس بک اور واٹس اپ کے بغیر اتنا کام کرلیا تو آپ اور ہم کتنا نہیں کرسکتے۔۔۔؟شرط ہمت،جذبہ،دیانتداری اور خلوص ۔۔۔۔آئیں پھر بسم اللہ کریں۔۔۔خاموشی سے مشن شروع کردیں۔۔