ابے دیکھ تو سہی آگے کھڈا ہے۔
زبیر نے موٹر سائیکل کی پیچھلی سیٹ سے اچھلتے ہوئے کاشف سےکہا۔
دھیان کدھر ہے تیرا،
کن سوچوں میں ہے۔
زبیر نے پھر پوچھا۔
بس کچھ نہیں یار، ایسے ہی۔
کاشف نے مختصراً جواب دیا۔
ابے کچھ بتا تو سہی معاملہ کیا ہے
کیوں پریشان ہے میرا یار
زبیر نے پھر پوچھا
بس یار کیا بتاؤں جب سے علاقے میں پانی آنا بند ہوا ہے۔ زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ ساری ساری رات بعض اوقات تو پانی کے انتظار میں نکل جاتی ہے۔ اور صبح جاب پر پہنچنے کی ٹینشن بڑی مشکل میں آ گیا ہوں یار۔
کاشف نے چلتی موٹر سائیکل پر ہی زبیر کواپنا دکھڑا سنایا۔
ابے ہاں واقعی کراچی میں سب جگہ پر یہی مسئلہ ہے۔
زبیر نے اثبات میں جواب دیا۔۔۔
چل کہیں آرام سے بیٹھتے ہیں۔ زبیر نے کہا
اب دونوں موٹر سائیکل ایک ہوٹل پر روک کر چائے پینے کے لئے رکے۔
کاشف اور زبیر دونوں بچپن کے دوست ہیں دونوں ہی چالیس کے پیٹے میں ہیں کاشف اور زبیر دونوں کراچی شہر کی ایک کالونی کے رہائشی ہیں۔ کاشف ایک مالیاتی ادارے میں اوسط درجے کی ملازمت کرتا ہے۔ مناسب تنخواہ ہے اچھی گزر بسر ہو جاتی ہے۔ زبیر بذات خود اپنا کاروبار کرتا ہے اور اسکی بھی اچھی گزر بسر ہو جاتی ہے۔ اگر کسی کو قرض نہ بھی دیں سکیں تو مانگنے کی نوبت بھی نہیں آتی۔
ہاں چھوٹے دو چائے . . .
کاشف نے بیٹھتے ہی اشارہ کیا
اورتو اپنی سناسب ٹھیک ہیں بھابی بچے۔۔۔؟
کاشف نے زبیر سے پوچھا۔
ہاں سب ٹھیک ہیں۔ باقی تم جو پانی کے مسئلے کا کہہ رہے ہو تو ٹینکر کیوں نہیں ڈلوا لیتے۔ زبیر نے کہا
یار روز تو ٹینکر نہیں دلا سکتے نا تین ہزار کا پڑتا ہے اور مشکل سے تین چار دن چلتا ہے۔ اب ماہانہ خرچ میں بیس پچیس کا اضافہ ہم جیسا سفید پوش تو برداشت نہیں کر سکتا نا کاشف نے اپنی معذوری ظاہر کی
ہاں یار یہ ہے تو مہنگا سودا۔
زبیر نے ہاں میں ہاں ملائی۔
اتنے میں چاۓ بھی آگئی۔
چاۓ کی چسکی لیتے ہوئے کاشف بولا
یار پہلے تو تجھے یاد ہو گا ہی اپنے علاقے میں کوئی منرل واٹر استعمال نہیں کرتا تھا۔ سب لوگ نلکے کا پانی ہی پیا کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ جب پانی خراب آنے لگا تو لوگوں نے یہ بوتلیں لگوالیں ان کا ماہانہ خرچ بھی اب اچھا خاصا ہونے لگا ہے۔
ہاں یار اب تو جا بجا پانی کی دوکانیں کھل گئیں ہیں اس وقت تو ہم سوچا بھی نہ تھا کہ پینے کا پانی بھی خرید کے پئیں گے۔ زبیر نے جواب دیا۔
تو پھر اس مسئلے کا کیا حل نکالے گا۔؟
زبیر نے پھر پوچھا
بھائی ٹینکر ڈلوانے کو تو ابا راضی نہیں ہوتے۔ اُن کا موقف ہے کہ یہ امیروں کے چونچلے ہیں۔ اور تجھے پتا ہے آج کل اُن کی طبعیت بھی سیٹ نہیں چل رہی۔ اورپانی کی موٹر بھی گڑ بڑ کر رہی ہے۔ پہلی فرصت میں اسے ہی ٹھیک کرواؤں گا۔ اور پھر ہم اور رت جگے۔
ہاں بھائی خیال رکھ والد کا اور ان کی پسند ناپسند کا جیسا وہ چاہ رہے ہیں ویسا ہی کر۔ زبیر بولا
چائے ختم کر کے دونوں نے سگریٹ سلگائی ہی تھی کہ پولیس موبائل سائرن کی آواز آنی شروع ہو گئی۔ ابے سیگریٹ راستے میں بس اٹھ فٹافٹ اٹھنے کی کر اور ۔
کاشف نے جیب سے پیسے نکل کر چائے کا بل دیا ۔
اب دونوں موٹر سائیکل سٹارٹ کر کے گھر کی جانب چل دیئے۔
جیسے ہی موڑ کے نزدیک آئے
زبیر چلایا ابے سیدھا چلا جا رہا ہے
دیکھ تو سہی آگے لڑکوں کو مرغا بنایا ہوا ہے۔ پولیس نے۔
ابے وہ تو لڑکوں کو بنایا ہوا ہے ہمیں تھوڑی کچھ کہیں گے
کاشف بولا
پپو ہم ابھی انکلوں والی عمر کے بھی نہیں لگتے
ہم بھی رگڑے جائیں گے ۔ بائیک شرافت سے گلیمیں موڑ لے۔ عزت اسی میں ہے۔زبیر نے صلاح دی جو کاشف نے من و عن مان لی۔
اور کسی مصیبت میں آئے بغیر زبیر کو اس کی گلی کے کونے پر چھوڑ کر اپنے گھر چلا گیا۔
گھر پہنچ کر والد سے تذکرہ کیا کہ کیوں نہ ٹینکر ڈلوا لیں ہم بھی۔
مگر اس بار بھی انہوں نے یہ کہہ کر ہی منع کر دیا بیٹا ابھی اتنی بھی پریشانی نہیں کہہ ٹینکر ڈلوانا پڑے۔ ویسے بھی یہ سب امیروں کے چونچلے ہیں۔
کاشف کے شب و روز یونہی گزرتے رہے۔ صبح سے شام تک آفس اور رات میں پانی بھرنے کی مشقت کبھی موٹر کا مسئلہ تو کبھی کچھ اور زیادہ تر تو رت جگا بھی بیکار کیوں کہ پانی ہی نہیں آتا تھا۔
ہر ہفتے کے اختتام پر زبیر سے ملاقات لازمی ہوجایا کرتی تھی جس میں دونوں مل کے خوش ہو جایا کرتے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ دونوں کی هفته وار ملاقاتوں میں تعطل آنے لگا۔ کبھی کاشف آفس سے دیر سے آتا تو کبھی زبیر اپنے کاروباری معاملات میں الجها رہتا۔ دونوں فون پر ہی خیریت پوچھ کے کام چلا لیتے۔
ایک دن زبیر اپنی سائٹ پر تھا۔ کہ اسکے فون کی گھنٹی بجی کاشف کا نمبر دیکھ کر اس نے فون سائلنٹ پر کر دیاکہ فارغ ہو کر اسے رنگ بیک کر لے گا۔
مگر فون تھا کہ بند ہی نہیں ہو رہا تھا کہ خیر اپنی مصروفیت میں سے زبیر نے چند دقیقے فروگزاشت کئے کاشف کے لئے
جیسے ہی زبیر نے فون ریسیو کیا کاشف کی آواز آئی:
ابے موٹے فون کیوں نہیں اٹھا رہا تھا۔
یار میں تجھے رنگ بیک کرنے ہی والا تھا کہ ذرا کام میں پھنس گیا تھا۔ اب بتا سب سیٹ ہے۔
کوئی مسئلہ۔۔۔؟
جی مسئلہ ہے والد کی طبعیت رات کو بگڑ گئی تھی میں انہیں اسپتال لے آیا تھا اسپتال والوں نے داخل کر لیا ہے۔ کاشف نے جواب دیا۔
تو فکر نہیں کر اللّه خیر کرے گا۔
مجھے اسپتال کاایڈریس سینڈ کر دے میں فارغ ہو کر آتا ہوں۔
اچھا میں انتظار کروں گا . . .
کاشف نے یہ کہہ کے فون بند کردیا۔
اب زبیر نے کام میں سرعت دکھائی اور باقی کام سارا کام اپنے ملازمین کو سمجھا کر اسپتال کی جانب موٹر سائیکل دوڑآئی۔
بهاگم بھاگ کاشف کے پاس پہنچا۔
سب ٹھیک ہے طبعیت کیسی ہے اب والد کی؟ زبیر نے دريافت کیا۔
اللّه کا شکر ہے۔ ابھی کافی بہتر ہے۔
رات میں کافی بگڑ گئی تھی۔
کاشف نے جواب دیا۔
ہوا کیا تھا ؟ زبیر نے پوچھا
یار تجھے تو پتا ہی ہے والد دل کے مریض تو ہیں ہی عرصے سے اب یہ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ گردے بھی ٹھیک نہیں ہیں۔ کچھ ٹیسٹ کی رپورٹ آنا ابھی باقی ہیں۔ باقی دیکھو سب اللّه کے ہاتھ ہے۔
ابھی کاشف یہ جواب دے کہ خاموش ہی ہوا تھا کہ وارڈ سے ڈاکٹر گبھرائی ہوئی آئی پیشنٹ نمبر 507 کے ساتھ کون ہے۔ دوسری بار پھر بلند آواز میں گویا ہوئی۔ پیشنٹ نمبر 507 کیساتھ کون ہے۔ یكایک کاشف کو یاد آیا یہ نمبر تو اس کے والد کے بیڈ کا ہی ہے۔
جی جی 507 سیمی پرائیویٹ وارڈ۔ میں ہوں اُن کے ساتھ کاشف یہ بولتا ہوا اگے بڑھا اور زبیر اسکے پیچھے پیچھے ہولیا۔
یہ کچھ دوائیاں اور انجیکشن ہیں یہ ہمارے پاس شارٹ ہو گئے ہیں۔ آپ بازار سے فوراً لے آئیں آپ کے مریض کو فوری ضرورت ہے۔
کیا ہوا ہے، کیا میں مل سکتا ہوں؟
کاشف نے دواؤں کا پرچہ ہاتھ میں پکڑتے ہوئے پوچھا
نہیں آپ ابھی نہیں مل سکتے ہم انہیں وارڈ سے ICU شفٹ کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اُن کی حالت بہتر نہیں
آپ بس جلد از جلد یہ میڈیسن لا کے دیں۔
ڈاکٹر نے پھر تاکید کی اور اندر چلی گئی۔
اب کاشف کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ بالکل سناٹے میں آ گیا۔
زبیر نے آ کے اسکے کندھے تھپتپائے۔ اسے حوصلہ دیا۔
فکر مت کر یار سب سیٹ ہو جاۓ گا۔ لا یہ دوائیوں کا پرچہ مجھے دے میں دیکھتا ہوں۔
اور کاشف کے ہاتھ سے پرچہ لے کر ادویات کی تلاش میں نکل پڑا۔
پہلے قریب کے میڈیکل سٹور پر پوچھا
جب وہاں نہ ملی تو صدر کی طرف کی راہ لی وہاں سے دوائیں لانے میں گھنٹہ یا شائد ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔
تلاش بسیار کے بعد زبیر جب دوائیں لے کر اسپتال پہنچا تو کاشف کو وہاں نہ پایا جہاں چھوڑ کر گیا تھا۔
فوراً جیب سے موبائل فون نکال کر کاشف کو کال ملائی۔ کاشف نے چھٹی بیل پر فون اٹھایا۔
جی بھائی جی کہاں ہو
زبیر نے سوال کیا۔
بھائی نیچے ہوں۔ گراؤنڈ فلور پر تم وہیں آجاؤ۔
زبیر کاشف کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا
کاشف اداس بیٹھا تھا۔
یہ لو دوائیں مل گئیں۔ زبیر نے دوائیں کاشف کو دیں۔
ہاں یار تو یہیں رک میں دوائیں اندر دے کر آتا ہوں
یہ کہہ کر کاشف آئی سی یو کی جانب چلا گیا۔
اور زبیر سستانے کو وہیں بیٹھ گیا۔
ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ کاشف واپس آیا
اس بار اس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔
کیا ہوا سب خیر ہے . . . زبیر نے دريافت کیا
نہیں یار ڈاکٹر کہہ رہے ہیں حالت ابھی بہتر نہیں ہے دعا کریں۔ کاشف نے آکے خبر دی۔
دونوں دوست وہیں بیٹھ گئے۔ زبیر کاشف کو تسلی دیتا رہا اگر اللّه نے چاہا تو تمہارے والد جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔
آئی سی یو کے سامنے پڑ ی کرسیوں پر ہی دونوں بیٹھ کر اچھی خبر کا انتظار کرنے لگے۔
مگر شام سے رات ہو گئی جب بھی ڈاکٹر باہر آتے کاشف بھاگ کر اپنے والد کے بارے میں پوچھتا مگر ڈاکٹر صرف دعا کا ہی کہتے۔
اسی طرح رات کا ایک بج گیا
تم نے کچھ کھایا نہیں کچھ لے کر آؤں کینٹین سے زبیر نے کاشف سے پوچھا۔
نہیں یار کینٹین سے اگر چائے ملے تو لے آ بس
کاشف نے جواب دیا۔
اچھا میں دیکھتا ہوں۔
یہ کہہ کر زبیر چائے لانے چلا گیا اور کاشف وہیں بیٹھا رہا۔
تھوڑی دیر کے بعد زبیر جب چائے لے کر لوٹا تو کاشف فون پر رو رو کر کسی سے بات کر رہا تھا۔
کیا ہوا سب خیر ہے۔ زبیر نے پوچھا
ابھی ابھی ڈاکٹر آیا تھا بتا کے گیا ہے والد صاحب انتقال کر گئے ہیں۔ میں گھر میں اطلاع دے رہا تھا کاشف نے روتے روتے زبیر کو بتایا۔
زبیر نے گلے لگا کے تسلی دی
جو اللّه کو منظور میرے بھائی ہم تم اس میں کر بھی کیا سکتے ہیں۔
اسپتال کے معاملات نبٹاتےنبٹاتےرات کے تین بج گئے۔
لاش لے کر گھر پہنچے تو کہرام مچ گیا۔ سب ہی لوگ شدت غم سے نڈھال تھے۔
صبح سات بجے سے ہی دوست رشتہ دار آنا شروع ہو گئے۔ زبیر کاشف کی دل جوئی کے لئے اس کے ساتھ ساتھ ہی رہا۔
نماز جنازہ کا وقت ظہر کی نماز کے بعد کا طے پایا۔
یہ دونوں دوست گھر کے باہر ہی بیٹھے تھے کہ
اتنے میں گھر میں سے ایک بچے نے آکر کہا
کاشف بھائی گھر میں پانی نہیں ہے۔ پانی کا کچھ انتظام کر دیں۔
کاشف زبیر مخاطب ہوا۔
ٹینکر والے کا نمبر ہے تیرے پاس تو ابھی ٹینکر ہی ڈلوا دے اتنی جلدی اور تو کچھ ممکن نہیں
اچھا میں فون کرتا ہوں۔ زبیر نے کہا
فون پر بات کرنے کے بعد زبیر نے کاشف کو بتایا ابھی تھوڑی دیر میں ٹینکر آ جاتا ہے میں نے بات کر لی ہے۔
یہ سننے کے بعد کاشف تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوا اور پھر زبیر سے گویا ہوا
دیکھ یار لوگوں کے سر سے جب باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے تو وہ غریب ہو جاتے ہیں اور ہمارے والد صاحب جاتے جاتے بھی ہمیں امیر کر گئے۔ اب زبیر اور کاشف کے ضبط کے بندهن ٹوٹ گئے اور وہ ایک دوسرے کے گلے لگ کر ڈھاریں مار کر رونے لگے