Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
میں بیمار ہوگیا، میرے گھروالوں نے بہت محبت اور لگن سے میری تیمارداری کی، مرض کی نوعیت کے باعث بہت کم محسوس ہونے دیا کہ میں اچھوت ہوں، کیونکہ اس کا تقاضا ہے ک ایک دوسرے سے دور رہنا اور اپنی ہر شے الگ تھلگ رکھنا ہوتی ہے۔ ڈھائی ہفتے کے اس عرصے میں میری اہلیہ اور بچوں نے کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ میں انہیں پریشان کررہا ہوں۔
الگ تھلگ رہنے کا تجربہ تھوڑا مختلف تھا، خیر یہ وقت بھی گزرگیا۔ میں اہلخانہ کا تہہ دل سے مشکور تھا، انہوں نے کس قدر میری ضرورتوں کا دھیان رکھا، ایسے میں کہ جب ہم چاہ کر بھی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاسکتے۔ دوسرے خود ان کے لیے بھی کسی حد تک خطرہ موجود ہوتا ہے۔
لیکن سارے عرصے میں اس ذات کا کرم شامل حال رہا، پریشانی میں رجوع کیا، اُس نے خوش ہوکر خیرمقدم کیا، ہم نے دعا کی، اُس نے شفا دی۔ ظاہر ہے ہمارا تعلق ہی ایسا ہے، تکلیف میں دیکھ کر اُسے اچھا نہیں لگتا، اکثر ہم جیسے رابطہ بھی نہیں کرتے، کیونکہ دھیان اس کی طرف نہیں جاتا، کسی اور جانب نگاہیں ہوتی ہیں۔
مرض انسان کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، ایک طبی نوعیت کے ہوتے ہیں، جن کا موسموں اور وقت کے ساتھ آنا جانا لگا رہتا ہے، دوسرے ذہنی اور دماغ کے فطور کی صورت میں ہوتے ہیں، جنہیں کئی بار اندر ہی اندر پالتے رہتے ہیں، چونکہ انہیں کسی طبیب کو دکھایا نہیں جاتا، اس لئے وہ روگ بڑھتے جاتے ہیں۔ ہمارے مزاج اور طبیعت کا جزو لاینفک بنتے جاتے ہیں۔ ہیماری میں دوا اور پھر دعا کا سہارا تلاش کیا جاتا ہے، صحت یاب ہونے کے بعد بھول جاتے ہیں، کہ دوا اور دعا کے لئے رابطہ کیا تھا، طبیب اور سب سے بڑھ کر رب تعالیٰ کی ذات کا شکریہ ادا کرنا بھی بنتا ہے، یہ عمل بھی جیسے انسانی زندگی کے معمول کا ایک حصہ ہی ہوتا ہے، زیادہ تر یاد رکھنے اور شکرادا کرنے کے تردد میں نہیں پڑتے۔ ایسا نہیں بہت سے ہیں، جنہیں کبھی نہیں بھولتا کہ وہ جب تکلیف میں تھے، تو اس ذات سے رابطے میں تھے۔
اس صرف اتنا ہی بندے سے تقاضا ہوتا ہے کہ اگر تو دوسرے بندے سے مانگتا ہے، معافی طلب کرتا ہے اور کام ہو جانے پر شکریہ ادار کرتا ہے، ایک بار یہی تینوں میرے ساتھ بھی کرکے دیکھ۔ میں تجھے مایوس نہیں لوٹاوں گا۔
میرے بندے تو کیوں بھول جاتا ہے کہ میں تیرا خالق ہوں، مجھے تیری ضرورتوں اور تکلیف کا علم ہوتا ہے، دراصل انسان کے اندر پیدا ہونے والا روگ اسے خودسر بنا دیتا ہے، وہ اس گمان میں زندگی گزراتا ہے کہ میں اپنے ہر طرح کے معاملات چلانے پر مکمل طور قادر ہوں، بس یہیں پر تھوڑی سی غلطی کر جاتا ہے۔
جب ہم کسی مسئلے پر جاننے والے سے رابطہ کرتے ہیں، اسے اپنی مصیبت سے آگاہ کرتے ہیں، اس کے حل کے لیے تبادلہ خیال کرتے ہیں، اس کی راہیں نکالنے کی تدابیر سوچتے ہیں۔ اسی عمل کے دوران ساتھ میں اس ذات سے پرانا تعلق بحال کرلیا جائے، اسے بھی اپنے رشتے کا واسطہ دے دیا جائے تو ایسا ناممکن ہے کہ وہ سنے گا نہیں۔ وہ سنتا ہے اور حل بھی نکالتا ہے، یہ اس کی حکمت ہے کہ کب کیا اور کیسے کرنا ہے۔
اپنی بیماری کے بعد اگر میں اپنے اہل خانہ سے اظہار تشکر کرتا ہوں، میرے لئے رب کی ذات کا بھی شکر گزار ہونا واجب ہے، جس نے کبھی میری ضرورتوں، مصائب اور تکالیف کو نظرانداز نہیں کیا۔ ہمیشہ میرا خیال رکھا۔
میں اتنا ہی کہوں گا،”آپ کی بے حد مہربانی ہے کہ اپنے بندوں پر شفقت فرماتے ہیں، وہ چاہے آپ کو یاد رکھیں یا بھولے رہیں، آپ نے کبھی اس کا گلہ شکوہ نہیں کیا”۔
“یہ بندہ بھٹکارہتا ہے، اُسے یہ آزمائشیں محض یاد دہانی کے لئے آتی ہے کہ اپنے خالق ، اپنے رب کو بھی پکارتے رکھو، اُس سے بھی مانگ لیا کرو، وہ بڑا غفورورحیم ہے”۔
میں بیمار ہوگیا، میرے گھروالوں نے بہت محبت اور لگن سے میری تیمارداری کی، مرض کی نوعیت کے باعث بہت کم محسوس ہونے دیا کہ میں اچھوت ہوں، کیونکہ اس کا تقاضا ہے ک ایک دوسرے سے دور رہنا اور اپنی ہر شے الگ تھلگ رکھنا ہوتی ہے۔ ڈھائی ہفتے کے اس عرصے میں میری اہلیہ اور بچوں نے کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ میں انہیں پریشان کررہا ہوں۔
الگ تھلگ رہنے کا تجربہ تھوڑا مختلف تھا، خیر یہ وقت بھی گزرگیا۔ میں اہلخانہ کا تہہ دل سے مشکور تھا، انہوں نے کس قدر میری ضرورتوں کا دھیان رکھا، ایسے میں کہ جب ہم چاہ کر بھی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاسکتے۔ دوسرے خود ان کے لیے بھی کسی حد تک خطرہ موجود ہوتا ہے۔
لیکن سارے عرصے میں اس ذات کا کرم شامل حال رہا، پریشانی میں رجوع کیا، اُس نے خوش ہوکر خیرمقدم کیا، ہم نے دعا کی، اُس نے شفا دی۔ ظاہر ہے ہمارا تعلق ہی ایسا ہے، تکلیف میں دیکھ کر اُسے اچھا نہیں لگتا، اکثر ہم جیسے رابطہ بھی نہیں کرتے، کیونکہ دھیان اس کی طرف نہیں جاتا، کسی اور جانب نگاہیں ہوتی ہیں۔
مرض انسان کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، ایک طبی نوعیت کے ہوتے ہیں، جن کا موسموں اور وقت کے ساتھ آنا جانا لگا رہتا ہے، دوسرے ذہنی اور دماغ کے فطور کی صورت میں ہوتے ہیں، جنہیں کئی بار اندر ہی اندر پالتے رہتے ہیں، چونکہ انہیں کسی طبیب کو دکھایا نہیں جاتا، اس لئے وہ روگ بڑھتے جاتے ہیں۔ ہمارے مزاج اور طبیعت کا جزو لاینفک بنتے جاتے ہیں۔ ہیماری میں دوا اور پھر دعا کا سہارا تلاش کیا جاتا ہے، صحت یاب ہونے کے بعد بھول جاتے ہیں، کہ دوا اور دعا کے لئے رابطہ کیا تھا، طبیب اور سب سے بڑھ کر رب تعالیٰ کی ذات کا شکریہ ادا کرنا بھی بنتا ہے، یہ عمل بھی جیسے انسانی زندگی کے معمول کا ایک حصہ ہی ہوتا ہے، زیادہ تر یاد رکھنے اور شکرادا کرنے کے تردد میں نہیں پڑتے۔ ایسا نہیں بہت سے ہیں، جنہیں کبھی نہیں بھولتا کہ وہ جب تکلیف میں تھے، تو اس ذات سے رابطے میں تھے۔
اس صرف اتنا ہی بندے سے تقاضا ہوتا ہے کہ اگر تو دوسرے بندے سے مانگتا ہے، معافی طلب کرتا ہے اور کام ہو جانے پر شکریہ ادار کرتا ہے، ایک بار یہی تینوں میرے ساتھ بھی کرکے دیکھ۔ میں تجھے مایوس نہیں لوٹاوں گا۔
میرے بندے تو کیوں بھول جاتا ہے کہ میں تیرا خالق ہوں، مجھے تیری ضرورتوں اور تکلیف کا علم ہوتا ہے، دراصل انسان کے اندر پیدا ہونے والا روگ اسے خودسر بنا دیتا ہے، وہ اس گمان میں زندگی گزراتا ہے کہ میں اپنے ہر طرح کے معاملات چلانے پر مکمل طور قادر ہوں، بس یہیں پر تھوڑی سی غلطی کر جاتا ہے۔
جب ہم کسی مسئلے پر جاننے والے سے رابطہ کرتے ہیں، اسے اپنی مصیبت سے آگاہ کرتے ہیں، اس کے حل کے لیے تبادلہ خیال کرتے ہیں، اس کی راہیں نکالنے کی تدابیر سوچتے ہیں۔ اسی عمل کے دوران ساتھ میں اس ذات سے پرانا تعلق بحال کرلیا جائے، اسے بھی اپنے رشتے کا واسطہ دے دیا جائے تو ایسا ناممکن ہے کہ وہ سنے گا نہیں۔ وہ سنتا ہے اور حل بھی نکالتا ہے، یہ اس کی حکمت ہے کہ کب کیا اور کیسے کرنا ہے۔
اپنی بیماری کے بعد اگر میں اپنے اہل خانہ سے اظہار تشکر کرتا ہوں، میرے لئے رب کی ذات کا بھی شکر گزار ہونا واجب ہے، جس نے کبھی میری ضرورتوں، مصائب اور تکالیف کو نظرانداز نہیں کیا۔ ہمیشہ میرا خیال رکھا۔
میں اتنا ہی کہوں گا،”آپ کی بے حد مہربانی ہے کہ اپنے بندوں پر شفقت فرماتے ہیں، وہ چاہے آپ کو یاد رکھیں یا بھولے رہیں، آپ نے کبھی اس کا گلہ شکوہ نہیں کیا”۔
“یہ بندہ بھٹکارہتا ہے، اُسے یہ آزمائشیں محض یاد دہانی کے لئے آتی ہے کہ اپنے خالق ، اپنے رب کو بھی پکارتے رکھو، اُس سے بھی مانگ لیا کرو، وہ بڑا غفورورحیم ہے”۔