میں سمن شاہ کے ساتھ ان کی تیز رفتار ڈرائیونگ میں رات گئے ان کے دولت کدے پر پہنچی۔ تھکن بہت زیادہ ہوگئی تھی۔ گاڑی مکان کے پارکنگ احاطے میں داخل ہوئی تو ایک غیر پاکستانی لڑکے نے دروازہ کھول کر ہمیں فرنچ میں خوش آمدید کہا۔ گاڑی پارک کر کے اترتے ہی سمن نے اس لڑکے کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے فرانسسی زبان میں کچھ بات چیت کی ۔ وہ لڑکا میرا بورڈ کیس لے کر مکان کے اندر بالائی حصے کی جانب چلا گیا۔ ایک خوبصورت باغیچے میں گھرا کلاسیکل فرنچ ہاؤس سمن شاہ کی رہائش گاہ تھی۔ ہم مکان کے نچلے حصے میں آتش دان کے قریب لگے صوفے پر بیٹھ گئے۔ لیونگ روم کے اس حصے میں ایک بڑی سی کتابوں کی شیلف میں کئی یورپی اور پاکستانی و ہندوستانی معروف شعراء و ادباء کی تصانیف سجی ہوئی تھیں۔ آتش دان کے اوپر سمن شاہ اور ان کے شوہر کی بڑی سی تصویر آویزاں تھی۔ مستطیل شکل میں یہ کمرہ آگے جاکر پائیں باغ میں کُھل رہا تھا، جہاں سے گلاب کی جھاڑیاں شیشے سے جھانک کر ایک خوبصورت منظر پیش کر رہی تھیں۔
کمرے کے ساتھ ملحقہ ڈائینگ ہال میں شیشے کی میز کے سامنے بڑا سا آئینہ برتنوں کے شو کیس کے اوپر لگا ہوا تھا۔ کمرے کو قرینے سے سمندری سبز رنگ سے سجایا ہوا تھا جو کہ سمن شاہ کے اعلیٰ ذوق کی تصویر ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کی شاعرانہ مزاج کا بھی مظہر تھا۔ ابھی ہم کچھ دیر ہی بیٹھے تھے کہ وہی لڑکا ٹرے میں ہمارے لیے کافی سجائے آگیا۔ سمن شاہ نے اب کی بار تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ لڑکا فرنچ یا مشرقی یورپ نژاد لگ رہا تھا۔ جب کہ آتش دان کے اوپر لگی سمن شاہ کے شوہر کی تصویر بتا رہی تھی کہ وہ خالصتاً پاکستانی ہیں۔ میں نے مسکرا کر اُن کے بیٹے کو دعا دی ۔ سمن شاہ نے بیٹے کا نام بھی یورپی بتایا تو یہی سمجھی کہ سمن شاہ کی فرانسسیوں سے کوئی سسرالی رشتہ داری بھی رہی ہوگی۔ پھر ہم جرمنی فرانس اور دیگر یورپ کے ممالک میں اردو شاعری کے فروغ اور کوششوں پر بات چیت کرتے رہے۔ اس گفتگو کے دوران مجھے اونگھ بھی آتی رہی لیکن سمن شاہ کافی پی کر ہشاش بشاش ہوچکی تھیں۔ شاید جب انہیں اندازہ ہوا کہ میری آنکھیں نیند سے بوجھل ہورہی ہیں تو وہ مجھے مکان کی بالائی منزل پر ایک کمرے کی جانب رہنمائی کرتے ہوئے بولیں
“ آپ یہاں سوئیں گی ۔۔۔ یہ میرا کمرہ ہے ۔۔۔ میرے شوہر آج کل پاکستان میں ہیں اور میں اپنی بیٹی کے کمرے کے برابر والے کمرے میں ہوں۔ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو دستک دے کر بلا تکلف کمرے میں آسکتی ہیں ۔ سمن کا کمرہ لمبی راہداری کی درمیانی جگہ پر تھا دائیں جانب ان کی بیٹی کا کمرہ تھا جس طرف اشارہ کرکے انہوں نے مجھے اپنی شب گزاری کی عارضی قیام گاہ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ دوسری جانب ایک بڑا سا واش روم اور ایک اور کمرا تھا اور شاید اس کمرے کے ساتھ ایک اور کمرہ۔ بہر حال ! میں نیند میں ڈوبی جارہی تھی۔صاف ستھرا پلنگ دیکھتے ہی اپنے مشاہدے کی کھڑکیاں بند کیں اور بستر پر دراز ہوگئی۔ فجر کر وقت حسب معمول آنکھ کھل گئی۔ اب آہستہ آہستہ کمرے میں روشنی پھیلنے کو تھی۔ باہر نکل کر واش روم میں جاکر وضو کیا اور کمرے میں جائے نماز تلاش کی ناکامی ہونے پر اپنی ایک شال بورڈ کیس سے نکال کر بچھائی اور موبائل فون سے قبلہ کا تعین کر کے نماز ادا کی ۔ نماز کے بعد کمرے کا جائزہ لیا ۔ یہ کلاسیکل انداز کا چھوٹا سا سونے کا کمرہ تھا جہاں دوہرا بستر بھی اپنے مخصوص سائز کا تھا۔ اردو گرد چھوٹی الماریاں اور شیلف لگے ہوئے تھے جن میں میک اپ ، زیورات اور دیگر بناؤ سنگھار کی چیزیں رکھی تھیں ۔
ایک طرف ٹیبل لیمپ ٹیبل کے بغیر زمین پر رکھا تھا اور چھوٹی سی میز پر کاغذ قلم اور فرانسیسی زبان میں کتاب رکھی ہوئی تھی۔ میں نے بھی اپنی یادوں کی البم کھولی اور یاد کرنے لگی کہ پچھلی بار جب میں اور میری دونوں بیٹیاں پیرس گھومنے آئیں تھیں تو اس وقت مایا کی عمر سات سال تھی جبکہ سارہ بارہ سال کی تھی۔ میں نے شہر کے وسط میں مین سٹی اسٹیشن کے کے قریب ایک ہوٹل انٹر نیٹ سے بک کر لیا تھا۔ جب ہم اس ہوٹل پہنچے تو ہوٹل کے منتظم نے کہا کہ کمرہ ڈبل بیڈ کے ساتھ ہے اور ہم تین لوگ ہیں اس لیے تین افراد کا کرایہ ادا کرنا ہوگا لیکن ایکسٹرا بیڈ ان کے پاس لگانے کے لیے نہیں ہے۔ پیرس میں چونکہ ہوٹل بہت مہنگے ہیں اور گرمیوں کے موسم میں ہوٹلز اوور بک بھی ہوتے ہیں لہذا ہم نے ہوٹل بدلنے کے بجائے اسی ڈبل بیڈ میں رات گزارنے کو ترجیح دی ۔ فرانس کا ڈبل بیڈ جرمنی کے سنگل بیڈ کے سائز کا ہوتا ہے۔ پتہ نہیں یہ اس ملک میں دو افراد کے مابین محبت بڑھانے کا نسخہ ہے یا لکڑی و گدے کے کام میں بچت کا لیکن میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ اتنے لمبے تڑنگے فرانسسی اس مختصر دوہرے بستر میں کیسے اکہرے ہوکر رات گزارتے ہونگے۔ پہلی رات مایا بیگم درمیان میں سوئیں اور سارہ اور میں ان کے اطراف میں ، ہم پہلی رات اُن کی لاتیں کھاتے رہے جو وہ نیند میں بستر پر گھڑی کی سوئی کی طرح گھوم گھوم کر چلاتی رہیں اور ہر پندرہ منٹ پر مجھے اور سارہ کو دھمکی دینے پر مجبور کرتی رہیں کہ
“ مایا ! اب تم نے لات ماری تو ہم سے برا کوئی نہیں ہوگا”
لیکن مایا کو بخوبی علم تھا کہ ہم اپنی چھوٹی شہزادی کے ساتھ برے ہو ہی نہیں سکتے اس لیے وہ جی بھر کر رات بھر ہمیں لاتیں مار مار کر خراٹے لیتی رہیں۔
اگلے دن ہم نے ہوٹل بدلنے کا سوچا اور کئی جگہ فون بھی کئے مگر ناکام رہے، سارہ نے اس کا ایک حل سوچا اور مایا کو دھمکایا کہ اگر تم نے آج رات ہمیں اس تنگ بستر پر مذید تنگ کیا تو تمہیں زمین پر سونا ہوگا اور یہ بات تم بچوں کی کہانیوں میں پڑھ چکی ہو کہ پیرس میں چوہے بہت ہوتے ہیں۔ سارہ کی دھمکی کام آئی وہ آرام سے اگلی رات سوئی لیکن مایا چوہوں کے ڈر سے مجھ سے لپٹ کر سوتی رہی اور میں ۔۔۔ سوتی جاگتی فرانسسیوں کو اتنے چھوٹے ڈبل بیڈ تیار کرنے پر برا بھلا کہتی رہی۔