Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اماں کہیں سے دو پودے ایک شہتوت کا اور دوسرا بکاین کا لے آئیں اور پھر ایک ماہر انجینئر کی طرح پورے صحن کا نصف نکالا اور ایک پودا زمین میں دبا دیا دوسرا پودا پہلے پودے سے تقریباً پانچ گز دور لگا دیا پودوں کے اردگرد چھوٹی چھوٹی کیاریاں بھی بنا دیں، ہمیں بہت وٹ چڑھا کیونکہ ایک پودا اس جگہ لگا دیا جہاں ہمارا پاؤ بھر سفید رنگ کا خندا.. کتا بندھا رہتا تھا۔
پودے کی وجہ سے کتے کو صحن میں در بدر ہونا پڑا کبھی اس کونے میں تو کبھی اس کونے میں نوری کو ہمارے کتے سے بہت چڑ تھی کتے کے ساتھ ہمارے راز ونیاز اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے سو وہ اماں سے کہا کرتی ماسی کیسا زمانہ آگیا ہے لوگ کتوں کے ساتھ کتے ہوگئے ہیں۔ اماں بچاری اس کی باتوں میں آجاتیں اور بات اس بات پر ختم ہوتی ہے کہ کتا بھی کوئی گھر میں رکھنے کی شے ہے خدا جانے یہ اس .. لودھ.. سے کیا نکالتا ہے۔
ہم نے بھی دل میں ٹھان لی کہ ان پودوں کا کریا کرم کرکے دم لیں گے سو اماں سے آنکھ بچا کے پودوں کو اتنا پانی لگا دیتے کے بچارے ٹنڈ منڈ سے ہوجاتے اماں ناک پہ انگلی رکھ کے سوچتیں کہ اللہ جانے ان پودوں پہ کیا خدا کی مار پڑتی جارہی ہے مگر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے والا معاملہ یعنی نوری اماں کو بتا دیتی کہ آپ جونہی تھوڑی دیر کیلے ادھر ادھر ہوتی ہیں یہ.. سوبھا.. پودوں کو پانی پلا پلا کے ان کو نکو نک کر دیتا ہے تو پھر پودے سڑیں نہیں تو کیا کریں۔ ماسی۔ آپ ایسا کرو اس. خندے. کو گھر سے نکلتا کرو اماں پوچھتی پودے پانی اور کتے کا آپس میں کیا تعلق؟ جواباً نوری آلتی پالتی مار کے اماں کے گوڈے کے ساتھ گوڈا ملا کے بیٹھ جاتی اور پھر ہمارے کتے کے بارے میں ایسی ایسی بدخوییاں کرتی کہ توبہ۔ طرح طرح کے مصالحے لگا کے اماں کا کتے سے دل کھٹہ کر دیتی مثلاً یہ کتے کو لایف بوائے صابن سے نہلاتا ہے پھر خود نہاتا ہے پھر اسی صابن سے آپ لوگ نہاتے ہیں مثلاً یہ کتے کی آنکھوں میں سرمہ ڈالتا ہے آپ بھی رات کو اسی سرمے دانی سے سرمہ ڈالتی ہیں مثلاً جس گنگھی سے گھر والے بال سنوارتے ہیں یہ اسی گھنگھی سے کتے کے بال سیدھے کرتا ہے جس منگرے سے خود پانی پیتا ہے اسی سے کتے کو پلاتا ہے اور ہاں ماسی میرا نام نہ آئے جس کنگھی سے آپ اپنے میرے اور خود اس کے سر سے جوئیں نکالتی ہیں یہ اس گھنگی سے کتے کی بھی جوئیں نکالتا ہے اس طرح کے مزید مصالحے لگا کے اس نے اماں کے دل میں کتے کیلئے ناپسندیدگی پیدا کر دی۔ بچارے کی شامت اے رہتی وہاں باندھو یہاں نہ باندھو یہ کرو وہ کرو مگر ہم نے ان مشکل حالات میں بھی کتے کو چھاتی سے لگائے رکھا ۔کتا خاصا چھیل چھبیلا نکلا قد تو وہیں رہا مگر لچھن بڑھ گئے محلے میں چرچے ہونے لگے کہ بھائی کتا ہو تو اافضل کے کتے جیسا بس پھر بچارے کو نظر لگ گئی…………. نوری کے ابا کو سور کے شکار کا شوق تھا ان کے آنگن میں ہر وقت تین سے چار تازی کتے بندھے رہتے ایک. ویہرا.. بھی تھا مگر نوری ان کی ایسی دیکھ بال کرتی کہ ابا کی کیا کرتی ہوگی دشمنی تھی تو ہمارے. خندے کے ساتھ ایک دن سبھی شکاری اکٹھے ہوئے تو معلوم ہوا سؤر کو جھانسہ دینے کیلئے خرگوش کا بندوبست نہیں ہوسکا بس پھر کیا تھا کم بخت نوری نے ابا کا دھیان ہمارے پاو بھر کے خرگوش نما خندے کی طرف پڑوا دیا اور پھر مجبوراً بغرض جھانسہ شکار ہمیں اپنا خندہ دینا پڑا کیونکہ آگے سے مانگنے والا جو نوری کا پیو تھا……. کم بختوں نے جنگل میں ہمارے خندے کو ابھی بطور جھانسہ چھوڑا ہی تھا کہ سور کا نوالہ بن گیا شکاری کتے کم بخت ہانپتے کانپتے رہ گئے مگر سؤر یہ جا وہ جا…… مگر ہمارے خندے کی نوری کے ابا کے کتوں کو وہ بدعا لگی کہ لگی کہ ہفتے بھر میں پیچش کی ایسی بیماری لگی کہ آگے پیچھے مرتے گیے ہمارے کندیاں کے جنگل کو ایسی بدعا لگی کہ الحمدللہ عمران خان کے لگائے ہوئے پودے بھی کھڑے کھڑے سوکھ گئے ہیں۔ رہے جنگل میں سؤر تو ہمارے چینی بھائیوں نے جنگل کے سوئر تو سوئر گیدڑ تک بھون کے کھا لیے ہیں
اماں کہیں سے دو پودے ایک شہتوت کا اور دوسرا بکاین کا لے آئیں اور پھر ایک ماہر انجینئر کی طرح پورے صحن کا نصف نکالا اور ایک پودا زمین میں دبا دیا دوسرا پودا پہلے پودے سے تقریباً پانچ گز دور لگا دیا پودوں کے اردگرد چھوٹی چھوٹی کیاریاں بھی بنا دیں، ہمیں بہت وٹ چڑھا کیونکہ ایک پودا اس جگہ لگا دیا جہاں ہمارا پاؤ بھر سفید رنگ کا خندا.. کتا بندھا رہتا تھا۔
پودے کی وجہ سے کتے کو صحن میں در بدر ہونا پڑا کبھی اس کونے میں تو کبھی اس کونے میں نوری کو ہمارے کتے سے بہت چڑ تھی کتے کے ساتھ ہمارے راز ونیاز اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے سو وہ اماں سے کہا کرتی ماسی کیسا زمانہ آگیا ہے لوگ کتوں کے ساتھ کتے ہوگئے ہیں۔ اماں بچاری اس کی باتوں میں آجاتیں اور بات اس بات پر ختم ہوتی ہے کہ کتا بھی کوئی گھر میں رکھنے کی شے ہے خدا جانے یہ اس .. لودھ.. سے کیا نکالتا ہے۔
ہم نے بھی دل میں ٹھان لی کہ ان پودوں کا کریا کرم کرکے دم لیں گے سو اماں سے آنکھ بچا کے پودوں کو اتنا پانی لگا دیتے کے بچارے ٹنڈ منڈ سے ہوجاتے اماں ناک پہ انگلی رکھ کے سوچتیں کہ اللہ جانے ان پودوں پہ کیا خدا کی مار پڑتی جارہی ہے مگر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے والا معاملہ یعنی نوری اماں کو بتا دیتی کہ آپ جونہی تھوڑی دیر کیلے ادھر ادھر ہوتی ہیں یہ.. سوبھا.. پودوں کو پانی پلا پلا کے ان کو نکو نک کر دیتا ہے تو پھر پودے سڑیں نہیں تو کیا کریں۔ ماسی۔ آپ ایسا کرو اس. خندے. کو گھر سے نکلتا کرو اماں پوچھتی پودے پانی اور کتے کا آپس میں کیا تعلق؟ جواباً نوری آلتی پالتی مار کے اماں کے گوڈے کے ساتھ گوڈا ملا کے بیٹھ جاتی اور پھر ہمارے کتے کے بارے میں ایسی ایسی بدخوییاں کرتی کہ توبہ۔ طرح طرح کے مصالحے لگا کے اماں کا کتے سے دل کھٹہ کر دیتی مثلاً یہ کتے کو لایف بوائے صابن سے نہلاتا ہے پھر خود نہاتا ہے پھر اسی صابن سے آپ لوگ نہاتے ہیں مثلاً یہ کتے کی آنکھوں میں سرمہ ڈالتا ہے آپ بھی رات کو اسی سرمے دانی سے سرمہ ڈالتی ہیں مثلاً جس گنگھی سے گھر والے بال سنوارتے ہیں یہ اسی گھنگھی سے کتے کے بال سیدھے کرتا ہے جس منگرے سے خود پانی پیتا ہے اسی سے کتے کو پلاتا ہے اور ہاں ماسی میرا نام نہ آئے جس کنگھی سے آپ اپنے میرے اور خود اس کے سر سے جوئیں نکالتی ہیں یہ اس گھنگی سے کتے کی بھی جوئیں نکالتا ہے اس طرح کے مزید مصالحے لگا کے اس نے اماں کے دل میں کتے کیلئے ناپسندیدگی پیدا کر دی۔ بچارے کی شامت اے رہتی وہاں باندھو یہاں نہ باندھو یہ کرو وہ کرو مگر ہم نے ان مشکل حالات میں بھی کتے کو چھاتی سے لگائے رکھا ۔کتا خاصا چھیل چھبیلا نکلا قد تو وہیں رہا مگر لچھن بڑھ گئے محلے میں چرچے ہونے لگے کہ بھائی کتا ہو تو اافضل کے کتے جیسا بس پھر بچارے کو نظر لگ گئی…………. نوری کے ابا کو سور کے شکار کا شوق تھا ان کے آنگن میں ہر وقت تین سے چار تازی کتے بندھے رہتے ایک. ویہرا.. بھی تھا مگر نوری ان کی ایسی دیکھ بال کرتی کہ ابا کی کیا کرتی ہوگی دشمنی تھی تو ہمارے. خندے کے ساتھ ایک دن سبھی شکاری اکٹھے ہوئے تو معلوم ہوا سؤر کو جھانسہ دینے کیلئے خرگوش کا بندوبست نہیں ہوسکا بس پھر کیا تھا کم بخت نوری نے ابا کا دھیان ہمارے پاو بھر کے خرگوش نما خندے کی طرف پڑوا دیا اور پھر مجبوراً بغرض جھانسہ شکار ہمیں اپنا خندہ دینا پڑا کیونکہ آگے سے مانگنے والا جو نوری کا پیو تھا……. کم بختوں نے جنگل میں ہمارے خندے کو ابھی بطور جھانسہ چھوڑا ہی تھا کہ سور کا نوالہ بن گیا شکاری کتے کم بخت ہانپتے کانپتے رہ گئے مگر سؤر یہ جا وہ جا…… مگر ہمارے خندے کی نوری کے ابا کے کتوں کو وہ بدعا لگی کہ لگی کہ ہفتے بھر میں پیچش کی ایسی بیماری لگی کہ آگے پیچھے مرتے گیے ہمارے کندیاں کے جنگل کو ایسی بدعا لگی کہ الحمدللہ عمران خان کے لگائے ہوئے پودے بھی کھڑے کھڑے سوکھ گئے ہیں۔ رہے جنگل میں سؤر تو ہمارے چینی بھائیوں نے جنگل کے سوئر تو سوئر گیدڑ تک بھون کے کھا لیے ہیں
اماں کہیں سے دو پودے ایک شہتوت کا اور دوسرا بکاین کا لے آئیں اور پھر ایک ماہر انجینئر کی طرح پورے صحن کا نصف نکالا اور ایک پودا زمین میں دبا دیا دوسرا پودا پہلے پودے سے تقریباً پانچ گز دور لگا دیا پودوں کے اردگرد چھوٹی چھوٹی کیاریاں بھی بنا دیں، ہمیں بہت وٹ چڑھا کیونکہ ایک پودا اس جگہ لگا دیا جہاں ہمارا پاؤ بھر سفید رنگ کا خندا.. کتا بندھا رہتا تھا۔
پودے کی وجہ سے کتے کو صحن میں در بدر ہونا پڑا کبھی اس کونے میں تو کبھی اس کونے میں نوری کو ہمارے کتے سے بہت چڑ تھی کتے کے ساتھ ہمارے راز ونیاز اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے سو وہ اماں سے کہا کرتی ماسی کیسا زمانہ آگیا ہے لوگ کتوں کے ساتھ کتے ہوگئے ہیں۔ اماں بچاری اس کی باتوں میں آجاتیں اور بات اس بات پر ختم ہوتی ہے کہ کتا بھی کوئی گھر میں رکھنے کی شے ہے خدا جانے یہ اس .. لودھ.. سے کیا نکالتا ہے۔
ہم نے بھی دل میں ٹھان لی کہ ان پودوں کا کریا کرم کرکے دم لیں گے سو اماں سے آنکھ بچا کے پودوں کو اتنا پانی لگا دیتے کے بچارے ٹنڈ منڈ سے ہوجاتے اماں ناک پہ انگلی رکھ کے سوچتیں کہ اللہ جانے ان پودوں پہ کیا خدا کی مار پڑتی جارہی ہے مگر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے والا معاملہ یعنی نوری اماں کو بتا دیتی کہ آپ جونہی تھوڑی دیر کیلے ادھر ادھر ہوتی ہیں یہ.. سوبھا.. پودوں کو پانی پلا پلا کے ان کو نکو نک کر دیتا ہے تو پھر پودے سڑیں نہیں تو کیا کریں۔ ماسی۔ آپ ایسا کرو اس. خندے. کو گھر سے نکلتا کرو اماں پوچھتی پودے پانی اور کتے کا آپس میں کیا تعلق؟ جواباً نوری آلتی پالتی مار کے اماں کے گوڈے کے ساتھ گوڈا ملا کے بیٹھ جاتی اور پھر ہمارے کتے کے بارے میں ایسی ایسی بدخوییاں کرتی کہ توبہ۔ طرح طرح کے مصالحے لگا کے اماں کا کتے سے دل کھٹہ کر دیتی مثلاً یہ کتے کو لایف بوائے صابن سے نہلاتا ہے پھر خود نہاتا ہے پھر اسی صابن سے آپ لوگ نہاتے ہیں مثلاً یہ کتے کی آنکھوں میں سرمہ ڈالتا ہے آپ بھی رات کو اسی سرمے دانی سے سرمہ ڈالتی ہیں مثلاً جس گنگھی سے گھر والے بال سنوارتے ہیں یہ اسی گھنگھی سے کتے کے بال سیدھے کرتا ہے جس منگرے سے خود پانی پیتا ہے اسی سے کتے کو پلاتا ہے اور ہاں ماسی میرا نام نہ آئے جس کنگھی سے آپ اپنے میرے اور خود اس کے سر سے جوئیں نکالتی ہیں یہ اس گھنگی سے کتے کی بھی جوئیں نکالتا ہے اس طرح کے مزید مصالحے لگا کے اس نے اماں کے دل میں کتے کیلئے ناپسندیدگی پیدا کر دی۔ بچارے کی شامت اے رہتی وہاں باندھو یہاں نہ باندھو یہ کرو وہ کرو مگر ہم نے ان مشکل حالات میں بھی کتے کو چھاتی سے لگائے رکھا ۔کتا خاصا چھیل چھبیلا نکلا قد تو وہیں رہا مگر لچھن بڑھ گئے محلے میں چرچے ہونے لگے کہ بھائی کتا ہو تو اافضل کے کتے جیسا بس پھر بچارے کو نظر لگ گئی…………. نوری کے ابا کو سور کے شکار کا شوق تھا ان کے آنگن میں ہر وقت تین سے چار تازی کتے بندھے رہتے ایک. ویہرا.. بھی تھا مگر نوری ان کی ایسی دیکھ بال کرتی کہ ابا کی کیا کرتی ہوگی دشمنی تھی تو ہمارے. خندے کے ساتھ ایک دن سبھی شکاری اکٹھے ہوئے تو معلوم ہوا سؤر کو جھانسہ دینے کیلئے خرگوش کا بندوبست نہیں ہوسکا بس پھر کیا تھا کم بخت نوری نے ابا کا دھیان ہمارے پاو بھر کے خرگوش نما خندے کی طرف پڑوا دیا اور پھر مجبوراً بغرض جھانسہ شکار ہمیں اپنا خندہ دینا پڑا کیونکہ آگے سے مانگنے والا جو نوری کا پیو تھا……. کم بختوں نے جنگل میں ہمارے خندے کو ابھی بطور جھانسہ چھوڑا ہی تھا کہ سور کا نوالہ بن گیا شکاری کتے کم بخت ہانپتے کانپتے رہ گئے مگر سؤر یہ جا وہ جا…… مگر ہمارے خندے کی نوری کے ابا کے کتوں کو وہ بدعا لگی کہ لگی کہ ہفتے بھر میں پیچش کی ایسی بیماری لگی کہ آگے پیچھے مرتے گیے ہمارے کندیاں کے جنگل کو ایسی بدعا لگی کہ الحمدللہ عمران خان کے لگائے ہوئے پودے بھی کھڑے کھڑے سوکھ گئے ہیں۔ رہے جنگل میں سؤر تو ہمارے چینی بھائیوں نے جنگل کے سوئر تو سوئر گیدڑ تک بھون کے کھا لیے ہیں
اماں کہیں سے دو پودے ایک شہتوت کا اور دوسرا بکاین کا لے آئیں اور پھر ایک ماہر انجینئر کی طرح پورے صحن کا نصف نکالا اور ایک پودا زمین میں دبا دیا دوسرا پودا پہلے پودے سے تقریباً پانچ گز دور لگا دیا پودوں کے اردگرد چھوٹی چھوٹی کیاریاں بھی بنا دیں، ہمیں بہت وٹ چڑھا کیونکہ ایک پودا اس جگہ لگا دیا جہاں ہمارا پاؤ بھر سفید رنگ کا خندا.. کتا بندھا رہتا تھا۔
پودے کی وجہ سے کتے کو صحن میں در بدر ہونا پڑا کبھی اس کونے میں تو کبھی اس کونے میں نوری کو ہمارے کتے سے بہت چڑ تھی کتے کے ساتھ ہمارے راز ونیاز اسے ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے سو وہ اماں سے کہا کرتی ماسی کیسا زمانہ آگیا ہے لوگ کتوں کے ساتھ کتے ہوگئے ہیں۔ اماں بچاری اس کی باتوں میں آجاتیں اور بات اس بات پر ختم ہوتی ہے کہ کتا بھی کوئی گھر میں رکھنے کی شے ہے خدا جانے یہ اس .. لودھ.. سے کیا نکالتا ہے۔
ہم نے بھی دل میں ٹھان لی کہ ان پودوں کا کریا کرم کرکے دم لیں گے سو اماں سے آنکھ بچا کے پودوں کو اتنا پانی لگا دیتے کے بچارے ٹنڈ منڈ سے ہوجاتے اماں ناک پہ انگلی رکھ کے سوچتیں کہ اللہ جانے ان پودوں پہ کیا خدا کی مار پڑتی جارہی ہے مگر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے والا معاملہ یعنی نوری اماں کو بتا دیتی کہ آپ جونہی تھوڑی دیر کیلے ادھر ادھر ہوتی ہیں یہ.. سوبھا.. پودوں کو پانی پلا پلا کے ان کو نکو نک کر دیتا ہے تو پھر پودے سڑیں نہیں تو کیا کریں۔ ماسی۔ آپ ایسا کرو اس. خندے. کو گھر سے نکلتا کرو اماں پوچھتی پودے پانی اور کتے کا آپس میں کیا تعلق؟ جواباً نوری آلتی پالتی مار کے اماں کے گوڈے کے ساتھ گوڈا ملا کے بیٹھ جاتی اور پھر ہمارے کتے کے بارے میں ایسی ایسی بدخوییاں کرتی کہ توبہ۔ طرح طرح کے مصالحے لگا کے اماں کا کتے سے دل کھٹہ کر دیتی مثلاً یہ کتے کو لایف بوائے صابن سے نہلاتا ہے پھر خود نہاتا ہے پھر اسی صابن سے آپ لوگ نہاتے ہیں مثلاً یہ کتے کی آنکھوں میں سرمہ ڈالتا ہے آپ بھی رات کو اسی سرمے دانی سے سرمہ ڈالتی ہیں مثلاً جس گنگھی سے گھر والے بال سنوارتے ہیں یہ اسی گھنگھی سے کتے کے بال سیدھے کرتا ہے جس منگرے سے خود پانی پیتا ہے اسی سے کتے کو پلاتا ہے اور ہاں ماسی میرا نام نہ آئے جس کنگھی سے آپ اپنے میرے اور خود اس کے سر سے جوئیں نکالتی ہیں یہ اس گھنگی سے کتے کی بھی جوئیں نکالتا ہے اس طرح کے مزید مصالحے لگا کے اس نے اماں کے دل میں کتے کیلئے ناپسندیدگی پیدا کر دی۔ بچارے کی شامت اے رہتی وہاں باندھو یہاں نہ باندھو یہ کرو وہ کرو مگر ہم نے ان مشکل حالات میں بھی کتے کو چھاتی سے لگائے رکھا ۔کتا خاصا چھیل چھبیلا نکلا قد تو وہیں رہا مگر لچھن بڑھ گئے محلے میں چرچے ہونے لگے کہ بھائی کتا ہو تو اافضل کے کتے جیسا بس پھر بچارے کو نظر لگ گئی…………. نوری کے ابا کو سور کے شکار کا شوق تھا ان کے آنگن میں ہر وقت تین سے چار تازی کتے بندھے رہتے ایک. ویہرا.. بھی تھا مگر نوری ان کی ایسی دیکھ بال کرتی کہ ابا کی کیا کرتی ہوگی دشمنی تھی تو ہمارے. خندے کے ساتھ ایک دن سبھی شکاری اکٹھے ہوئے تو معلوم ہوا سؤر کو جھانسہ دینے کیلئے خرگوش کا بندوبست نہیں ہوسکا بس پھر کیا تھا کم بخت نوری نے ابا کا دھیان ہمارے پاو بھر کے خرگوش نما خندے کی طرف پڑوا دیا اور پھر مجبوراً بغرض جھانسہ شکار ہمیں اپنا خندہ دینا پڑا کیونکہ آگے سے مانگنے والا جو نوری کا پیو تھا……. کم بختوں نے جنگل میں ہمارے خندے کو ابھی بطور جھانسہ چھوڑا ہی تھا کہ سور کا نوالہ بن گیا شکاری کتے کم بخت ہانپتے کانپتے رہ گئے مگر سؤر یہ جا وہ جا…… مگر ہمارے خندے کی نوری کے ابا کے کتوں کو وہ بدعا لگی کہ لگی کہ ہفتے بھر میں پیچش کی ایسی بیماری لگی کہ آگے پیچھے مرتے گیے ہمارے کندیاں کے جنگل کو ایسی بدعا لگی کہ الحمدللہ عمران خان کے لگائے ہوئے پودے بھی کھڑے کھڑے سوکھ گئے ہیں۔ رہے جنگل میں سؤر تو ہمارے چینی بھائیوں نے جنگل کے سوئر تو سوئر گیدڑ تک بھون کے کھا لیے ہیں