لانے والے ہمیشہ سدہائے ہوئے گھوڑے لے کر آتے ہیں جو ان کے اشارے پر ہارس اینڈ کیٹل شو میں رقص کر سکیں بعض واقعی تابعداری کےساتھ رقص کرکے تماشائیوں کو لبھا کر چلے جاتے ہیں۔
دراصل اصیل گھوڑے سدھانا مشکل اور اوپر سے وہ بھی اصطبل میں، یہ اسی کام کے ہوتے جس کے لیے سدھائے جاتے ہیں ، سیاسی ہارس اینڈ کیٹل شو میں زیادہ تر گھوڑا نما خچر ہی ہوتے ہیں جن سے گھوڑے کی اداکاری کراکے کام چلایا جاسکے۔
لیکن بعض ایسے ہوتے ہیں جو گھوڑے کی کھال میں خچر تو کیا گدھے ہی ثابت ہوتے ہیں۔۔ یہ ٹرینرز کی نااہلی ہوتی ہے کہ دوران تربیت ایسے غیر اصیل کو پہلے سے ہی ریجکٹ کی بجائے سرکس کے پنڈال میں لانچ کردیا۔
اب یہ ٹرینرز کی نااہلی یا اناپرستی ہے اور غلطی کا اعتراف ہماری قوم کی سرشت ہی میں نہیں ہے اس لئے اسی خچر نما گھوڑے ہی کو پنڈال میں ڈانس کرانا چاہ رہے ہیں اور تماشائیوں کو حکم ہے کہ تالیاں بھی بجاؤ لیکن تابکہ۔۔
ابھی تک تو ٹرینر اپنے بھیجے ہوئے گدھے کو تماشائیوں کی آنکھوں میں دھول دیکر اسکرین پر اور اپنی مرضی کے کامینٹیٹرز کے ذریعے یقین دلا رہا ہے کہ یہ اصیل گھوڑا ہے۔ لیکن کیا کریں اس میں دو خصوصیات ہے جنکی وجہ گھوڑے کی اداکاری بھی نہیں کرسکتا۔ ایک تو یہ اڑیل بہت ہے دوسرا جب بھی بولتا ہے ڈھیچوں ہی کی آواز نکلتی ہے۔
جب گھوڑا خچر نہیں بلکہ گدھا ثابت ہو رہا تو بدلنا پڑتا ہے شاید ٹرینر کو بھی ، لیکن ٹرینر کی سیٹ ابھی تک تو تین سال کے لئے پکّی ہو چکی ہے۔اگر میں غلط نہیں تو متبادل گھوڑے کی تلاش بھی شروع ہوگئی ہے ہارس شو لمبا ہے گھوڑے بھی ابھی بہت باقی ہیں یہ نہیں تو اور سہی۔
ہمیشہ کی طرح آخر میں ٹرینر معصوم ہی ہوتا ہے قصور تماشائیوں ہی کا نکلے گا۔بات صرف اتنی سی ہے کہ اگر غلط کمپنی کے شیئر خرید لیں تو عقلمند اپنے نقصان کو کم کرکے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ممکن ہے کہ ٹرینر کے لئے بھی نقصان کو کم از کم کرنے کا موقع ہے۔
ایک بات یادرکھیں کہ انتخابات میں تقریبا تین سال باقی ہیں۔۔ یعنی اگر کوئی کام کرنے والا خچر بھی لایا جائے اور وہ واقعی “تبدیلی “ لاسکے تو تین سال کےاندر وہ گھوڑا بھی بن سکتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو اسکندر مرزا سے لیکر جنرل ایوب خان کا خچر تھا۔۔ نواز شریف کو بھی جنرل جیلانی بطور خچر لایا تھا جو گھوڑا بن گیا ۔ جنرل ضیاء و مشرف بھی لانے والوں کو بطور خچر لائے تھے لیکن اپنے سواروں کو پچھاڑیاں مارنے والے گھوڑے بن گئے۔
اسوقت بلّے اور شیر والوں کے اصطبل میں ایک ایسے تابعدار گھوڑے کی تلاش ہے جو جمہوری ہارس شو میں کرتب بھی دکھا سکے اور تماشائیوں کو لبھا بھی سکے، ریس کے ٹریک پر دوڑ بھی اور اس وقت مسافروں و سامان سے بھری معشیت کی گھوڑا و گدھا گاڑی بھی گھسیٹ سکے۔
ہائے ایسا ہمہ صفت گھوڑا/گدھا/خچر کہاں سے لائیں؟ سنا ہے کہ خچر گھوڑے اور گدھے کے ملاپ سے پیدا ہونے والی ہائی بریڈ نسل ہوتی ہے۔ اب اس ہائی بریڈ کو مزید جینیٹکل انجینئیرنگ کی ضرورت لگتی۔
ویسے تو اصطبل میں اصیل سے لیکر جینٹک انیجیُئرنگ کےشاہکار گھوڑے ، خچّر ،گائیں بلکہ کتّے تک ملتے ہیں۔ اور سنا ہے کہ ان تربیت گاہوں میں انسان کی کھال تو کیا اس کا دل ودماغ تک بدل جاتا ہے کہ اچانک ہی اپنے کھیتوں، کھلیانوں و سڑکوں میں گھومتا ہو نوجوان واپس آکر خود کو الگ ہی مخلوق اور باقی کو بلڈی سمجھنے لگتا ہے۔
بھول گئے اپنے گیتوں کو؟۔۔ ۔۔۔لیکن سیاسی خچّروں کے معاملے میں فوجی اصطبل کی ناکامی لمحہ فکریہ ہے۔
پہلے میرا خیال تھا کہ موجودہ گھوڑے یا گھوڑا نما کے پاس محدود امکانات اب بھی ہیں۔ ممکن ہے اس میں گھوڑے پن کے جو ہارمون انجیکٹ کئے گئے ہیں وہ کام کرنے لگیں۔۔لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ’’ تبدیلی کی تبدیلی‘‘ نوشتہ دیوار ہے۔
کورونا کی بڑھتی ہوئی اموات، معاشی ناہمواری و دشواریوں کو لے کر صدقے کےبکرے کی شدید ضرورت ہے، ابھی تک تو درباریوں کا صدقہ دیکر بلا ٹالی جارہی ہے لیکن کب تک۔۔بادشاہ کی گردن کا بھی نمبر آہی جائے گا۔
ایک اور“بوم بوم” کے سر پر دست شفقت پھیرا جارہا ہے۔ لیکن نہ تو اس میں وہ Charisma ہے اور نہ ہی وہ افسانوی شھرت کہ وہ چل سکیں۔ یہ فلم تو شاید چلنے سے پہلے ہی فلاپ ہو جائے گی۔
ٹرینرز کو بھی یاد رکھنا چاہیے گدھا کتنا ہی ہینڈسم ہو گھوڑا تو نہ بن سکا لیکن دولتیاں مارنا اسے آتا ہے۔ جب شھید ہی ہونا ہے کہ تو ایک دولتی جوکہ شاید آخری دولتی ثابت ہو۔۔ (پارلیمنٹ توڑ کر) نہ کھیڈیں گے نہ کھیڈنے دیں گے۔اب دیکھتے ہیں کہ جعلی گھوڑے اور ٹریینر میں سے پہلے کون پھونک مارتا ہے؟
دوسری عراق جنگ کی تیاریوں کے دوران امریکی میڈیا کسی فلم whack the dog کا ذکر کررہا تھا جس میں ایک کمزور صدر اپنی کمزور حکمرانی سے توجہ بٹانے کے لئے جنگ چھیڑ دیتا ہے۔(اس وقت یہ کہا جارہا تھا کہ بُش اپنے اندرونی مسائل کو چھپانے کے لئے عراق پر حملہ کرنا چاہ رہا ہے اور واقعتاً وہ اس جنگ کے کاندھوں پر دوسری مرتبہ بھی منتخب ہو گیا تھا)
مجھے ڈر ہے کہ یہ صاحب بھی ایسا ہی کوئی کام نہ کر دیں اسٹیج تو بہر حال تیار ہے۔۔لداخ میں چینی کاروائیاں 56 انچ کے غبارے والے چائے والے کی ہوا نکالنے کے لئے کافی ہیں۔
چین تو ان کے بس کی چیز نہیں لیکن غریب کی جورو کے ناطے سارے نزلہ اس عضو ضعیف پر ہی پڑنا ہے۔ تاکہ کچھ ہوا کا انتظام ہو سکے۔ دوسری طرف اس قوم کو نئے کھیل کی طرف متوجہ کرکے بھوک بھُلانے کی بھی ضرورت ۔دونوں نے کچھ بےضرر قسم کے کھیل کھیل کر اپنا اپنا کام نکالنا ہے۔ لیکن تاریخ یہی بتاتی ہے کہ آخری حساب ۔۔ خسارہ اور بس خسارہ ہی بچتا ہے۔
اللہ خیر کرے۔۔۔