Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
”بورس جانسن کا انتقال ہوگیا“ یہ پانچ لفظی خبر مورخہ07 اپریل کو ٹویٹر کے ایک اکاﺅنٹ کے ذریعے دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جو کرونا وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے اُن دنوں ہسپتال کے آئی سی یومیں زیر علاج تھے۔ ان کی وفات کی یہ جھوٹی خبر ٹویٹر پر بنائے گئے بی بی سی کے ایک جعلی اکاﺅنٹ کے توسط سے پھیلائی گئی۔ یہ جعلی اکاوئنٹ BBCbreaki@ کے ٹویٹر ہینڈل کے نام سے تھا۔جبکہ بی بی سی کا اصل ٹویٹر اکاﺅنٹ BBCBreaking@ کے ہینڈل سے ہے۔ یہ ٹویٹ ٹویٹر سے ہٹائے جانے سے قبل سینکڑوں بار ری ٹویٹ ہوئی۔ کیونکہ اس میں بی بی سی کے ٹویٹر ہینڈل سے ملتا جلتا ہینڈل استعمال کیا گیا۔اور پوری دنیا میں انجان لوگ اس دھوکے میں آگے اور خبر کو حقیقت جان لیا ۔ یہ دروغ گوئی دنیا بھر میں کرونا کا خوف اور دوچند کرنے کا باعث بنی۔یوں سوشل میڈیا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ صحافت کی ایک نئی جہت کی صورت میں اپنے مثبت اور منفی اثرات لیے ہمیں اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔
آن لائن پلیٹ فارمز فیس بک ، ٹویٹروغیرہ اور ویب 2.0 ایپلیکیشنز جیسے گوگل اور بلاگز نے خبروں کے کاروبار اور رپورٹنگ کے عمل کو بدل کررکھ دیا ہے۔ کیونکہ اب صحافت کے دائرہ کار میں داخلہ بہت آسان ہوگیاہے کوئی بھی پی سی یا اسمارٹ فون کا حامل فردخودرپورٹر، ایڈیٹر، ڈیزائنر، ڈسٹری بیوٹر ، پبلشریا براڈکاسٹراور پروڈیوسر سب کچھ ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی بھی موادتحریر، تصویر، آواز اور ویڈیو کی صورت میں بلاگ ، ٹویٹ،یوٹیوب یا فیس بک کرسکتاہے۔ سوشل میڈیا جس وجہ سے صحافت کے لئے غیر معمولی طور پرموثر جانا جارہا ہے یہ اُس کی وہ طاقت ہے جو اُس نے نیوز بریکنگ کی صورت میں اپنے آپ کو منواکر حاصل کی ہے۔سٹیزن جرنلزم اور موبائل جرنلزم کی اصلاحات نے معاشروں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔لوگ روایتی ابلاغ عام کے ذرائع اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مندرجات میں اپنی محدود ترین شمولیت کی وجہ سے بڑی تیزی سے ایسے پلیٹ فارمز کی جانب متوجہ ہورہے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی کے مندرجات پڑھ ،دیکھ اور سن سکیں اُن پر تبصرہ کرسکیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ اپنے نقطہ نظر کا کھل کر آزادانہ اظہار کرسکیں۔اس کے علاوہ وہ خود مندرجات تخلیق کرسکیں۔ یعنی لوگ اب معلومات اور اطلاعات کے صارف اور پروڈیوسر دونوں بن چکے ہیں۔وہ اس لیے کہ آج ہم ایک انفارمیشن سوسائٹی کا حصہ ہیں جہاں اکثر افراد دو زندگی گزار رہے ہیں ایک حقیقی اور دوسری ورچوئل (انفارمیشن سسٹم میں سرائیت شدہ) اس لئے آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے ولیم ڈٹن نے سوشل میڈیا کو ریاست کا پانچواں ستون قراردے دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ” ہم ایسی طاقتور آوازوں اور نیٹ ورکس کو ابھرتے دیکھ رہے ہیں جو روایتی میڈیا کے برعکس آزادانہ طور پر کام کرسکیں گے“۔اُن کا یہ بیان سوشل میڈیا کے پہلے سے موجود پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ ابھرتے مختلف نئے پلیٹ فارمزکے تیزی سے فروغ، وسعت اور استعمال کے تناظر میں حقیقی لگتا جارہا ہے۔ یعنی آزادی اظہار ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو لوگوں کو سوشل میڈیا کی جانب متوجہ کرنے اور اس کے بھرپور استعمال کا باعث بنا۔اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر کی 49 فیصدآبادی سوشل میڈیا کے فعال صارفین پر مشتمل ہے۔ ڈیجیٹل 2020 ” گلوبل ڈیجیٹل اورویو“ نامی رپورٹ کے مطابق جنوری 2020 تک دنیا میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد 3.80 ارب تک پہنچ چکی ہے۔
سوشل میڈیا بنیادی طور پر انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ایسے ٹولز پر مشتمل پلیٹ فارمز ہیں جو معلومات اور اطلاعات کی ایک دوسرے کو منتقلی اور تبادلہ خیال کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کا ایسا انضمام ہے جس میں ٹیلی مواصلات اور سماجی تعامل کو ملاکر ایسا پلیٹ فارم بنا یا گیا ہے جس میں آپ تحریر، تصویر، آواز اور فلم کے ذریعے دوطرفہ ابلاغ کرسکتے ہیں۔ اور اس کی خاص جہت صارف کو خود کسی بھی مواد کی تخلیق اور تبادلہ کی سہولت کا ملنا ہے۔سوشل میڈیا ٹولز سوشل نیٹ ورکنگ کی ایسی آن لائن سروس فراہم کرتے ہیں جو صارفین کو ہم خیال افراد کے ساتھ ورچوئل نیٹ ورک بنانے کے قابل بناتی ہے۔ یہ چیٹ ، انسٹنٹ میسجنگ ، فوٹو شیئرنگ ، ویڈیو شیئرنگ ، اپ ڈیٹس جیسی سہولیات کی پیش کش کرتی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ مشہور مثال فیس بک اور لنکڈ اِن ہیں۔اس کے علاوہ بلاگز جو ایک انفرادی صارف بناتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ جس میں متن، تصاویر ، ویڈیوز اور دیگر ویب سائٹوں کے لنکس شامل ہوسکتے ہیں۔ بلاگز کے نمایاں خصوصیت اس کا باہمی تبادلہ خیال (انٹرایکٹیو) فیچر ہے جس میں قارئین کو اپنی رائے دینے کی سہولت میسر ہوتی ہے اوریوں تمام تبصروں کو دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔مائیکرو بلاگزیہ 140 حرف یا اس سے کم حرف کی مخصوص پابندی والے بلاگز ہوتے ہیں۔ جو صارفین کو مواد لکھنے اور اس کے اشتراک کی سہولت دیتے ہیں۔ ٹویٹر ایک مائیکرو بلاگنگ سائٹ ہے جو اپنے صارفین کو ’ٹویٹس‘ بھیجنے اور پڑھنے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔اسی طرح وی لاگز(ولوگس) اور ویڈیو شئیرنگ سائیٹس جو بنیادی طور پر اپنے مندرجات کے طور پر ویڈیو کا استعمال کرتی ہیں اور ان کی معاونت کے لیے متن کا سہار الیتی ہیں۔ یو ٹیوب دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو شیئرنگ سائٹ ہے۔جو براہ راست ویڈیو براڈکاسٹنگ اور ویڈیو شیئرنگ کی سروسز فراہم کرتی ہے۔ جہاں صارفین ناصرف ویڈیوزدیکھ سکتے بلکہ اپ لوڈ بھی کرسکتے ہیں اور شیئر بھی اور ان پر تحریری تبصرے بھی کرسکتے ہیں۔وکیز یہ ایک باہمی تعاون کی ویب سائٹ ہے جو متعدد صارفین کو مخصوص یا باہم مربوط مضامین پر صفحات بنانے اور اپ ڈیٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس کہ کسی ایک صفحے کو ‘وکی پیج’ کہا جاتا ہے اورکسی خاص عنوان کے بارے میں پورے مواد کو ’وکی‘ کہا جاتا ہے۔اس میں متعدد صفحات ہائپر لنکس کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔سوشل بک مارکینگ یہ خدمت کسی کو انٹرنیٹ پر موجود مختلف ویب سائیٹس اور دیگر وسائل کے لنکس محفوظ کرنے ، منظم کرنے اور اکٹھا کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ کیونکہ کسی معلومات یاکسی فرد کی تلاش یا رابطہ کے لیے ٹیگ اور بک مارک کی گئی ویب سائیٹس ضرورت پڑنے پر روابط کوجلداور آسان بنادیتی ہے۔سوشل نیوزان خدمات سے کسی کو مختلف خبروں کی اشاعت اورمضامین سے باہر کے لنکس پوسٹ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔اس میں باہمی تبادلہ خیال کے لئے آئٹمز پر ووٹنگ اور ان پر تبصروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کی مشہورمثالوں میں Digg, Reddit اورPropeller ہے۔میڈیا شئیرنگ یہ خدمات کسی کو فوٹو یا ویڈیو اپ لوڈ کرنے اور ان کا اشتراک کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔اس میں باہمی تبادلہ خیال کسی صارف کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی فوٹو یا ویڈیو پر تبصرے کی صورت میں ہوتا ہے یوٹیوب اور فلکر اس کی واضح مثالیں ہیں۔آپ کو ان ٹولز کا کسی ایک پلیٹ فارم پر ایک یا اس سے زائد صورتوں میں استعمال ملے گا جس کو مقصد صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنا ہے۔
سوشل میڈیا کوانٹرنیٹ کی طاقت نے دوام اور سمارٹ موبائل فون کی سہولت نے متحرک کررکھا ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا کی 59 فیصد آبادی انٹر نیٹ کا استعمال کر رہی ہے تو 3.5 ارب انسان سمارٹ موبائل فونز کے صارف ہیں۔ڈیجیٹل 2020 : گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو نامی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر روز اوسطً6 گھنٹے43 منٹ انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا ہے جس میں3 گھنٹے22 منٹ موبائل کے ذریعے استعمال ہوتا ہے۔جبکہ انٹرنیٹ صارفین اوسطً 2 گھنٹے 24 منٹ روزانہ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔پاکستان بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں سوشل میڈیا بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ جس کی نشاندہی گلوبل ڈیجیٹل اُروویو 2020 کے یہ اعداوشمار کر رہے ہیں کہ دنیا بھر میں جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ جبکہ فیصد اضافہ کے حوالے سے وطنِ عزیز دنیا میں 12 ویں نمبر پر ہے (لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان ابھی بھی انٹرنیٹ سے محروم آبادی کی تعداد کے حوالے سے دنیا کا تیسرا محروم ترین ملک ہے)۔اسی طرح سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 17 ویں نمبر پر ہے۔اس وقت ملک کی 37 ملین آبادی یعنی 17 فیصد سوشل میڈیا کی فعال صارف ہے۔جبکہ 35فیصد آبادی یعنی 76.38 ملین نفوس انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والی آبادی کا 48.4 فیصد سوشل میڈیا کا فعال صارف ہے۔ یعنی ملک میں ہر دوسرا انٹرنیٹ صارف سوشل میڈیا کا فعال استعمال کنندہ ہے۔ اورملک میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کا 99 فیصد موبائل فون کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔جبکہ سال 19- 2018 کےدوران ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک کا75.9 فیصد موبائل فون کے ذریعے استعمال شدہ انٹرنیٹ کی بدولت تھا۔نیوزو (Newzoo)گلوبل موبائل مارکیٹ رپورٹ2019 کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں 19 ویں نمبر کاحامل ایسا ملک ہے جہاں سمارٹ فونزاستعمال کنندگان کی تعداد زیادہ ہے اور ملک میں سمارٹ موبائل فون صارفین کی تعداد 32.5 ملین ہے ۔ لیکن سمارٹ فون کی حامل آبادی کی فیصد کے حوالے سے دنیا کے50 ممالک (جن کے اعداوشمار دستیاب ہیں) میں سے پاکستان 49 ویں نمبر پر ہے اور ملک کی صرف 15.9 فیصد آبادی سمارٹ موبائل فون کی مالک ہے۔ملک میں سوشل میڈیااستعمال کرنے کی بنیادی ضروریات انٹرنیٹ، موبائل فون اور کمپیوٹر کے اعدادوشمار کا ایک اور پہلو پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 18-2017 کے ان اعدادوشمار سے بھی اجاگر ہوتا ہے جس کہ مطابق ملک کے97.5 فیصد گھروں میں موبائل فون موجود ہے۔ شہروں میں یہ شرح 93.9 فیصد اور دیہہ میں91.6 فیصد ہے۔اسی طرح ملک کے 26.4 فیصد گھروں میں کمپیوٹر موجود ہے۔ دیہہ کے 8.1 اور شہروں کے15.1 فیصد گھر اس سہولت کے حامل ہیں۔ انٹرنیٹ کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ملک کے22.9 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کنکشن موجود ہے ۔ دیہہ کے4.9 اور شہروں کے11.8 فیصد گھر انٹرنیٹ کنکشن کی وجہ سے دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان اگرچہ ابھی بھی انٹرنیٹ تک رسائی، سمارٹ موبائل فونزکے استعمال ، کمپیوٹرزکی ملکیت اور انٹرنیٹ کی قیمتوں کے حوالے سے اپنے ہم عصر دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی محرومیوں کا شکار ہے ۔ لیکن ہر نیا سورج ان محرومیوں کو کم کرنے کی نوید لیکر طلوع ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک سال کے دوران ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں17 فیصد، موبائل فون کنکشن کی تعداد میں6.2 فیصد اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 7 فیصد اضافہ ہوا جو ہماری آبادی میں 2 فیصد اضافہ سے کہیں زائد ہے۔یہ تمام پیش رفت اُس منظر نامہ کی واضح عکاسی کر رہی ہے جو اس وقت ملک میں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے موجود ہے۔ یہ تمام تر پیش رفت اپنی جگہ لیکن حکومت اب ملک میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے28 جنوری 2020 کو سوشل میڈیا کے حوالے سے ” سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 “کے نام سے نئے ضوابط کی منظوری دی ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے ان ضوابط کے جائزہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ جو متعلقہ سول سوسائٹی اور ٹیکنالوجی کمپنیز کے ساتھ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مشاورت کررہی ہے۔یہاں یہ سوال اہم ہے کہ جب ہم آزادی رائے اور آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں تو کیا ہمیں پھر اس طرح کے رولز کی ضرورت ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں؟اس کے علاوہ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو کیسے ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے؟۔ ان سوالات کے جواب میں اوکاڑہ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی ڈاکٹر ثوبیہ عابد کہتی ہیں۔
”آزادی اظہار رائے کو انسانی حقوق فراہم کیے جانے کے لئے بنیاد کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔بات کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی ہر شہری کو آئین پاکستان کا آرٹیکل انیس دیتا ہے۔دیگر ابلاغ عامہ کے ذرائع تو اہم تھے ہی مگر آج کل کا دور سوشل میڈیا کا ہے۔اس لیے ان ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ہر صارف اپنی رائے کا اظہار کرنے کی سہولت رکھتا ہے۔ اس میں ایک بات اہم ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے یہ ممکن نہ تھا کہ ہر قاری یا صارف کسی بھی میڈیا کے مواد پر فوری ردعمل دے سکے۔ اس کو ابلاغ کے عمل میں فیڈ بیک کہا جاتا ہے تو اخبار کا قاری ،ریڈیو کا سامع یا ٹی وی کا ناظر یہ نہیں کر سکتا تھا کہ فوری ردعمل اس میڈیا کے ادارے تک پہنچا سکے ۔سوشل میڈیا اپنے ہر صارف کو مساوی مواقعے فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی پوسٹ پر یا پھر کمنٹس باکس میں جا کر ہر بات پر اپنا فوری ردعمل برابری کی سطح پر دے سکے۔ اس وجہ سے بہت سے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ استاد ہونے کے ناطے مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرے کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ آزادی کا حق ہمیشہ ایک خاص ذمہ داری کا احساس بھی ساتھ لے کر آتا ہے جس میں سماج ،روایت، ثقافت، مذہب اور معاشرے کے بنائے کچھ بنیادی ضابطے ہر کسی کو ہر صورت اپنانے پڑتے ہیں۔سوشل میڈیا ویب سائٹس نے اپنے ضابطے بنائے ہوئے ہیں جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ کسی بھی مواد کو شائع کرنے سے روک سکتے ہیں۔کاپی رائٹس اور غیر اخلاقی مواد کے علاوہ شدت پسندی یا دہشت گردی کے حوالے سے کسی بھی پوسٹ کو ہٹا دیا جاتا ہے یو ٹیوب یا فیس بک وغیرہ پر سے۔اگر ان سوشل میڈیا کمپنی والے کچھ خاص چیزوں کے بارے میں حساس ہیں اور ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مواد کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں تو پھر یہ حق ریاست کا بھی ہونا چاہیے کہ وہ کچھ نظریاتی بنیادوں اور معاشرتی اقدار کے بارے میں حساس ہو اور ان کے بارے میں اظہار رائے کے لیے ضابطے بنائے اور ان کو لاگو کروائے۔اس لیے میرے خیال سے آزادی اظہار کو ذمہ داری کے احساس کے ساتھ ہی جڑے ہونا چاہئے اور ریاست کو اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ کسی کو بھی بلاوجہ روکا نہ جائے اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے کیو نکہ اگر درست رولز بنے ہوں گے تو وہ عام لوگوں کے بات کرنے کے حق کا تحفظ بھی کریں گے۔ان رولز کے علاوہ کوئی کاروائی نہیں ہوسکے گی جو کہ سوشل میڈیا صارف میں ایک طرح کا احساس تحفظ اور احساس ذمہ داری پیدا کریں گے۔اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ رولز برابری کی سطح پر لاگو ہونے چاہئے۔۔ آج کل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنا مواد شیئر کر کے بزنس کرنے اور کمانے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں اس کے لیے بھی قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ یہ ایک طرح سے برابری رکھتے ہوئے ہر صارف کے مفادات کا بھی تحفظ ہو جائے۔ ان رولز میں وقت گزرنے کے ساتھ جدت پیدا کرنے کی ضرورت بھی ہے کیو نکہ ڈیجیٹل میڈیا دراصل بہت تیزی سے نئی ٹیکنالوجی کو بھی اختیار کرتا جاتا ہے اس وجہ سے سوشل میڈیا سے جڑے تمام قوانین اور ضوابط کو مستقل بنیادوں پر دیکھتے اور بدلتے رہنے کی ضرورت ہو گی۔ خاص طور پر سا ئبر سیکیورٹی کے معاملات میں اور اکانومی کے حوالے سے کیونکہ موجودہ کروناوائرس کی وجہ سے آن لائن صارفین کی تعداد میں اور ڈیٹا کے استعمال میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے“۔
اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کے ایک ایسا معاشرہ جہاں آزادانہ اظہار خیال کو پہلے ہی رکاوٹوںکا سامنا ہے ۔وہاں جب شہری اپنے اوپر ذاتی سنسر شپ عائد کریں گے تو پھر لوگ آن لائن مباحثوں میں شرکت کرنا چھوڑ دیں گے۔ جس سے ان کا گورننس اور قانون کے امور میں مفید اور نتیجہ خیز گفتگو میں حصہ لینے کا امکان کم ہوجائے گا۔ اس سے حکومت اور عوام کے مابین ایک اہم رشتہ ختم ہوجائے گا۔جس کی ہماری جیسی جمہوریت متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلے میں ان رولز کے معاشرے پر کیا مثبت اور کیا منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان کا ایک اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشن اسٹڈیز جامعہ پنجاب کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد خان کہتے ہیں۔
”وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن ، حکومت پاکستان کی جانب سے سٹیزن پروٹیکشن رولز کا حال ہی میں اجرا کیا گیا ہے ، یہ رولز دراصل شہریوں کو آن لائن نقصان پہنچانے کے خلاف تحفظ فراہم کیے جانے اور الیکٹرانک کرائمز سے محفوظ رہنے کا قانون ہے ۔ ان رولز کے معاشرے پر مثبت اثرات قدرے نمایاں ہوں گے۔سیٹیزن پروٹیکشن رولز 2020 کا اجرا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں ہوئی جب کہ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں کچھ اس طرح سے شامل ہو گیا ہے کہ باقی سب چیزیں پیچھے رہ گئی ہیں – سوشل میڈیا جہاں لوگوں کو بہترین انداز میں تفریح اور معلومات فراہم کر رہا ہے وہیں پر اس کے ذریعے سے بے حد پروپیگنڈہ ، جھوٹ ، ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے جو کہ ملکی سا لمیت کیلئے کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں ہے اسی طرح سے ہماری سماجی اور اخلاقی قدار خاص طور پر مذہب کے حوالے سے عدم برداشت کی وجہ سے تصادم کا اندیشہ بڑھ رہا ہے ۔میڈیا نے کنفلیکٹ کو ہمیشہ ہی ہوا دی ہے یہاں تک کہ اسے جنگی ہتھیار کے طور پر بھی بھر پور استعمال کیا گیا اور اب انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تھری جی، فورجی اور فائیو جی کے آنے سے آئندہ دنوں میں افراد اور قوموں کے درمیان تصادم اور فساد میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں طور پر سامنے آئے گا۔ اس لئے اس قانون کے ذریعے نیشنل کوآرڈینیٹر کا قیام ایک خوش آئند اقدام ہے اور اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں سٹیک ہولڈرز کی معاونت کو بھی یقینی بنایا گیا ہے ۔غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو 24 گھنٹے کے اندر بلاک اور ایمرجنسی کی صورت میں 6 گھنٹے میں بلاک کر دیا جائے گا۔سوشل میڈیا کمپنی سے ڈیٹا یا انفارمیشن کا حصول اور فوقیت نیشنل کوآرڈینیٹر کو ہو گی نہ کہ سوشل میڈیا کمپنی کو ۔اسی طرح سے پاکستان کی نیشنل سیکورٹی ، دہشت گردی ، انتہا پسندی اور تشدد پر ابھارنے والی لائیو سٹریمنگ کی روک تھام ممکن ہوگی۔ پاکستان میں ایسی سوشل میڈیا کمپنیز بھی کام کر رہی ہیں جن کا کوئی مستقل آفس ملک میں نہیں ، فوکل پرسن نہیں ، اب اس قانون کے ذریعے ان سب باتوں کو یقینی بنایا جائے گا اور ایک مثبت پہلو یہ بھی کہ سوشل میڈیا کمپنیز ڈیٹا بیس سرورز قائم کریں گی اور غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کی صورت میں فورا ًوضاحتی نوٹ جاری کریں گی اور تمام ڈیٹا اور انفارمیشن تک رسائی دینے کی پابند ہوں گی ۔ کسی بھی رول کی خلاف ورزی کرنے پر سوشل میڈیا کمپنیز کے مکمل آن لائن سسٹم کو نہ صرف بلاک کیا جا سکے گا بلکہ انہیں 500 ملین روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکے گا اور اس سلسلے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے سوشل میڈیا کمپنیز کو ریپریزنٹیشن اور ہیرنگ کا حق بھی دیا جائے گا اور 3 ماہ کے اندر فیصلہ بھی کر دیا جائے گا ۔
ان رولز کے معاشرے پر منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ اندیشہ برحال موجود ہے کہ سیٹیزن پروٹیکشن رولز 2020 کے غلط استعمال سے سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس کی آڑ میں سیاسی ورکرز اور آرگنائزیشنز کو مخالفت کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے جس سے بنیادی شہری اور سیاسی حقوق پامال ہو سکتے ہیں ۔ آزادی رائے اور اظہار کو محدود کیے جانے سے جمہوریت کے تصور کی نفی ہوتی ہے ۔ افراد کی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں اور اظہار کے مختلف پیرائیوں پر قدغن لگانے سے معاشرہ اپنا اجتماعی شعور کھو دیتا ہے اور لوگوں میں بے چینی ، گھٹن ، عدم برداشت اور منفی رجحانات بڑھ جاتے ہیں اور معاشرہ تعمیری رویوں کی بجائے زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ان رولز میں بہتری کی گنجائش کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ سیٹیزن پروٹیکشن رولز کو فعال اور کارآمد بنانے کیلئے سیاسی اور معاشی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس کے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔اس قانون کو اس کی روح کے مطابق قابل عمل بنانے کیلئے نیشنل کوآرڈینیٹر کے قیام کے سلسلے میں لائق اور پروفیشنل ماہرین کو اس کا حصہ بنانا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی خاص سیاسی جماعت یا گروہ کے افراد کی تفریق سے گریز لازم ہے ۔ رولز میں نیشنل کوآرڈینیٹر کے قیام اور اس کو معاونت فراہم کرنے والی کمیٹی میں عہدیداروں کی تقرری کا طریقہ کار بھی وضع کیا جانا چاہیے اور اسے ان رولز کا حصہ بنانا چاہیے۔ غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو جرمانہ کرنے کے سلسلے میں حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں واضح میکانزم وضع کرنا چاہیے “۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل19 کے مطابق” ہر کسی کو رائے کی آزادی اور اس کے اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے۔اس حق میں سرحدوں سے قطع نظر بغیر کسی مداخلت کے رائے قائم کرنے اورکسی بھی میڈیا کے ذریعے معلومات،نظریات کی تلاش، حصول اور تشہیر شامل ہے “۔لہذامیڈیا کی آزادی اور آزادی اظہار آفاقی حقوق ہیں جو ہر طرح کے میڈیا پر لاگو ہوتے ہیں۔ چاہے وہ آن لائن ہو یا آف لائن۔ چاہے وہ پروفیشنل ہو یا شہری صحافت۔چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا۔یوں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ بن گے ہیں جس کے ذریعے افراد اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کو استعمال کرسکتے ہیں اور معلومات اور نظریات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں دنیا بھر میں لوگوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی ایسی تحاریک دیکھنے میں آئی ہیں جو تبدیلی ، انصاف ، مساوات ، طاقتوروں کے احتساب اور انسانی حقوق کے احترام کی حمایت کرتی نظر آئیں۔یعنی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا لوگوں کو فوری طور پر رابطے اور تبادلہ خیال کرنے کے قابل بنانے اور یکجہتی کا احساس پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ احساس اس وقت زور پکڑ رہا ہے کہ سوشل میڈیا صرف ایک کھیل یا بیکار تفریح نہیں ہے بلکہ معاشرتی اصلاح اور آگاہی لانے میں ایک موثر ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ حقوق کے شعور ، جمہوری طریقوں کے فروغ،ابلاغی انقلاب ، تعلیمی اہلیت اور صلاحیت میں اضافہ اور سیاسی سرگرمی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔لیکن وہیں یہ جھوٹی اورغلط معلومات پھیلانے، دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے، مذہبی لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے،آن لائن ہراساں کرنے، لوگوں کی ساکھ متاثر کرنے،بلیک میلنگ ، نفرت انگیز تقاریر و موادکی تشہیراورذاتی ڈیٹا چوری کرنے کے عمل کا بھی حصہ ہے ۔اور یہ سب اس کی آزادی کے تاریک پہلو ہیں۔اظہار رائے کی آزادی ایک پیچیدہ حق ہے۔ یہ قطعی نہیں بلکہ اس کے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔یہ شہریوں کو بغیر کسی ذمہ داری کے بولنے یا شائع کرنے کا حق فراہم نہیں کرتا ہے۔ یہ کوئی ایسا لائسنس نہیں جو زبان کے ہر ممکن استعمال کے لئے استثنیٰ دیتا ہو اور اس آزادی کو غلط استعمال کرنے والوں کو سزا سے روکتا ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ 1966 کے آرٹیکل19 (3) مندرجہ ذیل بنیادوں پرآزادی اظہار پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔(الف )دوسروں کی ساکھ کے حقوق کے لئے(ب) قومی سلامتی ، یا عوامی نظم ، یا عوامی صحت یا اخلاقیات کے تحفظ کے لئے۔آزادی اظہار کے ساتھ منسلک فرائض اور ذمہ داریاں کیا سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہوتی ہیں؟ اور ان ذمہ داریوں کا تعین اور اطلاق عوامی سطح پر کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اس سلسلے میں بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے ڈاکٹر ببرک نیاز کہتے ہیں۔
”سماجی ذمہ داری کو دو پہلوﺅں سے دیکھا جانا چاہیئے۔ میڈیا چاہے کوئی بھی ہو روایتی یا سوشل ۔ ایک تو اِن کے مندرجات میں ایسے موضوعات کوتسلسل کے ساتھ شامل کیا جائے جو عوام الناس کی سماجی اور معاشی ترقی کا باعث بنیں۔ یعنی جو انسانی ترقی کی ضروریات کو پورا کریں اوراس کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک چوکیدار کا کردار بھی ادا کریں۔ اسے پبلک سروس براڈ کاسٹنگ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔ دوسرا پہلو ان مندرجات کو کیسے پیش کیا جائے یعنی انکی ٹریٹمنٹ کیسے کی جائے؟ ابلاغیات کی زبان میں اسے ہم Primingاور Framingکہتے ہیں۔ ان دو پہلوﺅں کو جب ہم سوشل میڈیا کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں عام صارف کی جانب سے ایسے موضوعات کی بھرمار نظر آتی ہے جو کسی نا کسی صورت انسانی ترقی کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ شاید اس وجہ سے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا پر یہ موضوعات بہت کم جگہ پاتے ہیں۔کیونکہ نیوز میڈیا کے مندرجات کا زیادہ تر حصہ سیاست اور سیاستدانوں کے گرد گھومتا ہے۔ یا وہ موضوعات جس سے چینل یا پرنٹ میڈیا کے مفادات جڑے ہوں وہ اُن میں جگہ پاتے ہیں۔تفریحی میڈیا پر جو مندرجات پیش کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر محبت، رقابت، حسد، نفرت اور بدلہ کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔اس لیے سوشل میڈیا ایک اسے پلیٹ فارم کی صورت میں اپنے صارفین کو اُن تمام موضوعات پر بات کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے جو اُن کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے معاشرے میں چوکیدار کے کردارکی ہی بدولت اب مین اسٹریم میڈیا کوبھی بہت سے ایسے موضوعات کو اپنے مندرجات میں جگہ دینی پڑتی ہے جو اگر سوشل میڈیا پر ایک عوامی آواز یا تحریک کی صورت میں سامنے نہ آتے تومین اسٹریم میڈیا شاید ان پر توجہ نا دیتا۔ سوشل میڈیا کے اسی کردار کی بدولت عدلیہ جہاں سو موٹو نوٹس لیتی ہے وہیں حکومت بھی ایکشن لیتی ہے۔ یہاں تک تو سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری قابل تحسین ہے۔ لیکن جو سب سے اہم ایشو ہے وہ یہ کہ سوشل میڈیا پر دی جانے والی چیزوں کو کیسے پیش کیا جائے ؟یعنی ان کی جو ٹریٹمنٹ کی جاتی ہے وہ قابل توجہ ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیاپر اپ لوڈ ہونے والے مندرجات کی ایسی بہت بڑی تعداد غیر تربیت یافتہ، پیشہ وارانہ تعلیم سے محروم اور نیم خواندہ عام افراد کی جانب سے کی جاتی ہے۔ جس میں اُن کی ذاتی پسند یا نا پسند کی ایک واضح جھلک محسوس ہوتی ہے۔وہ اپنی مرضی سے چیزوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں۔ اور جذبات کی رو میں بہہ کر جس طرح کی تحریر، تصویر اور آواز کا استعمال کیا جاتا ہے وہ بعض اوقات تہذیب،شائستگی اور اخلاقیات کی تمام حدود پھلانگ لیتا ہے۔ اور چیز کو تصدیق کیے بغیر آگے فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ یوں ایک سے دو ، دوسے چار اور یہ سلسلہ لا متناہی ہوجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کی جانب سے اپ لوڈ کی جانے والی معلومات اور اطلاعات کی معروضیت اور درستی مشکوک ہوتی ہے۔بعض اوقات آزادی اظہار کے نام پر اُن موضوعات کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے جو تعمیر نہیں بلکہ تخریب کا باعث بنتے ہیں۔ اسی رجحان کے ساتھ ساتھ جب سیاسی یا مذہبی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کی جانب سے جو معلومات یا اطلاعات ایک عام صارف کے اکاﺅنٹ کی صورت میں ایک پوسٹ کے طور پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ تو کرتے وہ بھی وہی کام ہیں جو جذبات کی رو میں بہہ جانے والے عام سوشل میڈیا صارفین کرتے ہیں لیکن شایدوہ اُن سے زیادہ خطرناک اور ہر طرح کے احساس ذمہ داری سے عاری ہوتاہے۔کیونکہ تعلیم یافتہ اورپیشہ وارانہ اہلیت کے حامل ان سوشل میڈیا ٹیمز کی کئی ایک پوسٹیں ملک دشمن قوتیں جلتی پر تیل چھڑکانے کے لیے استعمال کر تی ہیں۔ لہذا سوشل میڈیا پر کیا دیا جائے اور اس کی ٹریٹمنٹ کیسے ہویہ سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری کے پہلو سے جڑی ہوئی باتیں ہیں۔ اس لیے میری رائے میں جیسے مین اسٹریم میڈیا پر حکومت کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کا ایک میکنیزم موجود ہے ویسا ہی سوشل میڈیا پر بھی لازماً ہونا چاہیئے۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں فی الحال یہ ممکن نہیں کہ کوئی فرد ذاتی طور پر چیزوں کو فلٹر کرکے سوشل میڈیا پر دے۔ کیونکہ جیسا پہلے ذکر کیا کہ ہر کسی کا سیاسی اور مذہبی جھکاﺅ ہوتا ہے پسند نا پسند ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یا ایپس کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا چاہیئے۔ کہ نئے اور پرانے صارفین کے لیے یہ ضروری قرار دیا جائے کہ اُن کے اکاﺅنٹ کے جاری رہنے یا نئے اکاﺅنٹ کو بنانے کے لیے بائیو میٹرک سے تصدیق شدہ ملکی موبائل نمبرکی ضرورت ہو۔اور ایک نمبر پر ایک ہی اکاﺅنٹ بنانے کی اجازت ہو کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا یا سائبر کرائم کے حوالے سے جو حکومتی ادارے ہیں وہ متحرک اور فعال کردار ادا کریں ۔جبکہ لوگوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تعلیم کے حوالے سے خصوصی آگاہی مہمیں چلائی جائیں۔ اس سلسلہ میں طالب علموں کے تعلیمی نصاب میں سوشل میڈیا کا کوڈ آف کنڈکٹ شامل کیا جائے“۔
سوشل میڈیا کی آزادی کی بعض صورتوں میں قومی سلامتی پر دورس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کیونکہ سوشل میڈیا ٹیکنالوجیزیعنی فیس بک ، ٹویٹر ، اسنیپ چیٹ ، لنکڈ ان وغیرہ کو جنگ کی موجودہ چار جہتوں یعنی زمینی ، سمندری ، ہوا اور خلا کے بعد پانچویں جہت کے طور پر سمجھا جارہا ہے۔جنگ کی اس پانچویں اور تازہ ترین جہت کی نہ تو کوئی جغرافیائی حدود ہیں اور نہ ہی کوئی قیود۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلو جس میں تعلیم ، معاشرتی تعامل ، قانون نافذ کرنے والے ادارے ، میڈیا ، سفارتی کام کاج ، کاروبار ، تحقیق ، ترقی اور فوج حتیٰ کہ نیشنل سیکورٹی سب تک محیط ہے۔تو پھرقومی سلامتی کے تناظر میں خصوصاً اور دیگر پہلوﺅںمیں عموماً سوشل میڈیا پرآزادی اظہار کی حدود کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق کے تعین کی ضرورت ہے؟ اس حوالے سے نیشنل سیکورٹی کو سبوتاژ کرنے میں سوشل میڈیا کے کردار پر تحقیق کرنے والے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر زاہد محمودزاہد کہتے ہیں۔
” آج کی دنیا میں جب سیکورٹی کا دائرہ کار روایتی فوجی نوعیت سے نکل کر سیاسی ، معاشرتی، معاشی، ماحولیاتی اور سائبر کی دنیا تک پھیل چکا ہے۔ جہاں معاشرتی اور معاشی استحکام سب سے زیادہ مقدم سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی ریاست کی معاشی اور معاشرتی وحدت کو پارا پارا کرکے اس کے جنگ لڑنے کی صلاحیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اور ایسا کیسے کیا جاسکتاہے؟ غلط معلومات کے پھیلاﺅ سے۔ کیونکہ ہر ملک میں کچھ عوامی سطح کے مسائل موجود ہوتے ہیں جن کو ہوا دیکر سیکورٹی کے مسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اس کو فیفتھ جنریشن وار کہتے ہیں۔ جو ادراک، انفارمیشن، کلچر اور نفسیات پر محیط ہے۔ جو مخصوص طبقوں، نسلی گروہوں کے احساس محرومی کو مشتعل کرکے ، تاریخی حقائق کو مسخ کرکے قومی بیانیہ کو چیلنج کرتی دیکھائی دیتی ہے۔ اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ناپختہ ذہنوں تک بہت تیزی سے سرائیت کرتی ہے۔ جس کے دورس نتائج سامنے آتے ہیں۔ پچھلے30 سالوں میں ٹیکنالوجی ، جمہوریتوں اور عالمگیریت کی موجودگی میں ابلاغ عامہ کے نئے ذرائع سامنے آئے ہیں جو براہ راست فرد کے کنٹرول میں چلے گئے اور ریاست کی روایتی اجارہ داری ختم ہوگئی۔ میں اسے ڈیموکرائٹائزیشن آف میڈیا کہتا ہوں۔ پچھلی ڈیڑھ صدی میں اس سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک طرف تو احتجاج اور انقلاب برپا کرنے کے قابل بنایا ہے تو دوسری طرف دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کے طریقوں سے لیکر نظریاتی، لسانی، معاشی اور معاشرتی حملے کرنے کی اور پُر تشدد ترغیبات کو پھیلانے کے قابل بھی بنایا ہے۔ جن کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ سوشل میڈیا کو سوشل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے اسے آج دنیا میں جہاں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے وہیں یہ ریاستوں کے لیے چیلنجز کی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے۔ دنیا کی تمام جمہوریتیں اب آپ کو اس حوالے سے قانون سازی کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔تاکہ اپنے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس سلسلے میں جرمنی میں NetzDG law 2018 بنایا گیا ہے یورپی یونین خاص طور پر دہشت گردانہ ویڈیوز کے حوالے سے قانون سازی پر غور کررہی ہے ۔کہ اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایک گھنٹے کے اندر انتہا پسندانہ مواد کو حذف نہیں کرتے ہیں تو انہیں جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آسٹریلیا نے Sharing of Abhorrent Violent Material Act 2019 پاس کیا ہے۔ روس میں حال ہی میں ایک قانون نافذ ہواہے جس نے ریگولیٹرز کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ “کسی ہنگامی صورتحال میں” دنیا بھر کے ویب سے رابطے بند کردیں ۔ 2015 میں روس کے ڈیٹا قوانین کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو روسیوں کے بارے میں کوئی بھی ڈیٹا ملک کے اندر سرورز پر جمع کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ اس ضابطہ پر عملدرآمد کے بارے میں موثر طریقہ کار واضع نا کرنے پر لنکڈ ان کو بلاک کردیا گیا جبکہ فیس بک اور ٹویٹر پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ چین میں ٹویٹر ، گوگل اور واٹس ایپ جیسی سائٹیں مسدود ہیں۔ ان کے متبادل کے طور پر چین اپنی تیار کردہ ویبو ، بیدو اور وی چیٹ نامی سوشل میڈیا کی سروسز فراہم کر رہا ہے۔ جب بھی ریاستیں اور حکومتیں سوشل میڈیا کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق کو وضع کرنے کی طرف کوئی قدم بڑھاتی ہیں تو عمومی طور پر سول سوسائٹی کی طرف سے اوربہت سارے اسکالرز کی طرف سے یہ Argument پیش کیا جاتا ہے کہ یہ فرد واحد کی آزادیوں کو سلب کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرانی چاہیئے کہ فرد کی سلامتی تو سب سے بڑھ کر انسانی حق ہے ۔ جس پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ فرد کی سیکورٹی اور سلامتی اُس کے سول رائٹس سے زیادہ مقدم ہوتی ہے۔ اس لیے ریاست سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسا ضابطہ اخلاق سامنے لیکر آئے جو ریاست کے شہریوں اور مجموعی طور پر قومی سلامتی کے چیلنجز کو ایڈریس کرسکے۔ کیونکہ آج کی دنیا جس میں جنگیں بم، بندوقوں اور میزائلوں سے نہیں لڑی جاتی بلکہ بیانیوں سے لڑی جاتی ہے تو بیانیوں کی اس جنگ میں سوشل میڈیا سے زیادہ مہلک ہتھیار کوئی نہیں۔ اس لیے ریاست کو اس حوالے سے ضابطہ اخلاق ضرور وضع کرنا چاہیئے۔ میرے نزدیک ریاست ایک موثر قسم کا ضابطہ اخلاق لیکر آئے پاکستان میں ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے مزید موثر بنانے کے لیے ایک مہم چلائی جائے جو ناصرف ایک عام صارف کی تربیت کرے اور اُس میں یہ احساس ذمہ داری پیدا کرے کہ کہیں بیانیوں کی اس جنگ میں وہ غیر دانستہ طور پر دشمن کا کام تو آسان نہیں کر رہاہے“۔
سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی ہر روز متعارف ہونے والی نئی جہتوں کی وجہ سے بدلتی دنیا میں اب آزادی صحافت سے پہلے ذمہ دارانہ صحافت کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ اکثر صورتوں میں سوشل میڈیا کی آزادی سماجی اور ملکی ذمہ داریوں سے بالا ہوجاتی ہے۔اورآزادی اظہارکے نام پر جو مندرجات اس پر پیش کیے جاتے ہیں وہ پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑانے کے ساتھ ساتھ ملکی اور عوامی مفادات کو تہس نہس کردیتے ہیں۔لہذا ان ذمہ داریوں کا تعین ریاست ، معاشرہ اور فرد تینوں جانب سے یکساں بنیادوں پر ہونا چاہیئے۔یعنی ضوابط کی تیاری،ان کامشاورتی جائزہ، اصلاح اور پھر موثر ترین اطلاق سے پاکستان زیادہ مضبوط ، ترقی پسند اور جمہوری ریاست بن کر اُبھرے گا۔
پاکستان کے سوشل میڈیا کے حوالے سے نئے” سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 “کے نمایاں نکات
٭ قومی کورڈینیٹر کے دفتر کا قیام جو مواد کی ریگولائزیشن کا ذمہ دار ہوگا۔ اس حوالے سے وہ حکومت کو مشورہ سوشل میڈیا کمپنیز کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔
٭ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کواتھارٹی کی جانب سے دستخط شدہ تحریری اور الیکٹرانک ای میل پر کسی بھی ” غیر قانونی مواد“کو24 گھنٹے کے اندر اندر ہٹانا ہوگا۔ اور کسی ہنگامی صورت میں 6گھنٹوں کے اندراندر۔
٭ اگر کوئی کمپنی ان شقوں کی پابندی کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو کمپنی کے ذریعے چلائے جانے والے تمام پلیٹ فارمز، ایپلیکیشنز اور سروسز کا بلاک کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر500 ملین روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنی کو بلاکنگ کی تاریخ کے 2 ہفتوں کے اندر وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی کے سامنے ریپریزنٹیشن داخل کرانے کا حق حاصل ہو گا اور کمیٹی ریپریزنٹیشن کو سننے کے بعد 3 ماہ کے اندر فیصلہ جاری کرے گی۔
٭ صارفین کے خلاف کسی انضباطی کاروائی کے لئے تحریری مواد اور دیگر معلومات مطالبہ پر فراہم کی جائیں گی۔
٭ ان رولز کے عمل میں آنے کے 3 ماہ کے اندر سوشل میڈیا فرمیں پاکستان میں ایک مستقل رجسٹرڈ آفس اسلام آباد میں واقع ایک فزیکل ایڈریس کے ساتھ قائم کریں گی ۔اوراُنھیں کورڈینیشن کے لئے پاکستان میں مقیم ایک فوکل پرسن کی تقرری کرنا ہوگی۔ ان رولز کے شائع ہونے کی تاریخ سے 12 ماہ کے اندر ڈیٹا اور آن لائن مواد کو ریکارڈ اور محفوظ کرنے کے لیے پاکستان میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرور قائم کرنا ہوں گے۔
٭ کمپنیزپاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیز تقاریر اور مواد، ہتک عزت، جعلی خبروں، تشدد اور قومی سلامتی سے متعلق کسی بھی مواد کی لائیو سٹریمنگ کو روکنے کے لیے فعال میکنزم بنائیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے صارفین کی تعداد (جنوری2020 تک)
٭ پاکستان میں فیس بک صارفین کی تعداد33 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا15 فیصدہے اور ملک کا ہر ساتواں فرد فیس بک استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں انسٹاگرام صارفین کی تعداد 6.40 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا03 فیصدہے اور ملک کا ہر35 واں فرد انسٹا گرام استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں سنیپ چیٹ صارفین کی تعداد4.40 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا02 فیصدہے اور ملک کا ہر50 واں فرد سنیپ چیٹ استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں ٹویٹر صارفین کی تعداد1.83 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا01 فیصدہے اور ملک کا ہر 120 واں فردٹویٹر استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں لنکڈاِن صارفین کی تعداد06 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا03 فیصدہے اور ملک کا 37 واں فرد لنکڈاِن استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان دنیا بھر میں فیس بک صارفین کی 13 ویں بڑی تعداد کا حامل ملک ہے۔
٭ پاکستان فیس بک صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے۔
٭ پاکستان سنیپ چیٹ صارفین کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں20 ویں نمبر پر ہے۔
انٹرنیٹ، سمارٹ موبائل فون اور سوشل میڈیا صارفین کا موازنہ
دنیا کی صورتحال
|
پاکستان کی صورتحال
|
٭ دنیا کا ہر دوسرا فرد انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ ٭ دنیا میں ہر تیسرے بندے کے زیر تصرف سمارٹ موبائل فون ہے۔ ٭ دنیا کا ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا کا صارف ہے۔ ٭ دنیا میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کا 92 فیصد موبائل انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔ ٭ دنیا میں سوشل میڈیا صارفین کو 98.6 فیصد موبائل فونز کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ ٭ گزشتہ سال یعنی جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران دنیا کی آبادی میں 1.1 فیصد (82 ملین)،انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد میں 7 فیصد(298 ملین) اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 9.2 فیصد(321 ملین) اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر روز انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 8 لاکھ 16 ہزار4 سوافراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال روزانہ سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 8 لاکھ79 ہزار4 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہرایک گھنٹہ کے دوران انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 34 ہزار افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک گھنٹہ کے دوران سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 36 ہزار6 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہرایک منٹ میں انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 567 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک منٹ میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں611 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ |
٭ پاکستان کا ہرتیسرافرد انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ ٭ پاکستان میں ہرساتویں بندے کے زیر تصرف سمارٹ موبائل فون ہے۔ ٭ پاکستان کا ہر چھٹاشخص سوشل میڈیا کا صارف ہے۔ ٭ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کو99 فیصد موبائل فونز کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ ٭ گزشتہ سال یعنی جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران پاکستان کی آبادی میں 2 فیصد (4.3 ملین)،انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد میں 17 فیصد(11 ملین) اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 7 فیصد(2.4 ملین) اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر روز آبادی میں 11 ہزار7 سو81افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر روز انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 30 ہزارایک سو37افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال روزانہ سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 6ہزار5 سو75 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہرایک گھنٹہ کے دوران انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ایک ہزار 2 سو 56 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک گھنٹہ کے دوران سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں274 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہرایک منٹ میں انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 21 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر ایک منٹ میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں5 افراد کا اضافہ ہوا۔ |
ماخذ : ۔ ڈیجیٹل 2020 :گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو ۔۔۔شماریاتی تجزیہ مصنف
دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف کتنا وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے ؟
٭ ڈیجیٹل 2020 :گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو کے مطابق دنیا میں ہر روز انٹرنیٹ صارفین اوسطً 2 گھنٹے 24 منٹ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں تین دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت سوشل میڈیا پر صرف کیا جاتا ہے۔یعنی سال میں تقریباًایک مہینہ 6 دن متواتر کسی وقفے کے بغیر سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ دنیامیں فی سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً144 منٹس سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں1008 منٹ ، ایک مہینے(30 دن) میں4320 منٹ اور ایک سال(365 دن) میں 52560 منٹ۔ اگرروزانہ 1440 کے منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 16 فیصد ٹائم سوشل میڈیا استعمال کرنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انٹرنیٹ صارفین اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 16 فیصدسوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔
٭ دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً 2 گھنٹے24منٹ سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 876 گھنٹے سوشل میڈیا کے استعمال میں لگاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق عالمی سطح پر ایک فرد کی اوسط عمر72 سال ہے۔ یوں ایک شخص اپنی تمام عمر میں اوسطً 63072گھنٹے سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ 24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف اپنی پوری زندگی میں سوا سات سال طوالت پر مشتمل عرصہ سوشل میڈیا استعمال کرنے پر گزار دیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کے پیمانے کو مد نظررکھا جائے تو دنیا میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والا کوئی بھی فرد اپنی48 سالہ فعال زندگی کے420480 گھنٹوں میں سے 42048 گھنٹے یعنی اپنی فعال زندگی کے کل وقت کا 10فیصد۔ اور اپنی فعال زندگی کے پونے پانچ سال کا عرصہ ہے سوشل میڈیا کی نذر کردیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کی420480گھنٹے عمر کے دورانیہ میں رات کی نیند کے 157680گھنٹے نکال لیے جائیں تو باقی262800 گھنٹوں میں سے 42048 گھنٹے فعال زندگی کا فعال وقت دنیا میں سوشل میڈیا کے استعمال پر گزار دیا جاتاہے۔
پاکستا ن میں ایک سوشل میڈیا صارف کتنا وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے ؟
٭ پاکستان میں ابھی اس حوالے سے ملکی اور غیرملکی سطح پر کوئی کام نہیں ہوا ہے۔اس لیے ہم دستیاب اعدادوشمار کے تجزیہ سے کوشش کریں گے کہ حقیقی صورتحال سے قریب تر دورانیہ کا اندازاً تعین کرسکیں۔ ڈیجیٹل 2020 :پاکستان کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا کے 6 پلیٹ فارمز فیس بک 15 منٹ 02 سیکنڈ، وٹس ایپ2 منٹ 47 سیکنڈ، یو ٹیوب29 منٹ 59 سیکنڈ،ٹویٹر13 منٹ36 سیکنڈ،انسٹا گرام10 منٹ44 سیکنڈ اور وکی پیڈیا 4 منٹ اور 34 سیکنڈاوسطً فی ویب سائٹس پر فی وزٹ وقت صرف کیا جاتاہے یعنی مجموعی طور پر 76 منٹ 42 سیکنڈ ان 6 ویب سائیٹس پر فی وزٹ وقت صرف ہوتا ہے۔ اگر ان6 ویب سائیٹ کو اوران کے ایک وزٹ فی کس کے مجموعی صرف شدہ وقت( 76 منٹ 42 سیکنڈ) کو ہی یومیہ پیمانا بنا لیا جائے توپاکستان کے انٹرنیٹ صارفین ایک مہینے میں تقریباً ڈیڑھ دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔یعنی سال میں تقریباً19 دن متواتر کسی وقفے کے بغیر سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ پاکستان میں فی سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً76 منٹس 42 سیکنڈسوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں536 منٹ اور 54 سیکنڈ، ایک مہینے (30 دن) میں2301منٹ اور ایک سال(365 دن) میں27995 منٹ30 سیکنڈ۔ اگرروزانہ کے1440 منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 8.5 فیصد ٹائم سوشل میڈیا استعمال کرنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 8.5 فیصدسوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔
٭ پاکستان میں ایک سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً ایک گھنٹے16منٹ اور42 سیکنڈ سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 466 گھنٹے 35 منٹ30 سیکنڈ سوشل میڈیا کے استعمال میں لگاتے ہیں۔یوں ایک پاکستانی اپنی تمام عمر میں اوسطً 31261 گھنٹے38 منٹ 30 سیکنڈسوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر67 سال یعنی 586920 گھنٹے ہے۔24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک سوشل میڈیا صارف اپنی پوری زندگی میں تقریباًساڑھے تین سال طوالت پر مشتمل عرصہ سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کے پیمانے کو مد نظررکھا جائے توپاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والا کوئی بھی فرد اپنی48 سالہ فعال زندگی کے 420480گھنٹوں میں سے22396 گھنٹے اور 24 منٹ یعنی اپنی فعال زندگی کے کل وقت کا 5.32 فیصد۔ اور اپنی فعال زندگی کے اڑھائی سال کا عرصہ ہے سوشل میڈیا کی نذر کردیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کی420480گھنٹے عمر کے دورانیہ میں رات کی نیند کے 157680گھنٹے نکال لیے جائیں توباقی262800 گھنٹوں میں سے 22396 گھنٹے24 منٹ فعال زندگی کا فعال وقت پاکستانی سوشل میڈیا کے استعمال پر گزار دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کیا کہتے ہیں؟
٭ سید محمد ذکی، کوئٹہ
سوشل میڈیا دور جدید میں انفارمیشن کی دنیا میں ایک حیرت انگیز اضافہ ہے۔ آج جس کسی ہاتھ میں سمارٹ فون ہے وہ سوشل میڈیا کے میدان کا کھلاڑی ہے۔ معلومات اور خیالات کا ایک طوفان ہے جو ہر کسی کو بہائے لیجارہا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جتنے اسکے مثبت پہلو ہیں اتنے ہی منفی پہلو بھی ہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا جو تصور صحافت کی دنیا میں عام تھا سوشل میڈیا مگر اس تصور پہ عمل کرتا دکھائی نہیں دیتا اور اسی بناءپر اسکی صورت ایک دو دھاری تلوار کی سی ہوچکی ہے جسکا بے احتیاطی سے استعمال معاشرے کیلئے مہلک اور خطرناک ہے۔ گویا یہ کسی بچہ کے ہاتھ میں ایک کھلونا بم کی طرح ہے جو اسکی خوبصورتی سے مبہوت ہو کر اس سے کھیلتا ہے مگر اسکی تباہ کاری سے بے خبر ہوتا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ایڈیٹر کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی جو ایک فلٹر کا کام دیتا تھا۔ خبریں اور معلومات اس فلٹر میں چھن چھن کر قارئین تک پہنچا کرتی تھیں۔ اسی بنیاد پر ایڈیٹر کی ردی کی ٹوکری کو ایک خاص مقام حاصل تھا جو خبر میں موجود سارا زہر ساری نفرت اپنے اندر سمو لیا کرتی تھی۔ مگر سوشل میڈیا کے وسیع و عریض میدان میں دور دور ایسا کوئی ایڈیٹر ہے نہ اسکی ردی کی ٹوکری لہذا معلومات و خبروں کا فلٹر ہونا ممکن نہیں۔ بعض ریاستوں نے اگرچہ اس حوالہ سے کچھ سائبر قوانین وضع کئے ہیں مگر وہ نہ موثر ہیں اور نہ کافی۔سوشل میڈیا جس میں فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، واٹس اپ سب شامل ہیں معاشرہ پر صرف اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ اب معاشرے کو ” ہانٹ” کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی ایک ٹوئٹ ایک بلاگ یا ایک تحریر پلک جھپکتے ملک بھر میں جاری کسی بھی بحث کا رخ موڑڈالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ایسا میڈیم ہے جس کے نہ کوئی قواعدہیں نہ ضوابط، گویا آپ ایک لمبی شفاف سڑک پر اپنے خیالات کی گاڑی دوڑانے میں آزاد ہیں اور سوائے سیلف کنٹرول کے کوئی ایسا سپیڈ بریکر نہیں جو آپکو روک سکے آپکی رفتار کم کرسکے اور یہی تیز رفتاری حادثات کا باعث ہے۔سوشل میڈیا کا استعمال اگر مثبت انداز میں ہو اسے پیغام رسانی اور اظہار خیال کیلئے استعمال کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ یہ بہت تعمیری میڈیم ثابت ہو مگر اسکا بغیر تربیت غیر منظم انداز میں استعمال افراد سے لیکر معاشرے بھر کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے بلکہ ہورہا ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں جو پہلے ہی نسلی علاقائی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے سوشل میڈیا کی صورت بسنت کے ایسے تہوار کی سی ہے جہاں اپنے اپنے کوٹھوں پر چڑھ کر ہم اپنے اپنے خیالات کی رنگ برنگی پتنگیں اڑا رہے ہیں اور ایک دوسرے سے پیچ لڑا رہے ہیں۔ ایک جانب جہاں ایک دوسرے کا پیچ کاٹنے پر ڈھول تاشے بج رہے ہیں مٹھائیاں بٹ رہی ہیں وہیں اس ڈور سے معصوموں کے گلے بھی کٹ رہے ہیں اور ماتم بھی جاری ہے۔ مگر ہم جان نہیں پاتے کے ہمارے خیال کی ڈور نے دور کتنے گلے کاٹ ڈالے کتنے گھر اجاڑ ڈالے۔ حتمی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے اور اسکا واحد راستہ سیلف کنٹرول ہے۔
٭ محبوب سرور، کراچی
باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال دونوں طرح ہورہا ہے۔البتہ تعمیری استعمال کی شرح زیادہ ہے۔ چونکہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔لہذا کسی بھی منفی یا غلط سوچ کو پسند کرنے کا رجحان بھی کم ہوا ہے۔اور اس کا براہ راست فائدہ تعمیری یا مثبت استعمال کو ہوا ہے۔ہمارے یہاں کیاپوری دنیا میں سوشل میڈیا آزاد ہے۔کیونکہ یہ کسی ادارے کسی آرگنائزیشن کے ماتحت نہیں۔ لیکن اس کے لیے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ اگرچہ ملک میں سماجی، اخلاقی اور ذاتی حوالوں سے Cyber Act موجود ہیں۔ اور ان پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے لیکن انھیں مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارا مذہب ہمیں دوسروں سے اچھے طریقے سے بات کرنے کا درس دیتا ہے۔ہمیں ضرور سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیئے لیکن اُن تمام ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کہ ہم مسلمان اور ایک مہذب شہری ہیں۔ اسی طرح حکومت بھی سوشل میڈیا تک رسائی مزید ممکن بنائے اور قوانین پر عملدرآمدکو یقینی بنائے۔
٭ جویریہ مقبول، اسلام آباد
ملک میں سوشل میڈیا کا کردار زیادہ تر تعمیری ہے۔ لوگ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور جو لوگ اخبارات پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے وقت نہیں نکال سکتے وہ سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا میں رونماہونے والے واقعات کے بارے میں جان سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی رائے کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن ہمارے یہاں یہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہے۔بچے بچے کی اس تک رسائی ہے اور ہر طرح کی بات کا اظہار کرنے کے لیے مواقع موجود ہیں۔نہ صرف الفاظ کی صورت میں بلکہ صوتی اور تصویری اظہار رائے سوشل میڈیا پر کیا جاسکتا ہے۔لہذا اس کے استعمال کے حوالے سے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ مگر اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہوسکے گا کہ نہیں۔کچھ گھروں کی حد تک تو شاید حد بندی ہو۔مگر ملکی سطح پر شاید ممکن نہ ہوسکے۔اس سلسلے میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے حدودو قیود کا تعین کرے اور معاشرے میں غلط معلومات اور خبروں کو پھیلنے سے روکے اس حوالے سے تربیتی پروگرامزشروع ہونے چاہیئے۔ صارفین کے لئے یہ ضروری ہے کہ کوئی بھی بات ، معلومات یا خبر سوشل میڈیاپر وائرل کرنے سے پہلے اسکی تصدیق کریں اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔لوگ آج کے دور میں پابندی برداشت نہیں کرتے اور آزادی پسند ہیں۔مگر اس آزادی کا فائدہ تب ہی ہے جب احساس ذمہ داری ہوگی لوگ اپنے ہر عمل کی خود جانچ کریں۔
٭ غنی الرحمان، گاﺅں کاٹن دوش خیل، تحصیل تیمر گرہ، ضلع دیر پائین، خیبر پختونخواہ
سوشل میڈیا کا کنٹرول چونکہ ہر خاص و عام کے ہاتھ میں ہے۔اس لیے اس کا استعمال ہر طرح سے ہے۔ یعنی تعمیری اور غیر تعمیری دونوں صورتوں میں ہے۔کرونا وائرس سے بچاﺅ اس کی دنیا اور ملک میں موجود لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے آگاہی آج کے حالات میں سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی ایک بہت واضح علامت ہے ۔دوسری طرف میری نظر میں پاکستان کے تناظر میں سوشل میڈیا کا غیر تعمیری استعمال اس کے تعمیری استعمال سے زیادہ ہورہا ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ آٹھ دس سال سے پاکستان کی سیاست میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال تمام حدود و قیود پار کر چکا ہے۔سیاسی مخالفین کے جوشیلے کارکنان اور سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کے کارندے کھلم کھلا ایک دوسرے کے خلاف فیس بک، ٹویٹر، وٹس ایپ، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گالم گلوچ، طعنہ زنی،من گھڑت باتوں،مخالفین کے عیوب کا پرچاراور ذاتیات پر ہمہ وقت حملوں میں مصروف نظر آرہے ہوتے ہیں۔اس طرزعمل سے ہمارے معاشرے میں رہی سہی اخلاقیات کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔سوشل میڈیا کو مختلف حوالوں سے جھوٹی خبروں، افواہوں،قیاس آرائیوں، سنسنی پھیلانے اور دھوکہ دہی کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ ملک میں سوشل میڈیا کو لسانی قوم پرستی، فرقہ پرستی،مذہبی منافرت پھیلانے اور غیر اخلاقی حوالوں سے یعنی فحاشی اور عریانی پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔جس بنا پر اس کا منفی استعمال غالب نظر آرہا ہے۔ ماہرین کی نظر میں سوشل میڈیا فطری طور پرآزاد ہے۔کیونکہ اس کو منظم کرنے اور چلانےکے لیے نہ تو باضابطہ طور پر کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے قائم ہیں اور نہ سوشل میڈیا کو اس طرح ریگو لیٹ کیا جاتا ہے۔ جس طرح سے ایک اخبار ،ریڈیو اور ٹی وی چینل کے دفتراور اُن سے متعلقہ امور کو پیشہ ورانہ اور منظم اندازیں چلایا جاتا ہے۔اور وہاں ذمہ دار شخصیات اور انتہائی تربیت یافتہ اور پیشہ ور کارکن باہمی ربط اور تعاون سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے علمی اور نظریاتی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا آزاد ہے اور درحقیقت عملی لحاظ سے بھی کافی آزاد نظر آرہا ہے۔ورنہ اس کا منفی استعمال جس کا پہلے ذکر کیا گیا اتنا زیادہ نہ بڑھتا۔سوشل میڈیا اور اس کے استعمال کے حوالے سے ضابطہ اخلاق واضع کرنے اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے عمومی طور پرتین نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ ایک مکتبہ فکر سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے کسی بھی قسم کے ضابطہ اخلاق بنانے اور اس پر عمل درآمدکا سرے سے ہی مخالف ہے۔اس مکتبہ فکر کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے پختہ ذہن ہوجائیں گے اور سوشل میڈیا کا مفید اور کارآمد استعمال درست سمت میں گامزن ہوجائے گا۔دوسرا مکتبہ فکرسوشل میڈیا کے حوالے سے سخت اور منظم قسم کے ضابطہ اخلاق اور اس پر مکمل عملدرآمد کا حامی ہے۔ ان خیالات کے حامی افراد پر رجعت پسندانہ اور فرسودہ سوچ رکھنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔تیسرا مکتبہ فکر وہ ہے جو سوشل میڈیا کے حوالے سے معتدل اور کارآمد قسم کے ضابطوںاور قوانین واضع کرنے کا حامی ہے ۔ جو انتہائی غورو خوص اور معاشرے میں موجود اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی مشاورت سے جمہوری انداز میں بنایا گیا ہو۔جس کا مقصد صرف سوشل میڈیا پر غیر ضروری پابندیوں کا اطلاق نہ ہوبلکہ اس کا انتہائی منفی اور تخریبی استعمال کو روکنا مقصودہو۔میں ذاتی طورپر اس تیسرے نقطہ نظر سے متفق ہوں۔اس سلسلے میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے سہولیات کو مزید بہتر بنائے اور اُنھیں فروغ دے اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیاکے منفی اور تخریبی استعمال کو ہر ممکن حد تک روکنے کو یقینی بنائے اور اس حوالے سے متعلقہ قوانین اور ضابطوں کو مزیدبہتر بنائے۔ صارفین کے لیے یہ نقطہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اگر وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے تعمیری پہلوﺅں کو مقدم رکھیں گے اور غیر تعمیری استعمال سے احترازکریں گے تو حکومت کو بھی سوشل میڈیا پرغیر ضروری پابندیوںاور قدغنوں کی طرف نہیں جانا پڑے گا۔
٭ ارشد حسین جگنو ، گلگت
سوشل میڈیا نے کسی حد تک عوام کو سہولت فراہم کی ہے لیکن معلومات کی بے جا ٹریفکنگ نے سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنے میں مشکلات کھڑی کردی ہے اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے تعمیری یا غیر تعمیری استعمال کی بات کریں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہری صحافت نے نہ صرف صحافتی معیار اور ضابطہ اخلاق کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اخلاقی طور پر اس حد تک گر چکے ہیں کہ چند کمنٹس اور لائیک کیلئے شریف النفس انسان کی کردار کشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔یہاں تک کہ فیک آئی ڈیز اور پیجز بنا کر ایک دوسروں کی عزت اچھالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے اور اس دوڑ میں سیاسی و مذہبی جماعتیں سرفہرست ہیں۔ ہر کوئی بندہ سماج کے مثبت پہلو کے بجائے منفی پہلوﺅں کو اجاگر کرنے میں لگا ہوا ہے انھی پہلوﺅں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال تعمیری کم تخریبی زیاد ہونے لگا ہے۔سوشل میڈیا کی آزادی سے پہلے میں آزادی اظہار رائے پر بات کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔اظہارِ رائے کی آزادی کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہر انسان کو کھل کر اپنا نکتہ نظر بیان کرنے، سوال کرنے، اختلاف اور تنقیدکرنے کی اجازت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ہم کسی کی ذات، مسلک ،مذہب یا قوم پر بے جا انگلی اٹھا کر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں اس تناظر میں اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین اور آزادی کی بات کریں تو ہر بندہ اظہار رائے کی آزادی سے دو قدم آگے بڑھ کر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے یہاں تک کہ سوشل میڈیا کا کوئی بھی ٹول استعمال کرکے عزت نفس کو مجروح کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے جو کہ قابل افسوس ہے اور سوشل میڈیا مغربی ممالک سے زیادہ پاکستان میں آزاد ہے یہاں لوگ آئے روز سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسروں پر کفر کے فتوے داغ دیتے ہیں اس لئے میں عموماً اظہار رائے کی آزادی کی جگہ ”تخریبی آزادی“ کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔اب چونکہ سوشل میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق کی بات آئی ہے تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ضابطہ اخلاق کے بغیر زندگی کا کوئی بھی شعبہ نہ ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی اس شعبے سے جڑے لوگ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن یہاں خدشہ بھی حق بجانب ہے کہ کہیں اسی ضابطہ اخلاق کی آڑ میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہ لگائی جائے۔ بدقسمتی یہ کہ ہم نے سوشل میڈیا کو ملک میں اجازت تو دی ہے مگر سوشل میڈیا کی تعلیم و تربیت پرکوئی توجہ نہیں دی ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل سوشل میڈیا کو صحیح استعمال ہی نہیں کر پارہی ہے۔ اس لئے حکومتی ذمہ داری بنتی ہے کہ سوشل میڈیا کے قوانین کے حوالے سے جو ابہام پائے جاتے ہیں ان کو جلد از جلد دور کر کے سوشل میڈیا پر پابندی کی بجائے اسی سوشل میڈیا کو اپنی طاقت بنا کے سوشل میڈیا صارفین میں احساس ذمہ داری پیدا کرے۔
٭ محمد فاروق بھٹی، لاہور
پاکستان میں سوشل میڈیا کا جتنا بھی تعمیری استعمال ہے وہ سب غیرارادی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق مڈل، لوئر مڈل کلاس اور کم تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ یہ طبقہ یو ٹیوب پر دلچسپ وڈیوز اور غیر ضروری وڈیوز دیکھتا ہے اور بہت کم giving end پر آتا ہے۔ یو ٹیوب سے پیسہ کمانے کے شوقین غیر ضروری موضوعات پر انتہائی دلچسپ وڈیوز بنا کر پوسٹ کرتے ہیں، کچھ غیراخلاقی ڈومین میں بھی گھس جاتے ہیں۔ چوری کی وڈیوز بھی پوسٹ کرنے کا کافی ٹرینڈ ہے۔ موناٹائزیشن کے لالچ میں یو ٹیوبر ٹھرکی قسم کا مواد بھی بھرتے رہتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر جعلی اکاﺅنٹس کی بھرمار ہے اور یہاں بھی کچھ اگر تعمیری ہو رہا ہے تو ہے وہ بھی غیر ارادی۔فرقہ واریت جیسے نازک موضوعات میں عام لوگ بڑے منصوبہ سازوں کی آگ کا ایندھن بنتے ہیں۔ عام لوگ عام طور پر کسی پوسٹ سے مشتعل ہو کر اپنا ردِعمل دیتے ہیں اور سوشل میڈیا کو خاص مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کی خوراک بنتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین تعمیری و غیر تعمیری کی بحث سے آزاد ہیں اور صرف لطف و لذت کشید کرنے کو اس میڈیم کو استعمال کرتے ہیں۔ بڑے کینوس پر دیکھنے سے یہ غیر تعمیری استعمال کے کھاتے ہی میں پڑے گا۔ہمارے ہاں سوشل میڈیا آزاد ہی نہیں شترِ بے مہار ہے اور بریک فیل گاڑی کی طرح ڈھلوان سے پھسلے چلا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز کی کمپینز کا شکار عام صارف بظاہر خود کو آزاد محسوس کرتا ہے لیکن اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کسی ماہر اسٹریٹجسٹ کی منصوبہ بندی کا ایک عنصر بن گیا ہے۔ یہ آزادی صارف سے زیادہ ان اداروں، منصوبہ سازوں اور سیاسی و سماجی یا کاروباری یونٹس کی آزادی ہے۔ سوشل میڈیا ایپس کے بنانے والے اور ان سے پیسہ کمانے والے ان کو بزنس ایپس کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ فیس بک جیسی مشہور زمانہ ایپ کمیونٹی اسٹینڈرڈز کی خلاف ورزی جیسے خود ساختہ اور بیہودہ الزامات کے تحت کسی بھی صارف کا نہ صرف اکاﺅنٹ بند کر دیتی ہے بلکہ لاکھوں ڈالرز کا ڈیٹا بھی ہڑپ کر لیتی ہے۔ چند ایشوز تو ایسے ہیں کہ ان پر فوراً ہی ایکشن لیا جاتا ہے اور صارف کے تمام حقوق سلب کر لئے جاتے ہیں۔ اسرائیل اور انڈیا کے زیرِ اثر ہونے کے باعث آپ کو یہاں برہان وانی کا لفظ لکھنے پر یا حماس کے شیخ احمد یاسین کے ذکر پر بھی اکاﺅنٹ سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ میرا گیارہ سالہ پرانا ذاتی اکاﺅنٹ جس میں بیشمار ذاتی ڈیٹا تصویریں، تحریریں اور قیمتی مواد شامل ہے کو محض کشمیری لاک ڈاﺅن کی مخالفت پر بند کیا گیا ہے اور بار بار کے رابطے کے باوجود بحال کیا گیا نہ ہی جواب دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی آزادی پر بڑے اجارہ دار گروپس غیر اعلانیہ پالیسیوں کی بنیاد پر یکطرفہ خفیہ قدغن لگاتے ہیں جس کا بعض اوقات صارف کو علم تک نہیں ہوتا۔ گزشتہ امریکہ انتخابات میں فیس بک صارفین کا ڈیٹا Analytica” “Cambridge کو بیچنے کا اعترافِ جرم مارک زکربرگ باقاعدہ طور پر امریکی کانگریس کی خصوصی کمیٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رو کر کر چکا ہے۔نیویارک سے رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاشیو کوٹز جو کمیٹی کی ہیڈ تھی کے سامنے اداکاری کر کے کچھ محفوظ تو ہوا مگر جن صارفین کا ڈیٹا چوری کرکے آگے بیچا گیا تھا ان کو کوئی compensation نہیں دی گئی۔ فیس بک کا صارف بظاہر آزاد اور عملاً پابندیوں میں جکڑا ہوا ایسا شخص ہے جس کی پرائیویسی کا کوئی احترام کہیں موجود نہیں۔ خصوصاً ہم پاکستانیوں کے لئے کوئی فورم ایسا موجود نہیں جہاں فیس بک کی بدمعاشیوں کے خلاف رجوع کیا جا سکے۔ ضابطہ اخلاق تو ہر میڈیم اور میڈیا کے لئے ہونا چاہیئے اور عموماً ہوتا بھی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عموماً ایسے ضابطہ اخلاق بناتے ہوئے صارفین کی رائے اور حقوق کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔ سوشل میڈیا مالکان ہر سوسائٹی کی سماجی روایات کا احترام کرتے ہیں اور پہلے سے بہتر قواعد و ضوابط کے تحت ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ معاملہ وہاں آ کر بگڑتا ہے جب نفرتی مواد کو بروقت قابو نہیں کیا جاتا یا کسی ادارے کے paid سوشل میڈیا ورکرز کسی مخالف کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ شروع کرتے ہیں۔ دروغ گوئی اور افواہ سازی اور افواہ بازی کے خلاف قواعد و ضوابط بننے چاہیئے اور ایسا ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اورLaw of Land باآسانی عمل درآمد کر سکے۔حکومت کو عوام کے تحفظ اور معلومات کی صحیح ترین رسائی یقینی بنانے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ سوشل میڈیا کے عام صارفین تو پہلے ہی مظلوم ہیں۔ ان کے لئے ذمہ داریوں کا کیسا تعین کرناہاں البتہ فرد سے جب بات ادارے تک پہنچے تو اسے سرکار کی اجازت سے مشروط ہونا چاہیئے جیسے سیاسی جماعتیں اور مسلکی فرقہ وارانہ پریشر گروپس حکومتی اجازت کے بغیر اپنا اکاﺅنٹ آپریٹ نہ کر سکیں۔ ان کی باقاعدہ اجازت، سالانہ فیس اور لائسنس ہونا چاہیئے۔
سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی ایک کہانی
٭ روحان کی پیدائش 29 جولائی 2017 کو ہوئی ۔پیدائش کے پانچویں دن سانس میں دشواری کے سبب روحان کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ یرقان کی تشخیص کے بعد علاج کے دوران اسکے مختلف ٹیسٹ ہوئے جس سے ظاہر ہوا کہ روحان دل کے عارضہ میں مبتلا ہے جو کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلاکیس ہے۔جسکو میڈیکل زبان میں آریٹک آرٹریشیا کہتے ہیں۔روحان کے والد کا تعلق آئی ٹی اور والدہ کاتعلق ابلاغ عامہ سے ہے۔والدین نے مرض کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود ریسرچ پیپرز کو پڑھا ۔ ملک کے مایاناز کارڈیالوجسٹ سے بھی رابطے میں رہے جس سے واضح ہوا کہ روحان کی پہلی سرجری ”ناروڈ” ہوگی جو کہ مشکل ترین سرجریز میں سے ایک ہے اور پاکستان کا میڈیکل انفرااسٹرکچر اس نوعیت کی سرجریز کو سنبھال نہیں سکتا ۔روحان کے پاس صرف ایک ماہ کی مدت تھی اس اثنا ءمیں اسکا آپریشن ہونا اسکی زندگی کے لیے ضروری تھا ۔والدین نے دنیا کے مختلف سرجن اور کارڈیولوجسٹ سے سوشل میڈیا کے ذریعے رسائی حاصل کی جن میں ای میل سروس، فیس بک، ٹویٹر اور مختلف ہسپتال کی آن لائن پورٹلز وغیرہ شامل تھے۔جس سے اندازہ ہوا کہ یہ ایک مہنگی سرجری ہے کیونکہ اس میں رسک فیکٹر زیادہ ہے اور مریض کا آئی سی یو کا دورانیہ طویل ہے۔ایک عام آدمی کے لئے اس کاخرچہ اٹھانا مشکل ہے۔یوںوالدین نے فیس بک پر Help Baby Rohaan کے نام سے ایک پیج بنایا اور یہیں سے اس campaign کا عملی آغاز ہوا ۔ شروعات میں والدین کاسارا زور اس طرف رہاکہ وہ خود کتنا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔ سرجری کے لئے جو ممالک سرفہرست تھے ان میں جرمنی، اٹلی، بوسٹن ،برمنگھم اور انڈیا شامل تھے ۔ اخراجات اور Expertise کی وجہ انڈیا کو منتخب کیا گیا(روحان کیلئے اس کنڈیشن میں لمبا سفر بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا)۔پاسپورٹ کاحصول ،نادرا کا اندراج اور تمام مراحل حل کرتے کرتے 22 دن ہوچکے تھے۔اس دوران انڈیا کے میڈیکل ویزے بند تھے ۔جس کے لئے ٹویٹر پر helpbabyrohaan #کے نام سے ایک اور campaign کا آغاز کیا گیا۔ جس کا مقصد میڈیکل ویزہ کا حصول تھا کچھ جان پہچان والے اور دوستوں کے ساتھ شروع کی گئی اس مہم نے کچھ گھنٹو ں میں ہی trend کی شکل اختیار کرلی۔ جسکے نتیجے میں انڈیا کی وزیر خارجہ شمشا سوراج نے فوری طور پر اپنے tweet کے ذریعے پاکستان میں موجود انڈین ایمبیسی کو ویزہ جاری کرنے کا کہا ساتھ ہی twitter سے ہی دنیا کہ کچھ اخبارات نے بھی اس خبر کو اگلے دن شائع کیا ۔6 ستمبر 2017 کو فلائیٹ کے ذریعے روحان اپنے والدین کے ہمراہ دہلی پہنچا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ اُن کاسامان لاہور ائیرپورٹ پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے جس پر والدین نے پی آئی اے کو ٹویٹ کیا ۔ روحان کی اسٹوری پہلے سے ہی trend میں تھی تو پی آئی اے نے بروقت سامان پہنچانے کا بندوبست کیا۔ 8 ستمبر 2017 کو روحان کی کامیاب سرجرری ڈاکٹر راجیش شرما نے کی۔روحان کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے اسکا آئی سی یو کا دورنیہ طویل رہا ۔جس کی وجہ سے والدین کے وسائل ختم ہوگئے توفیس بک پیج پر امداد کی اپیل کی اور ساتھ ہی crowd funding شروع کی گئی۔جس کے نتیجے میں بہت سے جاننے والے مدد کے لئے سامنے آئے۔روحان کے ٹھیک ہونے کے بعد فوری طور پر ایک سال کے دورانیہ میں دوسری سرجری کا بتا دیا گیا۔والدین نے فیس بک کے پیج کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے امداد کی اپیل کی ۔ اردو پوائنٹ جیسے مختلف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے روحان کی اسٹوری کو cover کیا گیا۔والدین نے اپنی زندگی اور روحان کے حوالے سے مختلف پیکیجز بنا کر سوشل میڈیا کے مختلف platform پر Share کئے۔سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم میڈیا نے بھی روحان کی اسٹوری کو جگہ دی۔دوسری سرجری کے وقت بھی جب ویزہ کے لئے پاسپورٹ بھیجے گئے تو پچھلی twitter campaign کے توسط سے ویزہ جاری کیا گیا۔ اب دوسری کامیاب سرجری کے بعد روحان کے والدین نے فیس بک پیج استعمال کرتے ہوئے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ۔
سوشل میڈیا کے غیر تعمیری استعمال دو کہانیاں
٭ خرم بابر لاہور سے ہیں۔ کینسرکے مرض کو شکست دے چکے ہیں۔ سوشل ورکر اور موٹی ویشنل اسپیکر ہیں۔ کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال اور کینسر کے مرض کے علاج اور احتیاط کے بارے میں ایک فلاحی تنظیم کینسر فائٹنگ فرینڈز کے روح رواں ہیں۔ وسیع حلقہ احباب کے مالک ہیں۔ اُن کے ذاتی فیس بک اکاﺅنٹ کا لاگ اِن اور پاس ورڈ کسی نے چوری کرنے کے بعد اُن ایک تصویر اس تحریر کے ساتھ اُن ہی کے ذاتی فیس بک اکاﺅنٹ پر پو سٹ کردی کہ ” خرم بابر اب نہیں رہے“ ۔صبح سویرے خرم کا نمبر بند ملنے سے اُن کے حلقہ احباب میں زیادہ تشویش کی لہر دوڑی اور اکثر دوست اُن کے گھر پہنچے۔ جہاں معلوم ہوا کہ وہ خیریت سے ہیں اور کسی نے یہ خوفناک مذاق کیا ہے۔ خرم اپنے والدین اور بھانجیوں کا واحد سہارا ہیں۔ اُن کی وفات کی اس جھوٹی خبر نے اُن کے گھر والوں کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔خصوصاً اُن کی دو چھوٹی بھانجیوں پر جو اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے ماموں یعنی خرم بابر کے زیر کفالت اورزیر پرورش ہیں۔
٭ ڈاکٹر زاہد یوسف،سنٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکشن اسٹڈیز، یونیورسٹی آف گجرات کے چیئر مین ہیں۔ فیس بک پر اپنا ذاتی اکاﺅنٹ رکھتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں اِن کے فیس بک فرینڈز ہیں۔کچھ عرصہ قبل اُن کے نام اور تصویر کے ساتھ فیس بک پر ایک جعلی اکاﺅنٹ بنا یا گیا۔ اور اُن کے اسٹوڈنٹس اور دوستوں کو دوبارہ سے فرینڈز ریکویسٹ آنا شروع ہوئیں۔جو جو وہ ریکویسٹ Acceptکرتا ۔ اُسے فیس بک میسجز پر حال احوال کے بعد یہ کہا جاتا کہ وہ (یعنی ڈاکٹر زاہد یوسف)ابھی کسی ایسی جگہ ہیں جہاں بینک نہیں یا اے ٹی ایم نہیں اور انھیں ایمرجنسی میں کچھ رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ (جو عموماً ہزاروں میں ہوتی )آپ فلاں نام پر کسی بھی موبائل کمپنی کی کیش ڈلیوری سروسز کے ذریعے یہ رقم بھجوا دیں۔ وہ یونیورسٹی پہنچ کر رقم واپس لوٹا دیں گے۔ یوں اُن کے بے شمار طالب علم اور دوست اس جعل سازی کا شکار بنے اور مالی نقصان اُٹھا بیٹھے۔جب چند دوستوں نے ڈاکٹر صاحب سے دوسری فرینڈ ریکوسٹ کو Accept کرنے سے پہلے پوچھا کہ کیا یہ اُن کی جانب سے بھیجی گئی ہے تو وہ اس سے لاعلم نکلے۔اور پھر جب بعض اسٹوڈنٹس اور دوستوں نے اُنھیں فون کر کے بتایا کہ اُنھوں نے جس فرد کو پیسے بھیجنے کا کہا تھا اُنھیں پیسے بھجوادیئے گئے ہیں کیاآپ کو مل گئے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کو پتا چلا کہ اُن کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
٭….٭….٭
”بورس جانسن کا انتقال ہوگیا“ یہ پانچ لفظی خبر مورخہ07 اپریل کو ٹویٹر کے ایک اکاﺅنٹ کے ذریعے دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جو کرونا وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے اُن دنوں ہسپتال کے آئی سی یومیں زیر علاج تھے۔ ان کی وفات کی یہ جھوٹی خبر ٹویٹر پر بنائے گئے بی بی سی کے ایک جعلی اکاﺅنٹ کے توسط سے پھیلائی گئی۔ یہ جعلی اکاوئنٹ BBCbreaki@ کے ٹویٹر ہینڈل کے نام سے تھا۔جبکہ بی بی سی کا اصل ٹویٹر اکاﺅنٹ BBCBreaking@ کے ہینڈل سے ہے۔ یہ ٹویٹ ٹویٹر سے ہٹائے جانے سے قبل سینکڑوں بار ری ٹویٹ ہوئی۔ کیونکہ اس میں بی بی سی کے ٹویٹر ہینڈل سے ملتا جلتا ہینڈل استعمال کیا گیا۔اور پوری دنیا میں انجان لوگ اس دھوکے میں آگے اور خبر کو حقیقت جان لیا ۔ یہ دروغ گوئی دنیا بھر میں کرونا کا خوف اور دوچند کرنے کا باعث بنی۔یوں سوشل میڈیا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ صحافت کی ایک نئی جہت کی صورت میں اپنے مثبت اور منفی اثرات لیے ہمیں اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔
آن لائن پلیٹ فارمز فیس بک ، ٹویٹروغیرہ اور ویب 2.0 ایپلیکیشنز جیسے گوگل اور بلاگز نے خبروں کے کاروبار اور رپورٹنگ کے عمل کو بدل کررکھ دیا ہے۔ کیونکہ اب صحافت کے دائرہ کار میں داخلہ بہت آسان ہوگیاہے کوئی بھی پی سی یا اسمارٹ فون کا حامل فردخودرپورٹر، ایڈیٹر، ڈیزائنر، ڈسٹری بیوٹر ، پبلشریا براڈکاسٹراور پروڈیوسر سب کچھ ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی بھی موادتحریر، تصویر، آواز اور ویڈیو کی صورت میں بلاگ ، ٹویٹ،یوٹیوب یا فیس بک کرسکتاہے۔ سوشل میڈیا جس وجہ سے صحافت کے لئے غیر معمولی طور پرموثر جانا جارہا ہے یہ اُس کی وہ طاقت ہے جو اُس نے نیوز بریکنگ کی صورت میں اپنے آپ کو منواکر حاصل کی ہے۔سٹیزن جرنلزم اور موبائل جرنلزم کی اصلاحات نے معاشروں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔لوگ روایتی ابلاغ عام کے ذرائع اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مندرجات میں اپنی محدود ترین شمولیت کی وجہ سے بڑی تیزی سے ایسے پلیٹ فارمز کی جانب متوجہ ہورہے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی کے مندرجات پڑھ ،دیکھ اور سن سکیں اُن پر تبصرہ کرسکیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ اپنے نقطہ نظر کا کھل کر آزادانہ اظہار کرسکیں۔اس کے علاوہ وہ خود مندرجات تخلیق کرسکیں۔ یعنی لوگ اب معلومات اور اطلاعات کے صارف اور پروڈیوسر دونوں بن چکے ہیں۔وہ اس لیے کہ آج ہم ایک انفارمیشن سوسائٹی کا حصہ ہیں جہاں اکثر افراد دو زندگی گزار رہے ہیں ایک حقیقی اور دوسری ورچوئل (انفارمیشن سسٹم میں سرائیت شدہ) اس لئے آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے ولیم ڈٹن نے سوشل میڈیا کو ریاست کا پانچواں ستون قراردے دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ” ہم ایسی طاقتور آوازوں اور نیٹ ورکس کو ابھرتے دیکھ رہے ہیں جو روایتی میڈیا کے برعکس آزادانہ طور پر کام کرسکیں گے“۔اُن کا یہ بیان سوشل میڈیا کے پہلے سے موجود پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ ابھرتے مختلف نئے پلیٹ فارمزکے تیزی سے فروغ، وسعت اور استعمال کے تناظر میں حقیقی لگتا جارہا ہے۔ یعنی آزادی اظہار ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو لوگوں کو سوشل میڈیا کی جانب متوجہ کرنے اور اس کے بھرپور استعمال کا باعث بنا۔اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر کی 49 فیصدآبادی سوشل میڈیا کے فعال صارفین پر مشتمل ہے۔ ڈیجیٹل 2020 ” گلوبل ڈیجیٹل اورویو“ نامی رپورٹ کے مطابق جنوری 2020 تک دنیا میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد 3.80 ارب تک پہنچ چکی ہے۔
سوشل میڈیا بنیادی طور پر انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ایسے ٹولز پر مشتمل پلیٹ فارمز ہیں جو معلومات اور اطلاعات کی ایک دوسرے کو منتقلی اور تبادلہ خیال کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کا ایسا انضمام ہے جس میں ٹیلی مواصلات اور سماجی تعامل کو ملاکر ایسا پلیٹ فارم بنا یا گیا ہے جس میں آپ تحریر، تصویر، آواز اور فلم کے ذریعے دوطرفہ ابلاغ کرسکتے ہیں۔ اور اس کی خاص جہت صارف کو خود کسی بھی مواد کی تخلیق اور تبادلہ کی سہولت کا ملنا ہے۔سوشل میڈیا ٹولز سوشل نیٹ ورکنگ کی ایسی آن لائن سروس فراہم کرتے ہیں جو صارفین کو ہم خیال افراد کے ساتھ ورچوئل نیٹ ورک بنانے کے قابل بناتی ہے۔ یہ چیٹ ، انسٹنٹ میسجنگ ، فوٹو شیئرنگ ، ویڈیو شیئرنگ ، اپ ڈیٹس جیسی سہولیات کی پیش کش کرتی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ مشہور مثال فیس بک اور لنکڈ اِن ہیں۔اس کے علاوہ بلاگز جو ایک انفرادی صارف بناتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ جس میں متن، تصاویر ، ویڈیوز اور دیگر ویب سائٹوں کے لنکس شامل ہوسکتے ہیں۔ بلاگز کے نمایاں خصوصیت اس کا باہمی تبادلہ خیال (انٹرایکٹیو) فیچر ہے جس میں قارئین کو اپنی رائے دینے کی سہولت میسر ہوتی ہے اوریوں تمام تبصروں کو دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔مائیکرو بلاگزیہ 140 حرف یا اس سے کم حرف کی مخصوص پابندی والے بلاگز ہوتے ہیں۔ جو صارفین کو مواد لکھنے اور اس کے اشتراک کی سہولت دیتے ہیں۔ ٹویٹر ایک مائیکرو بلاگنگ سائٹ ہے جو اپنے صارفین کو ’ٹویٹس‘ بھیجنے اور پڑھنے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔اسی طرح وی لاگز(ولوگس) اور ویڈیو شئیرنگ سائیٹس جو بنیادی طور پر اپنے مندرجات کے طور پر ویڈیو کا استعمال کرتی ہیں اور ان کی معاونت کے لیے متن کا سہار الیتی ہیں۔ یو ٹیوب دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو شیئرنگ سائٹ ہے۔جو براہ راست ویڈیو براڈکاسٹنگ اور ویڈیو شیئرنگ کی سروسز فراہم کرتی ہے۔ جہاں صارفین ناصرف ویڈیوزدیکھ سکتے بلکہ اپ لوڈ بھی کرسکتے ہیں اور شیئر بھی اور ان پر تحریری تبصرے بھی کرسکتے ہیں۔وکیز یہ ایک باہمی تعاون کی ویب سائٹ ہے جو متعدد صارفین کو مخصوص یا باہم مربوط مضامین پر صفحات بنانے اور اپ ڈیٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس کہ کسی ایک صفحے کو ‘وکی پیج’ کہا جاتا ہے اورکسی خاص عنوان کے بارے میں پورے مواد کو ’وکی‘ کہا جاتا ہے۔اس میں متعدد صفحات ہائپر لنکس کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔سوشل بک مارکینگ یہ خدمت کسی کو انٹرنیٹ پر موجود مختلف ویب سائیٹس اور دیگر وسائل کے لنکس محفوظ کرنے ، منظم کرنے اور اکٹھا کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ کیونکہ کسی معلومات یاکسی فرد کی تلاش یا رابطہ کے لیے ٹیگ اور بک مارک کی گئی ویب سائیٹس ضرورت پڑنے پر روابط کوجلداور آسان بنادیتی ہے۔سوشل نیوزان خدمات سے کسی کو مختلف خبروں کی اشاعت اورمضامین سے باہر کے لنکس پوسٹ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔اس میں باہمی تبادلہ خیال کے لئے آئٹمز پر ووٹنگ اور ان پر تبصروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کی مشہورمثالوں میں Digg, Reddit اورPropeller ہے۔میڈیا شئیرنگ یہ خدمات کسی کو فوٹو یا ویڈیو اپ لوڈ کرنے اور ان کا اشتراک کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔اس میں باہمی تبادلہ خیال کسی صارف کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی فوٹو یا ویڈیو پر تبصرے کی صورت میں ہوتا ہے یوٹیوب اور فلکر اس کی واضح مثالیں ہیں۔آپ کو ان ٹولز کا کسی ایک پلیٹ فارم پر ایک یا اس سے زائد صورتوں میں استعمال ملے گا جس کو مقصد صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنا ہے۔
سوشل میڈیا کوانٹرنیٹ کی طاقت نے دوام اور سمارٹ موبائل فون کی سہولت نے متحرک کررکھا ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا کی 59 فیصد آبادی انٹر نیٹ کا استعمال کر رہی ہے تو 3.5 ارب انسان سمارٹ موبائل فونز کے صارف ہیں۔ڈیجیٹل 2020 : گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو نامی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر روز اوسطً6 گھنٹے43 منٹ انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا ہے جس میں3 گھنٹے22 منٹ موبائل کے ذریعے استعمال ہوتا ہے۔جبکہ انٹرنیٹ صارفین اوسطً 2 گھنٹے 24 منٹ روزانہ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔پاکستان بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں سوشل میڈیا بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ جس کی نشاندہی گلوبل ڈیجیٹل اُروویو 2020 کے یہ اعداوشمار کر رہے ہیں کہ دنیا بھر میں جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ جبکہ فیصد اضافہ کے حوالے سے وطنِ عزیز دنیا میں 12 ویں نمبر پر ہے (لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان ابھی بھی انٹرنیٹ سے محروم آبادی کی تعداد کے حوالے سے دنیا کا تیسرا محروم ترین ملک ہے)۔اسی طرح سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 17 ویں نمبر پر ہے۔اس وقت ملک کی 37 ملین آبادی یعنی 17 فیصد سوشل میڈیا کی فعال صارف ہے۔جبکہ 35فیصد آبادی یعنی 76.38 ملین نفوس انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والی آبادی کا 48.4 فیصد سوشل میڈیا کا فعال صارف ہے۔ یعنی ملک میں ہر دوسرا انٹرنیٹ صارف سوشل میڈیا کا فعال استعمال کنندہ ہے۔ اورملک میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کا 99 فیصد موبائل فون کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔جبکہ سال 19- 2018 کےدوران ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک کا75.9 فیصد موبائل فون کے ذریعے استعمال شدہ انٹرنیٹ کی بدولت تھا۔نیوزو (Newzoo)گلوبل موبائل مارکیٹ رپورٹ2019 کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں 19 ویں نمبر کاحامل ایسا ملک ہے جہاں سمارٹ فونزاستعمال کنندگان کی تعداد زیادہ ہے اور ملک میں سمارٹ موبائل فون صارفین کی تعداد 32.5 ملین ہے ۔ لیکن سمارٹ فون کی حامل آبادی کی فیصد کے حوالے سے دنیا کے50 ممالک (جن کے اعداوشمار دستیاب ہیں) میں سے پاکستان 49 ویں نمبر پر ہے اور ملک کی صرف 15.9 فیصد آبادی سمارٹ موبائل فون کی مالک ہے۔ملک میں سوشل میڈیااستعمال کرنے کی بنیادی ضروریات انٹرنیٹ، موبائل فون اور کمپیوٹر کے اعدادوشمار کا ایک اور پہلو پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 18-2017 کے ان اعدادوشمار سے بھی اجاگر ہوتا ہے جس کہ مطابق ملک کے97.5 فیصد گھروں میں موبائل فون موجود ہے۔ شہروں میں یہ شرح 93.9 فیصد اور دیہہ میں91.6 فیصد ہے۔اسی طرح ملک کے 26.4 فیصد گھروں میں کمپیوٹر موجود ہے۔ دیہہ کے 8.1 اور شہروں کے15.1 فیصد گھر اس سہولت کے حامل ہیں۔ انٹرنیٹ کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ملک کے22.9 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کنکشن موجود ہے ۔ دیہہ کے4.9 اور شہروں کے11.8 فیصد گھر انٹرنیٹ کنکشن کی وجہ سے دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان اگرچہ ابھی بھی انٹرنیٹ تک رسائی، سمارٹ موبائل فونزکے استعمال ، کمپیوٹرزکی ملکیت اور انٹرنیٹ کی قیمتوں کے حوالے سے اپنے ہم عصر دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی محرومیوں کا شکار ہے ۔ لیکن ہر نیا سورج ان محرومیوں کو کم کرنے کی نوید لیکر طلوع ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک سال کے دوران ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں17 فیصد، موبائل فون کنکشن کی تعداد میں6.2 فیصد اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 7 فیصد اضافہ ہوا جو ہماری آبادی میں 2 فیصد اضافہ سے کہیں زائد ہے۔یہ تمام پیش رفت اُس منظر نامہ کی واضح عکاسی کر رہی ہے جو اس وقت ملک میں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے موجود ہے۔ یہ تمام تر پیش رفت اپنی جگہ لیکن حکومت اب ملک میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے28 جنوری 2020 کو سوشل میڈیا کے حوالے سے ” سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 “کے نام سے نئے ضوابط کی منظوری دی ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے ان ضوابط کے جائزہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ جو متعلقہ سول سوسائٹی اور ٹیکنالوجی کمپنیز کے ساتھ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مشاورت کررہی ہے۔یہاں یہ سوال اہم ہے کہ جب ہم آزادی رائے اور آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں تو کیا ہمیں پھر اس طرح کے رولز کی ضرورت ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں؟اس کے علاوہ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو کیسے ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے؟۔ ان سوالات کے جواب میں اوکاڑہ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی ڈاکٹر ثوبیہ عابد کہتی ہیں۔
”آزادی اظہار رائے کو انسانی حقوق فراہم کیے جانے کے لئے بنیاد کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔بات کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی ہر شہری کو آئین پاکستان کا آرٹیکل انیس دیتا ہے۔دیگر ابلاغ عامہ کے ذرائع تو اہم تھے ہی مگر آج کل کا دور سوشل میڈیا کا ہے۔اس لیے ان ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ہر صارف اپنی رائے کا اظہار کرنے کی سہولت رکھتا ہے۔ اس میں ایک بات اہم ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے یہ ممکن نہ تھا کہ ہر قاری یا صارف کسی بھی میڈیا کے مواد پر فوری ردعمل دے سکے۔ اس کو ابلاغ کے عمل میں فیڈ بیک کہا جاتا ہے تو اخبار کا قاری ،ریڈیو کا سامع یا ٹی وی کا ناظر یہ نہیں کر سکتا تھا کہ فوری ردعمل اس میڈیا کے ادارے تک پہنچا سکے ۔سوشل میڈیا اپنے ہر صارف کو مساوی مواقعے فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی پوسٹ پر یا پھر کمنٹس باکس میں جا کر ہر بات پر اپنا فوری ردعمل برابری کی سطح پر دے سکے۔ اس وجہ سے بہت سے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ استاد ہونے کے ناطے مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرے کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ آزادی کا حق ہمیشہ ایک خاص ذمہ داری کا احساس بھی ساتھ لے کر آتا ہے جس میں سماج ،روایت، ثقافت، مذہب اور معاشرے کے بنائے کچھ بنیادی ضابطے ہر کسی کو ہر صورت اپنانے پڑتے ہیں۔سوشل میڈیا ویب سائٹس نے اپنے ضابطے بنائے ہوئے ہیں جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ کسی بھی مواد کو شائع کرنے سے روک سکتے ہیں۔کاپی رائٹس اور غیر اخلاقی مواد کے علاوہ شدت پسندی یا دہشت گردی کے حوالے سے کسی بھی پوسٹ کو ہٹا دیا جاتا ہے یو ٹیوب یا فیس بک وغیرہ پر سے۔اگر ان سوشل میڈیا کمپنی والے کچھ خاص چیزوں کے بارے میں حساس ہیں اور ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مواد کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں تو پھر یہ حق ریاست کا بھی ہونا چاہیے کہ وہ کچھ نظریاتی بنیادوں اور معاشرتی اقدار کے بارے میں حساس ہو اور ان کے بارے میں اظہار رائے کے لیے ضابطے بنائے اور ان کو لاگو کروائے۔اس لیے میرے خیال سے آزادی اظہار کو ذمہ داری کے احساس کے ساتھ ہی جڑے ہونا چاہئے اور ریاست کو اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ کسی کو بھی بلاوجہ روکا نہ جائے اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے کیو نکہ اگر درست رولز بنے ہوں گے تو وہ عام لوگوں کے بات کرنے کے حق کا تحفظ بھی کریں گے۔ان رولز کے علاوہ کوئی کاروائی نہیں ہوسکے گی جو کہ سوشل میڈیا صارف میں ایک طرح کا احساس تحفظ اور احساس ذمہ داری پیدا کریں گے۔اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ رولز برابری کی سطح پر لاگو ہونے چاہئے۔۔ آج کل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنا مواد شیئر کر کے بزنس کرنے اور کمانے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں اس کے لیے بھی قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ یہ ایک طرح سے برابری رکھتے ہوئے ہر صارف کے مفادات کا بھی تحفظ ہو جائے۔ ان رولز میں وقت گزرنے کے ساتھ جدت پیدا کرنے کی ضرورت بھی ہے کیو نکہ ڈیجیٹل میڈیا دراصل بہت تیزی سے نئی ٹیکنالوجی کو بھی اختیار کرتا جاتا ہے اس وجہ سے سوشل میڈیا سے جڑے تمام قوانین اور ضوابط کو مستقل بنیادوں پر دیکھتے اور بدلتے رہنے کی ضرورت ہو گی۔ خاص طور پر سا ئبر سیکیورٹی کے معاملات میں اور اکانومی کے حوالے سے کیونکہ موجودہ کروناوائرس کی وجہ سے آن لائن صارفین کی تعداد میں اور ڈیٹا کے استعمال میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے“۔
اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کے ایک ایسا معاشرہ جہاں آزادانہ اظہار خیال کو پہلے ہی رکاوٹوںکا سامنا ہے ۔وہاں جب شہری اپنے اوپر ذاتی سنسر شپ عائد کریں گے تو پھر لوگ آن لائن مباحثوں میں شرکت کرنا چھوڑ دیں گے۔ جس سے ان کا گورننس اور قانون کے امور میں مفید اور نتیجہ خیز گفتگو میں حصہ لینے کا امکان کم ہوجائے گا۔ اس سے حکومت اور عوام کے مابین ایک اہم رشتہ ختم ہوجائے گا۔جس کی ہماری جیسی جمہوریت متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلے میں ان رولز کے معاشرے پر کیا مثبت اور کیا منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان کا ایک اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشن اسٹڈیز جامعہ پنجاب کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد خان کہتے ہیں۔
”وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن ، حکومت پاکستان کی جانب سے سٹیزن پروٹیکشن رولز کا حال ہی میں اجرا کیا گیا ہے ، یہ رولز دراصل شہریوں کو آن لائن نقصان پہنچانے کے خلاف تحفظ فراہم کیے جانے اور الیکٹرانک کرائمز سے محفوظ رہنے کا قانون ہے ۔ ان رولز کے معاشرے پر مثبت اثرات قدرے نمایاں ہوں گے۔سیٹیزن پروٹیکشن رولز 2020 کا اجرا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں ہوئی جب کہ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں کچھ اس طرح سے شامل ہو گیا ہے کہ باقی سب چیزیں پیچھے رہ گئی ہیں – سوشل میڈیا جہاں لوگوں کو بہترین انداز میں تفریح اور معلومات فراہم کر رہا ہے وہیں پر اس کے ذریعے سے بے حد پروپیگنڈہ ، جھوٹ ، ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے جو کہ ملکی سا لمیت کیلئے کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں ہے اسی طرح سے ہماری سماجی اور اخلاقی قدار خاص طور پر مذہب کے حوالے سے عدم برداشت کی وجہ سے تصادم کا اندیشہ بڑھ رہا ہے ۔میڈیا نے کنفلیکٹ کو ہمیشہ ہی ہوا دی ہے یہاں تک کہ اسے جنگی ہتھیار کے طور پر بھی بھر پور استعمال کیا گیا اور اب انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تھری جی، فورجی اور فائیو جی کے آنے سے آئندہ دنوں میں افراد اور قوموں کے درمیان تصادم اور فساد میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں طور پر سامنے آئے گا۔ اس لئے اس قانون کے ذریعے نیشنل کوآرڈینیٹر کا قیام ایک خوش آئند اقدام ہے اور اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں سٹیک ہولڈرز کی معاونت کو بھی یقینی بنایا گیا ہے ۔غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو 24 گھنٹے کے اندر بلاک اور ایمرجنسی کی صورت میں 6 گھنٹے میں بلاک کر دیا جائے گا۔سوشل میڈیا کمپنی سے ڈیٹا یا انفارمیشن کا حصول اور فوقیت نیشنل کوآرڈینیٹر کو ہو گی نہ کہ سوشل میڈیا کمپنی کو ۔اسی طرح سے پاکستان کی نیشنل سیکورٹی ، دہشت گردی ، انتہا پسندی اور تشدد پر ابھارنے والی لائیو سٹریمنگ کی روک تھام ممکن ہوگی۔ پاکستان میں ایسی سوشل میڈیا کمپنیز بھی کام کر رہی ہیں جن کا کوئی مستقل آفس ملک میں نہیں ، فوکل پرسن نہیں ، اب اس قانون کے ذریعے ان سب باتوں کو یقینی بنایا جائے گا اور ایک مثبت پہلو یہ بھی کہ سوشل میڈیا کمپنیز ڈیٹا بیس سرورز قائم کریں گی اور غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کی صورت میں فورا ًوضاحتی نوٹ جاری کریں گی اور تمام ڈیٹا اور انفارمیشن تک رسائی دینے کی پابند ہوں گی ۔ کسی بھی رول کی خلاف ورزی کرنے پر سوشل میڈیا کمپنیز کے مکمل آن لائن سسٹم کو نہ صرف بلاک کیا جا سکے گا بلکہ انہیں 500 ملین روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکے گا اور اس سلسلے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے سوشل میڈیا کمپنیز کو ریپریزنٹیشن اور ہیرنگ کا حق بھی دیا جائے گا اور 3 ماہ کے اندر فیصلہ بھی کر دیا جائے گا ۔
ان رولز کے معاشرے پر منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ اندیشہ برحال موجود ہے کہ سیٹیزن پروٹیکشن رولز 2020 کے غلط استعمال سے سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس کی آڑ میں سیاسی ورکرز اور آرگنائزیشنز کو مخالفت کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے جس سے بنیادی شہری اور سیاسی حقوق پامال ہو سکتے ہیں ۔ آزادی رائے اور اظہار کو محدود کیے جانے سے جمہوریت کے تصور کی نفی ہوتی ہے ۔ افراد کی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں اور اظہار کے مختلف پیرائیوں پر قدغن لگانے سے معاشرہ اپنا اجتماعی شعور کھو دیتا ہے اور لوگوں میں بے چینی ، گھٹن ، عدم برداشت اور منفی رجحانات بڑھ جاتے ہیں اور معاشرہ تعمیری رویوں کی بجائے زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ان رولز میں بہتری کی گنجائش کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ سیٹیزن پروٹیکشن رولز کو فعال اور کارآمد بنانے کیلئے سیاسی اور معاشی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس کے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔اس قانون کو اس کی روح کے مطابق قابل عمل بنانے کیلئے نیشنل کوآرڈینیٹر کے قیام کے سلسلے میں لائق اور پروفیشنل ماہرین کو اس کا حصہ بنانا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی خاص سیاسی جماعت یا گروہ کے افراد کی تفریق سے گریز لازم ہے ۔ رولز میں نیشنل کوآرڈینیٹر کے قیام اور اس کو معاونت فراہم کرنے والی کمیٹی میں عہدیداروں کی تقرری کا طریقہ کار بھی وضع کیا جانا چاہیے اور اسے ان رولز کا حصہ بنانا چاہیے۔ غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو جرمانہ کرنے کے سلسلے میں حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں واضح میکانزم وضع کرنا چاہیے “۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل19 کے مطابق” ہر کسی کو رائے کی آزادی اور اس کے اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے۔اس حق میں سرحدوں سے قطع نظر بغیر کسی مداخلت کے رائے قائم کرنے اورکسی بھی میڈیا کے ذریعے معلومات،نظریات کی تلاش، حصول اور تشہیر شامل ہے “۔لہذامیڈیا کی آزادی اور آزادی اظہار آفاقی حقوق ہیں جو ہر طرح کے میڈیا پر لاگو ہوتے ہیں۔ چاہے وہ آن لائن ہو یا آف لائن۔ چاہے وہ پروفیشنل ہو یا شہری صحافت۔چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا۔یوں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ بن گے ہیں جس کے ذریعے افراد اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کو استعمال کرسکتے ہیں اور معلومات اور نظریات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں دنیا بھر میں لوگوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی ایسی تحاریک دیکھنے میں آئی ہیں جو تبدیلی ، انصاف ، مساوات ، طاقتوروں کے احتساب اور انسانی حقوق کے احترام کی حمایت کرتی نظر آئیں۔یعنی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا لوگوں کو فوری طور پر رابطے اور تبادلہ خیال کرنے کے قابل بنانے اور یکجہتی کا احساس پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ احساس اس وقت زور پکڑ رہا ہے کہ سوشل میڈیا صرف ایک کھیل یا بیکار تفریح نہیں ہے بلکہ معاشرتی اصلاح اور آگاہی لانے میں ایک موثر ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ حقوق کے شعور ، جمہوری طریقوں کے فروغ،ابلاغی انقلاب ، تعلیمی اہلیت اور صلاحیت میں اضافہ اور سیاسی سرگرمی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔لیکن وہیں یہ جھوٹی اورغلط معلومات پھیلانے، دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے، مذہبی لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے،آن لائن ہراساں کرنے، لوگوں کی ساکھ متاثر کرنے،بلیک میلنگ ، نفرت انگیز تقاریر و موادکی تشہیراورذاتی ڈیٹا چوری کرنے کے عمل کا بھی حصہ ہے ۔اور یہ سب اس کی آزادی کے تاریک پہلو ہیں۔اظہار رائے کی آزادی ایک پیچیدہ حق ہے۔ یہ قطعی نہیں بلکہ اس کے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔یہ شہریوں کو بغیر کسی ذمہ داری کے بولنے یا شائع کرنے کا حق فراہم نہیں کرتا ہے۔ یہ کوئی ایسا لائسنس نہیں جو زبان کے ہر ممکن استعمال کے لئے استثنیٰ دیتا ہو اور اس آزادی کو غلط استعمال کرنے والوں کو سزا سے روکتا ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ 1966 کے آرٹیکل19 (3) مندرجہ ذیل بنیادوں پرآزادی اظہار پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔(الف )دوسروں کی ساکھ کے حقوق کے لئے(ب) قومی سلامتی ، یا عوامی نظم ، یا عوامی صحت یا اخلاقیات کے تحفظ کے لئے۔آزادی اظہار کے ساتھ منسلک فرائض اور ذمہ داریاں کیا سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہوتی ہیں؟ اور ان ذمہ داریوں کا تعین اور اطلاق عوامی سطح پر کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اس سلسلے میں بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے ڈاکٹر ببرک نیاز کہتے ہیں۔
”سماجی ذمہ داری کو دو پہلوﺅں سے دیکھا جانا چاہیئے۔ میڈیا چاہے کوئی بھی ہو روایتی یا سوشل ۔ ایک تو اِن کے مندرجات میں ایسے موضوعات کوتسلسل کے ساتھ شامل کیا جائے جو عوام الناس کی سماجی اور معاشی ترقی کا باعث بنیں۔ یعنی جو انسانی ترقی کی ضروریات کو پورا کریں اوراس کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک چوکیدار کا کردار بھی ادا کریں۔ اسے پبلک سروس براڈ کاسٹنگ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔ دوسرا پہلو ان مندرجات کو کیسے پیش کیا جائے یعنی انکی ٹریٹمنٹ کیسے کی جائے؟ ابلاغیات کی زبان میں اسے ہم Primingاور Framingکہتے ہیں۔ ان دو پہلوﺅں کو جب ہم سوشل میڈیا کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں عام صارف کی جانب سے ایسے موضوعات کی بھرمار نظر آتی ہے جو کسی نا کسی صورت انسانی ترقی کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ شاید اس وجہ سے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا پر یہ موضوعات بہت کم جگہ پاتے ہیں۔کیونکہ نیوز میڈیا کے مندرجات کا زیادہ تر حصہ سیاست اور سیاستدانوں کے گرد گھومتا ہے۔ یا وہ موضوعات جس سے چینل یا پرنٹ میڈیا کے مفادات جڑے ہوں وہ اُن میں جگہ پاتے ہیں۔تفریحی میڈیا پر جو مندرجات پیش کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر محبت، رقابت، حسد، نفرت اور بدلہ کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔اس لیے سوشل میڈیا ایک اسے پلیٹ فارم کی صورت میں اپنے صارفین کو اُن تمام موضوعات پر بات کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے جو اُن کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے معاشرے میں چوکیدار کے کردارکی ہی بدولت اب مین اسٹریم میڈیا کوبھی بہت سے ایسے موضوعات کو اپنے مندرجات میں جگہ دینی پڑتی ہے جو اگر سوشل میڈیا پر ایک عوامی آواز یا تحریک کی صورت میں سامنے نہ آتے تومین اسٹریم میڈیا شاید ان پر توجہ نا دیتا۔ سوشل میڈیا کے اسی کردار کی بدولت عدلیہ جہاں سو موٹو نوٹس لیتی ہے وہیں حکومت بھی ایکشن لیتی ہے۔ یہاں تک تو سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری قابل تحسین ہے۔ لیکن جو سب سے اہم ایشو ہے وہ یہ کہ سوشل میڈیا پر دی جانے والی چیزوں کو کیسے پیش کیا جائے ؟یعنی ان کی جو ٹریٹمنٹ کی جاتی ہے وہ قابل توجہ ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیاپر اپ لوڈ ہونے والے مندرجات کی ایسی بہت بڑی تعداد غیر تربیت یافتہ، پیشہ وارانہ تعلیم سے محروم اور نیم خواندہ عام افراد کی جانب سے کی جاتی ہے۔ جس میں اُن کی ذاتی پسند یا نا پسند کی ایک واضح جھلک محسوس ہوتی ہے۔وہ اپنی مرضی سے چیزوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں۔ اور جذبات کی رو میں بہہ کر جس طرح کی تحریر، تصویر اور آواز کا استعمال کیا جاتا ہے وہ بعض اوقات تہذیب،شائستگی اور اخلاقیات کی تمام حدود پھلانگ لیتا ہے۔ اور چیز کو تصدیق کیے بغیر آگے فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ یوں ایک سے دو ، دوسے چار اور یہ سلسلہ لا متناہی ہوجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کی جانب سے اپ لوڈ کی جانے والی معلومات اور اطلاعات کی معروضیت اور درستی مشکوک ہوتی ہے۔بعض اوقات آزادی اظہار کے نام پر اُن موضوعات کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے جو تعمیر نہیں بلکہ تخریب کا باعث بنتے ہیں۔ اسی رجحان کے ساتھ ساتھ جب سیاسی یا مذہبی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کی جانب سے جو معلومات یا اطلاعات ایک عام صارف کے اکاﺅنٹ کی صورت میں ایک پوسٹ کے طور پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ تو کرتے وہ بھی وہی کام ہیں جو جذبات کی رو میں بہہ جانے والے عام سوشل میڈیا صارفین کرتے ہیں لیکن شایدوہ اُن سے زیادہ خطرناک اور ہر طرح کے احساس ذمہ داری سے عاری ہوتاہے۔کیونکہ تعلیم یافتہ اورپیشہ وارانہ اہلیت کے حامل ان سوشل میڈیا ٹیمز کی کئی ایک پوسٹیں ملک دشمن قوتیں جلتی پر تیل چھڑکانے کے لیے استعمال کر تی ہیں۔ لہذا سوشل میڈیا پر کیا دیا جائے اور اس کی ٹریٹمنٹ کیسے ہویہ سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری کے پہلو سے جڑی ہوئی باتیں ہیں۔ اس لیے میری رائے میں جیسے مین اسٹریم میڈیا پر حکومت کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کا ایک میکنیزم موجود ہے ویسا ہی سوشل میڈیا پر بھی لازماً ہونا چاہیئے۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں فی الحال یہ ممکن نہیں کہ کوئی فرد ذاتی طور پر چیزوں کو فلٹر کرکے سوشل میڈیا پر دے۔ کیونکہ جیسا پہلے ذکر کیا کہ ہر کسی کا سیاسی اور مذہبی جھکاﺅ ہوتا ہے پسند نا پسند ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یا ایپس کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا چاہیئے۔ کہ نئے اور پرانے صارفین کے لیے یہ ضروری قرار دیا جائے کہ اُن کے اکاﺅنٹ کے جاری رہنے یا نئے اکاﺅنٹ کو بنانے کے لیے بائیو میٹرک سے تصدیق شدہ ملکی موبائل نمبرکی ضرورت ہو۔اور ایک نمبر پر ایک ہی اکاﺅنٹ بنانے کی اجازت ہو کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا یا سائبر کرائم کے حوالے سے جو حکومتی ادارے ہیں وہ متحرک اور فعال کردار ادا کریں ۔جبکہ لوگوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تعلیم کے حوالے سے خصوصی آگاہی مہمیں چلائی جائیں۔ اس سلسلہ میں طالب علموں کے تعلیمی نصاب میں سوشل میڈیا کا کوڈ آف کنڈکٹ شامل کیا جائے“۔
سوشل میڈیا کی آزادی کی بعض صورتوں میں قومی سلامتی پر دورس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کیونکہ سوشل میڈیا ٹیکنالوجیزیعنی فیس بک ، ٹویٹر ، اسنیپ چیٹ ، لنکڈ ان وغیرہ کو جنگ کی موجودہ چار جہتوں یعنی زمینی ، سمندری ، ہوا اور خلا کے بعد پانچویں جہت کے طور پر سمجھا جارہا ہے۔جنگ کی اس پانچویں اور تازہ ترین جہت کی نہ تو کوئی جغرافیائی حدود ہیں اور نہ ہی کوئی قیود۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلو جس میں تعلیم ، معاشرتی تعامل ، قانون نافذ کرنے والے ادارے ، میڈیا ، سفارتی کام کاج ، کاروبار ، تحقیق ، ترقی اور فوج حتیٰ کہ نیشنل سیکورٹی سب تک محیط ہے۔تو پھرقومی سلامتی کے تناظر میں خصوصاً اور دیگر پہلوﺅںمیں عموماً سوشل میڈیا پرآزادی اظہار کی حدود کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق کے تعین کی ضرورت ہے؟ اس حوالے سے نیشنل سیکورٹی کو سبوتاژ کرنے میں سوشل میڈیا کے کردار پر تحقیق کرنے والے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر زاہد محمودزاہد کہتے ہیں۔
” آج کی دنیا میں جب سیکورٹی کا دائرہ کار روایتی فوجی نوعیت سے نکل کر سیاسی ، معاشرتی، معاشی، ماحولیاتی اور سائبر کی دنیا تک پھیل چکا ہے۔ جہاں معاشرتی اور معاشی استحکام سب سے زیادہ مقدم سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی ریاست کی معاشی اور معاشرتی وحدت کو پارا پارا کرکے اس کے جنگ لڑنے کی صلاحیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اور ایسا کیسے کیا جاسکتاہے؟ غلط معلومات کے پھیلاﺅ سے۔ کیونکہ ہر ملک میں کچھ عوامی سطح کے مسائل موجود ہوتے ہیں جن کو ہوا دیکر سیکورٹی کے مسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اس کو فیفتھ جنریشن وار کہتے ہیں۔ جو ادراک، انفارمیشن، کلچر اور نفسیات پر محیط ہے۔ جو مخصوص طبقوں، نسلی گروہوں کے احساس محرومی کو مشتعل کرکے ، تاریخی حقائق کو مسخ کرکے قومی بیانیہ کو چیلنج کرتی دیکھائی دیتی ہے۔ اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ناپختہ ذہنوں تک بہت تیزی سے سرائیت کرتی ہے۔ جس کے دورس نتائج سامنے آتے ہیں۔ پچھلے30 سالوں میں ٹیکنالوجی ، جمہوریتوں اور عالمگیریت کی موجودگی میں ابلاغ عامہ کے نئے ذرائع سامنے آئے ہیں جو براہ راست فرد کے کنٹرول میں چلے گئے اور ریاست کی روایتی اجارہ داری ختم ہوگئی۔ میں اسے ڈیموکرائٹائزیشن آف میڈیا کہتا ہوں۔ پچھلی ڈیڑھ صدی میں اس سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک طرف تو احتجاج اور انقلاب برپا کرنے کے قابل بنایا ہے تو دوسری طرف دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کے طریقوں سے لیکر نظریاتی، لسانی، معاشی اور معاشرتی حملے کرنے کی اور پُر تشدد ترغیبات کو پھیلانے کے قابل بھی بنایا ہے۔ جن کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ سوشل میڈیا کو سوشل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے اسے آج دنیا میں جہاں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے وہیں یہ ریاستوں کے لیے چیلنجز کی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے۔ دنیا کی تمام جمہوریتیں اب آپ کو اس حوالے سے قانون سازی کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔تاکہ اپنے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس سلسلے میں جرمنی میں NetzDG law 2018 بنایا گیا ہے یورپی یونین خاص طور پر دہشت گردانہ ویڈیوز کے حوالے سے قانون سازی پر غور کررہی ہے ۔کہ اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایک گھنٹے کے اندر انتہا پسندانہ مواد کو حذف نہیں کرتے ہیں تو انہیں جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آسٹریلیا نے Sharing of Abhorrent Violent Material Act 2019 پاس کیا ہے۔ روس میں حال ہی میں ایک قانون نافذ ہواہے جس نے ریگولیٹرز کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ “کسی ہنگامی صورتحال میں” دنیا بھر کے ویب سے رابطے بند کردیں ۔ 2015 میں روس کے ڈیٹا قوانین کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو روسیوں کے بارے میں کوئی بھی ڈیٹا ملک کے اندر سرورز پر جمع کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ اس ضابطہ پر عملدرآمد کے بارے میں موثر طریقہ کار واضع نا کرنے پر لنکڈ ان کو بلاک کردیا گیا جبکہ فیس بک اور ٹویٹر پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ چین میں ٹویٹر ، گوگل اور واٹس ایپ جیسی سائٹیں مسدود ہیں۔ ان کے متبادل کے طور پر چین اپنی تیار کردہ ویبو ، بیدو اور وی چیٹ نامی سوشل میڈیا کی سروسز فراہم کر رہا ہے۔ جب بھی ریاستیں اور حکومتیں سوشل میڈیا کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق کو وضع کرنے کی طرف کوئی قدم بڑھاتی ہیں تو عمومی طور پر سول سوسائٹی کی طرف سے اوربہت سارے اسکالرز کی طرف سے یہ Argument پیش کیا جاتا ہے کہ یہ فرد واحد کی آزادیوں کو سلب کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرانی چاہیئے کہ فرد کی سلامتی تو سب سے بڑھ کر انسانی حق ہے ۔ جس پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ فرد کی سیکورٹی اور سلامتی اُس کے سول رائٹس سے زیادہ مقدم ہوتی ہے۔ اس لیے ریاست سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسا ضابطہ اخلاق سامنے لیکر آئے جو ریاست کے شہریوں اور مجموعی طور پر قومی سلامتی کے چیلنجز کو ایڈریس کرسکے۔ کیونکہ آج کی دنیا جس میں جنگیں بم، بندوقوں اور میزائلوں سے نہیں لڑی جاتی بلکہ بیانیوں سے لڑی جاتی ہے تو بیانیوں کی اس جنگ میں سوشل میڈیا سے زیادہ مہلک ہتھیار کوئی نہیں۔ اس لیے ریاست کو اس حوالے سے ضابطہ اخلاق ضرور وضع کرنا چاہیئے۔ میرے نزدیک ریاست ایک موثر قسم کا ضابطہ اخلاق لیکر آئے پاکستان میں ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے مزید موثر بنانے کے لیے ایک مہم چلائی جائے جو ناصرف ایک عام صارف کی تربیت کرے اور اُس میں یہ احساس ذمہ داری پیدا کرے کہ کہیں بیانیوں کی اس جنگ میں وہ غیر دانستہ طور پر دشمن کا کام تو آسان نہیں کر رہاہے“۔
سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی ہر روز متعارف ہونے والی نئی جہتوں کی وجہ سے بدلتی دنیا میں اب آزادی صحافت سے پہلے ذمہ دارانہ صحافت کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ اکثر صورتوں میں سوشل میڈیا کی آزادی سماجی اور ملکی ذمہ داریوں سے بالا ہوجاتی ہے۔اورآزادی اظہارکے نام پر جو مندرجات اس پر پیش کیے جاتے ہیں وہ پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑانے کے ساتھ ساتھ ملکی اور عوامی مفادات کو تہس نہس کردیتے ہیں۔لہذا ان ذمہ داریوں کا تعین ریاست ، معاشرہ اور فرد تینوں جانب سے یکساں بنیادوں پر ہونا چاہیئے۔یعنی ضوابط کی تیاری،ان کامشاورتی جائزہ، اصلاح اور پھر موثر ترین اطلاق سے پاکستان زیادہ مضبوط ، ترقی پسند اور جمہوری ریاست بن کر اُبھرے گا۔
پاکستان کے سوشل میڈیا کے حوالے سے نئے” سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 “کے نمایاں نکات
٭ قومی کورڈینیٹر کے دفتر کا قیام جو مواد کی ریگولائزیشن کا ذمہ دار ہوگا۔ اس حوالے سے وہ حکومت کو مشورہ سوشل میڈیا کمپنیز کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔
٭ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کواتھارٹی کی جانب سے دستخط شدہ تحریری اور الیکٹرانک ای میل پر کسی بھی ” غیر قانونی مواد“کو24 گھنٹے کے اندر اندر ہٹانا ہوگا۔ اور کسی ہنگامی صورت میں 6گھنٹوں کے اندراندر۔
٭ اگر کوئی کمپنی ان شقوں کی پابندی کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو کمپنی کے ذریعے چلائے جانے والے تمام پلیٹ فارمز، ایپلیکیشنز اور سروسز کا بلاک کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر500 ملین روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنی کو بلاکنگ کی تاریخ کے 2 ہفتوں کے اندر وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی کے سامنے ریپریزنٹیشن داخل کرانے کا حق حاصل ہو گا اور کمیٹی ریپریزنٹیشن کو سننے کے بعد 3 ماہ کے اندر فیصلہ جاری کرے گی۔
٭ صارفین کے خلاف کسی انضباطی کاروائی کے لئے تحریری مواد اور دیگر معلومات مطالبہ پر فراہم کی جائیں گی۔
٭ ان رولز کے عمل میں آنے کے 3 ماہ کے اندر سوشل میڈیا فرمیں پاکستان میں ایک مستقل رجسٹرڈ آفس اسلام آباد میں واقع ایک فزیکل ایڈریس کے ساتھ قائم کریں گی ۔اوراُنھیں کورڈینیشن کے لئے پاکستان میں مقیم ایک فوکل پرسن کی تقرری کرنا ہوگی۔ ان رولز کے شائع ہونے کی تاریخ سے 12 ماہ کے اندر ڈیٹا اور آن لائن مواد کو ریکارڈ اور محفوظ کرنے کے لیے پاکستان میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرور قائم کرنا ہوں گے۔
٭ کمپنیزپاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیز تقاریر اور مواد، ہتک عزت، جعلی خبروں، تشدد اور قومی سلامتی سے متعلق کسی بھی مواد کی لائیو سٹریمنگ کو روکنے کے لیے فعال میکنزم بنائیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے صارفین کی تعداد (جنوری2020 تک)
٭ پاکستان میں فیس بک صارفین کی تعداد33 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا15 فیصدہے اور ملک کا ہر ساتواں فرد فیس بک استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں انسٹاگرام صارفین کی تعداد 6.40 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا03 فیصدہے اور ملک کا ہر35 واں فرد انسٹا گرام استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں سنیپ چیٹ صارفین کی تعداد4.40 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا02 فیصدہے اور ملک کا ہر50 واں فرد سنیپ چیٹ استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں ٹویٹر صارفین کی تعداد1.83 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا01 فیصدہے اور ملک کا ہر 120 واں فردٹویٹر استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں لنکڈاِن صارفین کی تعداد06 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا03 فیصدہے اور ملک کا 37 واں فرد لنکڈاِن استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان دنیا بھر میں فیس بک صارفین کی 13 ویں بڑی تعداد کا حامل ملک ہے۔
٭ پاکستان فیس بک صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے۔
٭ پاکستان سنیپ چیٹ صارفین کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں20 ویں نمبر پر ہے۔
انٹرنیٹ، سمارٹ موبائل فون اور سوشل میڈیا صارفین کا موازنہ
دنیا کی صورتحال
|
پاکستان کی صورتحال
|
٭ دنیا کا ہر دوسرا فرد انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ ٭ دنیا میں ہر تیسرے بندے کے زیر تصرف سمارٹ موبائل فون ہے۔ ٭ دنیا کا ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا کا صارف ہے۔ ٭ دنیا میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کا 92 فیصد موبائل انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔ ٭ دنیا میں سوشل میڈیا صارفین کو 98.6 فیصد موبائل فونز کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ ٭ گزشتہ سال یعنی جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران دنیا کی آبادی میں 1.1 فیصد (82 ملین)،انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد میں 7 فیصد(298 ملین) اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 9.2 فیصد(321 ملین) اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر روز انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 8 لاکھ 16 ہزار4 سوافراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال روزانہ سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 8 لاکھ79 ہزار4 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہرایک گھنٹہ کے دوران انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 34 ہزار افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک گھنٹہ کے دوران سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 36 ہزار6 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہرایک منٹ میں انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 567 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک منٹ میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں611 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ |
٭ پاکستان کا ہرتیسرافرد انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ ٭ پاکستان میں ہرساتویں بندے کے زیر تصرف سمارٹ موبائل فون ہے۔ ٭ پاکستان کا ہر چھٹاشخص سوشل میڈیا کا صارف ہے۔ ٭ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کو99 فیصد موبائل فونز کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ ٭ گزشتہ سال یعنی جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران پاکستان کی آبادی میں 2 فیصد (4.3 ملین)،انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد میں 17 فیصد(11 ملین) اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 7 فیصد(2.4 ملین) اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر روز آبادی میں 11 ہزار7 سو81افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر روز انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 30 ہزارایک سو37افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال روزانہ سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 6ہزار5 سو75 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہرایک گھنٹہ کے دوران انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ایک ہزار 2 سو 56 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک گھنٹہ کے دوران سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں274 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہرایک منٹ میں انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 21 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر ایک منٹ میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں5 افراد کا اضافہ ہوا۔ |
ماخذ : ۔ ڈیجیٹل 2020 :گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو ۔۔۔شماریاتی تجزیہ مصنف
دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف کتنا وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے ؟
٭ ڈیجیٹل 2020 :گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو کے مطابق دنیا میں ہر روز انٹرنیٹ صارفین اوسطً 2 گھنٹے 24 منٹ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں تین دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت سوشل میڈیا پر صرف کیا جاتا ہے۔یعنی سال میں تقریباًایک مہینہ 6 دن متواتر کسی وقفے کے بغیر سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ دنیامیں فی سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً144 منٹس سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں1008 منٹ ، ایک مہینے(30 دن) میں4320 منٹ اور ایک سال(365 دن) میں 52560 منٹ۔ اگرروزانہ 1440 کے منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 16 فیصد ٹائم سوشل میڈیا استعمال کرنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انٹرنیٹ صارفین اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 16 فیصدسوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔
٭ دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً 2 گھنٹے24منٹ سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 876 گھنٹے سوشل میڈیا کے استعمال میں لگاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق عالمی سطح پر ایک فرد کی اوسط عمر72 سال ہے۔ یوں ایک شخص اپنی تمام عمر میں اوسطً 63072گھنٹے سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ 24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف اپنی پوری زندگی میں سوا سات سال طوالت پر مشتمل عرصہ سوشل میڈیا استعمال کرنے پر گزار دیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کے پیمانے کو مد نظررکھا جائے تو دنیا میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والا کوئی بھی فرد اپنی48 سالہ فعال زندگی کے420480 گھنٹوں میں سے 42048 گھنٹے یعنی اپنی فعال زندگی کے کل وقت کا 10فیصد۔ اور اپنی فعال زندگی کے پونے پانچ سال کا عرصہ ہے سوشل میڈیا کی نذر کردیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کی420480گھنٹے عمر کے دورانیہ میں رات کی نیند کے 157680گھنٹے نکال لیے جائیں تو باقی262800 گھنٹوں میں سے 42048 گھنٹے فعال زندگی کا فعال وقت دنیا میں سوشل میڈیا کے استعمال پر گزار دیا جاتاہے۔
پاکستا ن میں ایک سوشل میڈیا صارف کتنا وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے ؟
٭ پاکستان میں ابھی اس حوالے سے ملکی اور غیرملکی سطح پر کوئی کام نہیں ہوا ہے۔اس لیے ہم دستیاب اعدادوشمار کے تجزیہ سے کوشش کریں گے کہ حقیقی صورتحال سے قریب تر دورانیہ کا اندازاً تعین کرسکیں۔ ڈیجیٹل 2020 :پاکستان کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا کے 6 پلیٹ فارمز فیس بک 15 منٹ 02 سیکنڈ، وٹس ایپ2 منٹ 47 سیکنڈ، یو ٹیوب29 منٹ 59 سیکنڈ،ٹویٹر13 منٹ36 سیکنڈ،انسٹا گرام10 منٹ44 سیکنڈ اور وکی پیڈیا 4 منٹ اور 34 سیکنڈاوسطً فی ویب سائٹس پر فی وزٹ وقت صرف کیا جاتاہے یعنی مجموعی طور پر 76 منٹ 42 سیکنڈ ان 6 ویب سائیٹس پر فی وزٹ وقت صرف ہوتا ہے۔ اگر ان6 ویب سائیٹ کو اوران کے ایک وزٹ فی کس کے مجموعی صرف شدہ وقت( 76 منٹ 42 سیکنڈ) کو ہی یومیہ پیمانا بنا لیا جائے توپاکستان کے انٹرنیٹ صارفین ایک مہینے میں تقریباً ڈیڑھ دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔یعنی سال میں تقریباً19 دن متواتر کسی وقفے کے بغیر سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ پاکستان میں فی سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً76 منٹس 42 سیکنڈسوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں536 منٹ اور 54 سیکنڈ، ایک مہینے (30 دن) میں2301منٹ اور ایک سال(365 دن) میں27995 منٹ30 سیکنڈ۔ اگرروزانہ کے1440 منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 8.5 فیصد ٹائم سوشل میڈیا استعمال کرنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 8.5 فیصدسوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔
٭ پاکستان میں ایک سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً ایک گھنٹے16منٹ اور42 سیکنڈ سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 466 گھنٹے 35 منٹ30 سیکنڈ سوشل میڈیا کے استعمال میں لگاتے ہیں۔یوں ایک پاکستانی اپنی تمام عمر میں اوسطً 31261 گھنٹے38 منٹ 30 سیکنڈسوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر67 سال یعنی 586920 گھنٹے ہے۔24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک سوشل میڈیا صارف اپنی پوری زندگی میں تقریباًساڑھے تین سال طوالت پر مشتمل عرصہ سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کے پیمانے کو مد نظررکھا جائے توپاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والا کوئی بھی فرد اپنی48 سالہ فعال زندگی کے 420480گھنٹوں میں سے22396 گھنٹے اور 24 منٹ یعنی اپنی فعال زندگی کے کل وقت کا 5.32 فیصد۔ اور اپنی فعال زندگی کے اڑھائی سال کا عرصہ ہے سوشل میڈیا کی نذر کردیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کی420480گھنٹے عمر کے دورانیہ میں رات کی نیند کے 157680گھنٹے نکال لیے جائیں توباقی262800 گھنٹوں میں سے 22396 گھنٹے24 منٹ فعال زندگی کا فعال وقت پاکستانی سوشل میڈیا کے استعمال پر گزار دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کیا کہتے ہیں؟
٭ سید محمد ذکی، کوئٹہ
سوشل میڈیا دور جدید میں انفارمیشن کی دنیا میں ایک حیرت انگیز اضافہ ہے۔ آج جس کسی ہاتھ میں سمارٹ فون ہے وہ سوشل میڈیا کے میدان کا کھلاڑی ہے۔ معلومات اور خیالات کا ایک طوفان ہے جو ہر کسی کو بہائے لیجارہا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جتنے اسکے مثبت پہلو ہیں اتنے ہی منفی پہلو بھی ہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا جو تصور صحافت کی دنیا میں عام تھا سوشل میڈیا مگر اس تصور پہ عمل کرتا دکھائی نہیں دیتا اور اسی بناءپر اسکی صورت ایک دو دھاری تلوار کی سی ہوچکی ہے جسکا بے احتیاطی سے استعمال معاشرے کیلئے مہلک اور خطرناک ہے۔ گویا یہ کسی بچہ کے ہاتھ میں ایک کھلونا بم کی طرح ہے جو اسکی خوبصورتی سے مبہوت ہو کر اس سے کھیلتا ہے مگر اسکی تباہ کاری سے بے خبر ہوتا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ایڈیٹر کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی جو ایک فلٹر کا کام دیتا تھا۔ خبریں اور معلومات اس فلٹر میں چھن چھن کر قارئین تک پہنچا کرتی تھیں۔ اسی بنیاد پر ایڈیٹر کی ردی کی ٹوکری کو ایک خاص مقام حاصل تھا جو خبر میں موجود سارا زہر ساری نفرت اپنے اندر سمو لیا کرتی تھی۔ مگر سوشل میڈیا کے وسیع و عریض میدان میں دور دور ایسا کوئی ایڈیٹر ہے نہ اسکی ردی کی ٹوکری لہذا معلومات و خبروں کا فلٹر ہونا ممکن نہیں۔ بعض ریاستوں نے اگرچہ اس حوالہ سے کچھ سائبر قوانین وضع کئے ہیں مگر وہ نہ موثر ہیں اور نہ کافی۔سوشل میڈیا جس میں فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، واٹس اپ سب شامل ہیں معاشرہ پر صرف اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ اب معاشرے کو ” ہانٹ” کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی ایک ٹوئٹ ایک بلاگ یا ایک تحریر پلک جھپکتے ملک بھر میں جاری کسی بھی بحث کا رخ موڑڈالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ایسا میڈیم ہے جس کے نہ کوئی قواعدہیں نہ ضوابط، گویا آپ ایک لمبی شفاف سڑک پر اپنے خیالات کی گاڑی دوڑانے میں آزاد ہیں اور سوائے سیلف کنٹرول کے کوئی ایسا سپیڈ بریکر نہیں جو آپکو روک سکے آپکی رفتار کم کرسکے اور یہی تیز رفتاری حادثات کا باعث ہے۔سوشل میڈیا کا استعمال اگر مثبت انداز میں ہو اسے پیغام رسانی اور اظہار خیال کیلئے استعمال کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ یہ بہت تعمیری میڈیم ثابت ہو مگر اسکا بغیر تربیت غیر منظم انداز میں استعمال افراد سے لیکر معاشرے بھر کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے بلکہ ہورہا ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں جو پہلے ہی نسلی علاقائی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے سوشل میڈیا کی صورت بسنت کے ایسے تہوار کی سی ہے جہاں اپنے اپنے کوٹھوں پر چڑھ کر ہم اپنے اپنے خیالات کی رنگ برنگی پتنگیں اڑا رہے ہیں اور ایک دوسرے سے پیچ لڑا رہے ہیں۔ ایک جانب جہاں ایک دوسرے کا پیچ کاٹنے پر ڈھول تاشے بج رہے ہیں مٹھائیاں بٹ رہی ہیں وہیں اس ڈور سے معصوموں کے گلے بھی کٹ رہے ہیں اور ماتم بھی جاری ہے۔ مگر ہم جان نہیں پاتے کے ہمارے خیال کی ڈور نے دور کتنے گلے کاٹ ڈالے کتنے گھر اجاڑ ڈالے۔ حتمی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے اور اسکا واحد راستہ سیلف کنٹرول ہے۔
٭ محبوب سرور، کراچی
باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال دونوں طرح ہورہا ہے۔البتہ تعمیری استعمال کی شرح زیادہ ہے۔ چونکہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔لہذا کسی بھی منفی یا غلط سوچ کو پسند کرنے کا رجحان بھی کم ہوا ہے۔اور اس کا براہ راست فائدہ تعمیری یا مثبت استعمال کو ہوا ہے۔ہمارے یہاں کیاپوری دنیا میں سوشل میڈیا آزاد ہے۔کیونکہ یہ کسی ادارے کسی آرگنائزیشن کے ماتحت نہیں۔ لیکن اس کے لیے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ اگرچہ ملک میں سماجی، اخلاقی اور ذاتی حوالوں سے Cyber Act موجود ہیں۔ اور ان پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے لیکن انھیں مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارا مذہب ہمیں دوسروں سے اچھے طریقے سے بات کرنے کا درس دیتا ہے۔ہمیں ضرور سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیئے لیکن اُن تمام ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کہ ہم مسلمان اور ایک مہذب شہری ہیں۔ اسی طرح حکومت بھی سوشل میڈیا تک رسائی مزید ممکن بنائے اور قوانین پر عملدرآمدکو یقینی بنائے۔
٭ جویریہ مقبول، اسلام آباد
ملک میں سوشل میڈیا کا کردار زیادہ تر تعمیری ہے۔ لوگ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور جو لوگ اخبارات پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے وقت نہیں نکال سکتے وہ سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا میں رونماہونے والے واقعات کے بارے میں جان سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی رائے کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن ہمارے یہاں یہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہے۔بچے بچے کی اس تک رسائی ہے اور ہر طرح کی بات کا اظہار کرنے کے لیے مواقع موجود ہیں۔نہ صرف الفاظ کی صورت میں بلکہ صوتی اور تصویری اظہار رائے سوشل میڈیا پر کیا جاسکتا ہے۔لہذا اس کے استعمال کے حوالے سے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ مگر اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہوسکے گا کہ نہیں۔کچھ گھروں کی حد تک تو شاید حد بندی ہو۔مگر ملکی سطح پر شاید ممکن نہ ہوسکے۔اس سلسلے میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے حدودو قیود کا تعین کرے اور معاشرے میں غلط معلومات اور خبروں کو پھیلنے سے روکے اس حوالے سے تربیتی پروگرامزشروع ہونے چاہیئے۔ صارفین کے لئے یہ ضروری ہے کہ کوئی بھی بات ، معلومات یا خبر سوشل میڈیاپر وائرل کرنے سے پہلے اسکی تصدیق کریں اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔لوگ آج کے دور میں پابندی برداشت نہیں کرتے اور آزادی پسند ہیں۔مگر اس آزادی کا فائدہ تب ہی ہے جب احساس ذمہ داری ہوگی لوگ اپنے ہر عمل کی خود جانچ کریں۔
٭ غنی الرحمان، گاﺅں کاٹن دوش خیل، تحصیل تیمر گرہ، ضلع دیر پائین، خیبر پختونخواہ
سوشل میڈیا کا کنٹرول چونکہ ہر خاص و عام کے ہاتھ میں ہے۔اس لیے اس کا استعمال ہر طرح سے ہے۔ یعنی تعمیری اور غیر تعمیری دونوں صورتوں میں ہے۔کرونا وائرس سے بچاﺅ اس کی دنیا اور ملک میں موجود لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے آگاہی آج کے حالات میں سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی ایک بہت واضح علامت ہے ۔دوسری طرف میری نظر میں پاکستان کے تناظر میں سوشل میڈیا کا غیر تعمیری استعمال اس کے تعمیری استعمال سے زیادہ ہورہا ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ آٹھ دس سال سے پاکستان کی سیاست میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال تمام حدود و قیود پار کر چکا ہے۔سیاسی مخالفین کے جوشیلے کارکنان اور سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کے کارندے کھلم کھلا ایک دوسرے کے خلاف فیس بک، ٹویٹر، وٹس ایپ، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گالم گلوچ، طعنہ زنی،من گھڑت باتوں،مخالفین کے عیوب کا پرچاراور ذاتیات پر ہمہ وقت حملوں میں مصروف نظر آرہے ہوتے ہیں۔اس طرزعمل سے ہمارے معاشرے میں رہی سہی اخلاقیات کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔سوشل میڈیا کو مختلف حوالوں سے جھوٹی خبروں، افواہوں،قیاس آرائیوں، سنسنی پھیلانے اور دھوکہ دہی کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ ملک میں سوشل میڈیا کو لسانی قوم پرستی، فرقہ پرستی،مذہبی منافرت پھیلانے اور غیر اخلاقی حوالوں سے یعنی فحاشی اور عریانی پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔جس بنا پر اس کا منفی استعمال غالب نظر آرہا ہے۔ ماہرین کی نظر میں سوشل میڈیا فطری طور پرآزاد ہے۔کیونکہ اس کو منظم کرنے اور چلانےکے لیے نہ تو باضابطہ طور پر کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے قائم ہیں اور نہ سوشل میڈیا کو اس طرح ریگو لیٹ کیا جاتا ہے۔ جس طرح سے ایک اخبار ،ریڈیو اور ٹی وی چینل کے دفتراور اُن سے متعلقہ امور کو پیشہ ورانہ اور منظم اندازیں چلایا جاتا ہے۔اور وہاں ذمہ دار شخصیات اور انتہائی تربیت یافتہ اور پیشہ ور کارکن باہمی ربط اور تعاون سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے علمی اور نظریاتی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا آزاد ہے اور درحقیقت عملی لحاظ سے بھی کافی آزاد نظر آرہا ہے۔ورنہ اس کا منفی استعمال جس کا پہلے ذکر کیا گیا اتنا زیادہ نہ بڑھتا۔سوشل میڈیا اور اس کے استعمال کے حوالے سے ضابطہ اخلاق واضع کرنے اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے عمومی طور پرتین نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ ایک مکتبہ فکر سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے کسی بھی قسم کے ضابطہ اخلاق بنانے اور اس پر عمل درآمدکا سرے سے ہی مخالف ہے۔اس مکتبہ فکر کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے پختہ ذہن ہوجائیں گے اور سوشل میڈیا کا مفید اور کارآمد استعمال درست سمت میں گامزن ہوجائے گا۔دوسرا مکتبہ فکرسوشل میڈیا کے حوالے سے سخت اور منظم قسم کے ضابطہ اخلاق اور اس پر مکمل عملدرآمد کا حامی ہے۔ ان خیالات کے حامی افراد پر رجعت پسندانہ اور فرسودہ سوچ رکھنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔تیسرا مکتبہ فکر وہ ہے جو سوشل میڈیا کے حوالے سے معتدل اور کارآمد قسم کے ضابطوںاور قوانین واضع کرنے کا حامی ہے ۔ جو انتہائی غورو خوص اور معاشرے میں موجود اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی مشاورت سے جمہوری انداز میں بنایا گیا ہو۔جس کا مقصد صرف سوشل میڈیا پر غیر ضروری پابندیوں کا اطلاق نہ ہوبلکہ اس کا انتہائی منفی اور تخریبی استعمال کو روکنا مقصودہو۔میں ذاتی طورپر اس تیسرے نقطہ نظر سے متفق ہوں۔اس سلسلے میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے سہولیات کو مزید بہتر بنائے اور اُنھیں فروغ دے اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیاکے منفی اور تخریبی استعمال کو ہر ممکن حد تک روکنے کو یقینی بنائے اور اس حوالے سے متعلقہ قوانین اور ضابطوں کو مزیدبہتر بنائے۔ صارفین کے لیے یہ نقطہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اگر وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے تعمیری پہلوﺅں کو مقدم رکھیں گے اور غیر تعمیری استعمال سے احترازکریں گے تو حکومت کو بھی سوشل میڈیا پرغیر ضروری پابندیوںاور قدغنوں کی طرف نہیں جانا پڑے گا۔
٭ ارشد حسین جگنو ، گلگت
سوشل میڈیا نے کسی حد تک عوام کو سہولت فراہم کی ہے لیکن معلومات کی بے جا ٹریفکنگ نے سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنے میں مشکلات کھڑی کردی ہے اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے تعمیری یا غیر تعمیری استعمال کی بات کریں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہری صحافت نے نہ صرف صحافتی معیار اور ضابطہ اخلاق کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اخلاقی طور پر اس حد تک گر چکے ہیں کہ چند کمنٹس اور لائیک کیلئے شریف النفس انسان کی کردار کشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔یہاں تک کہ فیک آئی ڈیز اور پیجز بنا کر ایک دوسروں کی عزت اچھالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے اور اس دوڑ میں سیاسی و مذہبی جماعتیں سرفہرست ہیں۔ ہر کوئی بندہ سماج کے مثبت پہلو کے بجائے منفی پہلوﺅں کو اجاگر کرنے میں لگا ہوا ہے انھی پہلوﺅں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال تعمیری کم تخریبی زیاد ہونے لگا ہے۔سوشل میڈیا کی آزادی سے پہلے میں آزادی اظہار رائے پر بات کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔اظہارِ رائے کی آزادی کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہر انسان کو کھل کر اپنا نکتہ نظر بیان کرنے، سوال کرنے، اختلاف اور تنقیدکرنے کی اجازت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ہم کسی کی ذات، مسلک ،مذہب یا قوم پر بے جا انگلی اٹھا کر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں اس تناظر میں اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین اور آزادی کی بات کریں تو ہر بندہ اظہار رائے کی آزادی سے دو قدم آگے بڑھ کر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے یہاں تک کہ سوشل میڈیا کا کوئی بھی ٹول استعمال کرکے عزت نفس کو مجروح کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے جو کہ قابل افسوس ہے اور سوشل میڈیا مغربی ممالک سے زیادہ پاکستان میں آزاد ہے یہاں لوگ آئے روز سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسروں پر کفر کے فتوے داغ دیتے ہیں اس لئے میں عموماً اظہار رائے کی آزادی کی جگہ ”تخریبی آزادی“ کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔اب چونکہ سوشل میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق کی بات آئی ہے تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ضابطہ اخلاق کے بغیر زندگی کا کوئی بھی شعبہ نہ ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی اس شعبے سے جڑے لوگ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن یہاں خدشہ بھی حق بجانب ہے کہ کہیں اسی ضابطہ اخلاق کی آڑ میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہ لگائی جائے۔ بدقسمتی یہ کہ ہم نے سوشل میڈیا کو ملک میں اجازت تو دی ہے مگر سوشل میڈیا کی تعلیم و تربیت پرکوئی توجہ نہیں دی ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل سوشل میڈیا کو صحیح استعمال ہی نہیں کر پارہی ہے۔ اس لئے حکومتی ذمہ داری بنتی ہے کہ سوشل میڈیا کے قوانین کے حوالے سے جو ابہام پائے جاتے ہیں ان کو جلد از جلد دور کر کے سوشل میڈیا پر پابندی کی بجائے اسی سوشل میڈیا کو اپنی طاقت بنا کے سوشل میڈیا صارفین میں احساس ذمہ داری پیدا کرے۔
٭ محمد فاروق بھٹی، لاہور
پاکستان میں سوشل میڈیا کا جتنا بھی تعمیری استعمال ہے وہ سب غیرارادی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق مڈل، لوئر مڈل کلاس اور کم تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ یہ طبقہ یو ٹیوب پر دلچسپ وڈیوز اور غیر ضروری وڈیوز دیکھتا ہے اور بہت کم giving end پر آتا ہے۔ یو ٹیوب سے پیسہ کمانے کے شوقین غیر ضروری موضوعات پر انتہائی دلچسپ وڈیوز بنا کر پوسٹ کرتے ہیں، کچھ غیراخلاقی ڈومین میں بھی گھس جاتے ہیں۔ چوری کی وڈیوز بھی پوسٹ کرنے کا کافی ٹرینڈ ہے۔ موناٹائزیشن کے لالچ میں یو ٹیوبر ٹھرکی قسم کا مواد بھی بھرتے رہتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر جعلی اکاﺅنٹس کی بھرمار ہے اور یہاں بھی کچھ اگر تعمیری ہو رہا ہے تو ہے وہ بھی غیر ارادی۔فرقہ واریت جیسے نازک موضوعات میں عام لوگ بڑے منصوبہ سازوں کی آگ کا ایندھن بنتے ہیں۔ عام لوگ عام طور پر کسی پوسٹ سے مشتعل ہو کر اپنا ردِعمل دیتے ہیں اور سوشل میڈیا کو خاص مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کی خوراک بنتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین تعمیری و غیر تعمیری کی بحث سے آزاد ہیں اور صرف لطف و لذت کشید کرنے کو اس میڈیم کو استعمال کرتے ہیں۔ بڑے کینوس پر دیکھنے سے یہ غیر تعمیری استعمال کے کھاتے ہی میں پڑے گا۔ہمارے ہاں سوشل میڈیا آزاد ہی نہیں شترِ بے مہار ہے اور بریک فیل گاڑی کی طرح ڈھلوان سے پھسلے چلا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز کی کمپینز کا شکار عام صارف بظاہر خود کو آزاد محسوس کرتا ہے لیکن اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کسی ماہر اسٹریٹجسٹ کی منصوبہ بندی کا ایک عنصر بن گیا ہے۔ یہ آزادی صارف سے زیادہ ان اداروں، منصوبہ سازوں اور سیاسی و سماجی یا کاروباری یونٹس کی آزادی ہے۔ سوشل میڈیا ایپس کے بنانے والے اور ان سے پیسہ کمانے والے ان کو بزنس ایپس کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ فیس بک جیسی مشہور زمانہ ایپ کمیونٹی اسٹینڈرڈز کی خلاف ورزی جیسے خود ساختہ اور بیہودہ الزامات کے تحت کسی بھی صارف کا نہ صرف اکاﺅنٹ بند کر دیتی ہے بلکہ لاکھوں ڈالرز کا ڈیٹا بھی ہڑپ کر لیتی ہے۔ چند ایشوز تو ایسے ہیں کہ ان پر فوراً ہی ایکشن لیا جاتا ہے اور صارف کے تمام حقوق سلب کر لئے جاتے ہیں۔ اسرائیل اور انڈیا کے زیرِ اثر ہونے کے باعث آپ کو یہاں برہان وانی کا لفظ لکھنے پر یا حماس کے شیخ احمد یاسین کے ذکر پر بھی اکاﺅنٹ سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ میرا گیارہ سالہ پرانا ذاتی اکاﺅنٹ جس میں بیشمار ذاتی ڈیٹا تصویریں، تحریریں اور قیمتی مواد شامل ہے کو محض کشمیری لاک ڈاﺅن کی مخالفت پر بند کیا گیا ہے اور بار بار کے رابطے کے باوجود بحال کیا گیا نہ ہی جواب دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی آزادی پر بڑے اجارہ دار گروپس غیر اعلانیہ پالیسیوں کی بنیاد پر یکطرفہ خفیہ قدغن لگاتے ہیں جس کا بعض اوقات صارف کو علم تک نہیں ہوتا۔ گزشتہ امریکہ انتخابات میں فیس بک صارفین کا ڈیٹا Analytica” “Cambridge کو بیچنے کا اعترافِ جرم مارک زکربرگ باقاعدہ طور پر امریکی کانگریس کی خصوصی کمیٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رو کر کر چکا ہے۔نیویارک سے رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاشیو کوٹز جو کمیٹی کی ہیڈ تھی کے سامنے اداکاری کر کے کچھ محفوظ تو ہوا مگر جن صارفین کا ڈیٹا چوری کرکے آگے بیچا گیا تھا ان کو کوئی compensation نہیں دی گئی۔ فیس بک کا صارف بظاہر آزاد اور عملاً پابندیوں میں جکڑا ہوا ایسا شخص ہے جس کی پرائیویسی کا کوئی احترام کہیں موجود نہیں۔ خصوصاً ہم پاکستانیوں کے لئے کوئی فورم ایسا موجود نہیں جہاں فیس بک کی بدمعاشیوں کے خلاف رجوع کیا جا سکے۔ ضابطہ اخلاق تو ہر میڈیم اور میڈیا کے لئے ہونا چاہیئے اور عموماً ہوتا بھی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عموماً ایسے ضابطہ اخلاق بناتے ہوئے صارفین کی رائے اور حقوق کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔ سوشل میڈیا مالکان ہر سوسائٹی کی سماجی روایات کا احترام کرتے ہیں اور پہلے سے بہتر قواعد و ضوابط کے تحت ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ معاملہ وہاں آ کر بگڑتا ہے جب نفرتی مواد کو بروقت قابو نہیں کیا جاتا یا کسی ادارے کے paid سوشل میڈیا ورکرز کسی مخالف کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ شروع کرتے ہیں۔ دروغ گوئی اور افواہ سازی اور افواہ بازی کے خلاف قواعد و ضوابط بننے چاہیئے اور ایسا ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اورLaw of Land باآسانی عمل درآمد کر سکے۔حکومت کو عوام کے تحفظ اور معلومات کی صحیح ترین رسائی یقینی بنانے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ سوشل میڈیا کے عام صارفین تو پہلے ہی مظلوم ہیں۔ ان کے لئے ذمہ داریوں کا کیسا تعین کرناہاں البتہ فرد سے جب بات ادارے تک پہنچے تو اسے سرکار کی اجازت سے مشروط ہونا چاہیئے جیسے سیاسی جماعتیں اور مسلکی فرقہ وارانہ پریشر گروپس حکومتی اجازت کے بغیر اپنا اکاﺅنٹ آپریٹ نہ کر سکیں۔ ان کی باقاعدہ اجازت، سالانہ فیس اور لائسنس ہونا چاہیئے۔
سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی ایک کہانی
٭ روحان کی پیدائش 29 جولائی 2017 کو ہوئی ۔پیدائش کے پانچویں دن سانس میں دشواری کے سبب روحان کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ یرقان کی تشخیص کے بعد علاج کے دوران اسکے مختلف ٹیسٹ ہوئے جس سے ظاہر ہوا کہ روحان دل کے عارضہ میں مبتلا ہے جو کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلاکیس ہے۔جسکو میڈیکل زبان میں آریٹک آرٹریشیا کہتے ہیں۔روحان کے والد کا تعلق آئی ٹی اور والدہ کاتعلق ابلاغ عامہ سے ہے۔والدین نے مرض کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود ریسرچ پیپرز کو پڑھا ۔ ملک کے مایاناز کارڈیالوجسٹ سے بھی رابطے میں رہے جس سے واضح ہوا کہ روحان کی پہلی سرجری ”ناروڈ” ہوگی جو کہ مشکل ترین سرجریز میں سے ایک ہے اور پاکستان کا میڈیکل انفرااسٹرکچر اس نوعیت کی سرجریز کو سنبھال نہیں سکتا ۔روحان کے پاس صرف ایک ماہ کی مدت تھی اس اثنا ءمیں اسکا آپریشن ہونا اسکی زندگی کے لیے ضروری تھا ۔والدین نے دنیا کے مختلف سرجن اور کارڈیولوجسٹ سے سوشل میڈیا کے ذریعے رسائی حاصل کی جن میں ای میل سروس، فیس بک، ٹویٹر اور مختلف ہسپتال کی آن لائن پورٹلز وغیرہ شامل تھے۔جس سے اندازہ ہوا کہ یہ ایک مہنگی سرجری ہے کیونکہ اس میں رسک فیکٹر زیادہ ہے اور مریض کا آئی سی یو کا دورانیہ طویل ہے۔ایک عام آدمی کے لئے اس کاخرچہ اٹھانا مشکل ہے۔یوںوالدین نے فیس بک پر Help Baby Rohaan کے نام سے ایک پیج بنایا اور یہیں سے اس campaign کا عملی آغاز ہوا ۔ شروعات میں والدین کاسارا زور اس طرف رہاکہ وہ خود کتنا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔ سرجری کے لئے جو ممالک سرفہرست تھے ان میں جرمنی، اٹلی، بوسٹن ،برمنگھم اور انڈیا شامل تھے ۔ اخراجات اور Expertise کی وجہ انڈیا کو منتخب کیا گیا(روحان کیلئے اس کنڈیشن میں لمبا سفر بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا)۔پاسپورٹ کاحصول ،نادرا کا اندراج اور تمام مراحل حل کرتے کرتے 22 دن ہوچکے تھے۔اس دوران انڈیا کے میڈیکل ویزے بند تھے ۔جس کے لئے ٹویٹر پر helpbabyrohaan #کے نام سے ایک اور campaign کا آغاز کیا گیا۔ جس کا مقصد میڈیکل ویزہ کا حصول تھا کچھ جان پہچان والے اور دوستوں کے ساتھ شروع کی گئی اس مہم نے کچھ گھنٹو ں میں ہی trend کی شکل اختیار کرلی۔ جسکے نتیجے میں انڈیا کی وزیر خارجہ شمشا سوراج نے فوری طور پر اپنے tweet کے ذریعے پاکستان میں موجود انڈین ایمبیسی کو ویزہ جاری کرنے کا کہا ساتھ ہی twitter سے ہی دنیا کہ کچھ اخبارات نے بھی اس خبر کو اگلے دن شائع کیا ۔6 ستمبر 2017 کو فلائیٹ کے ذریعے روحان اپنے والدین کے ہمراہ دہلی پہنچا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ اُن کاسامان لاہور ائیرپورٹ پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے جس پر والدین نے پی آئی اے کو ٹویٹ کیا ۔ روحان کی اسٹوری پہلے سے ہی trend میں تھی تو پی آئی اے نے بروقت سامان پہنچانے کا بندوبست کیا۔ 8 ستمبر 2017 کو روحان کی کامیاب سرجرری ڈاکٹر راجیش شرما نے کی۔روحان کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے اسکا آئی سی یو کا دورنیہ طویل رہا ۔جس کی وجہ سے والدین کے وسائل ختم ہوگئے توفیس بک پیج پر امداد کی اپیل کی اور ساتھ ہی crowd funding شروع کی گئی۔جس کے نتیجے میں بہت سے جاننے والے مدد کے لئے سامنے آئے۔روحان کے ٹھیک ہونے کے بعد فوری طور پر ایک سال کے دورانیہ میں دوسری سرجری کا بتا دیا گیا۔والدین نے فیس بک کے پیج کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے امداد کی اپیل کی ۔ اردو پوائنٹ جیسے مختلف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے روحان کی اسٹوری کو cover کیا گیا۔والدین نے اپنی زندگی اور روحان کے حوالے سے مختلف پیکیجز بنا کر سوشل میڈیا کے مختلف platform پر Share کئے۔سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم میڈیا نے بھی روحان کی اسٹوری کو جگہ دی۔دوسری سرجری کے وقت بھی جب ویزہ کے لئے پاسپورٹ بھیجے گئے تو پچھلی twitter campaign کے توسط سے ویزہ جاری کیا گیا۔ اب دوسری کامیاب سرجری کے بعد روحان کے والدین نے فیس بک پیج استعمال کرتے ہوئے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ۔
سوشل میڈیا کے غیر تعمیری استعمال دو کہانیاں
٭ خرم بابر لاہور سے ہیں۔ کینسرکے مرض کو شکست دے چکے ہیں۔ سوشل ورکر اور موٹی ویشنل اسپیکر ہیں۔ کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال اور کینسر کے مرض کے علاج اور احتیاط کے بارے میں ایک فلاحی تنظیم کینسر فائٹنگ فرینڈز کے روح رواں ہیں۔ وسیع حلقہ احباب کے مالک ہیں۔ اُن کے ذاتی فیس بک اکاﺅنٹ کا لاگ اِن اور پاس ورڈ کسی نے چوری کرنے کے بعد اُن ایک تصویر اس تحریر کے ساتھ اُن ہی کے ذاتی فیس بک اکاﺅنٹ پر پو سٹ کردی کہ ” خرم بابر اب نہیں رہے“ ۔صبح سویرے خرم کا نمبر بند ملنے سے اُن کے حلقہ احباب میں زیادہ تشویش کی لہر دوڑی اور اکثر دوست اُن کے گھر پہنچے۔ جہاں معلوم ہوا کہ وہ خیریت سے ہیں اور کسی نے یہ خوفناک مذاق کیا ہے۔ خرم اپنے والدین اور بھانجیوں کا واحد سہارا ہیں۔ اُن کی وفات کی اس جھوٹی خبر نے اُن کے گھر والوں کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔خصوصاً اُن کی دو چھوٹی بھانجیوں پر جو اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے ماموں یعنی خرم بابر کے زیر کفالت اورزیر پرورش ہیں۔
٭ ڈاکٹر زاہد یوسف،سنٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکشن اسٹڈیز، یونیورسٹی آف گجرات کے چیئر مین ہیں۔ فیس بک پر اپنا ذاتی اکاﺅنٹ رکھتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں اِن کے فیس بک فرینڈز ہیں۔کچھ عرصہ قبل اُن کے نام اور تصویر کے ساتھ فیس بک پر ایک جعلی اکاﺅنٹ بنا یا گیا۔ اور اُن کے اسٹوڈنٹس اور دوستوں کو دوبارہ سے فرینڈز ریکویسٹ آنا شروع ہوئیں۔جو جو وہ ریکویسٹ Acceptکرتا ۔ اُسے فیس بک میسجز پر حال احوال کے بعد یہ کہا جاتا کہ وہ (یعنی ڈاکٹر زاہد یوسف)ابھی کسی ایسی جگہ ہیں جہاں بینک نہیں یا اے ٹی ایم نہیں اور انھیں ایمرجنسی میں کچھ رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ (جو عموماً ہزاروں میں ہوتی )آپ فلاں نام پر کسی بھی موبائل کمپنی کی کیش ڈلیوری سروسز کے ذریعے یہ رقم بھجوا دیں۔ وہ یونیورسٹی پہنچ کر رقم واپس لوٹا دیں گے۔ یوں اُن کے بے شمار طالب علم اور دوست اس جعل سازی کا شکار بنے اور مالی نقصان اُٹھا بیٹھے۔جب چند دوستوں نے ڈاکٹر صاحب سے دوسری فرینڈ ریکوسٹ کو Accept کرنے سے پہلے پوچھا کہ کیا یہ اُن کی جانب سے بھیجی گئی ہے تو وہ اس سے لاعلم نکلے۔اور پھر جب بعض اسٹوڈنٹس اور دوستوں نے اُنھیں فون کر کے بتایا کہ اُنھوں نے جس فرد کو پیسے بھیجنے کا کہا تھا اُنھیں پیسے بھجوادیئے گئے ہیں کیاآپ کو مل گئے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کو پتا چلا کہ اُن کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
٭….٭….٭
”بورس جانسن کا انتقال ہوگیا“ یہ پانچ لفظی خبر مورخہ07 اپریل کو ٹویٹر کے ایک اکاﺅنٹ کے ذریعے دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جو کرونا وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے اُن دنوں ہسپتال کے آئی سی یومیں زیر علاج تھے۔ ان کی وفات کی یہ جھوٹی خبر ٹویٹر پر بنائے گئے بی بی سی کے ایک جعلی اکاﺅنٹ کے توسط سے پھیلائی گئی۔ یہ جعلی اکاوئنٹ BBCbreaki@ کے ٹویٹر ہینڈل کے نام سے تھا۔جبکہ بی بی سی کا اصل ٹویٹر اکاﺅنٹ BBCBreaking@ کے ہینڈل سے ہے۔ یہ ٹویٹ ٹویٹر سے ہٹائے جانے سے قبل سینکڑوں بار ری ٹویٹ ہوئی۔ کیونکہ اس میں بی بی سی کے ٹویٹر ہینڈل سے ملتا جلتا ہینڈل استعمال کیا گیا۔اور پوری دنیا میں انجان لوگ اس دھوکے میں آگے اور خبر کو حقیقت جان لیا ۔ یہ دروغ گوئی دنیا بھر میں کرونا کا خوف اور دوچند کرنے کا باعث بنی۔یوں سوشل میڈیا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ صحافت کی ایک نئی جہت کی صورت میں اپنے مثبت اور منفی اثرات لیے ہمیں اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔
آن لائن پلیٹ فارمز فیس بک ، ٹویٹروغیرہ اور ویب 2.0 ایپلیکیشنز جیسے گوگل اور بلاگز نے خبروں کے کاروبار اور رپورٹنگ کے عمل کو بدل کررکھ دیا ہے۔ کیونکہ اب صحافت کے دائرہ کار میں داخلہ بہت آسان ہوگیاہے کوئی بھی پی سی یا اسمارٹ فون کا حامل فردخودرپورٹر، ایڈیٹر، ڈیزائنر، ڈسٹری بیوٹر ، پبلشریا براڈکاسٹراور پروڈیوسر سب کچھ ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی بھی موادتحریر، تصویر، آواز اور ویڈیو کی صورت میں بلاگ ، ٹویٹ،یوٹیوب یا فیس بک کرسکتاہے۔ سوشل میڈیا جس وجہ سے صحافت کے لئے غیر معمولی طور پرموثر جانا جارہا ہے یہ اُس کی وہ طاقت ہے جو اُس نے نیوز بریکنگ کی صورت میں اپنے آپ کو منواکر حاصل کی ہے۔سٹیزن جرنلزم اور موبائل جرنلزم کی اصلاحات نے معاشروں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔لوگ روایتی ابلاغ عام کے ذرائع اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مندرجات میں اپنی محدود ترین شمولیت کی وجہ سے بڑی تیزی سے ایسے پلیٹ فارمز کی جانب متوجہ ہورہے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی کے مندرجات پڑھ ،دیکھ اور سن سکیں اُن پر تبصرہ کرسکیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ اپنے نقطہ نظر کا کھل کر آزادانہ اظہار کرسکیں۔اس کے علاوہ وہ خود مندرجات تخلیق کرسکیں۔ یعنی لوگ اب معلومات اور اطلاعات کے صارف اور پروڈیوسر دونوں بن چکے ہیں۔وہ اس لیے کہ آج ہم ایک انفارمیشن سوسائٹی کا حصہ ہیں جہاں اکثر افراد دو زندگی گزار رہے ہیں ایک حقیقی اور دوسری ورچوئل (انفارمیشن سسٹم میں سرائیت شدہ) اس لئے آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے ولیم ڈٹن نے سوشل میڈیا کو ریاست کا پانچواں ستون قراردے دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ” ہم ایسی طاقتور آوازوں اور نیٹ ورکس کو ابھرتے دیکھ رہے ہیں جو روایتی میڈیا کے برعکس آزادانہ طور پر کام کرسکیں گے“۔اُن کا یہ بیان سوشل میڈیا کے پہلے سے موجود پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ ابھرتے مختلف نئے پلیٹ فارمزکے تیزی سے فروغ، وسعت اور استعمال کے تناظر میں حقیقی لگتا جارہا ہے۔ یعنی آزادی اظہار ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو لوگوں کو سوشل میڈیا کی جانب متوجہ کرنے اور اس کے بھرپور استعمال کا باعث بنا۔اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر کی 49 فیصدآبادی سوشل میڈیا کے فعال صارفین پر مشتمل ہے۔ ڈیجیٹل 2020 ” گلوبل ڈیجیٹل اورویو“ نامی رپورٹ کے مطابق جنوری 2020 تک دنیا میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد 3.80 ارب تک پہنچ چکی ہے۔
سوشل میڈیا بنیادی طور پر انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ایسے ٹولز پر مشتمل پلیٹ فارمز ہیں جو معلومات اور اطلاعات کی ایک دوسرے کو منتقلی اور تبادلہ خیال کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کا ایسا انضمام ہے جس میں ٹیلی مواصلات اور سماجی تعامل کو ملاکر ایسا پلیٹ فارم بنا یا گیا ہے جس میں آپ تحریر، تصویر، آواز اور فلم کے ذریعے دوطرفہ ابلاغ کرسکتے ہیں۔ اور اس کی خاص جہت صارف کو خود کسی بھی مواد کی تخلیق اور تبادلہ کی سہولت کا ملنا ہے۔سوشل میڈیا ٹولز سوشل نیٹ ورکنگ کی ایسی آن لائن سروس فراہم کرتے ہیں جو صارفین کو ہم خیال افراد کے ساتھ ورچوئل نیٹ ورک بنانے کے قابل بناتی ہے۔ یہ چیٹ ، انسٹنٹ میسجنگ ، فوٹو شیئرنگ ، ویڈیو شیئرنگ ، اپ ڈیٹس جیسی سہولیات کی پیش کش کرتی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ مشہور مثال فیس بک اور لنکڈ اِن ہیں۔اس کے علاوہ بلاگز جو ایک انفرادی صارف بناتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ جس میں متن، تصاویر ، ویڈیوز اور دیگر ویب سائٹوں کے لنکس شامل ہوسکتے ہیں۔ بلاگز کے نمایاں خصوصیت اس کا باہمی تبادلہ خیال (انٹرایکٹیو) فیچر ہے جس میں قارئین کو اپنی رائے دینے کی سہولت میسر ہوتی ہے اوریوں تمام تبصروں کو دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔مائیکرو بلاگزیہ 140 حرف یا اس سے کم حرف کی مخصوص پابندی والے بلاگز ہوتے ہیں۔ جو صارفین کو مواد لکھنے اور اس کے اشتراک کی سہولت دیتے ہیں۔ ٹویٹر ایک مائیکرو بلاگنگ سائٹ ہے جو اپنے صارفین کو ’ٹویٹس‘ بھیجنے اور پڑھنے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔اسی طرح وی لاگز(ولوگس) اور ویڈیو شئیرنگ سائیٹس جو بنیادی طور پر اپنے مندرجات کے طور پر ویڈیو کا استعمال کرتی ہیں اور ان کی معاونت کے لیے متن کا سہار الیتی ہیں۔ یو ٹیوب دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو شیئرنگ سائٹ ہے۔جو براہ راست ویڈیو براڈکاسٹنگ اور ویڈیو شیئرنگ کی سروسز فراہم کرتی ہے۔ جہاں صارفین ناصرف ویڈیوزدیکھ سکتے بلکہ اپ لوڈ بھی کرسکتے ہیں اور شیئر بھی اور ان پر تحریری تبصرے بھی کرسکتے ہیں۔وکیز یہ ایک باہمی تعاون کی ویب سائٹ ہے جو متعدد صارفین کو مخصوص یا باہم مربوط مضامین پر صفحات بنانے اور اپ ڈیٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس کہ کسی ایک صفحے کو ‘وکی پیج’ کہا جاتا ہے اورکسی خاص عنوان کے بارے میں پورے مواد کو ’وکی‘ کہا جاتا ہے۔اس میں متعدد صفحات ہائپر لنکس کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔سوشل بک مارکینگ یہ خدمت کسی کو انٹرنیٹ پر موجود مختلف ویب سائیٹس اور دیگر وسائل کے لنکس محفوظ کرنے ، منظم کرنے اور اکٹھا کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ کیونکہ کسی معلومات یاکسی فرد کی تلاش یا رابطہ کے لیے ٹیگ اور بک مارک کی گئی ویب سائیٹس ضرورت پڑنے پر روابط کوجلداور آسان بنادیتی ہے۔سوشل نیوزان خدمات سے کسی کو مختلف خبروں کی اشاعت اورمضامین سے باہر کے لنکس پوسٹ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔اس میں باہمی تبادلہ خیال کے لئے آئٹمز پر ووٹنگ اور ان پر تبصروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کی مشہورمثالوں میں Digg, Reddit اورPropeller ہے۔میڈیا شئیرنگ یہ خدمات کسی کو فوٹو یا ویڈیو اپ لوڈ کرنے اور ان کا اشتراک کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔اس میں باہمی تبادلہ خیال کسی صارف کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی فوٹو یا ویڈیو پر تبصرے کی صورت میں ہوتا ہے یوٹیوب اور فلکر اس کی واضح مثالیں ہیں۔آپ کو ان ٹولز کا کسی ایک پلیٹ فارم پر ایک یا اس سے زائد صورتوں میں استعمال ملے گا جس کو مقصد صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنا ہے۔
سوشل میڈیا کوانٹرنیٹ کی طاقت نے دوام اور سمارٹ موبائل فون کی سہولت نے متحرک کررکھا ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا کی 59 فیصد آبادی انٹر نیٹ کا استعمال کر رہی ہے تو 3.5 ارب انسان سمارٹ موبائل فونز کے صارف ہیں۔ڈیجیٹل 2020 : گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو نامی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر روز اوسطً6 گھنٹے43 منٹ انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا ہے جس میں3 گھنٹے22 منٹ موبائل کے ذریعے استعمال ہوتا ہے۔جبکہ انٹرنیٹ صارفین اوسطً 2 گھنٹے 24 منٹ روزانہ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔پاکستان بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں سوشل میڈیا بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ جس کی نشاندہی گلوبل ڈیجیٹل اُروویو 2020 کے یہ اعداوشمار کر رہے ہیں کہ دنیا بھر میں جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ جبکہ فیصد اضافہ کے حوالے سے وطنِ عزیز دنیا میں 12 ویں نمبر پر ہے (لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان ابھی بھی انٹرنیٹ سے محروم آبادی کی تعداد کے حوالے سے دنیا کا تیسرا محروم ترین ملک ہے)۔اسی طرح سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 17 ویں نمبر پر ہے۔اس وقت ملک کی 37 ملین آبادی یعنی 17 فیصد سوشل میڈیا کی فعال صارف ہے۔جبکہ 35فیصد آبادی یعنی 76.38 ملین نفوس انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والی آبادی کا 48.4 فیصد سوشل میڈیا کا فعال صارف ہے۔ یعنی ملک میں ہر دوسرا انٹرنیٹ صارف سوشل میڈیا کا فعال استعمال کنندہ ہے۔ اورملک میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کا 99 فیصد موبائل فون کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔جبکہ سال 19- 2018 کےدوران ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک کا75.9 فیصد موبائل فون کے ذریعے استعمال شدہ انٹرنیٹ کی بدولت تھا۔نیوزو (Newzoo)گلوبل موبائل مارکیٹ رپورٹ2019 کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں 19 ویں نمبر کاحامل ایسا ملک ہے جہاں سمارٹ فونزاستعمال کنندگان کی تعداد زیادہ ہے اور ملک میں سمارٹ موبائل فون صارفین کی تعداد 32.5 ملین ہے ۔ لیکن سمارٹ فون کی حامل آبادی کی فیصد کے حوالے سے دنیا کے50 ممالک (جن کے اعداوشمار دستیاب ہیں) میں سے پاکستان 49 ویں نمبر پر ہے اور ملک کی صرف 15.9 فیصد آبادی سمارٹ موبائل فون کی مالک ہے۔ملک میں سوشل میڈیااستعمال کرنے کی بنیادی ضروریات انٹرنیٹ، موبائل فون اور کمپیوٹر کے اعدادوشمار کا ایک اور پہلو پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 18-2017 کے ان اعدادوشمار سے بھی اجاگر ہوتا ہے جس کہ مطابق ملک کے97.5 فیصد گھروں میں موبائل فون موجود ہے۔ شہروں میں یہ شرح 93.9 فیصد اور دیہہ میں91.6 فیصد ہے۔اسی طرح ملک کے 26.4 فیصد گھروں میں کمپیوٹر موجود ہے۔ دیہہ کے 8.1 اور شہروں کے15.1 فیصد گھر اس سہولت کے حامل ہیں۔ انٹرنیٹ کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ملک کے22.9 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کنکشن موجود ہے ۔ دیہہ کے4.9 اور شہروں کے11.8 فیصد گھر انٹرنیٹ کنکشن کی وجہ سے دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان اگرچہ ابھی بھی انٹرنیٹ تک رسائی، سمارٹ موبائل فونزکے استعمال ، کمپیوٹرزکی ملکیت اور انٹرنیٹ کی قیمتوں کے حوالے سے اپنے ہم عصر دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی محرومیوں کا شکار ہے ۔ لیکن ہر نیا سورج ان محرومیوں کو کم کرنے کی نوید لیکر طلوع ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک سال کے دوران ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں17 فیصد، موبائل فون کنکشن کی تعداد میں6.2 فیصد اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 7 فیصد اضافہ ہوا جو ہماری آبادی میں 2 فیصد اضافہ سے کہیں زائد ہے۔یہ تمام پیش رفت اُس منظر نامہ کی واضح عکاسی کر رہی ہے جو اس وقت ملک میں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے موجود ہے۔ یہ تمام تر پیش رفت اپنی جگہ لیکن حکومت اب ملک میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے28 جنوری 2020 کو سوشل میڈیا کے حوالے سے ” سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 “کے نام سے نئے ضوابط کی منظوری دی ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے ان ضوابط کے جائزہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ جو متعلقہ سول سوسائٹی اور ٹیکنالوجی کمپنیز کے ساتھ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مشاورت کررہی ہے۔یہاں یہ سوال اہم ہے کہ جب ہم آزادی رائے اور آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں تو کیا ہمیں پھر اس طرح کے رولز کی ضرورت ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں؟اس کے علاوہ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو کیسے ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے؟۔ ان سوالات کے جواب میں اوکاڑہ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی ڈاکٹر ثوبیہ عابد کہتی ہیں۔
”آزادی اظہار رائے کو انسانی حقوق فراہم کیے جانے کے لئے بنیاد کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔بات کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی ہر شہری کو آئین پاکستان کا آرٹیکل انیس دیتا ہے۔دیگر ابلاغ عامہ کے ذرائع تو اہم تھے ہی مگر آج کل کا دور سوشل میڈیا کا ہے۔اس لیے ان ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ہر صارف اپنی رائے کا اظہار کرنے کی سہولت رکھتا ہے۔ اس میں ایک بات اہم ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے یہ ممکن نہ تھا کہ ہر قاری یا صارف کسی بھی میڈیا کے مواد پر فوری ردعمل دے سکے۔ اس کو ابلاغ کے عمل میں فیڈ بیک کہا جاتا ہے تو اخبار کا قاری ،ریڈیو کا سامع یا ٹی وی کا ناظر یہ نہیں کر سکتا تھا کہ فوری ردعمل اس میڈیا کے ادارے تک پہنچا سکے ۔سوشل میڈیا اپنے ہر صارف کو مساوی مواقعے فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی پوسٹ پر یا پھر کمنٹس باکس میں جا کر ہر بات پر اپنا فوری ردعمل برابری کی سطح پر دے سکے۔ اس وجہ سے بہت سے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ استاد ہونے کے ناطے مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرے کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ آزادی کا حق ہمیشہ ایک خاص ذمہ داری کا احساس بھی ساتھ لے کر آتا ہے جس میں سماج ،روایت، ثقافت، مذہب اور معاشرے کے بنائے کچھ بنیادی ضابطے ہر کسی کو ہر صورت اپنانے پڑتے ہیں۔سوشل میڈیا ویب سائٹس نے اپنے ضابطے بنائے ہوئے ہیں جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ کسی بھی مواد کو شائع کرنے سے روک سکتے ہیں۔کاپی رائٹس اور غیر اخلاقی مواد کے علاوہ شدت پسندی یا دہشت گردی کے حوالے سے کسی بھی پوسٹ کو ہٹا دیا جاتا ہے یو ٹیوب یا فیس بک وغیرہ پر سے۔اگر ان سوشل میڈیا کمپنی والے کچھ خاص چیزوں کے بارے میں حساس ہیں اور ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مواد کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں تو پھر یہ حق ریاست کا بھی ہونا چاہیے کہ وہ کچھ نظریاتی بنیادوں اور معاشرتی اقدار کے بارے میں حساس ہو اور ان کے بارے میں اظہار رائے کے لیے ضابطے بنائے اور ان کو لاگو کروائے۔اس لیے میرے خیال سے آزادی اظہار کو ذمہ داری کے احساس کے ساتھ ہی جڑے ہونا چاہئے اور ریاست کو اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ کسی کو بھی بلاوجہ روکا نہ جائے اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے کیو نکہ اگر درست رولز بنے ہوں گے تو وہ عام لوگوں کے بات کرنے کے حق کا تحفظ بھی کریں گے۔ان رولز کے علاوہ کوئی کاروائی نہیں ہوسکے گی جو کہ سوشل میڈیا صارف میں ایک طرح کا احساس تحفظ اور احساس ذمہ داری پیدا کریں گے۔اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ رولز برابری کی سطح پر لاگو ہونے چاہئے۔۔ آج کل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنا مواد شیئر کر کے بزنس کرنے اور کمانے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں اس کے لیے بھی قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ یہ ایک طرح سے برابری رکھتے ہوئے ہر صارف کے مفادات کا بھی تحفظ ہو جائے۔ ان رولز میں وقت گزرنے کے ساتھ جدت پیدا کرنے کی ضرورت بھی ہے کیو نکہ ڈیجیٹل میڈیا دراصل بہت تیزی سے نئی ٹیکنالوجی کو بھی اختیار کرتا جاتا ہے اس وجہ سے سوشل میڈیا سے جڑے تمام قوانین اور ضوابط کو مستقل بنیادوں پر دیکھتے اور بدلتے رہنے کی ضرورت ہو گی۔ خاص طور پر سا ئبر سیکیورٹی کے معاملات میں اور اکانومی کے حوالے سے کیونکہ موجودہ کروناوائرس کی وجہ سے آن لائن صارفین کی تعداد میں اور ڈیٹا کے استعمال میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے“۔
اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کے ایک ایسا معاشرہ جہاں آزادانہ اظہار خیال کو پہلے ہی رکاوٹوںکا سامنا ہے ۔وہاں جب شہری اپنے اوپر ذاتی سنسر شپ عائد کریں گے تو پھر لوگ آن لائن مباحثوں میں شرکت کرنا چھوڑ دیں گے۔ جس سے ان کا گورننس اور قانون کے امور میں مفید اور نتیجہ خیز گفتگو میں حصہ لینے کا امکان کم ہوجائے گا۔ اس سے حکومت اور عوام کے مابین ایک اہم رشتہ ختم ہوجائے گا۔جس کی ہماری جیسی جمہوریت متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلے میں ان رولز کے معاشرے پر کیا مثبت اور کیا منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان کا ایک اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشن اسٹڈیز جامعہ پنجاب کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد خان کہتے ہیں۔
”وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن ، حکومت پاکستان کی جانب سے سٹیزن پروٹیکشن رولز کا حال ہی میں اجرا کیا گیا ہے ، یہ رولز دراصل شہریوں کو آن لائن نقصان پہنچانے کے خلاف تحفظ فراہم کیے جانے اور الیکٹرانک کرائمز سے محفوظ رہنے کا قانون ہے ۔ ان رولز کے معاشرے پر مثبت اثرات قدرے نمایاں ہوں گے۔سیٹیزن پروٹیکشن رولز 2020 کا اجرا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں ہوئی جب کہ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں کچھ اس طرح سے شامل ہو گیا ہے کہ باقی سب چیزیں پیچھے رہ گئی ہیں – سوشل میڈیا جہاں لوگوں کو بہترین انداز میں تفریح اور معلومات فراہم کر رہا ہے وہیں پر اس کے ذریعے سے بے حد پروپیگنڈہ ، جھوٹ ، ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے جو کہ ملکی سا لمیت کیلئے کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں ہے اسی طرح سے ہماری سماجی اور اخلاقی قدار خاص طور پر مذہب کے حوالے سے عدم برداشت کی وجہ سے تصادم کا اندیشہ بڑھ رہا ہے ۔میڈیا نے کنفلیکٹ کو ہمیشہ ہی ہوا دی ہے یہاں تک کہ اسے جنگی ہتھیار کے طور پر بھی بھر پور استعمال کیا گیا اور اب انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تھری جی، فورجی اور فائیو جی کے آنے سے آئندہ دنوں میں افراد اور قوموں کے درمیان تصادم اور فساد میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں طور پر سامنے آئے گا۔ اس لئے اس قانون کے ذریعے نیشنل کوآرڈینیٹر کا قیام ایک خوش آئند اقدام ہے اور اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں سٹیک ہولڈرز کی معاونت کو بھی یقینی بنایا گیا ہے ۔غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو 24 گھنٹے کے اندر بلاک اور ایمرجنسی کی صورت میں 6 گھنٹے میں بلاک کر دیا جائے گا۔سوشل میڈیا کمپنی سے ڈیٹا یا انفارمیشن کا حصول اور فوقیت نیشنل کوآرڈینیٹر کو ہو گی نہ کہ سوشل میڈیا کمپنی کو ۔اسی طرح سے پاکستان کی نیشنل سیکورٹی ، دہشت گردی ، انتہا پسندی اور تشدد پر ابھارنے والی لائیو سٹریمنگ کی روک تھام ممکن ہوگی۔ پاکستان میں ایسی سوشل میڈیا کمپنیز بھی کام کر رہی ہیں جن کا کوئی مستقل آفس ملک میں نہیں ، فوکل پرسن نہیں ، اب اس قانون کے ذریعے ان سب باتوں کو یقینی بنایا جائے گا اور ایک مثبت پہلو یہ بھی کہ سوشل میڈیا کمپنیز ڈیٹا بیس سرورز قائم کریں گی اور غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کی صورت میں فورا ًوضاحتی نوٹ جاری کریں گی اور تمام ڈیٹا اور انفارمیشن تک رسائی دینے کی پابند ہوں گی ۔ کسی بھی رول کی خلاف ورزی کرنے پر سوشل میڈیا کمپنیز کے مکمل آن لائن سسٹم کو نہ صرف بلاک کیا جا سکے گا بلکہ انہیں 500 ملین روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکے گا اور اس سلسلے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے سوشل میڈیا کمپنیز کو ریپریزنٹیشن اور ہیرنگ کا حق بھی دیا جائے گا اور 3 ماہ کے اندر فیصلہ بھی کر دیا جائے گا ۔
ان رولز کے معاشرے پر منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ اندیشہ برحال موجود ہے کہ سیٹیزن پروٹیکشن رولز 2020 کے غلط استعمال سے سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس کی آڑ میں سیاسی ورکرز اور آرگنائزیشنز کو مخالفت کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے جس سے بنیادی شہری اور سیاسی حقوق پامال ہو سکتے ہیں ۔ آزادی رائے اور اظہار کو محدود کیے جانے سے جمہوریت کے تصور کی نفی ہوتی ہے ۔ افراد کی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں اور اظہار کے مختلف پیرائیوں پر قدغن لگانے سے معاشرہ اپنا اجتماعی شعور کھو دیتا ہے اور لوگوں میں بے چینی ، گھٹن ، عدم برداشت اور منفی رجحانات بڑھ جاتے ہیں اور معاشرہ تعمیری رویوں کی بجائے زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ان رولز میں بہتری کی گنجائش کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ سیٹیزن پروٹیکشن رولز کو فعال اور کارآمد بنانے کیلئے سیاسی اور معاشی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس کے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔اس قانون کو اس کی روح کے مطابق قابل عمل بنانے کیلئے نیشنل کوآرڈینیٹر کے قیام کے سلسلے میں لائق اور پروفیشنل ماہرین کو اس کا حصہ بنانا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی خاص سیاسی جماعت یا گروہ کے افراد کی تفریق سے گریز لازم ہے ۔ رولز میں نیشنل کوآرڈینیٹر کے قیام اور اس کو معاونت فراہم کرنے والی کمیٹی میں عہدیداروں کی تقرری کا طریقہ کار بھی وضع کیا جانا چاہیے اور اسے ان رولز کا حصہ بنانا چاہیے۔ غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو جرمانہ کرنے کے سلسلے میں حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں واضح میکانزم وضع کرنا چاہیے “۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل19 کے مطابق” ہر کسی کو رائے کی آزادی اور اس کے اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے۔اس حق میں سرحدوں سے قطع نظر بغیر کسی مداخلت کے رائے قائم کرنے اورکسی بھی میڈیا کے ذریعے معلومات،نظریات کی تلاش، حصول اور تشہیر شامل ہے “۔لہذامیڈیا کی آزادی اور آزادی اظہار آفاقی حقوق ہیں جو ہر طرح کے میڈیا پر لاگو ہوتے ہیں۔ چاہے وہ آن لائن ہو یا آف لائن۔ چاہے وہ پروفیشنل ہو یا شہری صحافت۔چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا۔یوں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ بن گے ہیں جس کے ذریعے افراد اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کو استعمال کرسکتے ہیں اور معلومات اور نظریات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں دنیا بھر میں لوگوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی ایسی تحاریک دیکھنے میں آئی ہیں جو تبدیلی ، انصاف ، مساوات ، طاقتوروں کے احتساب اور انسانی حقوق کے احترام کی حمایت کرتی نظر آئیں۔یعنی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا لوگوں کو فوری طور پر رابطے اور تبادلہ خیال کرنے کے قابل بنانے اور یکجہتی کا احساس پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ احساس اس وقت زور پکڑ رہا ہے کہ سوشل میڈیا صرف ایک کھیل یا بیکار تفریح نہیں ہے بلکہ معاشرتی اصلاح اور آگاہی لانے میں ایک موثر ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ حقوق کے شعور ، جمہوری طریقوں کے فروغ،ابلاغی انقلاب ، تعلیمی اہلیت اور صلاحیت میں اضافہ اور سیاسی سرگرمی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔لیکن وہیں یہ جھوٹی اورغلط معلومات پھیلانے، دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے، مذہبی لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے،آن لائن ہراساں کرنے، لوگوں کی ساکھ متاثر کرنے،بلیک میلنگ ، نفرت انگیز تقاریر و موادکی تشہیراورذاتی ڈیٹا چوری کرنے کے عمل کا بھی حصہ ہے ۔اور یہ سب اس کی آزادی کے تاریک پہلو ہیں۔اظہار رائے کی آزادی ایک پیچیدہ حق ہے۔ یہ قطعی نہیں بلکہ اس کے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔یہ شہریوں کو بغیر کسی ذمہ داری کے بولنے یا شائع کرنے کا حق فراہم نہیں کرتا ہے۔ یہ کوئی ایسا لائسنس نہیں جو زبان کے ہر ممکن استعمال کے لئے استثنیٰ دیتا ہو اور اس آزادی کو غلط استعمال کرنے والوں کو سزا سے روکتا ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ 1966 کے آرٹیکل19 (3) مندرجہ ذیل بنیادوں پرآزادی اظہار پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔(الف )دوسروں کی ساکھ کے حقوق کے لئے(ب) قومی سلامتی ، یا عوامی نظم ، یا عوامی صحت یا اخلاقیات کے تحفظ کے لئے۔آزادی اظہار کے ساتھ منسلک فرائض اور ذمہ داریاں کیا سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہوتی ہیں؟ اور ان ذمہ داریوں کا تعین اور اطلاق عوامی سطح پر کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اس سلسلے میں بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے ڈاکٹر ببرک نیاز کہتے ہیں۔
”سماجی ذمہ داری کو دو پہلوﺅں سے دیکھا جانا چاہیئے۔ میڈیا چاہے کوئی بھی ہو روایتی یا سوشل ۔ ایک تو اِن کے مندرجات میں ایسے موضوعات کوتسلسل کے ساتھ شامل کیا جائے جو عوام الناس کی سماجی اور معاشی ترقی کا باعث بنیں۔ یعنی جو انسانی ترقی کی ضروریات کو پورا کریں اوراس کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک چوکیدار کا کردار بھی ادا کریں۔ اسے پبلک سروس براڈ کاسٹنگ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔ دوسرا پہلو ان مندرجات کو کیسے پیش کیا جائے یعنی انکی ٹریٹمنٹ کیسے کی جائے؟ ابلاغیات کی زبان میں اسے ہم Primingاور Framingکہتے ہیں۔ ان دو پہلوﺅں کو جب ہم سوشل میڈیا کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں عام صارف کی جانب سے ایسے موضوعات کی بھرمار نظر آتی ہے جو کسی نا کسی صورت انسانی ترقی کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ شاید اس وجہ سے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا پر یہ موضوعات بہت کم جگہ پاتے ہیں۔کیونکہ نیوز میڈیا کے مندرجات کا زیادہ تر حصہ سیاست اور سیاستدانوں کے گرد گھومتا ہے۔ یا وہ موضوعات جس سے چینل یا پرنٹ میڈیا کے مفادات جڑے ہوں وہ اُن میں جگہ پاتے ہیں۔تفریحی میڈیا پر جو مندرجات پیش کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر محبت، رقابت، حسد، نفرت اور بدلہ کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔اس لیے سوشل میڈیا ایک اسے پلیٹ فارم کی صورت میں اپنے صارفین کو اُن تمام موضوعات پر بات کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے جو اُن کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے معاشرے میں چوکیدار کے کردارکی ہی بدولت اب مین اسٹریم میڈیا کوبھی بہت سے ایسے موضوعات کو اپنے مندرجات میں جگہ دینی پڑتی ہے جو اگر سوشل میڈیا پر ایک عوامی آواز یا تحریک کی صورت میں سامنے نہ آتے تومین اسٹریم میڈیا شاید ان پر توجہ نا دیتا۔ سوشل میڈیا کے اسی کردار کی بدولت عدلیہ جہاں سو موٹو نوٹس لیتی ہے وہیں حکومت بھی ایکشن لیتی ہے۔ یہاں تک تو سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری قابل تحسین ہے۔ لیکن جو سب سے اہم ایشو ہے وہ یہ کہ سوشل میڈیا پر دی جانے والی چیزوں کو کیسے پیش کیا جائے ؟یعنی ان کی جو ٹریٹمنٹ کی جاتی ہے وہ قابل توجہ ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیاپر اپ لوڈ ہونے والے مندرجات کی ایسی بہت بڑی تعداد غیر تربیت یافتہ، پیشہ وارانہ تعلیم سے محروم اور نیم خواندہ عام افراد کی جانب سے کی جاتی ہے۔ جس میں اُن کی ذاتی پسند یا نا پسند کی ایک واضح جھلک محسوس ہوتی ہے۔وہ اپنی مرضی سے چیزوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں۔ اور جذبات کی رو میں بہہ کر جس طرح کی تحریر، تصویر اور آواز کا استعمال کیا جاتا ہے وہ بعض اوقات تہذیب،شائستگی اور اخلاقیات کی تمام حدود پھلانگ لیتا ہے۔ اور چیز کو تصدیق کیے بغیر آگے فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ یوں ایک سے دو ، دوسے چار اور یہ سلسلہ لا متناہی ہوجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کی جانب سے اپ لوڈ کی جانے والی معلومات اور اطلاعات کی معروضیت اور درستی مشکوک ہوتی ہے۔بعض اوقات آزادی اظہار کے نام پر اُن موضوعات کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے جو تعمیر نہیں بلکہ تخریب کا باعث بنتے ہیں۔ اسی رجحان کے ساتھ ساتھ جب سیاسی یا مذہبی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کی جانب سے جو معلومات یا اطلاعات ایک عام صارف کے اکاﺅنٹ کی صورت میں ایک پوسٹ کے طور پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ تو کرتے وہ بھی وہی کام ہیں جو جذبات کی رو میں بہہ جانے والے عام سوشل میڈیا صارفین کرتے ہیں لیکن شایدوہ اُن سے زیادہ خطرناک اور ہر طرح کے احساس ذمہ داری سے عاری ہوتاہے۔کیونکہ تعلیم یافتہ اورپیشہ وارانہ اہلیت کے حامل ان سوشل میڈیا ٹیمز کی کئی ایک پوسٹیں ملک دشمن قوتیں جلتی پر تیل چھڑکانے کے لیے استعمال کر تی ہیں۔ لہذا سوشل میڈیا پر کیا دیا جائے اور اس کی ٹریٹمنٹ کیسے ہویہ سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری کے پہلو سے جڑی ہوئی باتیں ہیں۔ اس لیے میری رائے میں جیسے مین اسٹریم میڈیا پر حکومت کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کا ایک میکنیزم موجود ہے ویسا ہی سوشل میڈیا پر بھی لازماً ہونا چاہیئے۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں فی الحال یہ ممکن نہیں کہ کوئی فرد ذاتی طور پر چیزوں کو فلٹر کرکے سوشل میڈیا پر دے۔ کیونکہ جیسا پہلے ذکر کیا کہ ہر کسی کا سیاسی اور مذہبی جھکاﺅ ہوتا ہے پسند نا پسند ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یا ایپس کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا چاہیئے۔ کہ نئے اور پرانے صارفین کے لیے یہ ضروری قرار دیا جائے کہ اُن کے اکاﺅنٹ کے جاری رہنے یا نئے اکاﺅنٹ کو بنانے کے لیے بائیو میٹرک سے تصدیق شدہ ملکی موبائل نمبرکی ضرورت ہو۔اور ایک نمبر پر ایک ہی اکاﺅنٹ بنانے کی اجازت ہو کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا یا سائبر کرائم کے حوالے سے جو حکومتی ادارے ہیں وہ متحرک اور فعال کردار ادا کریں ۔جبکہ لوگوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تعلیم کے حوالے سے خصوصی آگاہی مہمیں چلائی جائیں۔ اس سلسلہ میں طالب علموں کے تعلیمی نصاب میں سوشل میڈیا کا کوڈ آف کنڈکٹ شامل کیا جائے“۔
سوشل میڈیا کی آزادی کی بعض صورتوں میں قومی سلامتی پر دورس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کیونکہ سوشل میڈیا ٹیکنالوجیزیعنی فیس بک ، ٹویٹر ، اسنیپ چیٹ ، لنکڈ ان وغیرہ کو جنگ کی موجودہ چار جہتوں یعنی زمینی ، سمندری ، ہوا اور خلا کے بعد پانچویں جہت کے طور پر سمجھا جارہا ہے۔جنگ کی اس پانچویں اور تازہ ترین جہت کی نہ تو کوئی جغرافیائی حدود ہیں اور نہ ہی کوئی قیود۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلو جس میں تعلیم ، معاشرتی تعامل ، قانون نافذ کرنے والے ادارے ، میڈیا ، سفارتی کام کاج ، کاروبار ، تحقیق ، ترقی اور فوج حتیٰ کہ نیشنل سیکورٹی سب تک محیط ہے۔تو پھرقومی سلامتی کے تناظر میں خصوصاً اور دیگر پہلوﺅںمیں عموماً سوشل میڈیا پرآزادی اظہار کی حدود کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق کے تعین کی ضرورت ہے؟ اس حوالے سے نیشنل سیکورٹی کو سبوتاژ کرنے میں سوشل میڈیا کے کردار پر تحقیق کرنے والے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر زاہد محمودزاہد کہتے ہیں۔
” آج کی دنیا میں جب سیکورٹی کا دائرہ کار روایتی فوجی نوعیت سے نکل کر سیاسی ، معاشرتی، معاشی، ماحولیاتی اور سائبر کی دنیا تک پھیل چکا ہے۔ جہاں معاشرتی اور معاشی استحکام سب سے زیادہ مقدم سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی ریاست کی معاشی اور معاشرتی وحدت کو پارا پارا کرکے اس کے جنگ لڑنے کی صلاحیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اور ایسا کیسے کیا جاسکتاہے؟ غلط معلومات کے پھیلاﺅ سے۔ کیونکہ ہر ملک میں کچھ عوامی سطح کے مسائل موجود ہوتے ہیں جن کو ہوا دیکر سیکورٹی کے مسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اس کو فیفتھ جنریشن وار کہتے ہیں۔ جو ادراک، انفارمیشن، کلچر اور نفسیات پر محیط ہے۔ جو مخصوص طبقوں، نسلی گروہوں کے احساس محرومی کو مشتعل کرکے ، تاریخی حقائق کو مسخ کرکے قومی بیانیہ کو چیلنج کرتی دیکھائی دیتی ہے۔ اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ناپختہ ذہنوں تک بہت تیزی سے سرائیت کرتی ہے۔ جس کے دورس نتائج سامنے آتے ہیں۔ پچھلے30 سالوں میں ٹیکنالوجی ، جمہوریتوں اور عالمگیریت کی موجودگی میں ابلاغ عامہ کے نئے ذرائع سامنے آئے ہیں جو براہ راست فرد کے کنٹرول میں چلے گئے اور ریاست کی روایتی اجارہ داری ختم ہوگئی۔ میں اسے ڈیموکرائٹائزیشن آف میڈیا کہتا ہوں۔ پچھلی ڈیڑھ صدی میں اس سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک طرف تو احتجاج اور انقلاب برپا کرنے کے قابل بنایا ہے تو دوسری طرف دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کے طریقوں سے لیکر نظریاتی، لسانی، معاشی اور معاشرتی حملے کرنے کی اور پُر تشدد ترغیبات کو پھیلانے کے قابل بھی بنایا ہے۔ جن کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ سوشل میڈیا کو سوشل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے اسے آج دنیا میں جہاں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے وہیں یہ ریاستوں کے لیے چیلنجز کی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے۔ دنیا کی تمام جمہوریتیں اب آپ کو اس حوالے سے قانون سازی کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔تاکہ اپنے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس سلسلے میں جرمنی میں NetzDG law 2018 بنایا گیا ہے یورپی یونین خاص طور پر دہشت گردانہ ویڈیوز کے حوالے سے قانون سازی پر غور کررہی ہے ۔کہ اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایک گھنٹے کے اندر انتہا پسندانہ مواد کو حذف نہیں کرتے ہیں تو انہیں جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آسٹریلیا نے Sharing of Abhorrent Violent Material Act 2019 پاس کیا ہے۔ روس میں حال ہی میں ایک قانون نافذ ہواہے جس نے ریگولیٹرز کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ “کسی ہنگامی صورتحال میں” دنیا بھر کے ویب سے رابطے بند کردیں ۔ 2015 میں روس کے ڈیٹا قوانین کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو روسیوں کے بارے میں کوئی بھی ڈیٹا ملک کے اندر سرورز پر جمع کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ اس ضابطہ پر عملدرآمد کے بارے میں موثر طریقہ کار واضع نا کرنے پر لنکڈ ان کو بلاک کردیا گیا جبکہ فیس بک اور ٹویٹر پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ چین میں ٹویٹر ، گوگل اور واٹس ایپ جیسی سائٹیں مسدود ہیں۔ ان کے متبادل کے طور پر چین اپنی تیار کردہ ویبو ، بیدو اور وی چیٹ نامی سوشل میڈیا کی سروسز فراہم کر رہا ہے۔ جب بھی ریاستیں اور حکومتیں سوشل میڈیا کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق کو وضع کرنے کی طرف کوئی قدم بڑھاتی ہیں تو عمومی طور پر سول سوسائٹی کی طرف سے اوربہت سارے اسکالرز کی طرف سے یہ Argument پیش کیا جاتا ہے کہ یہ فرد واحد کی آزادیوں کو سلب کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرانی چاہیئے کہ فرد کی سلامتی تو سب سے بڑھ کر انسانی حق ہے ۔ جس پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ فرد کی سیکورٹی اور سلامتی اُس کے سول رائٹس سے زیادہ مقدم ہوتی ہے۔ اس لیے ریاست سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسا ضابطہ اخلاق سامنے لیکر آئے جو ریاست کے شہریوں اور مجموعی طور پر قومی سلامتی کے چیلنجز کو ایڈریس کرسکے۔ کیونکہ آج کی دنیا جس میں جنگیں بم، بندوقوں اور میزائلوں سے نہیں لڑی جاتی بلکہ بیانیوں سے لڑی جاتی ہے تو بیانیوں کی اس جنگ میں سوشل میڈیا سے زیادہ مہلک ہتھیار کوئی نہیں۔ اس لیے ریاست کو اس حوالے سے ضابطہ اخلاق ضرور وضع کرنا چاہیئے۔ میرے نزدیک ریاست ایک موثر قسم کا ضابطہ اخلاق لیکر آئے پاکستان میں ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے مزید موثر بنانے کے لیے ایک مہم چلائی جائے جو ناصرف ایک عام صارف کی تربیت کرے اور اُس میں یہ احساس ذمہ داری پیدا کرے کہ کہیں بیانیوں کی اس جنگ میں وہ غیر دانستہ طور پر دشمن کا کام تو آسان نہیں کر رہاہے“۔
سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی ہر روز متعارف ہونے والی نئی جہتوں کی وجہ سے بدلتی دنیا میں اب آزادی صحافت سے پہلے ذمہ دارانہ صحافت کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ اکثر صورتوں میں سوشل میڈیا کی آزادی سماجی اور ملکی ذمہ داریوں سے بالا ہوجاتی ہے۔اورآزادی اظہارکے نام پر جو مندرجات اس پر پیش کیے جاتے ہیں وہ پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑانے کے ساتھ ساتھ ملکی اور عوامی مفادات کو تہس نہس کردیتے ہیں۔لہذا ان ذمہ داریوں کا تعین ریاست ، معاشرہ اور فرد تینوں جانب سے یکساں بنیادوں پر ہونا چاہیئے۔یعنی ضوابط کی تیاری،ان کامشاورتی جائزہ، اصلاح اور پھر موثر ترین اطلاق سے پاکستان زیادہ مضبوط ، ترقی پسند اور جمہوری ریاست بن کر اُبھرے گا۔
پاکستان کے سوشل میڈیا کے حوالے سے نئے” سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 “کے نمایاں نکات
٭ قومی کورڈینیٹر کے دفتر کا قیام جو مواد کی ریگولائزیشن کا ذمہ دار ہوگا۔ اس حوالے سے وہ حکومت کو مشورہ سوشل میڈیا کمپنیز کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔
٭ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کواتھارٹی کی جانب سے دستخط شدہ تحریری اور الیکٹرانک ای میل پر کسی بھی ” غیر قانونی مواد“کو24 گھنٹے کے اندر اندر ہٹانا ہوگا۔ اور کسی ہنگامی صورت میں 6گھنٹوں کے اندراندر۔
٭ اگر کوئی کمپنی ان شقوں کی پابندی کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو کمپنی کے ذریعے چلائے جانے والے تمام پلیٹ فارمز، ایپلیکیشنز اور سروسز کا بلاک کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر500 ملین روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنی کو بلاکنگ کی تاریخ کے 2 ہفتوں کے اندر وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی کے سامنے ریپریزنٹیشن داخل کرانے کا حق حاصل ہو گا اور کمیٹی ریپریزنٹیشن کو سننے کے بعد 3 ماہ کے اندر فیصلہ جاری کرے گی۔
٭ صارفین کے خلاف کسی انضباطی کاروائی کے لئے تحریری مواد اور دیگر معلومات مطالبہ پر فراہم کی جائیں گی۔
٭ ان رولز کے عمل میں آنے کے 3 ماہ کے اندر سوشل میڈیا فرمیں پاکستان میں ایک مستقل رجسٹرڈ آفس اسلام آباد میں واقع ایک فزیکل ایڈریس کے ساتھ قائم کریں گی ۔اوراُنھیں کورڈینیشن کے لئے پاکستان میں مقیم ایک فوکل پرسن کی تقرری کرنا ہوگی۔ ان رولز کے شائع ہونے کی تاریخ سے 12 ماہ کے اندر ڈیٹا اور آن لائن مواد کو ریکارڈ اور محفوظ کرنے کے لیے پاکستان میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرور قائم کرنا ہوں گے۔
٭ کمپنیزپاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیز تقاریر اور مواد، ہتک عزت، جعلی خبروں، تشدد اور قومی سلامتی سے متعلق کسی بھی مواد کی لائیو سٹریمنگ کو روکنے کے لیے فعال میکنزم بنائیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے صارفین کی تعداد (جنوری2020 تک)
٭ پاکستان میں فیس بک صارفین کی تعداد33 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا15 فیصدہے اور ملک کا ہر ساتواں فرد فیس بک استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں انسٹاگرام صارفین کی تعداد 6.40 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا03 فیصدہے اور ملک کا ہر35 واں فرد انسٹا گرام استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں سنیپ چیٹ صارفین کی تعداد4.40 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا02 فیصدہے اور ملک کا ہر50 واں فرد سنیپ چیٹ استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں ٹویٹر صارفین کی تعداد1.83 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا01 فیصدہے اور ملک کا ہر 120 واں فردٹویٹر استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں لنکڈاِن صارفین کی تعداد06 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا03 فیصدہے اور ملک کا 37 واں فرد لنکڈاِن استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان دنیا بھر میں فیس بک صارفین کی 13 ویں بڑی تعداد کا حامل ملک ہے۔
٭ پاکستان فیس بک صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے۔
٭ پاکستان سنیپ چیٹ صارفین کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں20 ویں نمبر پر ہے۔
انٹرنیٹ، سمارٹ موبائل فون اور سوشل میڈیا صارفین کا موازنہ
دنیا کی صورتحال
|
پاکستان کی صورتحال
|
٭ دنیا کا ہر دوسرا فرد انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ ٭ دنیا میں ہر تیسرے بندے کے زیر تصرف سمارٹ موبائل فون ہے۔ ٭ دنیا کا ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا کا صارف ہے۔ ٭ دنیا میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کا 92 فیصد موبائل انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔ ٭ دنیا میں سوشل میڈیا صارفین کو 98.6 فیصد موبائل فونز کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ ٭ گزشتہ سال یعنی جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران دنیا کی آبادی میں 1.1 فیصد (82 ملین)،انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد میں 7 فیصد(298 ملین) اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 9.2 فیصد(321 ملین) اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر روز انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 8 لاکھ 16 ہزار4 سوافراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال روزانہ سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 8 لاکھ79 ہزار4 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہرایک گھنٹہ کے دوران انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 34 ہزار افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک گھنٹہ کے دوران سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 36 ہزار6 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہرایک منٹ میں انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 567 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک منٹ میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں611 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ |
٭ پاکستان کا ہرتیسرافرد انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ ٭ پاکستان میں ہرساتویں بندے کے زیر تصرف سمارٹ موبائل فون ہے۔ ٭ پاکستان کا ہر چھٹاشخص سوشل میڈیا کا صارف ہے۔ ٭ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کو99 فیصد موبائل فونز کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ ٭ گزشتہ سال یعنی جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران پاکستان کی آبادی میں 2 فیصد (4.3 ملین)،انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد میں 17 فیصد(11 ملین) اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 7 فیصد(2.4 ملین) اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر روز آبادی میں 11 ہزار7 سو81افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر روز انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 30 ہزارایک سو37افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال روزانہ سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 6ہزار5 سو75 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہرایک گھنٹہ کے دوران انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ایک ہزار 2 سو 56 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک گھنٹہ کے دوران سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں274 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہرایک منٹ میں انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 21 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر ایک منٹ میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں5 افراد کا اضافہ ہوا۔ |
ماخذ : ۔ ڈیجیٹل 2020 :گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو ۔۔۔شماریاتی تجزیہ مصنف
دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف کتنا وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے ؟
٭ ڈیجیٹل 2020 :گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو کے مطابق دنیا میں ہر روز انٹرنیٹ صارفین اوسطً 2 گھنٹے 24 منٹ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں تین دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت سوشل میڈیا پر صرف کیا جاتا ہے۔یعنی سال میں تقریباًایک مہینہ 6 دن متواتر کسی وقفے کے بغیر سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ دنیامیں فی سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً144 منٹس سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں1008 منٹ ، ایک مہینے(30 دن) میں4320 منٹ اور ایک سال(365 دن) میں 52560 منٹ۔ اگرروزانہ 1440 کے منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 16 فیصد ٹائم سوشل میڈیا استعمال کرنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انٹرنیٹ صارفین اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 16 فیصدسوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔
٭ دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً 2 گھنٹے24منٹ سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 876 گھنٹے سوشل میڈیا کے استعمال میں لگاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق عالمی سطح پر ایک فرد کی اوسط عمر72 سال ہے۔ یوں ایک شخص اپنی تمام عمر میں اوسطً 63072گھنٹے سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ 24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف اپنی پوری زندگی میں سوا سات سال طوالت پر مشتمل عرصہ سوشل میڈیا استعمال کرنے پر گزار دیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کے پیمانے کو مد نظررکھا جائے تو دنیا میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والا کوئی بھی فرد اپنی48 سالہ فعال زندگی کے420480 گھنٹوں میں سے 42048 گھنٹے یعنی اپنی فعال زندگی کے کل وقت کا 10فیصد۔ اور اپنی فعال زندگی کے پونے پانچ سال کا عرصہ ہے سوشل میڈیا کی نذر کردیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کی420480گھنٹے عمر کے دورانیہ میں رات کی نیند کے 157680گھنٹے نکال لیے جائیں تو باقی262800 گھنٹوں میں سے 42048 گھنٹے فعال زندگی کا فعال وقت دنیا میں سوشل میڈیا کے استعمال پر گزار دیا جاتاہے۔
پاکستا ن میں ایک سوشل میڈیا صارف کتنا وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے ؟
٭ پاکستان میں ابھی اس حوالے سے ملکی اور غیرملکی سطح پر کوئی کام نہیں ہوا ہے۔اس لیے ہم دستیاب اعدادوشمار کے تجزیہ سے کوشش کریں گے کہ حقیقی صورتحال سے قریب تر دورانیہ کا اندازاً تعین کرسکیں۔ ڈیجیٹل 2020 :پاکستان کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا کے 6 پلیٹ فارمز فیس بک 15 منٹ 02 سیکنڈ، وٹس ایپ2 منٹ 47 سیکنڈ، یو ٹیوب29 منٹ 59 سیکنڈ،ٹویٹر13 منٹ36 سیکنڈ،انسٹا گرام10 منٹ44 سیکنڈ اور وکی پیڈیا 4 منٹ اور 34 سیکنڈاوسطً فی ویب سائٹس پر فی وزٹ وقت صرف کیا جاتاہے یعنی مجموعی طور پر 76 منٹ 42 سیکنڈ ان 6 ویب سائیٹس پر فی وزٹ وقت صرف ہوتا ہے۔ اگر ان6 ویب سائیٹ کو اوران کے ایک وزٹ فی کس کے مجموعی صرف شدہ وقت( 76 منٹ 42 سیکنڈ) کو ہی یومیہ پیمانا بنا لیا جائے توپاکستان کے انٹرنیٹ صارفین ایک مہینے میں تقریباً ڈیڑھ دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔یعنی سال میں تقریباً19 دن متواتر کسی وقفے کے بغیر سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ پاکستان میں فی سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً76 منٹس 42 سیکنڈسوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں536 منٹ اور 54 سیکنڈ، ایک مہینے (30 دن) میں2301منٹ اور ایک سال(365 دن) میں27995 منٹ30 سیکنڈ۔ اگرروزانہ کے1440 منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 8.5 فیصد ٹائم سوشل میڈیا استعمال کرنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 8.5 فیصدسوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔
٭ پاکستان میں ایک سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً ایک گھنٹے16منٹ اور42 سیکنڈ سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 466 گھنٹے 35 منٹ30 سیکنڈ سوشل میڈیا کے استعمال میں لگاتے ہیں۔یوں ایک پاکستانی اپنی تمام عمر میں اوسطً 31261 گھنٹے38 منٹ 30 سیکنڈسوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر67 سال یعنی 586920 گھنٹے ہے۔24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک سوشل میڈیا صارف اپنی پوری زندگی میں تقریباًساڑھے تین سال طوالت پر مشتمل عرصہ سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کے پیمانے کو مد نظررکھا جائے توپاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والا کوئی بھی فرد اپنی48 سالہ فعال زندگی کے 420480گھنٹوں میں سے22396 گھنٹے اور 24 منٹ یعنی اپنی فعال زندگی کے کل وقت کا 5.32 فیصد۔ اور اپنی فعال زندگی کے اڑھائی سال کا عرصہ ہے سوشل میڈیا کی نذر کردیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کی420480گھنٹے عمر کے دورانیہ میں رات کی نیند کے 157680گھنٹے نکال لیے جائیں توباقی262800 گھنٹوں میں سے 22396 گھنٹے24 منٹ فعال زندگی کا فعال وقت پاکستانی سوشل میڈیا کے استعمال پر گزار دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کیا کہتے ہیں؟
٭ سید محمد ذکی، کوئٹہ
سوشل میڈیا دور جدید میں انفارمیشن کی دنیا میں ایک حیرت انگیز اضافہ ہے۔ آج جس کسی ہاتھ میں سمارٹ فون ہے وہ سوشل میڈیا کے میدان کا کھلاڑی ہے۔ معلومات اور خیالات کا ایک طوفان ہے جو ہر کسی کو بہائے لیجارہا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جتنے اسکے مثبت پہلو ہیں اتنے ہی منفی پہلو بھی ہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا جو تصور صحافت کی دنیا میں عام تھا سوشل میڈیا مگر اس تصور پہ عمل کرتا دکھائی نہیں دیتا اور اسی بناءپر اسکی صورت ایک دو دھاری تلوار کی سی ہوچکی ہے جسکا بے احتیاطی سے استعمال معاشرے کیلئے مہلک اور خطرناک ہے۔ گویا یہ کسی بچہ کے ہاتھ میں ایک کھلونا بم کی طرح ہے جو اسکی خوبصورتی سے مبہوت ہو کر اس سے کھیلتا ہے مگر اسکی تباہ کاری سے بے خبر ہوتا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ایڈیٹر کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی جو ایک فلٹر کا کام دیتا تھا۔ خبریں اور معلومات اس فلٹر میں چھن چھن کر قارئین تک پہنچا کرتی تھیں۔ اسی بنیاد پر ایڈیٹر کی ردی کی ٹوکری کو ایک خاص مقام حاصل تھا جو خبر میں موجود سارا زہر ساری نفرت اپنے اندر سمو لیا کرتی تھی۔ مگر سوشل میڈیا کے وسیع و عریض میدان میں دور دور ایسا کوئی ایڈیٹر ہے نہ اسکی ردی کی ٹوکری لہذا معلومات و خبروں کا فلٹر ہونا ممکن نہیں۔ بعض ریاستوں نے اگرچہ اس حوالہ سے کچھ سائبر قوانین وضع کئے ہیں مگر وہ نہ موثر ہیں اور نہ کافی۔سوشل میڈیا جس میں فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، واٹس اپ سب شامل ہیں معاشرہ پر صرف اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ اب معاشرے کو ” ہانٹ” کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی ایک ٹوئٹ ایک بلاگ یا ایک تحریر پلک جھپکتے ملک بھر میں جاری کسی بھی بحث کا رخ موڑڈالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ایسا میڈیم ہے جس کے نہ کوئی قواعدہیں نہ ضوابط، گویا آپ ایک لمبی شفاف سڑک پر اپنے خیالات کی گاڑی دوڑانے میں آزاد ہیں اور سوائے سیلف کنٹرول کے کوئی ایسا سپیڈ بریکر نہیں جو آپکو روک سکے آپکی رفتار کم کرسکے اور یہی تیز رفتاری حادثات کا باعث ہے۔سوشل میڈیا کا استعمال اگر مثبت انداز میں ہو اسے پیغام رسانی اور اظہار خیال کیلئے استعمال کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ یہ بہت تعمیری میڈیم ثابت ہو مگر اسکا بغیر تربیت غیر منظم انداز میں استعمال افراد سے لیکر معاشرے بھر کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے بلکہ ہورہا ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں جو پہلے ہی نسلی علاقائی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے سوشل میڈیا کی صورت بسنت کے ایسے تہوار کی سی ہے جہاں اپنے اپنے کوٹھوں پر چڑھ کر ہم اپنے اپنے خیالات کی رنگ برنگی پتنگیں اڑا رہے ہیں اور ایک دوسرے سے پیچ لڑا رہے ہیں۔ ایک جانب جہاں ایک دوسرے کا پیچ کاٹنے پر ڈھول تاشے بج رہے ہیں مٹھائیاں بٹ رہی ہیں وہیں اس ڈور سے معصوموں کے گلے بھی کٹ رہے ہیں اور ماتم بھی جاری ہے۔ مگر ہم جان نہیں پاتے کے ہمارے خیال کی ڈور نے دور کتنے گلے کاٹ ڈالے کتنے گھر اجاڑ ڈالے۔ حتمی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے اور اسکا واحد راستہ سیلف کنٹرول ہے۔
٭ محبوب سرور، کراچی
باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال دونوں طرح ہورہا ہے۔البتہ تعمیری استعمال کی شرح زیادہ ہے۔ چونکہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔لہذا کسی بھی منفی یا غلط سوچ کو پسند کرنے کا رجحان بھی کم ہوا ہے۔اور اس کا براہ راست فائدہ تعمیری یا مثبت استعمال کو ہوا ہے۔ہمارے یہاں کیاپوری دنیا میں سوشل میڈیا آزاد ہے۔کیونکہ یہ کسی ادارے کسی آرگنائزیشن کے ماتحت نہیں۔ لیکن اس کے لیے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ اگرچہ ملک میں سماجی، اخلاقی اور ذاتی حوالوں سے Cyber Act موجود ہیں۔ اور ان پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے لیکن انھیں مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارا مذہب ہمیں دوسروں سے اچھے طریقے سے بات کرنے کا درس دیتا ہے۔ہمیں ضرور سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیئے لیکن اُن تمام ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کہ ہم مسلمان اور ایک مہذب شہری ہیں۔ اسی طرح حکومت بھی سوشل میڈیا تک رسائی مزید ممکن بنائے اور قوانین پر عملدرآمدکو یقینی بنائے۔
٭ جویریہ مقبول، اسلام آباد
ملک میں سوشل میڈیا کا کردار زیادہ تر تعمیری ہے۔ لوگ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور جو لوگ اخبارات پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے وقت نہیں نکال سکتے وہ سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا میں رونماہونے والے واقعات کے بارے میں جان سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی رائے کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن ہمارے یہاں یہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہے۔بچے بچے کی اس تک رسائی ہے اور ہر طرح کی بات کا اظہار کرنے کے لیے مواقع موجود ہیں۔نہ صرف الفاظ کی صورت میں بلکہ صوتی اور تصویری اظہار رائے سوشل میڈیا پر کیا جاسکتا ہے۔لہذا اس کے استعمال کے حوالے سے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ مگر اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہوسکے گا کہ نہیں۔کچھ گھروں کی حد تک تو شاید حد بندی ہو۔مگر ملکی سطح پر شاید ممکن نہ ہوسکے۔اس سلسلے میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے حدودو قیود کا تعین کرے اور معاشرے میں غلط معلومات اور خبروں کو پھیلنے سے روکے اس حوالے سے تربیتی پروگرامزشروع ہونے چاہیئے۔ صارفین کے لئے یہ ضروری ہے کہ کوئی بھی بات ، معلومات یا خبر سوشل میڈیاپر وائرل کرنے سے پہلے اسکی تصدیق کریں اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔لوگ آج کے دور میں پابندی برداشت نہیں کرتے اور آزادی پسند ہیں۔مگر اس آزادی کا فائدہ تب ہی ہے جب احساس ذمہ داری ہوگی لوگ اپنے ہر عمل کی خود جانچ کریں۔
٭ غنی الرحمان، گاﺅں کاٹن دوش خیل، تحصیل تیمر گرہ، ضلع دیر پائین، خیبر پختونخواہ
سوشل میڈیا کا کنٹرول چونکہ ہر خاص و عام کے ہاتھ میں ہے۔اس لیے اس کا استعمال ہر طرح سے ہے۔ یعنی تعمیری اور غیر تعمیری دونوں صورتوں میں ہے۔کرونا وائرس سے بچاﺅ اس کی دنیا اور ملک میں موجود لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے آگاہی آج کے حالات میں سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی ایک بہت واضح علامت ہے ۔دوسری طرف میری نظر میں پاکستان کے تناظر میں سوشل میڈیا کا غیر تعمیری استعمال اس کے تعمیری استعمال سے زیادہ ہورہا ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ آٹھ دس سال سے پاکستان کی سیاست میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال تمام حدود و قیود پار کر چکا ہے۔سیاسی مخالفین کے جوشیلے کارکنان اور سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کے کارندے کھلم کھلا ایک دوسرے کے خلاف فیس بک، ٹویٹر، وٹس ایپ، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گالم گلوچ، طعنہ زنی،من گھڑت باتوں،مخالفین کے عیوب کا پرچاراور ذاتیات پر ہمہ وقت حملوں میں مصروف نظر آرہے ہوتے ہیں۔اس طرزعمل سے ہمارے معاشرے میں رہی سہی اخلاقیات کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔سوشل میڈیا کو مختلف حوالوں سے جھوٹی خبروں، افواہوں،قیاس آرائیوں، سنسنی پھیلانے اور دھوکہ دہی کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ ملک میں سوشل میڈیا کو لسانی قوم پرستی، فرقہ پرستی،مذہبی منافرت پھیلانے اور غیر اخلاقی حوالوں سے یعنی فحاشی اور عریانی پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔جس بنا پر اس کا منفی استعمال غالب نظر آرہا ہے۔ ماہرین کی نظر میں سوشل میڈیا فطری طور پرآزاد ہے۔کیونکہ اس کو منظم کرنے اور چلانےکے لیے نہ تو باضابطہ طور پر کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے قائم ہیں اور نہ سوشل میڈیا کو اس طرح ریگو لیٹ کیا جاتا ہے۔ جس طرح سے ایک اخبار ،ریڈیو اور ٹی وی چینل کے دفتراور اُن سے متعلقہ امور کو پیشہ ورانہ اور منظم اندازیں چلایا جاتا ہے۔اور وہاں ذمہ دار شخصیات اور انتہائی تربیت یافتہ اور پیشہ ور کارکن باہمی ربط اور تعاون سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے علمی اور نظریاتی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا آزاد ہے اور درحقیقت عملی لحاظ سے بھی کافی آزاد نظر آرہا ہے۔ورنہ اس کا منفی استعمال جس کا پہلے ذکر کیا گیا اتنا زیادہ نہ بڑھتا۔سوشل میڈیا اور اس کے استعمال کے حوالے سے ضابطہ اخلاق واضع کرنے اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے عمومی طور پرتین نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ ایک مکتبہ فکر سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے کسی بھی قسم کے ضابطہ اخلاق بنانے اور اس پر عمل درآمدکا سرے سے ہی مخالف ہے۔اس مکتبہ فکر کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے پختہ ذہن ہوجائیں گے اور سوشل میڈیا کا مفید اور کارآمد استعمال درست سمت میں گامزن ہوجائے گا۔دوسرا مکتبہ فکرسوشل میڈیا کے حوالے سے سخت اور منظم قسم کے ضابطہ اخلاق اور اس پر مکمل عملدرآمد کا حامی ہے۔ ان خیالات کے حامی افراد پر رجعت پسندانہ اور فرسودہ سوچ رکھنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔تیسرا مکتبہ فکر وہ ہے جو سوشل میڈیا کے حوالے سے معتدل اور کارآمد قسم کے ضابطوںاور قوانین واضع کرنے کا حامی ہے ۔ جو انتہائی غورو خوص اور معاشرے میں موجود اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی مشاورت سے جمہوری انداز میں بنایا گیا ہو۔جس کا مقصد صرف سوشل میڈیا پر غیر ضروری پابندیوں کا اطلاق نہ ہوبلکہ اس کا انتہائی منفی اور تخریبی استعمال کو روکنا مقصودہو۔میں ذاتی طورپر اس تیسرے نقطہ نظر سے متفق ہوں۔اس سلسلے میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے سہولیات کو مزید بہتر بنائے اور اُنھیں فروغ دے اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیاکے منفی اور تخریبی استعمال کو ہر ممکن حد تک روکنے کو یقینی بنائے اور اس حوالے سے متعلقہ قوانین اور ضابطوں کو مزیدبہتر بنائے۔ صارفین کے لیے یہ نقطہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اگر وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے تعمیری پہلوﺅں کو مقدم رکھیں گے اور غیر تعمیری استعمال سے احترازکریں گے تو حکومت کو بھی سوشل میڈیا پرغیر ضروری پابندیوںاور قدغنوں کی طرف نہیں جانا پڑے گا۔
٭ ارشد حسین جگنو ، گلگت
سوشل میڈیا نے کسی حد تک عوام کو سہولت فراہم کی ہے لیکن معلومات کی بے جا ٹریفکنگ نے سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنے میں مشکلات کھڑی کردی ہے اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے تعمیری یا غیر تعمیری استعمال کی بات کریں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہری صحافت نے نہ صرف صحافتی معیار اور ضابطہ اخلاق کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اخلاقی طور پر اس حد تک گر چکے ہیں کہ چند کمنٹس اور لائیک کیلئے شریف النفس انسان کی کردار کشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔یہاں تک کہ فیک آئی ڈیز اور پیجز بنا کر ایک دوسروں کی عزت اچھالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے اور اس دوڑ میں سیاسی و مذہبی جماعتیں سرفہرست ہیں۔ ہر کوئی بندہ سماج کے مثبت پہلو کے بجائے منفی پہلوﺅں کو اجاگر کرنے میں لگا ہوا ہے انھی پہلوﺅں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال تعمیری کم تخریبی زیاد ہونے لگا ہے۔سوشل میڈیا کی آزادی سے پہلے میں آزادی اظہار رائے پر بات کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔اظہارِ رائے کی آزادی کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہر انسان کو کھل کر اپنا نکتہ نظر بیان کرنے، سوال کرنے، اختلاف اور تنقیدکرنے کی اجازت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ہم کسی کی ذات، مسلک ،مذہب یا قوم پر بے جا انگلی اٹھا کر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں اس تناظر میں اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین اور آزادی کی بات کریں تو ہر بندہ اظہار رائے کی آزادی سے دو قدم آگے بڑھ کر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے یہاں تک کہ سوشل میڈیا کا کوئی بھی ٹول استعمال کرکے عزت نفس کو مجروح کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے جو کہ قابل افسوس ہے اور سوشل میڈیا مغربی ممالک سے زیادہ پاکستان میں آزاد ہے یہاں لوگ آئے روز سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسروں پر کفر کے فتوے داغ دیتے ہیں اس لئے میں عموماً اظہار رائے کی آزادی کی جگہ ”تخریبی آزادی“ کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔اب چونکہ سوشل میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق کی بات آئی ہے تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ضابطہ اخلاق کے بغیر زندگی کا کوئی بھی شعبہ نہ ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی اس شعبے سے جڑے لوگ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن یہاں خدشہ بھی حق بجانب ہے کہ کہیں اسی ضابطہ اخلاق کی آڑ میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہ لگائی جائے۔ بدقسمتی یہ کہ ہم نے سوشل میڈیا کو ملک میں اجازت تو دی ہے مگر سوشل میڈیا کی تعلیم و تربیت پرکوئی توجہ نہیں دی ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل سوشل میڈیا کو صحیح استعمال ہی نہیں کر پارہی ہے۔ اس لئے حکومتی ذمہ داری بنتی ہے کہ سوشل میڈیا کے قوانین کے حوالے سے جو ابہام پائے جاتے ہیں ان کو جلد از جلد دور کر کے سوشل میڈیا پر پابندی کی بجائے اسی سوشل میڈیا کو اپنی طاقت بنا کے سوشل میڈیا صارفین میں احساس ذمہ داری پیدا کرے۔
٭ محمد فاروق بھٹی، لاہور
پاکستان میں سوشل میڈیا کا جتنا بھی تعمیری استعمال ہے وہ سب غیرارادی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق مڈل، لوئر مڈل کلاس اور کم تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ یہ طبقہ یو ٹیوب پر دلچسپ وڈیوز اور غیر ضروری وڈیوز دیکھتا ہے اور بہت کم giving end پر آتا ہے۔ یو ٹیوب سے پیسہ کمانے کے شوقین غیر ضروری موضوعات پر انتہائی دلچسپ وڈیوز بنا کر پوسٹ کرتے ہیں، کچھ غیراخلاقی ڈومین میں بھی گھس جاتے ہیں۔ چوری کی وڈیوز بھی پوسٹ کرنے کا کافی ٹرینڈ ہے۔ موناٹائزیشن کے لالچ میں یو ٹیوبر ٹھرکی قسم کا مواد بھی بھرتے رہتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر جعلی اکاﺅنٹس کی بھرمار ہے اور یہاں بھی کچھ اگر تعمیری ہو رہا ہے تو ہے وہ بھی غیر ارادی۔فرقہ واریت جیسے نازک موضوعات میں عام لوگ بڑے منصوبہ سازوں کی آگ کا ایندھن بنتے ہیں۔ عام لوگ عام طور پر کسی پوسٹ سے مشتعل ہو کر اپنا ردِعمل دیتے ہیں اور سوشل میڈیا کو خاص مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کی خوراک بنتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین تعمیری و غیر تعمیری کی بحث سے آزاد ہیں اور صرف لطف و لذت کشید کرنے کو اس میڈیم کو استعمال کرتے ہیں۔ بڑے کینوس پر دیکھنے سے یہ غیر تعمیری استعمال کے کھاتے ہی میں پڑے گا۔ہمارے ہاں سوشل میڈیا آزاد ہی نہیں شترِ بے مہار ہے اور بریک فیل گاڑی کی طرح ڈھلوان سے پھسلے چلا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز کی کمپینز کا شکار عام صارف بظاہر خود کو آزاد محسوس کرتا ہے لیکن اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کسی ماہر اسٹریٹجسٹ کی منصوبہ بندی کا ایک عنصر بن گیا ہے۔ یہ آزادی صارف سے زیادہ ان اداروں، منصوبہ سازوں اور سیاسی و سماجی یا کاروباری یونٹس کی آزادی ہے۔ سوشل میڈیا ایپس کے بنانے والے اور ان سے پیسہ کمانے والے ان کو بزنس ایپس کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ فیس بک جیسی مشہور زمانہ ایپ کمیونٹی اسٹینڈرڈز کی خلاف ورزی جیسے خود ساختہ اور بیہودہ الزامات کے تحت کسی بھی صارف کا نہ صرف اکاﺅنٹ بند کر دیتی ہے بلکہ لاکھوں ڈالرز کا ڈیٹا بھی ہڑپ کر لیتی ہے۔ چند ایشوز تو ایسے ہیں کہ ان پر فوراً ہی ایکشن لیا جاتا ہے اور صارف کے تمام حقوق سلب کر لئے جاتے ہیں۔ اسرائیل اور انڈیا کے زیرِ اثر ہونے کے باعث آپ کو یہاں برہان وانی کا لفظ لکھنے پر یا حماس کے شیخ احمد یاسین کے ذکر پر بھی اکاﺅنٹ سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ میرا گیارہ سالہ پرانا ذاتی اکاﺅنٹ جس میں بیشمار ذاتی ڈیٹا تصویریں، تحریریں اور قیمتی مواد شامل ہے کو محض کشمیری لاک ڈاﺅن کی مخالفت پر بند کیا گیا ہے اور بار بار کے رابطے کے باوجود بحال کیا گیا نہ ہی جواب دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی آزادی پر بڑے اجارہ دار گروپس غیر اعلانیہ پالیسیوں کی بنیاد پر یکطرفہ خفیہ قدغن لگاتے ہیں جس کا بعض اوقات صارف کو علم تک نہیں ہوتا۔ گزشتہ امریکہ انتخابات میں فیس بک صارفین کا ڈیٹا Analytica” “Cambridge کو بیچنے کا اعترافِ جرم مارک زکربرگ باقاعدہ طور پر امریکی کانگریس کی خصوصی کمیٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رو کر کر چکا ہے۔نیویارک سے رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاشیو کوٹز جو کمیٹی کی ہیڈ تھی کے سامنے اداکاری کر کے کچھ محفوظ تو ہوا مگر جن صارفین کا ڈیٹا چوری کرکے آگے بیچا گیا تھا ان کو کوئی compensation نہیں دی گئی۔ فیس بک کا صارف بظاہر آزاد اور عملاً پابندیوں میں جکڑا ہوا ایسا شخص ہے جس کی پرائیویسی کا کوئی احترام کہیں موجود نہیں۔ خصوصاً ہم پاکستانیوں کے لئے کوئی فورم ایسا موجود نہیں جہاں فیس بک کی بدمعاشیوں کے خلاف رجوع کیا جا سکے۔ ضابطہ اخلاق تو ہر میڈیم اور میڈیا کے لئے ہونا چاہیئے اور عموماً ہوتا بھی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عموماً ایسے ضابطہ اخلاق بناتے ہوئے صارفین کی رائے اور حقوق کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔ سوشل میڈیا مالکان ہر سوسائٹی کی سماجی روایات کا احترام کرتے ہیں اور پہلے سے بہتر قواعد و ضوابط کے تحت ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ معاملہ وہاں آ کر بگڑتا ہے جب نفرتی مواد کو بروقت قابو نہیں کیا جاتا یا کسی ادارے کے paid سوشل میڈیا ورکرز کسی مخالف کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ شروع کرتے ہیں۔ دروغ گوئی اور افواہ سازی اور افواہ بازی کے خلاف قواعد و ضوابط بننے چاہیئے اور ایسا ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اورLaw of Land باآسانی عمل درآمد کر سکے۔حکومت کو عوام کے تحفظ اور معلومات کی صحیح ترین رسائی یقینی بنانے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ سوشل میڈیا کے عام صارفین تو پہلے ہی مظلوم ہیں۔ ان کے لئے ذمہ داریوں کا کیسا تعین کرناہاں البتہ فرد سے جب بات ادارے تک پہنچے تو اسے سرکار کی اجازت سے مشروط ہونا چاہیئے جیسے سیاسی جماعتیں اور مسلکی فرقہ وارانہ پریشر گروپس حکومتی اجازت کے بغیر اپنا اکاﺅنٹ آپریٹ نہ کر سکیں۔ ان کی باقاعدہ اجازت، سالانہ فیس اور لائسنس ہونا چاہیئے۔
سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی ایک کہانی
٭ روحان کی پیدائش 29 جولائی 2017 کو ہوئی ۔پیدائش کے پانچویں دن سانس میں دشواری کے سبب روحان کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ یرقان کی تشخیص کے بعد علاج کے دوران اسکے مختلف ٹیسٹ ہوئے جس سے ظاہر ہوا کہ روحان دل کے عارضہ میں مبتلا ہے جو کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلاکیس ہے۔جسکو میڈیکل زبان میں آریٹک آرٹریشیا کہتے ہیں۔روحان کے والد کا تعلق آئی ٹی اور والدہ کاتعلق ابلاغ عامہ سے ہے۔والدین نے مرض کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود ریسرچ پیپرز کو پڑھا ۔ ملک کے مایاناز کارڈیالوجسٹ سے بھی رابطے میں رہے جس سے واضح ہوا کہ روحان کی پہلی سرجری ”ناروڈ” ہوگی جو کہ مشکل ترین سرجریز میں سے ایک ہے اور پاکستان کا میڈیکل انفرااسٹرکچر اس نوعیت کی سرجریز کو سنبھال نہیں سکتا ۔روحان کے پاس صرف ایک ماہ کی مدت تھی اس اثنا ءمیں اسکا آپریشن ہونا اسکی زندگی کے لیے ضروری تھا ۔والدین نے دنیا کے مختلف سرجن اور کارڈیولوجسٹ سے سوشل میڈیا کے ذریعے رسائی حاصل کی جن میں ای میل سروس، فیس بک، ٹویٹر اور مختلف ہسپتال کی آن لائن پورٹلز وغیرہ شامل تھے۔جس سے اندازہ ہوا کہ یہ ایک مہنگی سرجری ہے کیونکہ اس میں رسک فیکٹر زیادہ ہے اور مریض کا آئی سی یو کا دورانیہ طویل ہے۔ایک عام آدمی کے لئے اس کاخرچہ اٹھانا مشکل ہے۔یوںوالدین نے فیس بک پر Help Baby Rohaan کے نام سے ایک پیج بنایا اور یہیں سے اس campaign کا عملی آغاز ہوا ۔ شروعات میں والدین کاسارا زور اس طرف رہاکہ وہ خود کتنا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔ سرجری کے لئے جو ممالک سرفہرست تھے ان میں جرمنی، اٹلی، بوسٹن ،برمنگھم اور انڈیا شامل تھے ۔ اخراجات اور Expertise کی وجہ انڈیا کو منتخب کیا گیا(روحان کیلئے اس کنڈیشن میں لمبا سفر بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا)۔پاسپورٹ کاحصول ،نادرا کا اندراج اور تمام مراحل حل کرتے کرتے 22 دن ہوچکے تھے۔اس دوران انڈیا کے میڈیکل ویزے بند تھے ۔جس کے لئے ٹویٹر پر helpbabyrohaan #کے نام سے ایک اور campaign کا آغاز کیا گیا۔ جس کا مقصد میڈیکل ویزہ کا حصول تھا کچھ جان پہچان والے اور دوستوں کے ساتھ شروع کی گئی اس مہم نے کچھ گھنٹو ں میں ہی trend کی شکل اختیار کرلی۔ جسکے نتیجے میں انڈیا کی وزیر خارجہ شمشا سوراج نے فوری طور پر اپنے tweet کے ذریعے پاکستان میں موجود انڈین ایمبیسی کو ویزہ جاری کرنے کا کہا ساتھ ہی twitter سے ہی دنیا کہ کچھ اخبارات نے بھی اس خبر کو اگلے دن شائع کیا ۔6 ستمبر 2017 کو فلائیٹ کے ذریعے روحان اپنے والدین کے ہمراہ دہلی پہنچا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ اُن کاسامان لاہور ائیرپورٹ پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے جس پر والدین نے پی آئی اے کو ٹویٹ کیا ۔ روحان کی اسٹوری پہلے سے ہی trend میں تھی تو پی آئی اے نے بروقت سامان پہنچانے کا بندوبست کیا۔ 8 ستمبر 2017 کو روحان کی کامیاب سرجرری ڈاکٹر راجیش شرما نے کی۔روحان کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے اسکا آئی سی یو کا دورنیہ طویل رہا ۔جس کی وجہ سے والدین کے وسائل ختم ہوگئے توفیس بک پیج پر امداد کی اپیل کی اور ساتھ ہی crowd funding شروع کی گئی۔جس کے نتیجے میں بہت سے جاننے والے مدد کے لئے سامنے آئے۔روحان کے ٹھیک ہونے کے بعد فوری طور پر ایک سال کے دورانیہ میں دوسری سرجری کا بتا دیا گیا۔والدین نے فیس بک کے پیج کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے امداد کی اپیل کی ۔ اردو پوائنٹ جیسے مختلف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے روحان کی اسٹوری کو cover کیا گیا۔والدین نے اپنی زندگی اور روحان کے حوالے سے مختلف پیکیجز بنا کر سوشل میڈیا کے مختلف platform پر Share کئے۔سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم میڈیا نے بھی روحان کی اسٹوری کو جگہ دی۔دوسری سرجری کے وقت بھی جب ویزہ کے لئے پاسپورٹ بھیجے گئے تو پچھلی twitter campaign کے توسط سے ویزہ جاری کیا گیا۔ اب دوسری کامیاب سرجری کے بعد روحان کے والدین نے فیس بک پیج استعمال کرتے ہوئے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ۔
سوشل میڈیا کے غیر تعمیری استعمال دو کہانیاں
٭ خرم بابر لاہور سے ہیں۔ کینسرکے مرض کو شکست دے چکے ہیں۔ سوشل ورکر اور موٹی ویشنل اسپیکر ہیں۔ کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال اور کینسر کے مرض کے علاج اور احتیاط کے بارے میں ایک فلاحی تنظیم کینسر فائٹنگ فرینڈز کے روح رواں ہیں۔ وسیع حلقہ احباب کے مالک ہیں۔ اُن کے ذاتی فیس بک اکاﺅنٹ کا لاگ اِن اور پاس ورڈ کسی نے چوری کرنے کے بعد اُن ایک تصویر اس تحریر کے ساتھ اُن ہی کے ذاتی فیس بک اکاﺅنٹ پر پو سٹ کردی کہ ” خرم بابر اب نہیں رہے“ ۔صبح سویرے خرم کا نمبر بند ملنے سے اُن کے حلقہ احباب میں زیادہ تشویش کی لہر دوڑی اور اکثر دوست اُن کے گھر پہنچے۔ جہاں معلوم ہوا کہ وہ خیریت سے ہیں اور کسی نے یہ خوفناک مذاق کیا ہے۔ خرم اپنے والدین اور بھانجیوں کا واحد سہارا ہیں۔ اُن کی وفات کی اس جھوٹی خبر نے اُن کے گھر والوں کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔خصوصاً اُن کی دو چھوٹی بھانجیوں پر جو اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے ماموں یعنی خرم بابر کے زیر کفالت اورزیر پرورش ہیں۔
٭ ڈاکٹر زاہد یوسف،سنٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکشن اسٹڈیز، یونیورسٹی آف گجرات کے چیئر مین ہیں۔ فیس بک پر اپنا ذاتی اکاﺅنٹ رکھتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں اِن کے فیس بک فرینڈز ہیں۔کچھ عرصہ قبل اُن کے نام اور تصویر کے ساتھ فیس بک پر ایک جعلی اکاﺅنٹ بنا یا گیا۔ اور اُن کے اسٹوڈنٹس اور دوستوں کو دوبارہ سے فرینڈز ریکویسٹ آنا شروع ہوئیں۔جو جو وہ ریکویسٹ Acceptکرتا ۔ اُسے فیس بک میسجز پر حال احوال کے بعد یہ کہا جاتا کہ وہ (یعنی ڈاکٹر زاہد یوسف)ابھی کسی ایسی جگہ ہیں جہاں بینک نہیں یا اے ٹی ایم نہیں اور انھیں ایمرجنسی میں کچھ رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ (جو عموماً ہزاروں میں ہوتی )آپ فلاں نام پر کسی بھی موبائل کمپنی کی کیش ڈلیوری سروسز کے ذریعے یہ رقم بھجوا دیں۔ وہ یونیورسٹی پہنچ کر رقم واپس لوٹا دیں گے۔ یوں اُن کے بے شمار طالب علم اور دوست اس جعل سازی کا شکار بنے اور مالی نقصان اُٹھا بیٹھے۔جب چند دوستوں نے ڈاکٹر صاحب سے دوسری فرینڈ ریکوسٹ کو Accept کرنے سے پہلے پوچھا کہ کیا یہ اُن کی جانب سے بھیجی گئی ہے تو وہ اس سے لاعلم نکلے۔اور پھر جب بعض اسٹوڈنٹس اور دوستوں نے اُنھیں فون کر کے بتایا کہ اُنھوں نے جس فرد کو پیسے بھیجنے کا کہا تھا اُنھیں پیسے بھجوادیئے گئے ہیں کیاآپ کو مل گئے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کو پتا چلا کہ اُن کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
٭….٭….٭
”بورس جانسن کا انتقال ہوگیا“ یہ پانچ لفظی خبر مورخہ07 اپریل کو ٹویٹر کے ایک اکاﺅنٹ کے ذریعے دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جو کرونا وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے اُن دنوں ہسپتال کے آئی سی یومیں زیر علاج تھے۔ ان کی وفات کی یہ جھوٹی خبر ٹویٹر پر بنائے گئے بی بی سی کے ایک جعلی اکاﺅنٹ کے توسط سے پھیلائی گئی۔ یہ جعلی اکاوئنٹ BBCbreaki@ کے ٹویٹر ہینڈل کے نام سے تھا۔جبکہ بی بی سی کا اصل ٹویٹر اکاﺅنٹ BBCBreaking@ کے ہینڈل سے ہے۔ یہ ٹویٹ ٹویٹر سے ہٹائے جانے سے قبل سینکڑوں بار ری ٹویٹ ہوئی۔ کیونکہ اس میں بی بی سی کے ٹویٹر ہینڈل سے ملتا جلتا ہینڈل استعمال کیا گیا۔اور پوری دنیا میں انجان لوگ اس دھوکے میں آگے اور خبر کو حقیقت جان لیا ۔ یہ دروغ گوئی دنیا بھر میں کرونا کا خوف اور دوچند کرنے کا باعث بنی۔یوں سوشل میڈیا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ صحافت کی ایک نئی جہت کی صورت میں اپنے مثبت اور منفی اثرات لیے ہمیں اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔
آن لائن پلیٹ فارمز فیس بک ، ٹویٹروغیرہ اور ویب 2.0 ایپلیکیشنز جیسے گوگل اور بلاگز نے خبروں کے کاروبار اور رپورٹنگ کے عمل کو بدل کررکھ دیا ہے۔ کیونکہ اب صحافت کے دائرہ کار میں داخلہ بہت آسان ہوگیاہے کوئی بھی پی سی یا اسمارٹ فون کا حامل فردخودرپورٹر، ایڈیٹر، ڈیزائنر، ڈسٹری بیوٹر ، پبلشریا براڈکاسٹراور پروڈیوسر سب کچھ ہوسکتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی بھی موادتحریر، تصویر، آواز اور ویڈیو کی صورت میں بلاگ ، ٹویٹ،یوٹیوب یا فیس بک کرسکتاہے۔ سوشل میڈیا جس وجہ سے صحافت کے لئے غیر معمولی طور پرموثر جانا جارہا ہے یہ اُس کی وہ طاقت ہے جو اُس نے نیوز بریکنگ کی صورت میں اپنے آپ کو منواکر حاصل کی ہے۔سٹیزن جرنلزم اور موبائل جرنلزم کی اصلاحات نے معاشروں میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔لوگ روایتی ابلاغ عام کے ذرائع اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مندرجات میں اپنی محدود ترین شمولیت کی وجہ سے بڑی تیزی سے ایسے پلیٹ فارمز کی جانب متوجہ ہورہے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی کے مندرجات پڑھ ،دیکھ اور سن سکیں اُن پر تبصرہ کرسکیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ اپنے نقطہ نظر کا کھل کر آزادانہ اظہار کرسکیں۔اس کے علاوہ وہ خود مندرجات تخلیق کرسکیں۔ یعنی لوگ اب معلومات اور اطلاعات کے صارف اور پروڈیوسر دونوں بن چکے ہیں۔وہ اس لیے کہ آج ہم ایک انفارمیشن سوسائٹی کا حصہ ہیں جہاں اکثر افراد دو زندگی گزار رہے ہیں ایک حقیقی اور دوسری ورچوئل (انفارمیشن سسٹم میں سرائیت شدہ) اس لئے آکسفورڈ انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ کے ولیم ڈٹن نے سوشل میڈیا کو ریاست کا پانچواں ستون قراردے دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ” ہم ایسی طاقتور آوازوں اور نیٹ ورکس کو ابھرتے دیکھ رہے ہیں جو روایتی میڈیا کے برعکس آزادانہ طور پر کام کرسکیں گے“۔اُن کا یہ بیان سوشل میڈیا کے پہلے سے موجود پلیٹ فارمز کے ساتھ ساتھ ابھرتے مختلف نئے پلیٹ فارمزکے تیزی سے فروغ، وسعت اور استعمال کے تناظر میں حقیقی لگتا جارہا ہے۔ یعنی آزادی اظہار ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو لوگوں کو سوشل میڈیا کی جانب متوجہ کرنے اور اس کے بھرپور استعمال کا باعث بنا۔اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر کی 49 فیصدآبادی سوشل میڈیا کے فعال صارفین پر مشتمل ہے۔ ڈیجیٹل 2020 ” گلوبل ڈیجیٹل اورویو“ نامی رپورٹ کے مطابق جنوری 2020 تک دنیا میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد 3.80 ارب تک پہنچ چکی ہے۔
سوشل میڈیا بنیادی طور پر انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ایسے ٹولز پر مشتمل پلیٹ فارمز ہیں جو معلومات اور اطلاعات کی ایک دوسرے کو منتقلی اور تبادلہ خیال کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کا ایسا انضمام ہے جس میں ٹیلی مواصلات اور سماجی تعامل کو ملاکر ایسا پلیٹ فارم بنا یا گیا ہے جس میں آپ تحریر، تصویر، آواز اور فلم کے ذریعے دوطرفہ ابلاغ کرسکتے ہیں۔ اور اس کی خاص جہت صارف کو خود کسی بھی مواد کی تخلیق اور تبادلہ کی سہولت کا ملنا ہے۔سوشل میڈیا ٹولز سوشل نیٹ ورکنگ کی ایسی آن لائن سروس فراہم کرتے ہیں جو صارفین کو ہم خیال افراد کے ساتھ ورچوئل نیٹ ورک بنانے کے قابل بناتی ہے۔ یہ چیٹ ، انسٹنٹ میسجنگ ، فوٹو شیئرنگ ، ویڈیو شیئرنگ ، اپ ڈیٹس جیسی سہولیات کی پیش کش کرتی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ مشہور مثال فیس بک اور لنکڈ اِن ہیں۔اس کے علاوہ بلاگز جو ایک انفرادی صارف بناتا اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ جس میں متن، تصاویر ، ویڈیوز اور دیگر ویب سائٹوں کے لنکس شامل ہوسکتے ہیں۔ بلاگز کے نمایاں خصوصیت اس کا باہمی تبادلہ خیال (انٹرایکٹیو) فیچر ہے جس میں قارئین کو اپنی رائے دینے کی سہولت میسر ہوتی ہے اوریوں تمام تبصروں کو دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔مائیکرو بلاگزیہ 140 حرف یا اس سے کم حرف کی مخصوص پابندی والے بلاگز ہوتے ہیں۔ جو صارفین کو مواد لکھنے اور اس کے اشتراک کی سہولت دیتے ہیں۔ ٹویٹر ایک مائیکرو بلاگنگ سائٹ ہے جو اپنے صارفین کو ’ٹویٹس‘ بھیجنے اور پڑھنے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔اسی طرح وی لاگز(ولوگس) اور ویڈیو شئیرنگ سائیٹس جو بنیادی طور پر اپنے مندرجات کے طور پر ویڈیو کا استعمال کرتی ہیں اور ان کی معاونت کے لیے متن کا سہار الیتی ہیں۔ یو ٹیوب دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو شیئرنگ سائٹ ہے۔جو براہ راست ویڈیو براڈکاسٹنگ اور ویڈیو شیئرنگ کی سروسز فراہم کرتی ہے۔ جہاں صارفین ناصرف ویڈیوزدیکھ سکتے بلکہ اپ لوڈ بھی کرسکتے ہیں اور شیئر بھی اور ان پر تحریری تبصرے بھی کرسکتے ہیں۔وکیز یہ ایک باہمی تعاون کی ویب سائٹ ہے جو متعدد صارفین کو مخصوص یا باہم مربوط مضامین پر صفحات بنانے اور اپ ڈیٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس کہ کسی ایک صفحے کو ‘وکی پیج’ کہا جاتا ہے اورکسی خاص عنوان کے بارے میں پورے مواد کو ’وکی‘ کہا جاتا ہے۔اس میں متعدد صفحات ہائپر لنکس کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔سوشل بک مارکینگ یہ خدمت کسی کو انٹرنیٹ پر موجود مختلف ویب سائیٹس اور دیگر وسائل کے لنکس محفوظ کرنے ، منظم کرنے اور اکٹھا کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ کیونکہ کسی معلومات یاکسی فرد کی تلاش یا رابطہ کے لیے ٹیگ اور بک مارک کی گئی ویب سائیٹس ضرورت پڑنے پر روابط کوجلداور آسان بنادیتی ہے۔سوشل نیوزان خدمات سے کسی کو مختلف خبروں کی اشاعت اورمضامین سے باہر کے لنکس پوسٹ کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔اس میں باہمی تبادلہ خیال کے لئے آئٹمز پر ووٹنگ اور ان پر تبصروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اس کی مشہورمثالوں میں Digg, Reddit اورPropeller ہے۔میڈیا شئیرنگ یہ خدمات کسی کو فوٹو یا ویڈیو اپ لوڈ کرنے اور ان کا اشتراک کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔اس میں باہمی تبادلہ خیال کسی صارف کی جانب سے اپ لوڈ کی گئی فوٹو یا ویڈیو پر تبصرے کی صورت میں ہوتا ہے یوٹیوب اور فلکر اس کی واضح مثالیں ہیں۔آپ کو ان ٹولز کا کسی ایک پلیٹ فارم پر ایک یا اس سے زائد صورتوں میں استعمال ملے گا جس کو مقصد صارفین کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنا ہے۔
سوشل میڈیا کوانٹرنیٹ کی طاقت نے دوام اور سمارٹ موبائل فون کی سہولت نے متحرک کررکھا ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیا کی 59 فیصد آبادی انٹر نیٹ کا استعمال کر رہی ہے تو 3.5 ارب انسان سمارٹ موبائل فونز کے صارف ہیں۔ڈیجیٹل 2020 : گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو نامی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر روز اوسطً6 گھنٹے43 منٹ انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا ہے جس میں3 گھنٹے22 منٹ موبائل کے ذریعے استعمال ہوتا ہے۔جبکہ انٹرنیٹ صارفین اوسطً 2 گھنٹے 24 منٹ روزانہ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔پاکستان بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں سوشل میڈیا بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ جس کی نشاندہی گلوبل ڈیجیٹل اُروویو 2020 کے یہ اعداوشمار کر رہے ہیں کہ دنیا بھر میں جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان چوتھے نمبر پر ہے۔ جبکہ فیصد اضافہ کے حوالے سے وطنِ عزیز دنیا میں 12 ویں نمبر پر ہے (لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان ابھی بھی انٹرنیٹ سے محروم آبادی کی تعداد کے حوالے سے دنیا کا تیسرا محروم ترین ملک ہے)۔اسی طرح سوشل میڈیا صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 17 ویں نمبر پر ہے۔اس وقت ملک کی 37 ملین آبادی یعنی 17 فیصد سوشل میڈیا کی فعال صارف ہے۔جبکہ 35فیصد آبادی یعنی 76.38 ملین نفوس انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والی آبادی کا 48.4 فیصد سوشل میڈیا کا فعال صارف ہے۔ یعنی ملک میں ہر دوسرا انٹرنیٹ صارف سوشل میڈیا کا فعال استعمال کنندہ ہے۔ اورملک میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کا 99 فیصد موبائل فون کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔جبکہ سال 19- 2018 کےدوران ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک کا75.9 فیصد موبائل فون کے ذریعے استعمال شدہ انٹرنیٹ کی بدولت تھا۔نیوزو (Newzoo)گلوبل موبائل مارکیٹ رپورٹ2019 کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں 19 ویں نمبر کاحامل ایسا ملک ہے جہاں سمارٹ فونزاستعمال کنندگان کی تعداد زیادہ ہے اور ملک میں سمارٹ موبائل فون صارفین کی تعداد 32.5 ملین ہے ۔ لیکن سمارٹ فون کی حامل آبادی کی فیصد کے حوالے سے دنیا کے50 ممالک (جن کے اعداوشمار دستیاب ہیں) میں سے پاکستان 49 ویں نمبر پر ہے اور ملک کی صرف 15.9 فیصد آبادی سمارٹ موبائل فون کی مالک ہے۔ملک میں سوشل میڈیااستعمال کرنے کی بنیادی ضروریات انٹرنیٹ، موبائل فون اور کمپیوٹر کے اعدادوشمار کا ایک اور پہلو پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 18-2017 کے ان اعدادوشمار سے بھی اجاگر ہوتا ہے جس کہ مطابق ملک کے97.5 فیصد گھروں میں موبائل فون موجود ہے۔ شہروں میں یہ شرح 93.9 فیصد اور دیہہ میں91.6 فیصد ہے۔اسی طرح ملک کے 26.4 فیصد گھروں میں کمپیوٹر موجود ہے۔ دیہہ کے 8.1 اور شہروں کے15.1 فیصد گھر اس سہولت کے حامل ہیں۔ انٹرنیٹ کے حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ملک کے22.9 فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کنکشن موجود ہے ۔ دیہہ کے4.9 اور شہروں کے11.8 فیصد گھر انٹرنیٹ کنکشن کی وجہ سے دنیا سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان اگرچہ ابھی بھی انٹرنیٹ تک رسائی، سمارٹ موبائل فونزکے استعمال ، کمپیوٹرزکی ملکیت اور انٹرنیٹ کی قیمتوں کے حوالے سے اپنے ہم عصر دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی محرومیوں کا شکار ہے ۔ لیکن ہر نیا سورج ان محرومیوں کو کم کرنے کی نوید لیکر طلوع ہورہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک سال کے دوران ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں17 فیصد، موبائل فون کنکشن کی تعداد میں6.2 فیصد اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 7 فیصد اضافہ ہوا جو ہماری آبادی میں 2 فیصد اضافہ سے کہیں زائد ہے۔یہ تمام پیش رفت اُس منظر نامہ کی واضح عکاسی کر رہی ہے جو اس وقت ملک میں سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے موجود ہے۔ یہ تمام تر پیش رفت اپنی جگہ لیکن حکومت اب ملک میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے28 جنوری 2020 کو سوشل میڈیا کے حوالے سے ” سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 “کے نام سے نئے ضوابط کی منظوری دی ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے ان ضوابط کے جائزہ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے ۔ جو متعلقہ سول سوسائٹی اور ٹیکنالوجی کمپنیز کے ساتھ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مشاورت کررہی ہے۔یہاں یہ سوال اہم ہے کہ جب ہم آزادی رائے اور آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں تو کیا ہمیں پھر اس طرح کے رولز کی ضرورت ہے؟ اور اگر ہے تو کیوں؟اس کے علاوہ شخصی آزادیوں کو متاثر کیے بغیر آن لائن مندرجات کو کیسے ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے؟۔ ان سوالات کے جواب میں اوکاڑہ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی ڈاکٹر ثوبیہ عابد کہتی ہیں۔
”آزادی اظہار رائے کو انسانی حقوق فراہم کیے جانے کے لئے بنیاد کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔بات کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی ہر شہری کو آئین پاکستان کا آرٹیکل انیس دیتا ہے۔دیگر ابلاغ عامہ کے ذرائع تو اہم تھے ہی مگر آج کل کا دور سوشل میڈیا کا ہے۔اس لیے ان ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ہر صارف اپنی رائے کا اظہار کرنے کی سہولت رکھتا ہے۔ اس میں ایک بات اہم ہے کہ سوشل میڈیا کے آنے سے پہلے یہ ممکن نہ تھا کہ ہر قاری یا صارف کسی بھی میڈیا کے مواد پر فوری ردعمل دے سکے۔ اس کو ابلاغ کے عمل میں فیڈ بیک کہا جاتا ہے تو اخبار کا قاری ،ریڈیو کا سامع یا ٹی وی کا ناظر یہ نہیں کر سکتا تھا کہ فوری ردعمل اس میڈیا کے ادارے تک پہنچا سکے ۔سوشل میڈیا اپنے ہر صارف کو مساوی مواقعے فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی پوسٹ پر یا پھر کمنٹس باکس میں جا کر ہر بات پر اپنا فوری ردعمل برابری کی سطح پر دے سکے۔ اس وجہ سے بہت سے مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ استاد ہونے کے ناطے مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرے کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ آزادی کا حق ہمیشہ ایک خاص ذمہ داری کا احساس بھی ساتھ لے کر آتا ہے جس میں سماج ،روایت، ثقافت، مذہب اور معاشرے کے بنائے کچھ بنیادی ضابطے ہر کسی کو ہر صورت اپنانے پڑتے ہیں۔سوشل میڈیا ویب سائٹس نے اپنے ضابطے بنائے ہوئے ہیں جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے وہ کسی بھی مواد کو شائع کرنے سے روک سکتے ہیں۔کاپی رائٹس اور غیر اخلاقی مواد کے علاوہ شدت پسندی یا دہشت گردی کے حوالے سے کسی بھی پوسٹ کو ہٹا دیا جاتا ہے یو ٹیوب یا فیس بک وغیرہ پر سے۔اگر ان سوشل میڈیا کمپنی والے کچھ خاص چیزوں کے بارے میں حساس ہیں اور ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مواد کے بارے میں حتمی فیصلہ کریں تو پھر یہ حق ریاست کا بھی ہونا چاہیے کہ وہ کچھ نظریاتی بنیادوں اور معاشرتی اقدار کے بارے میں حساس ہو اور ان کے بارے میں اظہار رائے کے لیے ضابطے بنائے اور ان کو لاگو کروائے۔اس لیے میرے خیال سے آزادی اظہار کو ذمہ داری کے احساس کے ساتھ ہی جڑے ہونا چاہئے اور ریاست کو اس بارے میں قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ کسی کو بھی بلاوجہ روکا نہ جائے اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے کیو نکہ اگر درست رولز بنے ہوں گے تو وہ عام لوگوں کے بات کرنے کے حق کا تحفظ بھی کریں گے۔ان رولز کے علاوہ کوئی کاروائی نہیں ہوسکے گی جو کہ سوشل میڈیا صارف میں ایک طرح کا احساس تحفظ اور احساس ذمہ داری پیدا کریں گے۔اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ رولز برابری کی سطح پر لاگو ہونے چاہئے۔۔ آج کل سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اپنا مواد شیئر کر کے بزنس کرنے اور کمانے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں اس کے لیے بھی قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ یہ ایک طرح سے برابری رکھتے ہوئے ہر صارف کے مفادات کا بھی تحفظ ہو جائے۔ ان رولز میں وقت گزرنے کے ساتھ جدت پیدا کرنے کی ضرورت بھی ہے کیو نکہ ڈیجیٹل میڈیا دراصل بہت تیزی سے نئی ٹیکنالوجی کو بھی اختیار کرتا جاتا ہے اس وجہ سے سوشل میڈیا سے جڑے تمام قوانین اور ضوابط کو مستقل بنیادوں پر دیکھتے اور بدلتے رہنے کی ضرورت ہو گی۔ خاص طور پر سا ئبر سیکیورٹی کے معاملات میں اور اکانومی کے حوالے سے کیونکہ موجودہ کروناوائرس کی وجہ سے آن لائن صارفین کی تعداد میں اور ڈیٹا کے استعمال میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے“۔
اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کے ایک ایسا معاشرہ جہاں آزادانہ اظہار خیال کو پہلے ہی رکاوٹوںکا سامنا ہے ۔وہاں جب شہری اپنے اوپر ذاتی سنسر شپ عائد کریں گے تو پھر لوگ آن لائن مباحثوں میں شرکت کرنا چھوڑ دیں گے۔ جس سے ان کا گورننس اور قانون کے امور میں مفید اور نتیجہ خیز گفتگو میں حصہ لینے کا امکان کم ہوجائے گا۔ اس سے حکومت اور عوام کے مابین ایک اہم رشتہ ختم ہوجائے گا۔جس کی ہماری جیسی جمہوریت متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس سلسلے میں ان رولز کے معاشرے پر کیا مثبت اور کیا منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان کا ایک اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف کمیونیکشن اسٹڈیز جامعہ پنجاب کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد خان کہتے ہیں۔
”وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن ، حکومت پاکستان کی جانب سے سٹیزن پروٹیکشن رولز کا حال ہی میں اجرا کیا گیا ہے ، یہ رولز دراصل شہریوں کو آن لائن نقصان پہنچانے کے خلاف تحفظ فراہم کیے جانے اور الیکٹرانک کرائمز سے محفوظ رہنے کا قانون ہے ۔ ان رولز کے معاشرے پر مثبت اثرات قدرے نمایاں ہوں گے۔سیٹیزن پروٹیکشن رولز 2020 کا اجرا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں ہوئی جب کہ سوشل میڈیا ہماری زندگیوں میں کچھ اس طرح سے شامل ہو گیا ہے کہ باقی سب چیزیں پیچھے رہ گئی ہیں – سوشل میڈیا جہاں لوگوں کو بہترین انداز میں تفریح اور معلومات فراہم کر رہا ہے وہیں پر اس کے ذریعے سے بے حد پروپیگنڈہ ، جھوٹ ، ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے جو کہ ملکی سا لمیت کیلئے کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں ہے اسی طرح سے ہماری سماجی اور اخلاقی قدار خاص طور پر مذہب کے حوالے سے عدم برداشت کی وجہ سے تصادم کا اندیشہ بڑھ رہا ہے ۔میڈیا نے کنفلیکٹ کو ہمیشہ ہی ہوا دی ہے یہاں تک کہ اسے جنگی ہتھیار کے طور پر بھی بھر پور استعمال کیا گیا اور اب انفارمیشن ٹیکنالوجی میں تھری جی، فورجی اور فائیو جی کے آنے سے آئندہ دنوں میں افراد اور قوموں کے درمیان تصادم اور فساد میں سوشل میڈیا کا کردار نمایاں طور پر سامنے آئے گا۔ اس لئے اس قانون کے ذریعے نیشنل کوآرڈینیٹر کا قیام ایک خوش آئند اقدام ہے اور اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں سٹیک ہولڈرز کی معاونت کو بھی یقینی بنایا گیا ہے ۔غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو 24 گھنٹے کے اندر بلاک اور ایمرجنسی کی صورت میں 6 گھنٹے میں بلاک کر دیا جائے گا۔سوشل میڈیا کمپنی سے ڈیٹا یا انفارمیشن کا حصول اور فوقیت نیشنل کوآرڈینیٹر کو ہو گی نہ کہ سوشل میڈیا کمپنی کو ۔اسی طرح سے پاکستان کی نیشنل سیکورٹی ، دہشت گردی ، انتہا پسندی اور تشدد پر ابھارنے والی لائیو سٹریمنگ کی روک تھام ممکن ہوگی۔ پاکستان میں ایسی سوشل میڈیا کمپنیز بھی کام کر رہی ہیں جن کا کوئی مستقل آفس ملک میں نہیں ، فوکل پرسن نہیں ، اب اس قانون کے ذریعے ان سب باتوں کو یقینی بنایا جائے گا اور ایک مثبت پہلو یہ بھی کہ سوشل میڈیا کمپنیز ڈیٹا بیس سرورز قائم کریں گی اور غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کی صورت میں فورا ًوضاحتی نوٹ جاری کریں گی اور تمام ڈیٹا اور انفارمیشن تک رسائی دینے کی پابند ہوں گی ۔ کسی بھی رول کی خلاف ورزی کرنے پر سوشل میڈیا کمپنیز کے مکمل آن لائن سسٹم کو نہ صرف بلاک کیا جا سکے گا بلکہ انہیں 500 ملین روپے تک جرمانہ بھی کیا جا سکے گا اور اس سلسلے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے سوشل میڈیا کمپنیز کو ریپریزنٹیشن اور ہیرنگ کا حق بھی دیا جائے گا اور 3 ماہ کے اندر فیصلہ بھی کر دیا جائے گا ۔
ان رولز کے معاشرے پر منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ اندیشہ برحال موجود ہے کہ سیٹیزن پروٹیکشن رولز 2020 کے غلط استعمال سے سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس کی آڑ میں سیاسی ورکرز اور آرگنائزیشنز کو مخالفت کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے جس سے بنیادی شہری اور سیاسی حقوق پامال ہو سکتے ہیں ۔ آزادی رائے اور اظہار کو محدود کیے جانے سے جمہوریت کے تصور کی نفی ہوتی ہے ۔ افراد کی تعمیری اور تخلیقی صلاحیتوں اور اظہار کے مختلف پیرائیوں پر قدغن لگانے سے معاشرہ اپنا اجتماعی شعور کھو دیتا ہے اور لوگوں میں بے چینی ، گھٹن ، عدم برداشت اور منفی رجحانات بڑھ جاتے ہیں اور معاشرہ تعمیری رویوں کی بجائے زبوں حالی کا شکار ہو جاتا ہے۔
ان رولز میں بہتری کی گنجائش کے حوالے سے یہ کہنا ہے کہ سیٹیزن پروٹیکشن رولز کو فعال اور کارآمد بنانے کیلئے سیاسی اور معاشی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس کے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔اس قانون کو اس کی روح کے مطابق قابل عمل بنانے کیلئے نیشنل کوآرڈینیٹر کے قیام کے سلسلے میں لائق اور پروفیشنل ماہرین کو اس کا حصہ بنانا چاہیے اور اس سلسلے میں کسی خاص سیاسی جماعت یا گروہ کے افراد کی تفریق سے گریز لازم ہے ۔ رولز میں نیشنل کوآرڈینیٹر کے قیام اور اس کو معاونت فراہم کرنے والی کمیٹی میں عہدیداروں کی تقرری کا طریقہ کار بھی وضع کیا جانا چاہیے اور اسے ان رولز کا حصہ بنانا چاہیے۔ غیر قانونی آن لائن کنٹنٹ کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو جرمانہ کرنے کے سلسلے میں حق و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں واضح میکانزم وضع کرنا چاہیے “۔
انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل19 کے مطابق” ہر کسی کو رائے کی آزادی اور اس کے اظہار کی آزادی کا حق حاصل ہے۔اس حق میں سرحدوں سے قطع نظر بغیر کسی مداخلت کے رائے قائم کرنے اورکسی بھی میڈیا کے ذریعے معلومات،نظریات کی تلاش، حصول اور تشہیر شامل ہے “۔لہذامیڈیا کی آزادی اور آزادی اظہار آفاقی حقوق ہیں جو ہر طرح کے میڈیا پر لاگو ہوتے ہیں۔ چاہے وہ آن لائن ہو یا آف لائن۔ چاہے وہ پروفیشنل ہو یا شہری صحافت۔چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا۔یوں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ابلاغ کا ایک اہم ذریعہ بن گے ہیں جس کے ذریعے افراد اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کو استعمال کرسکتے ہیں اور معلومات اور نظریات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں دنیا بھر میں لوگوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی ایسی تحاریک دیکھنے میں آئی ہیں جو تبدیلی ، انصاف ، مساوات ، طاقتوروں کے احتساب اور انسانی حقوق کے احترام کی حمایت کرتی نظر آئیں۔یعنی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا لوگوں کو فوری طور پر رابطے اور تبادلہ خیال کرنے کے قابل بنانے اور یکجہتی کا احساس پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ احساس اس وقت زور پکڑ رہا ہے کہ سوشل میڈیا صرف ایک کھیل یا بیکار تفریح نہیں ہے بلکہ معاشرتی اصلاح اور آگاہی لانے میں ایک موثر ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ حقوق کے شعور ، جمہوری طریقوں کے فروغ،ابلاغی انقلاب ، تعلیمی اہلیت اور صلاحیت میں اضافہ اور سیاسی سرگرمی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔لیکن وہیں یہ جھوٹی اورغلط معلومات پھیلانے، دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے، مذہبی لسانی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے،آن لائن ہراساں کرنے، لوگوں کی ساکھ متاثر کرنے،بلیک میلنگ ، نفرت انگیز تقاریر و موادکی تشہیراورذاتی ڈیٹا چوری کرنے کے عمل کا بھی حصہ ہے ۔اور یہ سب اس کی آزادی کے تاریک پہلو ہیں۔اظہار رائے کی آزادی ایک پیچیدہ حق ہے۔ یہ قطعی نہیں بلکہ اس کے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔یہ شہریوں کو بغیر کسی ذمہ داری کے بولنے یا شائع کرنے کا حق فراہم نہیں کرتا ہے۔ یہ کوئی ایسا لائسنس نہیں جو زبان کے ہر ممکن استعمال کے لئے استثنیٰ دیتا ہو اور اس آزادی کو غلط استعمال کرنے والوں کو سزا سے روکتا ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ 1966 کے آرٹیکل19 (3) مندرجہ ذیل بنیادوں پرآزادی اظہار پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔(الف )دوسروں کی ساکھ کے حقوق کے لئے(ب) قومی سلامتی ، یا عوامی نظم ، یا عوامی صحت یا اخلاقیات کے تحفظ کے لئے۔آزادی اظہار کے ساتھ منسلک فرائض اور ذمہ داریاں کیا سوشل میڈیا پر بھی لاگو ہوتی ہیں؟ اور ان ذمہ داریوں کا تعین اور اطلاق عوامی سطح پر کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اس سلسلے میں بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے ڈاکٹر ببرک نیاز کہتے ہیں۔
”سماجی ذمہ داری کو دو پہلوﺅں سے دیکھا جانا چاہیئے۔ میڈیا چاہے کوئی بھی ہو روایتی یا سوشل ۔ ایک تو اِن کے مندرجات میں ایسے موضوعات کوتسلسل کے ساتھ شامل کیا جائے جو عوام الناس کی سماجی اور معاشی ترقی کا باعث بنیں۔ یعنی جو انسانی ترقی کی ضروریات کو پورا کریں اوراس کے ساتھ ساتھ عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک چوکیدار کا کردار بھی ادا کریں۔ اسے پبلک سروس براڈ کاسٹنگ کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔ دوسرا پہلو ان مندرجات کو کیسے پیش کیا جائے یعنی انکی ٹریٹمنٹ کیسے کی جائے؟ ابلاغیات کی زبان میں اسے ہم Primingاور Framingکہتے ہیں۔ ان دو پہلوﺅں کو جب ہم سوشل میڈیا کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں عام صارف کی جانب سے ایسے موضوعات کی بھرمار نظر آتی ہے جو کسی نا کسی صورت انسانی ترقی کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ شاید اس وجہ سے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا پر یہ موضوعات بہت کم جگہ پاتے ہیں۔کیونکہ نیوز میڈیا کے مندرجات کا زیادہ تر حصہ سیاست اور سیاستدانوں کے گرد گھومتا ہے۔ یا وہ موضوعات جس سے چینل یا پرنٹ میڈیا کے مفادات جڑے ہوں وہ اُن میں جگہ پاتے ہیں۔تفریحی میڈیا پر جو مندرجات پیش کیے جاتے ہیں وہ زیادہ تر محبت، رقابت، حسد، نفرت اور بدلہ کے موضوعات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔اس لیے سوشل میڈیا ایک اسے پلیٹ فارم کی صورت میں اپنے صارفین کو اُن تمام موضوعات پر بات کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے جو اُن کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے معاشرے میں چوکیدار کے کردارکی ہی بدولت اب مین اسٹریم میڈیا کوبھی بہت سے ایسے موضوعات کو اپنے مندرجات میں جگہ دینی پڑتی ہے جو اگر سوشل میڈیا پر ایک عوامی آواز یا تحریک کی صورت میں سامنے نہ آتے تومین اسٹریم میڈیا شاید ان پر توجہ نا دیتا۔ سوشل میڈیا کے اسی کردار کی بدولت عدلیہ جہاں سو موٹو نوٹس لیتی ہے وہیں حکومت بھی ایکشن لیتی ہے۔ یہاں تک تو سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری قابل تحسین ہے۔ لیکن جو سب سے اہم ایشو ہے وہ یہ کہ سوشل میڈیا پر دی جانے والی چیزوں کو کیسے پیش کیا جائے ؟یعنی ان کی جو ٹریٹمنٹ کی جاتی ہے وہ قابل توجہ ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیاپر اپ لوڈ ہونے والے مندرجات کی ایسی بہت بڑی تعداد غیر تربیت یافتہ، پیشہ وارانہ تعلیم سے محروم اور نیم خواندہ عام افراد کی جانب سے کی جاتی ہے۔ جس میں اُن کی ذاتی پسند یا نا پسند کی ایک واضح جھلک محسوس ہوتی ہے۔وہ اپنی مرضی سے چیزوں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہیں۔ اور جذبات کی رو میں بہہ کر جس طرح کی تحریر، تصویر اور آواز کا استعمال کیا جاتا ہے وہ بعض اوقات تہذیب،شائستگی اور اخلاقیات کی تمام حدود پھلانگ لیتا ہے۔ اور چیز کو تصدیق کیے بغیر آگے فارورڈ کرتے رہتے ہیں۔ یوں ایک سے دو ، دوسے چار اور یہ سلسلہ لا متناہی ہوجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کی جانب سے اپ لوڈ کی جانے والی معلومات اور اطلاعات کی معروضیت اور درستی مشکوک ہوتی ہے۔بعض اوقات آزادی اظہار کے نام پر اُن موضوعات کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے جو تعمیر نہیں بلکہ تخریب کا باعث بنتے ہیں۔ اسی رجحان کے ساتھ ساتھ جب سیاسی یا مذہبی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کی جانب سے جو معلومات یا اطلاعات ایک عام صارف کے اکاﺅنٹ کی صورت میں ایک پوسٹ کے طور پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ تو کرتے وہ بھی وہی کام ہیں جو جذبات کی رو میں بہہ جانے والے عام سوشل میڈیا صارفین کرتے ہیں لیکن شایدوہ اُن سے زیادہ خطرناک اور ہر طرح کے احساس ذمہ داری سے عاری ہوتاہے۔کیونکہ تعلیم یافتہ اورپیشہ وارانہ اہلیت کے حامل ان سوشل میڈیا ٹیمز کی کئی ایک پوسٹیں ملک دشمن قوتیں جلتی پر تیل چھڑکانے کے لیے استعمال کر تی ہیں۔ لہذا سوشل میڈیا پر کیا دیا جائے اور اس کی ٹریٹمنٹ کیسے ہویہ سوشل میڈیا کی سماجی ذمہ داری کے پہلو سے جڑی ہوئی باتیں ہیں۔ اس لیے میری رائے میں جیسے مین اسٹریم میڈیا پر حکومت کی جانب سے چیک اینڈ بیلنس کا ایک میکنیزم موجود ہے ویسا ہی سوشل میڈیا پر بھی لازماً ہونا چاہیئے۔ کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں فی الحال یہ ممکن نہیں کہ کوئی فرد ذاتی طور پر چیزوں کو فلٹر کرکے سوشل میڈیا پر دے۔ کیونکہ جیسا پہلے ذکر کیا کہ ہر کسی کا سیاسی اور مذہبی جھکاﺅ ہوتا ہے پسند نا پسند ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز یا ایپس کے ساتھ ایسا معاہدہ کرنا چاہیئے۔ کہ نئے اور پرانے صارفین کے لیے یہ ضروری قرار دیا جائے کہ اُن کے اکاﺅنٹ کے جاری رہنے یا نئے اکاﺅنٹ کو بنانے کے لیے بائیو میٹرک سے تصدیق شدہ ملکی موبائل نمبرکی ضرورت ہو۔اور ایک نمبر پر ایک ہی اکاﺅنٹ بنانے کی اجازت ہو کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا یا سائبر کرائم کے حوالے سے جو حکومتی ادارے ہیں وہ متحرک اور فعال کردار ادا کریں ۔جبکہ لوگوں کو سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تعلیم کے حوالے سے خصوصی آگاہی مہمیں چلائی جائیں۔ اس سلسلہ میں طالب علموں کے تعلیمی نصاب میں سوشل میڈیا کا کوڈ آف کنڈکٹ شامل کیا جائے“۔
سوشل میڈیا کی آزادی کی بعض صورتوں میں قومی سلامتی پر دورس منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔کیونکہ سوشل میڈیا ٹیکنالوجیزیعنی فیس بک ، ٹویٹر ، اسنیپ چیٹ ، لنکڈ ان وغیرہ کو جنگ کی موجودہ چار جہتوں یعنی زمینی ، سمندری ، ہوا اور خلا کے بعد پانچویں جہت کے طور پر سمجھا جارہا ہے۔جنگ کی اس پانچویں اور تازہ ترین جہت کی نہ تو کوئی جغرافیائی حدود ہیں اور نہ ہی کوئی قیود۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلو جس میں تعلیم ، معاشرتی تعامل ، قانون نافذ کرنے والے ادارے ، میڈیا ، سفارتی کام کاج ، کاروبار ، تحقیق ، ترقی اور فوج حتیٰ کہ نیشنل سیکورٹی سب تک محیط ہے۔تو پھرقومی سلامتی کے تناظر میں خصوصاً اور دیگر پہلوﺅںمیں عموماً سوشل میڈیا پرآزادی اظہار کی حدود کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق کے تعین کی ضرورت ہے؟ اس حوالے سے نیشنل سیکورٹی کو سبوتاژ کرنے میں سوشل میڈیا کے کردار پر تحقیق کرنے والے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پی ایچ ڈی اسکالر زاہد محمودزاہد کہتے ہیں۔
” آج کی دنیا میں جب سیکورٹی کا دائرہ کار روایتی فوجی نوعیت سے نکل کر سیاسی ، معاشرتی، معاشی، ماحولیاتی اور سائبر کی دنیا تک پھیل چکا ہے۔ جہاں معاشرتی اور معاشی استحکام سب سے زیادہ مقدم سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی ریاست کی معاشی اور معاشرتی وحدت کو پارا پارا کرکے اس کے جنگ لڑنے کی صلاحیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اور ایسا کیسے کیا جاسکتاہے؟ غلط معلومات کے پھیلاﺅ سے۔ کیونکہ ہر ملک میں کچھ عوامی سطح کے مسائل موجود ہوتے ہیں جن کو ہوا دیکر سیکورٹی کے مسائل پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ اس کو فیفتھ جنریشن وار کہتے ہیں۔ جو ادراک، انفارمیشن، کلچر اور نفسیات پر محیط ہے۔ جو مخصوص طبقوں، نسلی گروہوں کے احساس محرومی کو مشتعل کرکے ، تاریخی حقائق کو مسخ کرکے قومی بیانیہ کو چیلنج کرتی دیکھائی دیتی ہے۔ اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ناپختہ ذہنوں تک بہت تیزی سے سرائیت کرتی ہے۔ جس کے دورس نتائج سامنے آتے ہیں۔ پچھلے30 سالوں میں ٹیکنالوجی ، جمہوریتوں اور عالمگیریت کی موجودگی میں ابلاغ عامہ کے نئے ذرائع سامنے آئے ہیں جو براہ راست فرد کے کنٹرول میں چلے گئے اور ریاست کی روایتی اجارہ داری ختم ہوگئی۔ میں اسے ڈیموکرائٹائزیشن آف میڈیا کہتا ہوں۔ پچھلی ڈیڑھ صدی میں اس سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک طرف تو احتجاج اور انقلاب برپا کرنے کے قابل بنایا ہے تو دوسری طرف دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کے طریقوں سے لیکر نظریاتی، لسانی، معاشی اور معاشرتی حملے کرنے کی اور پُر تشدد ترغیبات کو پھیلانے کے قابل بھی بنایا ہے۔ جن کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ سوشل میڈیا کو سوشل انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اپنی انہی صلاحیتوں کی وجہ سے اسے آج دنیا میں جہاں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے وہیں یہ ریاستوں کے لیے چیلنجز کی حیثیت بھی اختیار کرچکا ہے۔ دنیا کی تمام جمہوریتیں اب آپ کو اس حوالے سے قانون سازی کرتی دیکھائی دیتی ہیں۔تاکہ اپنے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس سلسلے میں جرمنی میں NetzDG law 2018 بنایا گیا ہے یورپی یونین خاص طور پر دہشت گردانہ ویڈیوز کے حوالے سے قانون سازی پر غور کررہی ہے ۔کہ اگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایک گھنٹے کے اندر انتہا پسندانہ مواد کو حذف نہیں کرتے ہیں تو انہیں جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آسٹریلیا نے Sharing of Abhorrent Violent Material Act 2019 پاس کیا ہے۔ روس میں حال ہی میں ایک قانون نافذ ہواہے جس نے ریگولیٹرز کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ “کسی ہنگامی صورتحال میں” دنیا بھر کے ویب سے رابطے بند کردیں ۔ 2015 میں روس کے ڈیٹا قوانین کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو روسیوں کے بارے میں کوئی بھی ڈیٹا ملک کے اندر سرورز پر جمع کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ اس ضابطہ پر عملدرآمد کے بارے میں موثر طریقہ کار واضع نا کرنے پر لنکڈ ان کو بلاک کردیا گیا جبکہ فیس بک اور ٹویٹر پر جرمانہ عائد کیا گیا۔ چین میں ٹویٹر ، گوگل اور واٹس ایپ جیسی سائٹیں مسدود ہیں۔ ان کے متبادل کے طور پر چین اپنی تیار کردہ ویبو ، بیدو اور وی چیٹ نامی سوشل میڈیا کی سروسز فراہم کر رہا ہے۔ جب بھی ریاستیں اور حکومتیں سوشل میڈیا کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق کو وضع کرنے کی طرف کوئی قدم بڑھاتی ہیں تو عمومی طور پر سول سوسائٹی کی طرف سے اوربہت سارے اسکالرز کی طرف سے یہ Argument پیش کیا جاتا ہے کہ یہ فرد واحد کی آزادیوں کو سلب کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرانی چاہیئے کہ فرد کی سلامتی تو سب سے بڑھ کر انسانی حق ہے ۔ جس پر سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ فرد کی سیکورٹی اور سلامتی اُس کے سول رائٹس سے زیادہ مقدم ہوتی ہے۔ اس لیے ریاست سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسا ضابطہ اخلاق سامنے لیکر آئے جو ریاست کے شہریوں اور مجموعی طور پر قومی سلامتی کے چیلنجز کو ایڈریس کرسکے۔ کیونکہ آج کی دنیا جس میں جنگیں بم، بندوقوں اور میزائلوں سے نہیں لڑی جاتی بلکہ بیانیوں سے لڑی جاتی ہے تو بیانیوں کی اس جنگ میں سوشل میڈیا سے زیادہ مہلک ہتھیار کوئی نہیں۔ اس لیے ریاست کو اس حوالے سے ضابطہ اخلاق ضرور وضع کرنا چاہیئے۔ میرے نزدیک ریاست ایک موثر قسم کا ضابطہ اخلاق لیکر آئے پاکستان میں ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے مزید موثر بنانے کے لیے ایک مہم چلائی جائے جو ناصرف ایک عام صارف کی تربیت کرے اور اُس میں یہ احساس ذمہ داری پیدا کرے کہ کہیں بیانیوں کی اس جنگ میں وہ غیر دانستہ طور پر دشمن کا کام تو آسان نہیں کر رہاہے“۔
سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی ہر روز متعارف ہونے والی نئی جہتوں کی وجہ سے بدلتی دنیا میں اب آزادی صحافت سے پہلے ذمہ دارانہ صحافت کی زیادہ ضرورت ہے۔ کیونکہ اکثر صورتوں میں سوشل میڈیا کی آزادی سماجی اور ملکی ذمہ داریوں سے بالا ہوجاتی ہے۔اورآزادی اظہارکے نام پر جو مندرجات اس پر پیش کیے جاتے ہیں وہ پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑانے کے ساتھ ساتھ ملکی اور عوامی مفادات کو تہس نہس کردیتے ہیں۔لہذا ان ذمہ داریوں کا تعین ریاست ، معاشرہ اور فرد تینوں جانب سے یکساں بنیادوں پر ہونا چاہیئے۔یعنی ضوابط کی تیاری،ان کامشاورتی جائزہ، اصلاح اور پھر موثر ترین اطلاق سے پاکستان زیادہ مضبوط ، ترقی پسند اور جمہوری ریاست بن کر اُبھرے گا۔
پاکستان کے سوشل میڈیا کے حوالے سے نئے” سٹیزن پرٹیکشن رولز(اگینسٹ آن لائن ہارم)2020 “کے نمایاں نکات
٭ قومی کورڈینیٹر کے دفتر کا قیام جو مواد کی ریگولائزیشن کا ذمہ دار ہوگا۔ اس حوالے سے وہ حکومت کو مشورہ سوشل میڈیا کمپنیز کے ساتھ رابطے میں رہے گا۔
٭ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کواتھارٹی کی جانب سے دستخط شدہ تحریری اور الیکٹرانک ای میل پر کسی بھی ” غیر قانونی مواد“کو24 گھنٹے کے اندر اندر ہٹانا ہوگا۔ اور کسی ہنگامی صورت میں 6گھنٹوں کے اندراندر۔
٭ اگر کوئی کمپنی ان شقوں کی پابندی کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو کمپنی کے ذریعے چلائے جانے والے تمام پلیٹ فارمز، ایپلیکیشنز اور سروسز کا بلاک کیا جاسکتا ہے۔ یا پھر500 ملین روپے تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنی کو بلاکنگ کی تاریخ کے 2 ہفتوں کے اندر وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کردہ کمیٹی کے سامنے ریپریزنٹیشن داخل کرانے کا حق حاصل ہو گا اور کمیٹی ریپریزنٹیشن کو سننے کے بعد 3 ماہ کے اندر فیصلہ جاری کرے گی۔
٭ صارفین کے خلاف کسی انضباطی کاروائی کے لئے تحریری مواد اور دیگر معلومات مطالبہ پر فراہم کی جائیں گی۔
٭ ان رولز کے عمل میں آنے کے 3 ماہ کے اندر سوشل میڈیا فرمیں پاکستان میں ایک مستقل رجسٹرڈ آفس اسلام آباد میں واقع ایک فزیکل ایڈریس کے ساتھ قائم کریں گی ۔اوراُنھیں کورڈینیشن کے لئے پاکستان میں مقیم ایک فوکل پرسن کی تقرری کرنا ہوگی۔ ان رولز کے شائع ہونے کی تاریخ سے 12 ماہ کے اندر ڈیٹا اور آن لائن مواد کو ریکارڈ اور محفوظ کرنے کے لیے پاکستان میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرور قائم کرنا ہوں گے۔
٭ کمپنیزپاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیز تقاریر اور مواد، ہتک عزت، جعلی خبروں، تشدد اور قومی سلامتی سے متعلق کسی بھی مواد کی لائیو سٹریمنگ کو روکنے کے لیے فعال میکنزم بنائیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے صارفین کی تعداد (جنوری2020 تک)
٭ پاکستان میں فیس بک صارفین کی تعداد33 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا15 فیصدہے اور ملک کا ہر ساتواں فرد فیس بک استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں انسٹاگرام صارفین کی تعداد 6.40 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا03 فیصدہے اور ملک کا ہر35 واں فرد انسٹا گرام استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں سنیپ چیٹ صارفین کی تعداد4.40 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا02 فیصدہے اور ملک کا ہر50 واں فرد سنیپ چیٹ استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں ٹویٹر صارفین کی تعداد1.83 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا01 فیصدہے اور ملک کا ہر 120 واں فردٹویٹر استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان میں لنکڈاِن صارفین کی تعداد06 ملین ہے۔ جو ملکی آبادی کا03 فیصدہے اور ملک کا 37 واں فرد لنکڈاِن استعمال کرتا ہے۔
٭ پاکستان دنیا بھر میں فیس بک صارفین کی 13 ویں بڑی تعداد کا حامل ملک ہے۔
٭ پاکستان فیس بک صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے۔
٭ پاکستان سنیپ چیٹ صارفین کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں20 ویں نمبر پر ہے۔
انٹرنیٹ، سمارٹ موبائل فون اور سوشل میڈیا صارفین کا موازنہ
دنیا کی صورتحال
|
پاکستان کی صورتحال
|
٭ دنیا کا ہر دوسرا فرد انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ ٭ دنیا میں ہر تیسرے بندے کے زیر تصرف سمارٹ موبائل فون ہے۔ ٭ دنیا کا ہر دوسرا شخص سوشل میڈیا کا صارف ہے۔ ٭ دنیا میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کا 92 فیصد موبائل انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔ ٭ دنیا میں سوشل میڈیا صارفین کو 98.6 فیصد موبائل فونز کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ ٭ گزشتہ سال یعنی جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران دنیا کی آبادی میں 1.1 فیصد (82 ملین)،انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد میں 7 فیصد(298 ملین) اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 9.2 فیصد(321 ملین) اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر روز انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 8 لاکھ 16 ہزار4 سوافراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال روزانہ سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 8 لاکھ79 ہزار4 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہرایک گھنٹہ کے دوران انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 34 ہزار افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک گھنٹہ کے دوران سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 36 ہزار6 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہرایک منٹ میں انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 567 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک منٹ میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں611 سو افراد کا اضافہ ہوا۔ |
٭ پاکستان کا ہرتیسرافرد انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔ ٭ پاکستان میں ہرساتویں بندے کے زیر تصرف سمارٹ موبائل فون ہے۔ ٭ پاکستان کا ہر چھٹاشخص سوشل میڈیا کا صارف ہے۔ ٭ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کو99 فیصد موبائل فونز کے ذریعے سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ ٭ گزشتہ سال یعنی جنوری2019 تاجنوری2020 کے دوران پاکستان کی آبادی میں 2 فیصد (4.3 ملین)،انٹرنیٹ استعمال کنندگان کی تعداد میں 17 فیصد(11 ملین) اور سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 7 فیصد(2.4 ملین) اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر روز آبادی میں 11 ہزار7 سو81افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر روز انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 30 ہزارایک سو37افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال روزانہ سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں 6ہزار5 سو75 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہرایک گھنٹہ کے دوران انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ایک ہزار 2 سو 56 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ دنیا میں گزشتہ سال ہر ایک گھنٹہ کے دوران سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں274 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہرایک منٹ میں انٹرنیٹ کے استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 21 افراد کا اضافہ ہوا۔ ٭ پاکستان میں گزشتہ سال ہر ایک منٹ میں سوشل میڈیا کے فعال صارفین کی تعداد میں5 افراد کا اضافہ ہوا۔ |
ماخذ : ۔ ڈیجیٹل 2020 :گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو ۔۔۔شماریاتی تجزیہ مصنف
دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف کتنا وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے ؟
٭ ڈیجیٹل 2020 :گلوبل ڈیجیٹل اُوروویو کے مطابق دنیا میں ہر روز انٹرنیٹ صارفین اوسطً 2 گھنٹے 24 منٹ سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں تین دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت سوشل میڈیا پر صرف کیا جاتا ہے۔یعنی سال میں تقریباًایک مہینہ 6 دن متواتر کسی وقفے کے بغیر سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ دنیامیں فی سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً144 منٹس سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں1008 منٹ ، ایک مہینے(30 دن) میں4320 منٹ اور ایک سال(365 دن) میں 52560 منٹ۔ اگرروزانہ 1440 کے منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 16 فیصد ٹائم سوشل میڈیا استعمال کرنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انٹرنیٹ صارفین اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 16 فیصدسوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔
٭ دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً 2 گھنٹے24منٹ سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 876 گھنٹے سوشل میڈیا کے استعمال میں لگاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق عالمی سطح پر ایک فرد کی اوسط عمر72 سال ہے۔ یوں ایک شخص اپنی تمام عمر میں اوسطً 63072گھنٹے سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ 24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح دنیا میں ایک سوشل میڈیا صارف اپنی پوری زندگی میں سوا سات سال طوالت پر مشتمل عرصہ سوشل میڈیا استعمال کرنے پر گزار دیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کے پیمانے کو مد نظررکھا جائے تو دنیا میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والا کوئی بھی فرد اپنی48 سالہ فعال زندگی کے420480 گھنٹوں میں سے 42048 گھنٹے یعنی اپنی فعال زندگی کے کل وقت کا 10فیصد۔ اور اپنی فعال زندگی کے پونے پانچ سال کا عرصہ ہے سوشل میڈیا کی نذر کردیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کی420480گھنٹے عمر کے دورانیہ میں رات کی نیند کے 157680گھنٹے نکال لیے جائیں تو باقی262800 گھنٹوں میں سے 42048 گھنٹے فعال زندگی کا فعال وقت دنیا میں سوشل میڈیا کے استعمال پر گزار دیا جاتاہے۔
پاکستا ن میں ایک سوشل میڈیا صارف کتنا وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے ؟
٭ پاکستان میں ابھی اس حوالے سے ملکی اور غیرملکی سطح پر کوئی کام نہیں ہوا ہے۔اس لیے ہم دستیاب اعدادوشمار کے تجزیہ سے کوشش کریں گے کہ حقیقی صورتحال سے قریب تر دورانیہ کا اندازاً تعین کرسکیں۔ ڈیجیٹل 2020 :پاکستان کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا کے 6 پلیٹ فارمز فیس بک 15 منٹ 02 سیکنڈ، وٹس ایپ2 منٹ 47 سیکنڈ، یو ٹیوب29 منٹ 59 سیکنڈ،ٹویٹر13 منٹ36 سیکنڈ،انسٹا گرام10 منٹ44 سیکنڈ اور وکی پیڈیا 4 منٹ اور 34 سیکنڈاوسطً فی ویب سائٹس پر فی وزٹ وقت صرف کیا جاتاہے یعنی مجموعی طور پر 76 منٹ 42 سیکنڈ ان 6 ویب سائیٹس پر فی وزٹ وقت صرف ہوتا ہے۔ اگر ان6 ویب سائیٹ کو اوران کے ایک وزٹ فی کس کے مجموعی صرف شدہ وقت( 76 منٹ 42 سیکنڈ) کو ہی یومیہ پیمانا بنا لیا جائے توپاکستان کے انٹرنیٹ صارفین ایک مہینے میں تقریباً ڈیڑھ دن متواتر بغیر کسی وقفے کی طوالت پر مبنی وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔یعنی سال میں تقریباً19 دن متواتر کسی وقفے کے بغیر سوشل میڈیا استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ پاکستان میں فی سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً76 منٹس 42 سیکنڈسوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔ یعنی ایک ہفتہ میں536 منٹ اور 54 سیکنڈ، ایک مہینے (30 دن) میں2301منٹ اور ایک سال(365 دن) میں27995 منٹ30 سیکنڈ۔ اگرروزانہ کے1440 منٹس میں سے رات کی نیند کے540 منٹس (9 گھنٹے)نکال لیے جائیں تو باقی بچنے والے 900 منٹس کا 8.5 فیصد ٹائم سوشل میڈیا استعمال کرنے میں گزار ا جاتا ہے۔ یاں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین اپنے روزانہ فعال وقت (active time) کا 8.5 فیصدسوشل میڈیا پر صرف کرتے ہیں۔
٭ پاکستان میں ایک سوشل میڈیا صارف روزانہ اوسطً ایک گھنٹے16منٹ اور42 سیکنڈ سوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ اس طرح وہ ایک سال میں 466 گھنٹے 35 منٹ30 سیکنڈ سوشل میڈیا کے استعمال میں لگاتے ہیں۔یوں ایک پاکستانی اپنی تمام عمر میں اوسطً 31261 گھنٹے38 منٹ 30 سیکنڈسوشل میڈیا پر خرچ کرتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ایک پاکستانی کی اوسط عمر67 سال یعنی 586920 گھنٹے ہے۔24 گھنٹے ایک دن اور 8760 گھنٹے ایک سال میں ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک میں ایک سوشل میڈیا صارف اپنی پوری زندگی میں تقریباًساڑھے تین سال طوالت پر مشتمل عرصہ سوشل میڈیا پر صرف کرتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کے پیمانے کو مد نظررکھا جائے توپاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والا کوئی بھی فرد اپنی48 سالہ فعال زندگی کے 420480گھنٹوں میں سے22396 گھنٹے اور 24 منٹ یعنی اپنی فعال زندگی کے کل وقت کا 5.32 فیصد۔ اور اپنی فعال زندگی کے اڑھائی سال کا عرصہ ہے سوشل میڈیا کی نذر کردیتا ہے۔
٭ اگر13 سال کی عمر سے60 سال کی عمرتک کے فعال ایج گروپ کی420480گھنٹے عمر کے دورانیہ میں رات کی نیند کے 157680گھنٹے نکال لیے جائیں توباقی262800 گھنٹوں میں سے 22396 گھنٹے24 منٹ فعال زندگی کا فعال وقت پاکستانی سوشل میڈیا کے استعمال پر گزار دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کیا کہتے ہیں؟
٭ سید محمد ذکی، کوئٹہ
سوشل میڈیا دور جدید میں انفارمیشن کی دنیا میں ایک حیرت انگیز اضافہ ہے۔ آج جس کسی ہاتھ میں سمارٹ فون ہے وہ سوشل میڈیا کے میدان کا کھلاڑی ہے۔ معلومات اور خیالات کا ایک طوفان ہے جو ہر کسی کو بہائے لیجارہا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جتنے اسکے مثبت پہلو ہیں اتنے ہی منفی پہلو بھی ہیں۔ آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا جو تصور صحافت کی دنیا میں عام تھا سوشل میڈیا مگر اس تصور پہ عمل کرتا دکھائی نہیں دیتا اور اسی بناءپر اسکی صورت ایک دو دھاری تلوار کی سی ہوچکی ہے جسکا بے احتیاطی سے استعمال معاشرے کیلئے مہلک اور خطرناک ہے۔ گویا یہ کسی بچہ کے ہاتھ میں ایک کھلونا بم کی طرح ہے جو اسکی خوبصورتی سے مبہوت ہو کر اس سے کھیلتا ہے مگر اسکی تباہ کاری سے بے خبر ہوتا ہے۔ پرنٹ میڈیا میں ایڈیٹر کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی جو ایک فلٹر کا کام دیتا تھا۔ خبریں اور معلومات اس فلٹر میں چھن چھن کر قارئین تک پہنچا کرتی تھیں۔ اسی بنیاد پر ایڈیٹر کی ردی کی ٹوکری کو ایک خاص مقام حاصل تھا جو خبر میں موجود سارا زہر ساری نفرت اپنے اندر سمو لیا کرتی تھی۔ مگر سوشل میڈیا کے وسیع و عریض میدان میں دور دور ایسا کوئی ایڈیٹر ہے نہ اسکی ردی کی ٹوکری لہذا معلومات و خبروں کا فلٹر ہونا ممکن نہیں۔ بعض ریاستوں نے اگرچہ اس حوالہ سے کچھ سائبر قوانین وضع کئے ہیں مگر وہ نہ موثر ہیں اور نہ کافی۔سوشل میڈیا جس میں فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، واٹس اپ سب شامل ہیں معاشرہ پر صرف اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ اب معاشرے کو ” ہانٹ” کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی ایک ٹوئٹ ایک بلاگ یا ایک تحریر پلک جھپکتے ملک بھر میں جاری کسی بھی بحث کا رخ موڑڈالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ایسا میڈیم ہے جس کے نہ کوئی قواعدہیں نہ ضوابط، گویا آپ ایک لمبی شفاف سڑک پر اپنے خیالات کی گاڑی دوڑانے میں آزاد ہیں اور سوائے سیلف کنٹرول کے کوئی ایسا سپیڈ بریکر نہیں جو آپکو روک سکے آپکی رفتار کم کرسکے اور یہی تیز رفتاری حادثات کا باعث ہے۔سوشل میڈیا کا استعمال اگر مثبت انداز میں ہو اسے پیغام رسانی اور اظہار خیال کیلئے استعمال کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ یہ بہت تعمیری میڈیم ثابت ہو مگر اسکا بغیر تربیت غیر منظم انداز میں استعمال افراد سے لیکر معاشرے بھر کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے بلکہ ہورہا ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں جو پہلے ہی نسلی علاقائی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے سوشل میڈیا کی صورت بسنت کے ایسے تہوار کی سی ہے جہاں اپنے اپنے کوٹھوں پر چڑھ کر ہم اپنے اپنے خیالات کی رنگ برنگی پتنگیں اڑا رہے ہیں اور ایک دوسرے سے پیچ لڑا رہے ہیں۔ ایک جانب جہاں ایک دوسرے کا پیچ کاٹنے پر ڈھول تاشے بج رہے ہیں مٹھائیاں بٹ رہی ہیں وہیں اس ڈور سے معصوموں کے گلے بھی کٹ رہے ہیں اور ماتم بھی جاری ہے۔ مگر ہم جان نہیں پاتے کے ہمارے خیال کی ڈور نے دور کتنے گلے کاٹ ڈالے کتنے گھر اجاڑ ڈالے۔ حتمی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے اور اسکا واحد راستہ سیلف کنٹرول ہے۔
٭ محبوب سرور، کراچی
باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا استعمال دونوں طرح ہورہا ہے۔البتہ تعمیری استعمال کی شرح زیادہ ہے۔ چونکہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔لہذا کسی بھی منفی یا غلط سوچ کو پسند کرنے کا رجحان بھی کم ہوا ہے۔اور اس کا براہ راست فائدہ تعمیری یا مثبت استعمال کو ہوا ہے۔ہمارے یہاں کیاپوری دنیا میں سوشل میڈیا آزاد ہے۔کیونکہ یہ کسی ادارے کسی آرگنائزیشن کے ماتحت نہیں۔ لیکن اس کے لیے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ اگرچہ ملک میں سماجی، اخلاقی اور ذاتی حوالوں سے Cyber Act موجود ہیں۔ اور ان پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے لیکن انھیں مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارا مذہب ہمیں دوسروں سے اچھے طریقے سے بات کرنے کا درس دیتا ہے۔ہمیں ضرور سوشل میڈیا کا استعمال کرنا چاہیئے لیکن اُن تمام ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے کہ ہم مسلمان اور ایک مہذب شہری ہیں۔ اسی طرح حکومت بھی سوشل میڈیا تک رسائی مزید ممکن بنائے اور قوانین پر عملدرآمدکو یقینی بنائے۔
٭ جویریہ مقبول، اسلام آباد
ملک میں سوشل میڈیا کا کردار زیادہ تر تعمیری ہے۔ لوگ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں اور جو لوگ اخبارات پڑھنے اور ٹیلی ویژن دیکھنے کے لیے وقت نہیں نکال سکتے وہ سوشل میڈیا کی مدد سے دنیا میں رونماہونے والے واقعات کے بارے میں جان سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی رائے کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے۔ لیکن ہمارے یہاں یہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہے۔بچے بچے کی اس تک رسائی ہے اور ہر طرح کی بات کا اظہار کرنے کے لیے مواقع موجود ہیں۔نہ صرف الفاظ کی صورت میں بلکہ صوتی اور تصویری اظہار رائے سوشل میڈیا پر کیا جاسکتا ہے۔لہذا اس کے استعمال کے حوالے سے ضابطہ اخلاق ہونا چاہیئے۔ مگر اس بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد ہوسکے گا کہ نہیں۔کچھ گھروں کی حد تک تو شاید حد بندی ہو۔مگر ملکی سطح پر شاید ممکن نہ ہوسکے۔اس سلسلے میں یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے حدودو قیود کا تعین کرے اور معاشرے میں غلط معلومات اور خبروں کو پھیلنے سے روکے اس حوالے سے تربیتی پروگرامزشروع ہونے چاہیئے۔ صارفین کے لئے یہ ضروری ہے کہ کوئی بھی بات ، معلومات یا خبر سوشل میڈیاپر وائرل کرنے سے پہلے اسکی تصدیق کریں اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔لوگ آج کے دور میں پابندی برداشت نہیں کرتے اور آزادی پسند ہیں۔مگر اس آزادی کا فائدہ تب ہی ہے جب احساس ذمہ داری ہوگی لوگ اپنے ہر عمل کی خود جانچ کریں۔
٭ غنی الرحمان، گاﺅں کاٹن دوش خیل، تحصیل تیمر گرہ، ضلع دیر پائین، خیبر پختونخواہ
سوشل میڈیا کا کنٹرول چونکہ ہر خاص و عام کے ہاتھ میں ہے۔اس لیے اس کا استعمال ہر طرح سے ہے۔ یعنی تعمیری اور غیر تعمیری دونوں صورتوں میں ہے۔کرونا وائرس سے بچاﺅ اس کی دنیا اور ملک میں موجود لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے آگاہی آج کے حالات میں سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی ایک بہت واضح علامت ہے ۔دوسری طرف میری نظر میں پاکستان کے تناظر میں سوشل میڈیا کا غیر تعمیری استعمال اس کے تعمیری استعمال سے زیادہ ہورہا ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ آٹھ دس سال سے پاکستان کی سیاست میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال تمام حدود و قیود پار کر چکا ہے۔سیاسی مخالفین کے جوشیلے کارکنان اور سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کے کارندے کھلم کھلا ایک دوسرے کے خلاف فیس بک، ٹویٹر، وٹس ایپ، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گالم گلوچ، طعنہ زنی،من گھڑت باتوں،مخالفین کے عیوب کا پرچاراور ذاتیات پر ہمہ وقت حملوں میں مصروف نظر آرہے ہوتے ہیں۔اس طرزعمل سے ہمارے معاشرے میں رہی سہی اخلاقیات کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔سوشل میڈیا کو مختلف حوالوں سے جھوٹی خبروں، افواہوں،قیاس آرائیوں، سنسنی پھیلانے اور دھوکہ دہی کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔اس کے علاوہ ملک میں سوشل میڈیا کو لسانی قوم پرستی، فرقہ پرستی،مذہبی منافرت پھیلانے اور غیر اخلاقی حوالوں سے یعنی فحاشی اور عریانی پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔جس بنا پر اس کا منفی استعمال غالب نظر آرہا ہے۔ ماہرین کی نظر میں سوشل میڈیا فطری طور پرآزاد ہے۔کیونکہ اس کو منظم کرنے اور چلانےکے لیے نہ تو باضابطہ طور پر کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے قائم ہیں اور نہ سوشل میڈیا کو اس طرح ریگو لیٹ کیا جاتا ہے۔ جس طرح سے ایک اخبار ،ریڈیو اور ٹی وی چینل کے دفتراور اُن سے متعلقہ امور کو پیشہ ورانہ اور منظم اندازیں چلایا جاتا ہے۔اور وہاں ذمہ دار شخصیات اور انتہائی تربیت یافتہ اور پیشہ ور کارکن باہمی ربط اور تعاون سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے علمی اور نظریاتی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا آزاد ہے اور درحقیقت عملی لحاظ سے بھی کافی آزاد نظر آرہا ہے۔ورنہ اس کا منفی استعمال جس کا پہلے ذکر کیا گیا اتنا زیادہ نہ بڑھتا۔سوشل میڈیا اور اس کے استعمال کے حوالے سے ضابطہ اخلاق واضع کرنے اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے عمومی طور پرتین نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔ ایک مکتبہ فکر سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے کسی بھی قسم کے ضابطہ اخلاق بنانے اور اس پر عمل درآمدکا سرے سے ہی مخالف ہے۔اس مکتبہ فکر کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے پختہ ذہن ہوجائیں گے اور سوشل میڈیا کا مفید اور کارآمد استعمال درست سمت میں گامزن ہوجائے گا۔دوسرا مکتبہ فکرسوشل میڈیا کے حوالے سے سخت اور منظم قسم کے ضابطہ اخلاق اور اس پر مکمل عملدرآمد کا حامی ہے۔ ان خیالات کے حامی افراد پر رجعت پسندانہ اور فرسودہ سوچ رکھنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔تیسرا مکتبہ فکر وہ ہے جو سوشل میڈیا کے حوالے سے معتدل اور کارآمد قسم کے ضابطوںاور قوانین واضع کرنے کا حامی ہے ۔ جو انتہائی غورو خوص اور معاشرے میں موجود اس حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی مشاورت سے جمہوری انداز میں بنایا گیا ہو۔جس کا مقصد صرف سوشل میڈیا پر غیر ضروری پابندیوں کا اطلاق نہ ہوبلکہ اس کا انتہائی منفی اور تخریبی استعمال کو روکنا مقصودہو۔میں ذاتی طورپر اس تیسرے نقطہ نظر سے متفق ہوں۔اس سلسلے میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے سہولیات کو مزید بہتر بنائے اور اُنھیں فروغ دے اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیاکے منفی اور تخریبی استعمال کو ہر ممکن حد تک روکنے کو یقینی بنائے اور اس حوالے سے متعلقہ قوانین اور ضابطوں کو مزیدبہتر بنائے۔ صارفین کے لیے یہ نقطہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اگر وہ سوشل میڈیا کے استعمال کے تعمیری پہلوﺅں کو مقدم رکھیں گے اور غیر تعمیری استعمال سے احترازکریں گے تو حکومت کو بھی سوشل میڈیا پرغیر ضروری پابندیوںاور قدغنوں کی طرف نہیں جانا پڑے گا۔
٭ ارشد حسین جگنو ، گلگت
سوشل میڈیا نے کسی حد تک عوام کو سہولت فراہم کی ہے لیکن معلومات کی بے جا ٹریفکنگ نے سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنے میں مشکلات کھڑی کردی ہے اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے تعمیری یا غیر تعمیری استعمال کی بات کریں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شہری صحافت نے نہ صرف صحافتی معیار اور ضابطہ اخلاق کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ اخلاقی طور پر اس حد تک گر چکے ہیں کہ چند کمنٹس اور لائیک کیلئے شریف النفس انسان کی کردار کشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔یہاں تک کہ فیک آئی ڈیز اور پیجز بنا کر ایک دوسروں کی عزت اچھالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے اور اس دوڑ میں سیاسی و مذہبی جماعتیں سرفہرست ہیں۔ ہر کوئی بندہ سماج کے مثبت پہلو کے بجائے منفی پہلوﺅں کو اجاگر کرنے میں لگا ہوا ہے انھی پہلوﺅں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال تعمیری کم تخریبی زیاد ہونے لگا ہے۔سوشل میڈیا کی آزادی سے پہلے میں آزادی اظہار رائے پر بات کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔اظہارِ رائے کی آزادی کا مفہوم تو یہ ہے کہ ہر انسان کو کھل کر اپنا نکتہ نظر بیان کرنے، سوال کرنے، اختلاف اور تنقیدکرنے کی اجازت ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں ہم کسی کی ذات، مسلک ،مذہب یا قوم پر بے جا انگلی اٹھا کر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں اس تناظر میں اگر ہم پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین اور آزادی کی بات کریں تو ہر بندہ اظہار رائے کی آزادی سے دو قدم آگے بڑھ کر سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے یہاں تک کہ سوشل میڈیا کا کوئی بھی ٹول استعمال کرکے عزت نفس کو مجروح کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے جو کہ قابل افسوس ہے اور سوشل میڈیا مغربی ممالک سے زیادہ پاکستان میں آزاد ہے یہاں لوگ آئے روز سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسروں پر کفر کے فتوے داغ دیتے ہیں اس لئے میں عموماً اظہار رائے کی آزادی کی جگہ ”تخریبی آزادی“ کا لفظ استعمال کرتا ہوں۔اب چونکہ سوشل میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق کی بات آئی ہے تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ضابطہ اخلاق کے بغیر زندگی کا کوئی بھی شعبہ نہ ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی اس شعبے سے جڑے لوگ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن یہاں خدشہ بھی حق بجانب ہے کہ کہیں اسی ضابطہ اخلاق کی آڑ میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہ لگائی جائے۔ بدقسمتی یہ کہ ہم نے سوشل میڈیا کو ملک میں اجازت تو دی ہے مگر سوشل میڈیا کی تعلیم و تربیت پرکوئی توجہ نہیں دی ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل سوشل میڈیا کو صحیح استعمال ہی نہیں کر پارہی ہے۔ اس لئے حکومتی ذمہ داری بنتی ہے کہ سوشل میڈیا کے قوانین کے حوالے سے جو ابہام پائے جاتے ہیں ان کو جلد از جلد دور کر کے سوشل میڈیا پر پابندی کی بجائے اسی سوشل میڈیا کو اپنی طاقت بنا کے سوشل میڈیا صارفین میں احساس ذمہ داری پیدا کرے۔
٭ محمد فاروق بھٹی، لاہور
پاکستان میں سوشل میڈیا کا جتنا بھی تعمیری استعمال ہے وہ سب غیرارادی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق مڈل، لوئر مڈل کلاس اور کم تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ یہ طبقہ یو ٹیوب پر دلچسپ وڈیوز اور غیر ضروری وڈیوز دیکھتا ہے اور بہت کم giving end پر آتا ہے۔ یو ٹیوب سے پیسہ کمانے کے شوقین غیر ضروری موضوعات پر انتہائی دلچسپ وڈیوز بنا کر پوسٹ کرتے ہیں، کچھ غیراخلاقی ڈومین میں بھی گھس جاتے ہیں۔ چوری کی وڈیوز بھی پوسٹ کرنے کا کافی ٹرینڈ ہے۔ موناٹائزیشن کے لالچ میں یو ٹیوبر ٹھرکی قسم کا مواد بھی بھرتے رہتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام وغیرہ پر جعلی اکاﺅنٹس کی بھرمار ہے اور یہاں بھی کچھ اگر تعمیری ہو رہا ہے تو ہے وہ بھی غیر ارادی۔فرقہ واریت جیسے نازک موضوعات میں عام لوگ بڑے منصوبہ سازوں کی آگ کا ایندھن بنتے ہیں۔ عام لوگ عام طور پر کسی پوسٹ سے مشتعل ہو کر اپنا ردِعمل دیتے ہیں اور سوشل میڈیا کو خاص مقاصد کے لئے استعمال کرنے والوں کی خوراک بنتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین تعمیری و غیر تعمیری کی بحث سے آزاد ہیں اور صرف لطف و لذت کشید کرنے کو اس میڈیم کو استعمال کرتے ہیں۔ بڑے کینوس پر دیکھنے سے یہ غیر تعمیری استعمال کے کھاتے ہی میں پڑے گا۔ہمارے ہاں سوشل میڈیا آزاد ہی نہیں شترِ بے مہار ہے اور بریک فیل گاڑی کی طرح ڈھلوان سے پھسلے چلا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا ونگز کی کمپینز کا شکار عام صارف بظاہر خود کو آزاد محسوس کرتا ہے لیکن اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کسی ماہر اسٹریٹجسٹ کی منصوبہ بندی کا ایک عنصر بن گیا ہے۔ یہ آزادی صارف سے زیادہ ان اداروں، منصوبہ سازوں اور سیاسی و سماجی یا کاروباری یونٹس کی آزادی ہے۔ سوشل میڈیا ایپس کے بنانے والے اور ان سے پیسہ کمانے والے ان کو بزنس ایپس کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ فیس بک جیسی مشہور زمانہ ایپ کمیونٹی اسٹینڈرڈز کی خلاف ورزی جیسے خود ساختہ اور بیہودہ الزامات کے تحت کسی بھی صارف کا نہ صرف اکاﺅنٹ بند کر دیتی ہے بلکہ لاکھوں ڈالرز کا ڈیٹا بھی ہڑپ کر لیتی ہے۔ چند ایشوز تو ایسے ہیں کہ ان پر فوراً ہی ایکشن لیا جاتا ہے اور صارف کے تمام حقوق سلب کر لئے جاتے ہیں۔ اسرائیل اور انڈیا کے زیرِ اثر ہونے کے باعث آپ کو یہاں برہان وانی کا لفظ لکھنے پر یا حماس کے شیخ احمد یاسین کے ذکر پر بھی اکاﺅنٹ سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ میرا گیارہ سالہ پرانا ذاتی اکاﺅنٹ جس میں بیشمار ذاتی ڈیٹا تصویریں، تحریریں اور قیمتی مواد شامل ہے کو محض کشمیری لاک ڈاﺅن کی مخالفت پر بند کیا گیا ہے اور بار بار کے رابطے کے باوجود بحال کیا گیا نہ ہی جواب دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی آزادی پر بڑے اجارہ دار گروپس غیر اعلانیہ پالیسیوں کی بنیاد پر یکطرفہ خفیہ قدغن لگاتے ہیں جس کا بعض اوقات صارف کو علم تک نہیں ہوتا۔ گزشتہ امریکہ انتخابات میں فیس بک صارفین کا ڈیٹا Analytica” “Cambridge کو بیچنے کا اعترافِ جرم مارک زکربرگ باقاعدہ طور پر امریکی کانگریس کی خصوصی کمیٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رو کر کر چکا ہے۔نیویارک سے رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاشیو کوٹز جو کمیٹی کی ہیڈ تھی کے سامنے اداکاری کر کے کچھ محفوظ تو ہوا مگر جن صارفین کا ڈیٹا چوری کرکے آگے بیچا گیا تھا ان کو کوئی compensation نہیں دی گئی۔ فیس بک کا صارف بظاہر آزاد اور عملاً پابندیوں میں جکڑا ہوا ایسا شخص ہے جس کی پرائیویسی کا کوئی احترام کہیں موجود نہیں۔ خصوصاً ہم پاکستانیوں کے لئے کوئی فورم ایسا موجود نہیں جہاں فیس بک کی بدمعاشیوں کے خلاف رجوع کیا جا سکے۔ ضابطہ اخلاق تو ہر میڈیم اور میڈیا کے لئے ہونا چاہیئے اور عموماً ہوتا بھی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عموماً ایسے ضابطہ اخلاق بناتے ہوئے صارفین کی رائے اور حقوق کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا۔ سوشل میڈیا مالکان ہر سوسائٹی کی سماجی روایات کا احترام کرتے ہیں اور پہلے سے بہتر قواعد و ضوابط کے تحت ہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ معاملہ وہاں آ کر بگڑتا ہے جب نفرتی مواد کو بروقت قابو نہیں کیا جاتا یا کسی ادارے کے paid سوشل میڈیا ورکرز کسی مخالف کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ شروع کرتے ہیں۔ دروغ گوئی اور افواہ سازی اور افواہ بازی کے خلاف قواعد و ضوابط بننے چاہیئے اور ایسا ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے جس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے اورLaw of Land باآسانی عمل درآمد کر سکے۔حکومت کو عوام کے تحفظ اور معلومات کی صحیح ترین رسائی یقینی بنانے کی کوشش کرنا چاہیئے۔ سوشل میڈیا کے عام صارفین تو پہلے ہی مظلوم ہیں۔ ان کے لئے ذمہ داریوں کا کیسا تعین کرناہاں البتہ فرد سے جب بات ادارے تک پہنچے تو اسے سرکار کی اجازت سے مشروط ہونا چاہیئے جیسے سیاسی جماعتیں اور مسلکی فرقہ وارانہ پریشر گروپس حکومتی اجازت کے بغیر اپنا اکاﺅنٹ آپریٹ نہ کر سکیں۔ ان کی باقاعدہ اجازت، سالانہ فیس اور لائسنس ہونا چاہیئے۔
سوشل میڈیا کے تعمیری استعمال کی ایک کہانی
٭ روحان کی پیدائش 29 جولائی 2017 کو ہوئی ۔پیدائش کے پانچویں دن سانس میں دشواری کے سبب روحان کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا۔ یرقان کی تشخیص کے بعد علاج کے دوران اسکے مختلف ٹیسٹ ہوئے جس سے ظاہر ہوا کہ روحان دل کے عارضہ میں مبتلا ہے جو کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلاکیس ہے۔جسکو میڈیکل زبان میں آریٹک آرٹریشیا کہتے ہیں۔روحان کے والد کا تعلق آئی ٹی اور والدہ کاتعلق ابلاغ عامہ سے ہے۔والدین نے مرض کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر موجود ریسرچ پیپرز کو پڑھا ۔ ملک کے مایاناز کارڈیالوجسٹ سے بھی رابطے میں رہے جس سے واضح ہوا کہ روحان کی پہلی سرجری ”ناروڈ” ہوگی جو کہ مشکل ترین سرجریز میں سے ایک ہے اور پاکستان کا میڈیکل انفرااسٹرکچر اس نوعیت کی سرجریز کو سنبھال نہیں سکتا ۔روحان کے پاس صرف ایک ماہ کی مدت تھی اس اثنا ءمیں اسکا آپریشن ہونا اسکی زندگی کے لیے ضروری تھا ۔والدین نے دنیا کے مختلف سرجن اور کارڈیولوجسٹ سے سوشل میڈیا کے ذریعے رسائی حاصل کی جن میں ای میل سروس، فیس بک، ٹویٹر اور مختلف ہسپتال کی آن لائن پورٹلز وغیرہ شامل تھے۔جس سے اندازہ ہوا کہ یہ ایک مہنگی سرجری ہے کیونکہ اس میں رسک فیکٹر زیادہ ہے اور مریض کا آئی سی یو کا دورانیہ طویل ہے۔ایک عام آدمی کے لئے اس کاخرچہ اٹھانا مشکل ہے۔یوںوالدین نے فیس بک پر Help Baby Rohaan کے نام سے ایک پیج بنایا اور یہیں سے اس campaign کا عملی آغاز ہوا ۔ شروعات میں والدین کاسارا زور اس طرف رہاکہ وہ خود کتنا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔ سرجری کے لئے جو ممالک سرفہرست تھے ان میں جرمنی، اٹلی، بوسٹن ،برمنگھم اور انڈیا شامل تھے ۔ اخراجات اور Expertise کی وجہ انڈیا کو منتخب کیا گیا(روحان کیلئے اس کنڈیشن میں لمبا سفر بھی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا)۔پاسپورٹ کاحصول ،نادرا کا اندراج اور تمام مراحل حل کرتے کرتے 22 دن ہوچکے تھے۔اس دوران انڈیا کے میڈیکل ویزے بند تھے ۔جس کے لئے ٹویٹر پر helpbabyrohaan #کے نام سے ایک اور campaign کا آغاز کیا گیا۔ جس کا مقصد میڈیکل ویزہ کا حصول تھا کچھ جان پہچان والے اور دوستوں کے ساتھ شروع کی گئی اس مہم نے کچھ گھنٹو ں میں ہی trend کی شکل اختیار کرلی۔ جسکے نتیجے میں انڈیا کی وزیر خارجہ شمشا سوراج نے فوری طور پر اپنے tweet کے ذریعے پاکستان میں موجود انڈین ایمبیسی کو ویزہ جاری کرنے کا کہا ساتھ ہی twitter سے ہی دنیا کہ کچھ اخبارات نے بھی اس خبر کو اگلے دن شائع کیا ۔6 ستمبر 2017 کو فلائیٹ کے ذریعے روحان اپنے والدین کے ہمراہ دہلی پہنچا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ اُن کاسامان لاہور ائیرپورٹ پر ہی چھوڑ دیا گیا ہے جس پر والدین نے پی آئی اے کو ٹویٹ کیا ۔ روحان کی اسٹوری پہلے سے ہی trend میں تھی تو پی آئی اے نے بروقت سامان پہنچانے کا بندوبست کیا۔ 8 ستمبر 2017 کو روحان کی کامیاب سرجرری ڈاکٹر راجیش شرما نے کی۔روحان کی حالت نازک ہونے کی وجہ سے اسکا آئی سی یو کا دورنیہ طویل رہا ۔جس کی وجہ سے والدین کے وسائل ختم ہوگئے توفیس بک پیج پر امداد کی اپیل کی اور ساتھ ہی crowd funding شروع کی گئی۔جس کے نتیجے میں بہت سے جاننے والے مدد کے لئے سامنے آئے۔روحان کے ٹھیک ہونے کے بعد فوری طور پر ایک سال کے دورانیہ میں دوسری سرجری کا بتا دیا گیا۔والدین نے فیس بک کے پیج کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے امداد کی اپیل کی ۔ اردو پوائنٹ جیسے مختلف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے روحان کی اسٹوری کو cover کیا گیا۔والدین نے اپنی زندگی اور روحان کے حوالے سے مختلف پیکیجز بنا کر سوشل میڈیا کے مختلف platform پر Share کئے۔سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم میڈیا نے بھی روحان کی اسٹوری کو جگہ دی۔دوسری سرجری کے وقت بھی جب ویزہ کے لئے پاسپورٹ بھیجے گئے تو پچھلی twitter campaign کے توسط سے ویزہ جاری کیا گیا۔ اب دوسری کامیاب سرجری کے بعد روحان کے والدین نے فیس بک پیج استعمال کرتے ہوئے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا ۔
سوشل میڈیا کے غیر تعمیری استعمال دو کہانیاں
٭ خرم بابر لاہور سے ہیں۔ کینسرکے مرض کو شکست دے چکے ہیں۔ سوشل ورکر اور موٹی ویشنل اسپیکر ہیں۔ کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال اور کینسر کے مرض کے علاج اور احتیاط کے بارے میں ایک فلاحی تنظیم کینسر فائٹنگ فرینڈز کے روح رواں ہیں۔ وسیع حلقہ احباب کے مالک ہیں۔ اُن کے ذاتی فیس بک اکاﺅنٹ کا لاگ اِن اور پاس ورڈ کسی نے چوری کرنے کے بعد اُن ایک تصویر اس تحریر کے ساتھ اُن ہی کے ذاتی فیس بک اکاﺅنٹ پر پو سٹ کردی کہ ” خرم بابر اب نہیں رہے“ ۔صبح سویرے خرم کا نمبر بند ملنے سے اُن کے حلقہ احباب میں زیادہ تشویش کی لہر دوڑی اور اکثر دوست اُن کے گھر پہنچے۔ جہاں معلوم ہوا کہ وہ خیریت سے ہیں اور کسی نے یہ خوفناک مذاق کیا ہے۔ خرم اپنے والدین اور بھانجیوں کا واحد سہارا ہیں۔ اُن کی وفات کی اس جھوٹی خبر نے اُن کے گھر والوں کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔خصوصاً اُن کی دو چھوٹی بھانجیوں پر جو اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے ماموں یعنی خرم بابر کے زیر کفالت اورزیر پرورش ہیں۔
٭ ڈاکٹر زاہد یوسف،سنٹر فار میڈیا اینڈ کمیونیکشن اسٹڈیز، یونیورسٹی آف گجرات کے چیئر مین ہیں۔ فیس بک پر اپنا ذاتی اکاﺅنٹ رکھتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں اِن کے فیس بک فرینڈز ہیں۔کچھ عرصہ قبل اُن کے نام اور تصویر کے ساتھ فیس بک پر ایک جعلی اکاﺅنٹ بنا یا گیا۔ اور اُن کے اسٹوڈنٹس اور دوستوں کو دوبارہ سے فرینڈز ریکویسٹ آنا شروع ہوئیں۔جو جو وہ ریکویسٹ Acceptکرتا ۔ اُسے فیس بک میسجز پر حال احوال کے بعد یہ کہا جاتا کہ وہ (یعنی ڈاکٹر زاہد یوسف)ابھی کسی ایسی جگہ ہیں جہاں بینک نہیں یا اے ٹی ایم نہیں اور انھیں ایمرجنسی میں کچھ رقم کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ (جو عموماً ہزاروں میں ہوتی )آپ فلاں نام پر کسی بھی موبائل کمپنی کی کیش ڈلیوری سروسز کے ذریعے یہ رقم بھجوا دیں۔ وہ یونیورسٹی پہنچ کر رقم واپس لوٹا دیں گے۔ یوں اُن کے بے شمار طالب علم اور دوست اس جعل سازی کا شکار بنے اور مالی نقصان اُٹھا بیٹھے۔جب چند دوستوں نے ڈاکٹر صاحب سے دوسری فرینڈ ریکوسٹ کو Accept کرنے سے پہلے پوچھا کہ کیا یہ اُن کی جانب سے بھیجی گئی ہے تو وہ اس سے لاعلم نکلے۔اور پھر جب بعض اسٹوڈنٹس اور دوستوں نے اُنھیں فون کر کے بتایا کہ اُنھوں نے جس فرد کو پیسے بھیجنے کا کہا تھا اُنھیں پیسے بھجوادیئے گئے ہیں کیاآپ کو مل گئے ہیں تو ڈاکٹر صاحب کو پتا چلا کہ اُن کے نام پر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
٭….٭….٭