Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

بندہ سوشیالوجی میں ایم اے ہو اور بائیں بازو کی معروف اشتراکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی کراچی شاخ کا سربراہ بھی ہو، دہلوی اردو کی مسالے دار چٹ پٹی کراری زبان میں اپنے تند و تیز لہجے سے طوفان بھی برپا کرسکتا ہو اور اپنی کٹیلی مرچیلی کاٹ سے مخالف نظریات والے کا سینہ بریاں بھی کر سکتا ہو، کال مارکس ٹرائٹسکی اور لینن کے اشتراکی افکار سے جس نے وقت کی ہئیت حاکمہ سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی پایا ہو اور اپنی گھریلو تربیت اور استغنا مزاجی کے سبب وہ آدمی مقتدرہ کے مقابلے میں عام عوام اور گرے پڑے لوگوں کے ساتھ جینے مرنے کے طور طریقے بھی سیکھے ہوئے ہو ایسے انسان کے اندر اگر کسی وقت مذہب کی انقلابی روح بھی گھر کر جائے تو سوچئے کیا وہ خر و خروس پال اصطبلچمنٹ کے ساتھ کبھی خوش رہ سکتا ہے؟
سید منورحسن ایک ایسے ہی مجاہد تھے تھرتھراتا پارے کی طرح متحرک اور بے جنبش پہاڑ کی طرح صاحب عزیمت۔ ایک دفعہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے تو وفاداری بہ شرط استواری کے تحت اشتراکی دور کی عملیت اور پسے ہوئے طبقات کے دکھوں کی متاع کو اسلام سے پائی درمندی اور مخلوق خدا کے لئے دلسوزی کو اپنے طبعی ہنر سے مزید دہ چنداں کیا! ان کی پہلے اور بعد کی عملی زندگی ہمشہ فیض کے ان مصرعوں کی تصویر رہی۔
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
غریبوں سے محبت سیکھی
قہرمان مزاجوں اور طاقت زادوں کے لیے جماعت اسلامی میں سید منور حسن سے زیادہ تند خو اور صاعقہ خروش آواز شاید ہی کوئی اور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے دور امارت میں وہ اوپر والوں کی نظر میں کبھی پسندیدہ نہیں رہے اور سید کو بھی جب موقع ملا انہوں نے ایک ہی ہلے میں اگلے پچھلے حساب بیباک کیے۔
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ پھر کبھی جماعت اسلامی کے امیر منتخب نہ ہو سکے۔
جماعت اسلامی میں ان جیسا مقرر بھی کوئی نہیں تھا۔ مخالف جتھوں میں گھس انہی کے منچ پر اپنے خطابت کے زور پر ہوا کا رخ بدل دینا انہیں خوب آتاھ تھا۔ ان کے جچے تلے تیکھے کٹیلے جملوں اور جارح سوال کندہ کو تگنی کا ناچ نچانے والے ان کے پینتروں کی بڑی دھوم تھی۔ وہ پہل کبھی نہیں کرتے تھے مگر دفاعی لڑائی لڑنے کے بجائے برے کو اس کے گھر تک چھوڑنے بلکہ ننگا کرکے گھر سے نکال باہر نکال کرنے کے قائل تھے۔ ان کی یہی ضرب کراری جلالتِ فاروقی بہتوں کے دل میں کھٹکتی تھی۔
مگر دھیرج، نرمی اور حلم میں بھی وہ باکمال تھے۔ قہاروں کیلیے وہ سراپا جلال اور پچھڑے ہوؤں کیلیے نرم پروائی کا جھونکا تھے۔ خلق اور خدا کے سامنے جواب دہی اور مسئولیت کا احساس ان پر ہمیشہ غالب رہا۔ جس ماحول معاشرے اور ملک میں وزرائےاعظم تک پر سرکاری حیثیت میں ملے قالینوں کے تحفوں اور جواہرات کے زیوروں کو ماں کا دودھ سمجھ کر ہضم کر کے
دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو
کی تصویر بنے پھرتے ہوں اس معاشرے میں ایک جماعت کا امیر اپنی بیٹی کی شادی میں ملنے والے تحفوں کو اگر یہ کہہ کر ‘جماعت خزانے’ میں جمع کرا دے کہ “بیٹی یہ مجھے جماعت کے امیر کی حیثیت سے ملے ہیں ذاتی طور پر نہیں” تو حرص و ہوا کے اس مرگھٹ ماحول میں تقویٰ و انابت کہ یہ مثال سید منور حسن کی کرامت ہی شمار ہونے کے لائق ہے۔
آج اس مرد حر کا انتقال ہوگیا مگر کیا مجال ہے کسی اباحیت پسند لبرل خیال اور ترقی مآل حلقے کی طرف سے بھی کوئی کلمۂ تعزیت آیا ہو۔ ہاں اگر جماعت اسلامی کا تربیت یافتہ کوئی صالح جوان اگر کہیں اس خیمے سے رسی تڑاکر لینن و ٹرائسکی اور گرامچی وغیرہ کو پیارا ہوکر واصل بہ چی گویرا ہوگیا ہوتا تو اب تک اس کی آزادہ فکری کے نقارے پٹ چکے ہوتے!
اس درویش صفت سیادت شعار گرم گفتار اور حلم مآب مجاہد کی زندگی پر جناب فاروق عادل کی ایک خوبصورت تحریر ذیل میں ملاحظہ کیجئے۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن: کارل مارکس سے مولانا مودودی تک سفر

بندہ سوشیالوجی میں ایم اے ہو اور بائیں بازو کی معروف اشتراکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی کراچی شاخ کا سربراہ بھی ہو، دہلوی اردو کی مسالے دار چٹ پٹی کراری زبان میں اپنے تند و تیز لہجے سے طوفان بھی برپا کرسکتا ہو اور اپنی کٹیلی مرچیلی کاٹ سے مخالف نظریات والے کا سینہ بریاں بھی کر سکتا ہو، کال مارکس ٹرائٹسکی اور لینن کے اشتراکی افکار سے جس نے وقت کی ہئیت حاکمہ سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی پایا ہو اور اپنی گھریلو تربیت اور استغنا مزاجی کے سبب وہ آدمی مقتدرہ کے مقابلے میں عام عوام اور گرے پڑے لوگوں کے ساتھ جینے مرنے کے طور طریقے بھی سیکھے ہوئے ہو ایسے انسان کے اندر اگر کسی وقت مذہب کی انقلابی روح بھی گھر کر جائے تو سوچئے کیا وہ خر و خروس پال اصطبلچمنٹ کے ساتھ کبھی خوش رہ سکتا ہے؟
سید منورحسن ایک ایسے ہی مجاہد تھے تھرتھراتا پارے کی طرح متحرک اور بے جنبش پہاڑ کی طرح صاحب عزیمت۔ ایک دفعہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے تو وفاداری بہ شرط استواری کے تحت اشتراکی دور کی عملیت اور پسے ہوئے طبقات کے دکھوں کی متاع کو اسلام سے پائی درمندی اور مخلوق خدا کے لئے دلسوزی کو اپنے طبعی ہنر سے مزید دہ چنداں کیا! ان کی پہلے اور بعد کی عملی زندگی ہمشہ فیض کے ان مصرعوں کی تصویر رہی۔
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
غریبوں سے محبت سیکھی
قہرمان مزاجوں اور طاقت زادوں کے لیے جماعت اسلامی میں سید منور حسن سے زیادہ تند خو اور صاعقہ خروش آواز شاید ہی کوئی اور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے دور امارت میں وہ اوپر والوں کی نظر میں کبھی پسندیدہ نہیں رہے اور سید کو بھی جب موقع ملا انہوں نے ایک ہی ہلے میں اگلے پچھلے حساب بیباک کیے۔
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ پھر کبھی جماعت اسلامی کے امیر منتخب نہ ہو سکے۔
جماعت اسلامی میں ان جیسا مقرر بھی کوئی نہیں تھا۔ مخالف جتھوں میں گھس انہی کے منچ پر اپنے خطابت کے زور پر ہوا کا رخ بدل دینا انہیں خوب آتاھ تھا۔ ان کے جچے تلے تیکھے کٹیلے جملوں اور جارح سوال کندہ کو تگنی کا ناچ نچانے والے ان کے پینتروں کی بڑی دھوم تھی۔ وہ پہل کبھی نہیں کرتے تھے مگر دفاعی لڑائی لڑنے کے بجائے برے کو اس کے گھر تک چھوڑنے بلکہ ننگا کرکے گھر سے نکال باہر نکال کرنے کے قائل تھے۔ ان کی یہی ضرب کراری جلالتِ فاروقی بہتوں کے دل میں کھٹکتی تھی۔
مگر دھیرج، نرمی اور حلم میں بھی وہ باکمال تھے۔ قہاروں کیلیے وہ سراپا جلال اور پچھڑے ہوؤں کیلیے نرم پروائی کا جھونکا تھے۔ خلق اور خدا کے سامنے جواب دہی اور مسئولیت کا احساس ان پر ہمیشہ غالب رہا۔ جس ماحول معاشرے اور ملک میں وزرائےاعظم تک پر سرکاری حیثیت میں ملے قالینوں کے تحفوں اور جواہرات کے زیوروں کو ماں کا دودھ سمجھ کر ہضم کر کے
دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو
کی تصویر بنے پھرتے ہوں اس معاشرے میں ایک جماعت کا امیر اپنی بیٹی کی شادی میں ملنے والے تحفوں کو اگر یہ کہہ کر ‘جماعت خزانے’ میں جمع کرا دے کہ “بیٹی یہ مجھے جماعت کے امیر کی حیثیت سے ملے ہیں ذاتی طور پر نہیں” تو حرص و ہوا کے اس مرگھٹ ماحول میں تقویٰ و انابت کہ یہ مثال سید منور حسن کی کرامت ہی شمار ہونے کے لائق ہے۔
آج اس مرد حر کا انتقال ہوگیا مگر کیا مجال ہے کسی اباحیت پسند لبرل خیال اور ترقی مآل حلقے کی طرف سے بھی کوئی کلمۂ تعزیت آیا ہو۔ ہاں اگر جماعت اسلامی کا تربیت یافتہ کوئی صالح جوان اگر کہیں اس خیمے سے رسی تڑاکر لینن و ٹرائسکی اور گرامچی وغیرہ کو پیارا ہوکر واصل بہ چی گویرا ہوگیا ہوتا تو اب تک اس کی آزادہ فکری کے نقارے پٹ چکے ہوتے!
اس درویش صفت سیادت شعار گرم گفتار اور حلم مآب مجاہد کی زندگی پر جناب فاروق عادل کی ایک خوبصورت تحریر ذیل میں ملاحظہ کیجئے۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن: کارل مارکس سے مولانا مودودی تک سفر

بندہ سوشیالوجی میں ایم اے ہو اور بائیں بازو کی معروف اشتراکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی کراچی شاخ کا سربراہ بھی ہو، دہلوی اردو کی مسالے دار چٹ پٹی کراری زبان میں اپنے تند و تیز لہجے سے طوفان بھی برپا کرسکتا ہو اور اپنی کٹیلی مرچیلی کاٹ سے مخالف نظریات والے کا سینہ بریاں بھی کر سکتا ہو، کال مارکس ٹرائٹسکی اور لینن کے اشتراکی افکار سے جس نے وقت کی ہئیت حاکمہ سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی پایا ہو اور اپنی گھریلو تربیت اور استغنا مزاجی کے سبب وہ آدمی مقتدرہ کے مقابلے میں عام عوام اور گرے پڑے لوگوں کے ساتھ جینے مرنے کے طور طریقے بھی سیکھے ہوئے ہو ایسے انسان کے اندر اگر کسی وقت مذہب کی انقلابی روح بھی گھر کر جائے تو سوچئے کیا وہ خر و خروس پال اصطبلچمنٹ کے ساتھ کبھی خوش رہ سکتا ہے؟
سید منورحسن ایک ایسے ہی مجاہد تھے تھرتھراتا پارے کی طرح متحرک اور بے جنبش پہاڑ کی طرح صاحب عزیمت۔ ایک دفعہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے تو وفاداری بہ شرط استواری کے تحت اشتراکی دور کی عملیت اور پسے ہوئے طبقات کے دکھوں کی متاع کو اسلام سے پائی درمندی اور مخلوق خدا کے لئے دلسوزی کو اپنے طبعی ہنر سے مزید دہ چنداں کیا! ان کی پہلے اور بعد کی عملی زندگی ہمشہ فیض کے ان مصرعوں کی تصویر رہی۔
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
غریبوں سے محبت سیکھی
قہرمان مزاجوں اور طاقت زادوں کے لیے جماعت اسلامی میں سید منور حسن سے زیادہ تند خو اور صاعقہ خروش آواز شاید ہی کوئی اور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے دور امارت میں وہ اوپر والوں کی نظر میں کبھی پسندیدہ نہیں رہے اور سید کو بھی جب موقع ملا انہوں نے ایک ہی ہلے میں اگلے پچھلے حساب بیباک کیے۔
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ پھر کبھی جماعت اسلامی کے امیر منتخب نہ ہو سکے۔
جماعت اسلامی میں ان جیسا مقرر بھی کوئی نہیں تھا۔ مخالف جتھوں میں گھس انہی کے منچ پر اپنے خطابت کے زور پر ہوا کا رخ بدل دینا انہیں خوب آتاھ تھا۔ ان کے جچے تلے تیکھے کٹیلے جملوں اور جارح سوال کندہ کو تگنی کا ناچ نچانے والے ان کے پینتروں کی بڑی دھوم تھی۔ وہ پہل کبھی نہیں کرتے تھے مگر دفاعی لڑائی لڑنے کے بجائے برے کو اس کے گھر تک چھوڑنے بلکہ ننگا کرکے گھر سے نکال باہر نکال کرنے کے قائل تھے۔ ان کی یہی ضرب کراری جلالتِ فاروقی بہتوں کے دل میں کھٹکتی تھی۔
مگر دھیرج، نرمی اور حلم میں بھی وہ باکمال تھے۔ قہاروں کیلیے وہ سراپا جلال اور پچھڑے ہوؤں کیلیے نرم پروائی کا جھونکا تھے۔ خلق اور خدا کے سامنے جواب دہی اور مسئولیت کا احساس ان پر ہمیشہ غالب رہا۔ جس ماحول معاشرے اور ملک میں وزرائےاعظم تک پر سرکاری حیثیت میں ملے قالینوں کے تحفوں اور جواہرات کے زیوروں کو ماں کا دودھ سمجھ کر ہضم کر کے
دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو
کی تصویر بنے پھرتے ہوں اس معاشرے میں ایک جماعت کا امیر اپنی بیٹی کی شادی میں ملنے والے تحفوں کو اگر یہ کہہ کر ‘جماعت خزانے’ میں جمع کرا دے کہ “بیٹی یہ مجھے جماعت کے امیر کی حیثیت سے ملے ہیں ذاتی طور پر نہیں” تو حرص و ہوا کے اس مرگھٹ ماحول میں تقویٰ و انابت کہ یہ مثال سید منور حسن کی کرامت ہی شمار ہونے کے لائق ہے۔
آج اس مرد حر کا انتقال ہوگیا مگر کیا مجال ہے کسی اباحیت پسند لبرل خیال اور ترقی مآل حلقے کی طرف سے بھی کوئی کلمۂ تعزیت آیا ہو۔ ہاں اگر جماعت اسلامی کا تربیت یافتہ کوئی صالح جوان اگر کہیں اس خیمے سے رسی تڑاکر لینن و ٹرائسکی اور گرامچی وغیرہ کو پیارا ہوکر واصل بہ چی گویرا ہوگیا ہوتا تو اب تک اس کی آزادہ فکری کے نقارے پٹ چکے ہوتے!
اس درویش صفت سیادت شعار گرم گفتار اور حلم مآب مجاہد کی زندگی پر جناب فاروق عادل کی ایک خوبصورت تحریر ذیل میں ملاحظہ کیجئے۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن: کارل مارکس سے مولانا مودودی تک سفر

بندہ سوشیالوجی میں ایم اے ہو اور بائیں بازو کی معروف اشتراکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کی کراچی شاخ کا سربراہ بھی ہو، دہلوی اردو کی مسالے دار چٹ پٹی کراری زبان میں اپنے تند و تیز لہجے سے طوفان بھی برپا کرسکتا ہو اور اپنی کٹیلی مرچیلی کاٹ سے مخالف نظریات والے کا سینہ بریاں بھی کر سکتا ہو، کال مارکس ٹرائٹسکی اور لینن کے اشتراکی افکار سے جس نے وقت کی ہئیت حاکمہ سے ٹکرانے کا حوصلہ بھی پایا ہو اور اپنی گھریلو تربیت اور استغنا مزاجی کے سبب وہ آدمی مقتدرہ کے مقابلے میں عام عوام اور گرے پڑے لوگوں کے ساتھ جینے مرنے کے طور طریقے بھی سیکھے ہوئے ہو ایسے انسان کے اندر اگر کسی وقت مذہب کی انقلابی روح بھی گھر کر جائے تو سوچئے کیا وہ خر و خروس پال اصطبلچمنٹ کے ساتھ کبھی خوش رہ سکتا ہے؟
سید منورحسن ایک ایسے ہی مجاہد تھے تھرتھراتا پارے کی طرح متحرک اور بے جنبش پہاڑ کی طرح صاحب عزیمت۔ ایک دفعہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے تو وفاداری بہ شرط استواری کے تحت اشتراکی دور کی عملیت اور پسے ہوئے طبقات کے دکھوں کی متاع کو اسلام سے پائی درمندی اور مخلوق خدا کے لئے دلسوزی کو اپنے طبعی ہنر سے مزید دہ چنداں کیا! ان کی پہلے اور بعد کی عملی زندگی ہمشہ فیض کے ان مصرعوں کی تصویر رہی۔
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
غریبوں سے محبت سیکھی
قہرمان مزاجوں اور طاقت زادوں کے لیے جماعت اسلامی میں سید منور حسن سے زیادہ تند خو اور صاعقہ خروش آواز شاید ہی کوئی اور ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے دور امارت میں وہ اوپر والوں کی نظر میں کبھی پسندیدہ نہیں رہے اور سید کو بھی جب موقع ملا انہوں نے ایک ہی ہلے میں اگلے پچھلے حساب بیباک کیے۔
ان نے تو تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی ایک دم میں تماشا دکھا دیا
شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ پھر کبھی جماعت اسلامی کے امیر منتخب نہ ہو سکے۔
جماعت اسلامی میں ان جیسا مقرر بھی کوئی نہیں تھا۔ مخالف جتھوں میں گھس انہی کے منچ پر اپنے خطابت کے زور پر ہوا کا رخ بدل دینا انہیں خوب آتاھ تھا۔ ان کے جچے تلے تیکھے کٹیلے جملوں اور جارح سوال کندہ کو تگنی کا ناچ نچانے والے ان کے پینتروں کی بڑی دھوم تھی۔ وہ پہل کبھی نہیں کرتے تھے مگر دفاعی لڑائی لڑنے کے بجائے برے کو اس کے گھر تک چھوڑنے بلکہ ننگا کرکے گھر سے نکال باہر نکال کرنے کے قائل تھے۔ ان کی یہی ضرب کراری جلالتِ فاروقی بہتوں کے دل میں کھٹکتی تھی۔
مگر دھیرج، نرمی اور حلم میں بھی وہ باکمال تھے۔ قہاروں کیلیے وہ سراپا جلال اور پچھڑے ہوؤں کیلیے نرم پروائی کا جھونکا تھے۔ خلق اور خدا کے سامنے جواب دہی اور مسئولیت کا احساس ان پر ہمیشہ غالب رہا۔ جس ماحول معاشرے اور ملک میں وزرائےاعظم تک پر سرکاری حیثیت میں ملے قالینوں کے تحفوں اور جواہرات کے زیوروں کو ماں کا دودھ سمجھ کر ہضم کر کے
دل لے کے لونڈے دلی کے کب کا پچا گئے
اب ان سے کھائی پی ہوئی شے کیا وصول ہو
کی تصویر بنے پھرتے ہوں اس معاشرے میں ایک جماعت کا امیر اپنی بیٹی کی شادی میں ملنے والے تحفوں کو اگر یہ کہہ کر ‘جماعت خزانے’ میں جمع کرا دے کہ “بیٹی یہ مجھے جماعت کے امیر کی حیثیت سے ملے ہیں ذاتی طور پر نہیں” تو حرص و ہوا کے اس مرگھٹ ماحول میں تقویٰ و انابت کہ یہ مثال سید منور حسن کی کرامت ہی شمار ہونے کے لائق ہے۔
آج اس مرد حر کا انتقال ہوگیا مگر کیا مجال ہے کسی اباحیت پسند لبرل خیال اور ترقی مآل حلقے کی طرف سے بھی کوئی کلمۂ تعزیت آیا ہو۔ ہاں اگر جماعت اسلامی کا تربیت یافتہ کوئی صالح جوان اگر کہیں اس خیمے سے رسی تڑاکر لینن و ٹرائسکی اور گرامچی وغیرہ کو پیارا ہوکر واصل بہ چی گویرا ہوگیا ہوتا تو اب تک اس کی آزادہ فکری کے نقارے پٹ چکے ہوتے!
اس درویش صفت سیادت شعار گرم گفتار اور حلم مآب مجاہد کی زندگی پر جناب فاروق عادل کی ایک خوبصورت تحریر ذیل میں ملاحظہ کیجئے۔
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن: کارل مارکس سے مولانا مودودی تک سفر